پانی کے کنارے پہ کوئی لاش پڑی تھی!! (نایاب حسن)

Bhatkallys

Published in - Other

04:11PM Sun 6 Sep, 2015
معاصردنیاکے اپنی ترقی،انسانیت نوازی اور روشن خیالی کے ہزار دعوے ہےں،عالمی سطح پرقیامِ امن اورقیامِ انصاف کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم ہےں،عالمی نظام پر جن عناصر کا کنٹرول ہے،ان کی بارگاہوں سے ہمیشہ ایسے فرامین جاری ہوتے رہتے ہیں،جن میں دنیابھر کے انسانوں کے تئیں ہمدردی جتائی جاتی،مظلوموں کے حق میں آوازبلند کی جاتی اور ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے حلف برداریاں ہوتی ہیں۔ مگر اسی دنیاکی حقیقی صورتِ حال ایسی ہے کہ اگر کوئی حساس طبیعت کاانسان ہے،تواس صورتِ حال کوجان کراس کا جگر لخت لخت ہوجائے اور اُسے کسی پہلوچین نہ آئے،یہ اکیسویں صدی کا ایک عظیم ترین المیہ ہے کہ انسانی جانوں، عصمتوں،عفتوں اور انسانی شرافت و کرامت سے کھلواڑ انسانیت کے تحفظ کے نام پر کیاجارہاہے۔جوحقیقی دنیا ہے، وہاں کاانسان توہرلمحہ عالمِ کرب و بلاسے گزررہاہے اورجوحقیقی انسانیت ہے،وہ توجاں بلب ہے، مگر انسانی اذہان کی خوش فہمیوں کاکیا کیجیے کہ وہ بے وقوفوں کی جنت سے باہر نکلنے اور حقائق سے آنکھیں چار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی بحران یا انسانی جانوں کی بے قدری پربحث آج کے ابلاغ کے نت نئے وسائل اور تحقیق و اکتشاف کے جدید ترین ذرائع کے دورمیں مسلسل ہورہی ہے اور ہوتی رہتی ہے،مگر ابھی۳ستمبرکودنیاکے نقشے پرجوایک تصویراُبھرکرسامنے آئی،اس نے تومشرق و مغرب اور شمال و جنوب ہر سمت کے انسانوںکوجھنجھوڑ کر رکھ دیاہے،ایک تین سالہ بچہ اپنی ظالم و جابراورملعون حکومت کی ایذاکوشیوں سے تنگ آکراپنے گھروالوں کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کرتاہے،ترکی پہنچتاہے اور وہاں سے یونان کے لیے کشتی میں سوارہوتاہے،اچانک دریاکی لہریں خود سرہوجاتی ہیں اوردیکھتی آنکھوں کشتی زیرِ آب آجاتی اور دیگردسیوں لوگوں کے ساتھ وہ تین سالہ بچہ اور اس کی ماں دونوں غرق ہوجاتے ہیں،پھراس معصوم کی لاش ساحلِ سمندرپر اس حال میں ملتی ہے کہ وہ اوندھا پڑا ہوتا ہے۔ یہ منظرکسی بھی انسان کاکلیجہ شق کرنے کے لیے کافی ہے: کعبے کی قسم عرش پہ محشر کی گھڑی تھی! اِک طفل کی جاں موجِ تلاطم سے لڑی تھی کل شام سے جنت میں بھی ماتم کاسماں ہے پانی کے کنارے پہ کوئی لاش پڑی تھی! اس تصویر کے عام ہونے کے بعد سوشل میڈیاپربحث ومباحثے کا بازار گرم ہے،ٹوئٹرپراس کے تعلق سے مختلف ہیش ٹیگ اب تک ٹرینڈکر رہے ہیں،عالمِ عربی کے سنجیدہ و باشعورلوگوں میں بے چینی کی کیفیت ہے اور وہ خلیجی ممالک سمیت دیگرعربی اسلامی ملکوں کی مہاجرین کے تئیں پالیسی پر جم کر تنقید کررہے ہیں،مغرب انسانیت کا سب سے بڑا ٹھیکیدار بناہواہے،مگر سارے یورپی ممالک ملاکر بھی ان کے یہاں پناہ گزینوں کی مجموعی تعداددولاکھ سے کچھ ہی زیادہ ہوگی، برطانیہ، فرانس، ہنگری اور جرمنی کے رویوں پر سخت تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ترکی کے صدررجب طیب اردوغان نے جمعہ کے روز ماہرینِ اقتصادیات کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس معصوم بچے کی اندوہ ناک موت کا نم دیدگی کے ساتھ ذکر کیا اور انھوں نے بجاطورپریہ کہاکہ میں اس عظیم انسانی بحران کا ذمے دار مغربی ملکوں کومانتاہوں؛کیوں کہ ےہی وہ ممالک ہیں ،جوساری دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے اورانسانی حقوق کے کھوکھلے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا انسانیت کو ناپنے کاپیمانہ دوقسم کاہے،ایک وہ جس سے یہودی ،نصاری اور ان کے حلیفوں کوناپاجاتا ہے اور دوسرا وہ،جس سے مسلمانوں کوناپاجاتاہے۔