آپ اگر امیر ہیں، تو اپنی اشرفیوں، اور اگر غریب ہیں تو اپنے پیسوں کو کس قدر عزیز رکھتے ہیں! ہر سکّہ کو آپ صرف اسی وقت صرف کرنا چاہتے ہیں ، جب اس کے معاوضہ میں آپ کو کسی خاص لذت یا نفع کی امید ہوتی ہے، لیکن خدا کی دی ہوئی اس بڑی نعمت، اور فطرت کی بخشی ہوئی اس بڑی دولت ، کا بھی کبھی آپ نے حساب کتاب رکھاہے، جس کا نام ’’وقت‘‘ ہے؟ آپ کو یہ معلوم ہے کہ آج جو کچھ بھی آپ کررہے ہیں، سب ’’وقت‘‘ ہی کے اندر ہورہاہے۔ پس اس کے معنی یہ ہیں، کہ آپ کو وقت ہی کے ہر جزئیہ ، ہر ساعت، ہر منٹ، ہرلمحہ، ہر پل کا حساب دیناہوگا۔ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟
’’کل‘‘ یہ حساب کوئی دوسرا لے گا، ’’آج‘‘ آپ خود اپنا احتساب کیوں کہ کریں؟ سال کے تین سو ساٹھ دن، اور ہر دن کے چوبیس گھنٹے آخر آپ کن مشاغل میں صرف کرتے ہیں؟ ان میں کتنا حصہ یاد ِ الٰہی کے لئے نکالتے ہی؟ کتنا وقت نماز اور دیگر عبادات میں صرف کرتے ہیں؟ کتنی دیر خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں؟ کتنا وقت دردمندوں کی غمخواری اور بے کسوں کی دستگیری میں صرف کرتے ہیں؟ اور پھر کتنا وقت اپنی ذات وصفات کی پرورش، آرائش ونمائش کی نذر کرتے ہیں؟ کیا ایسا بارہا نہیں ہواہے، کہ آپ نے سارا سارا دن دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں، اور ساری ساری رات جلسوں اور تماشوں میں بسرکردی ہے؟ کیا ایسا روز مرہ نہیں ہوتا، کہ غیر ضروری لغویات کے پیچھے ضروری سے ضروری اور اہم سے فرائض ترک ہوتے رہتے ہیں؟ عمر کی جو گھڑیاں، غیبت ونکتہ چینی ، رشک وحسد، کذب ومبالغہ، فخر وغرور، خوشامد وسخن سازی، نفس پرستی وعیش پسندی میں گذر رہی ہیں، کیا ان کی بابت کوئی باز پرس نہ ہوگی؟ زندگی کی جو سانسیں غفلت وسرمستی کے عالم میں سینہ گذرتی رہتی ہیں ، کیا ان پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا؟ پھر یہ کیاہے ، کہ آپ دنیا کے دوسرے معاملات میں تو بڑے عاقل وفرزانہ، اور منتظم و دوراندیش سمجھے جاتے ہیں، لیکن وقت کی دولت لٹانے میں آپ کی مُسرفانہ فیاضیوں کی داستان، اوراق لیل ونہار پر جلی حروف میں مثبت ہے؟
اگرآپ نوجوان ہیںتوآپ کو اپنی اصلاح میں نسبۃً بہت آسانی ہے۔ خدا کے لئے اسی وقت سے وقت کی قیمت پہچاننا شروع کیجئے۔ اور اس کو خوب ذہن نشین کر لیجئے ، کہ آپ کی ذات، اور آپ کی قوم، دونوں کی فلاح وخیرخواہی اسی میں ہے کہ آپ بے کار مشغلوں کو چھوڑ کر اپنا وقت عزیز صرف مفید وباکار کاموں کی نذر کریں۔ اور اگر آپ سن رسیدہ ہوچکے ہیں، توآپ کو اس طرف متوجہ ہونے کی اور زیادہ ضرورت ہے، کہ آپ کی پیروی آپ کے چھوٹے بھی کریں گے، اور خود آپ کا وقتِ آخر معلوم نہیں کس وقت آجائے۔ جو کام آپ کی بساط سے باہر ہیں، ان کی بابت یقینا آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں، لیکن جو امور آپ کی وسعت وطاقت کے اندر ہیں، اور جو آپ کی توجہ سے انجام پاسکتے ہیں، ان پر اگرآپ نے وقت اور پورا وقت نہ صرف کیا ، تو بے شک آپ سے سوال ہوگا، اور اس سوال کا جواب آسان نہ ہوگا۔ مسلمانوں کے کاموں میں ذاتی واجتماعی دونوں حیثیتوں سے اس وقت جو شدید ابتری پڑی ہوئی ہے، اس کا ایک بڑا سبب یہی ہے، کہ ہمارے جوانوں اور بوڑھوں ، امیروں اور غریبوں، مردوں اور عورتوں، عالموں اور جاہلوں، شہریوں اور دیہاتیوں، غرض کسی طبقہ میں وقت کی قدروقیمت کا احساس تک نہیں باقی رہاہے۔