گوکہ اقوام متحدہ،سکیوریٹی کونسل،ہیومن رائٹس واچ اور پتا نہیں انسانوں کے تحفظ کے لیے کیاکیااور کیسے کیسے ادارے قائم ہیں،مگران کی باگ ڈورجن کے ہاتھوں میں ہے،وہ حد درجہ متعصب،جانب دار اور خود غرض و مفادپرست ہیں۔اس لیے ایسے کسی ادارے،کسی ملک سے مشرقِ وسطیٰ یا کسی بھی خطے کے مسلمانوںکاانصاف کی توقع رکھنا فضول سے کچھ کم نہیں ہے! البتہ ہم پچاس سے زائداُن ممالک کے رویوں پرضرورماتم کناں ہیں، جواسلامی یا مسلم ملک سمجھے جاتے ہیں،جن کا سرکاری مذہب اسلام ہے ،کیاوہ شام و عراق اور دیگر ملکوں کے مظلوم و مکروب مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے،ہماری ایک تاریخ وہ تھی کہ اگر ایک مسلمان بیٹی دریائے سندھ سے دادوفریاد کی آواز لگاتی تھی،توکوفہ و دمشق تک وہ آوازپہنچتی اور اس ایک بیٹی کو بچانے کے لیے پوری فوج بھیج دی جاتی تھی،مگراب ہماری تاریخ ےہ ہے کہ عالمی آبادی کا غیر معمولی حصہ ہونے،قدرتی وسائلِ معیشت سے مالامال ہونے،دنیاکے زرخیزخطوںکے مالک ہونے کے باوجوددنیاکی سب سے کہتراوربے وقار و اعتبار قوم کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں۔شام میں جنگ وجدال کوپانچ سال کا عرصہ ہورہاہے،وہاں کی ظالم و جابرنصیری حکومت مسلمانوں کے خون سے پورے ملک کولالہ گوں کیے ہوئی ہے،اب تک دسیوں لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوئیں اورنہ معلوم کتے لوگ بے خانماں ہوچکے ہیں،مگرعالمی برادری ہے کہ مسلمانوں کی اس ہلاکت ناک خوں ریزی سے آنکھےں بند کیے ہوئے ہے،گزشتہ سالوںمیں شام میں جنگ بندی کی بظاہردسیوں کوششیں کی گئیں، مگرچوںکہ جنگ بندی مقصدہی نہیں تھا،سوشام کی فضاسوگوارہی رہی۔اس کے علاوہ ابھی مصروعراق اوریمن کے حالات کیسے ہیں،ان سے ساری دنیاکے مسلمان واقف ہیں۔بلکہ اگر ذرا غور کریں،توایسا لگتاہے کہ سارے مشرقِ وسطیٰ میں قیامت سے پہلے ہی ایک قیامت برپاہوچکی ہے۔ہرچہارجانب ہاہاکار مچا ہوا ہے، انسانوں کاخون پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہوچکاہے،ظالم اپنے ظلم میں بے باک تر ہوتا جا رہا اورمظلوم کی حالت ہرلمحہ ابترہورہی ہے۔ مسلمانوںکی اس درجہ بے چارگی وبے بسی میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رول سب سے نمایاں ہے،یہ حکمراں عیش و عشرت کے دلدادہ،شیخی بگھاڑنے والے،عوامی محصولات پرقبضہ جماکراپنی چاندی کرنے والے،عوام کوسماجی و سیاسی پابندیوں میں جکڑکریاراے حق گوئی سے محروم رکھنے والے،مذہب اور مذہب سے تعلق رکھنے والے آثارکومٹانے کے درپے،حکومت کواپنے آباءو اجداد کی جاگیر سمجھنے والے،اسلامی ملکوں میں اسلام پسندوں کا ناطقہ بند کرنے والے،خداکی دی ہوئی بے پناہ دولت و ثروت کومسلمانوں کی بہتری میں صرف کرنے سے زیادہ برجوں کی تعمیر،شاہی محلات کی تزیین اورشرابِ ناب وچنگ و رباب میں صرف کرنے والے لوگ ہیں۔ان کی فکریں مضمحل،دماغ متعفن، زبانیں توتلی اور ان کا پوراسراپاشیشہ گران فرنگ کامنت کش هوکرره گیاہے۔ان کے دل پتھرسے بھی زیادہ سخت ہیں؛اس لیے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی آہ و بکا، چیخ و پکار اور نالہ و شیون کاان پر کچھ بھی اثرنہیں ہوتا۔ ترکی واحد ایسا ملک ہے،جو ابھی ہر سطح پر مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے،حال کے سالوںمیں اس نے فلسطین، مصر، شام، عراق، برما وغیرہ کے مسائل پرجوموقف اختیار کیا،وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ابھی بھی ترکی میں دولاکھ شامی مہاجرین پناہ گزیں ہیں اوراس کے دروازے ہمیشہ ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔مگردوسرے خوش حال مسلم ممالک کے کانوں پر توجوں تک نہیں رینگتی۔ہمارے نبیﷺنے کہاتھاکہ مسلمانوں کی مثال آپسی محبت،مودت،ہمدردی و خیرخواہی و غم گساری میں ایسی ہے،جیسے کہ ایک جسم کہ اگر جسم کے کسی بھی عضو کوکوئی تکلیف پہنچ جائے،توسارے اعضاکرب و بے چینی کے شکار ہوجاتے ہیں۔مگرآج جودوسری قومیں ہیں،ان کے اندر تویہ وصف پایاجاتا ہے؛لےکن جس قوم نے انسانیت کوسب سے پہلے ےہ سبق دیا،وہ خود ایک عجیب قسم کی تکلیف دہ بے گانگی و اجنبیت کی کیفیت سے دوچار ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ ایلان کردی نامی اس تین سالہ بچے کی الم ناک موت اور عالمی سطح پرانسانی حقوق کے علمبرداروں کی ازسرِ نوبیداری کے بعدبہت سے مغربی ملکوں میں بھی مہاجرین کوپناہ دینے کے حوالے سے لچک دار رویہ اختیار کیے جانے کی امیدجگی ہے،فلاحی ادارے بھی ایسے بے خانماں لوگوں کے لیے نئے اقدامات کا خاکہ بنارہے ہیں،توکیاہم توقع رکھیں کہ ہمارے مسلم ممالک کے حکمرانوں کادل بھی پسیجے گا اور وہ بھی کچھ کریں گے؟کیااس معصوم بچے کی مسافرانہ موت ان کے شعور و احساس کوزندہ کرے گی؟ہہ ایک ایسا سوال ہے، جو ہر مسلمان کے دل میں پیداہورہاہے اوروہ اس کے جواب کابھی منتظرہے۔ویسے فی الوقت سب سے زیادہ ضرورت تواس بات کی ہے کہ شام اوردیگرمسلم ملکوں کی بدامنی کو دورکرنے کے لیے موثرترین کوششیں کی جائیں- ایک طرف روس اوردیگرکئی ممالک ہیں جوشام میں حکومت کے خلاف برسرِ پیکارعناصرکی مددکر رہے ہیں،دوسری جانب امریکہ اور اس کے حلیفوں کا گروہ ہے،جوبشارالاسدکی ظالمانہ و جابرانہ حکومت کی در پردہ پیٹھ تھپتھپارہا ہے اورتیسری طرف اقوامِ متحدہ ہے،جووقفے وقفے سے ہوں،ہاں کرتا رہتاہے۔کسی کواصل مسئلے اور مشکل سے کوئی دل چسپی نہیں،سب اپنے اپنے مفادات کے مطابق اقدامات کررہے ہیں اوران کے بیچ معصوم جانیں لقمئہ اجل بن رہی ہیں۔عرب و افریقہ کے بائیس مسلم ملکوںکی تنظیم”عرب لیگ“بھی محض خاموش تماشائی ہے،اس کے اجلاسوںمیں تجویزیں پاس کرنے سے زیادہ کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آتا ؛حالاں کہ اگر صرف اسی کو موثر بنایا جائے،توعالمی سطح پر مسلمانوں کے احوال درست کرنے میں غیر معمولی مددمل سکتی ہے اورمشرقِ وسطیٰ کی بدامنی و انارکی پربھی قابوپایا جاسکتا ہے: خداتجھے کسی طوفاں سے آشناکردے کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!