Arabi Zuban Kay Nisab Ka Masalah

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

12:28AM Wed 15 Jan, 2025

 جب عربی ودینی علوم کی نصابیات کی بات آتی ہے تو اس بزم علم وکتاب میں بڑی گھماگھمی ہوجاتی ہے ، اس میں ہمارے ذہن ودماغ بھی  خوب چلنے لگتے  ہیں، دراصل یہ ایک کڑھن ہے ،جسے مسلسل ایک صدی سے برصغیر  کے دینی حلقے  محسوس کر رہے ہیں،اور جب بھی موقعہ ملتا ہے ان کے  سینے اس سے ابلنے لگتے ہیں۔

   زمانہ آگے بڑھ رہا ہے، لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے مزید  گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنہیں ہم دین کے قلعے کہتے   نہیں تھکتے تھے، ان  کی دیواروں میں دڑاڑیں پڑچکی ہیں، اور  ایک انجانا سا خوف محسوس ہو نے لگتا ہے کہ کہیں ان قلعوں کی دیواریں ڈھہ نہ جائیں، اب یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے مدارس کے فارغین، عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی جانب  زیادہ متوجہ ہوتے جارہے ہیں، اب وہاں بھی حفظ قرآن کی بات ہورہی ہے، دینی تعلیم وتربیت  کے ماحول کی بات ہوتی ہے،کئی ایک اسکولوں میں عربی زبان میں بول چال کی مشقوں کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، لیکن دوسری طرف یہ احساس  بھی  مسلسل  بڑھتا جارہا ہے کہ ہمارے دینی اداروں کے ذمہ داران جب عصری ادارے چلانے لگتے ہیں تو ان کا نظم ونسق ، تعلیمی ماحول ان کے زیر انتظام    دینی اداروں سے کہیں زیادہ  بہتر  ہوتا ہے۔  یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر ہر کسی کو غور کرنا ہے، جب ہمارے فارغین مدارس اور علماء  ہی" مسجد میں صرف   جمّن"  والا ماحول  بنانے میں ممد ومعاون بننے  لگیں  گے  تو پھر امید یں کس سے باندھی جائیں؟۔

جہاں تک عربی زبان پر مہارت کی بات ہے، تو ایک عالم دین اور فارغ التحصیل کی یہ بنیادی ضرورت ہے، جہاں اسے قرآن وحدیث کے  معنی ومفہوم کی گہرائی تک جانے کے ضرورت ہے تو اس میں شک نہیں کہ زبان و ادب کی باریکیوں پر دسترس ہونا اور ان کی گہرائیوں تک پہنچنا اس کی اولین ترجیح  ہونی چاہئے،  اس  مقصد کے حصول کے لئے اس پر لازم  ہوجاتا ہے کہ روز مرہ کے مطالعہ میں لسان العرب اور تاج العروس جیسی کتب لغت سے رجوع کی عادت ڈالے، المنجد، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، القاموس الوسیط جیسی ابتدائی نوعیت کی کتب لغت سے صرف اضطراری حالت میں رجوع کرے، چند روز قبل  مدرسۃ الاصلاح سے فارغ ایک نامور محقق نے  ہمیں بتایا تھا کہ آج سے نصف صدی پیشتر دوران طالب  علمی لسان العرب اور تاج العروس کو چھوڑ کر عربی اردو کتب لغت سے رجوع کرنا ان کے ساتھیوں میں  معیوب سمجھا جاتا تھا۔

اب جب زبان فہمی کی بات ہوگی تو پھر تحریر وبیان پر دسترس اس کا لازمی حصہ بن جاتا ہے، قرآنی ادب کی ایک عظیم محققہ عائشہ  بنت الشاطی  کو  بڑی حیرت  سے ایک محفل میں کہتے ہم  نے سنا تھا  کہ دہلی میں مستشرقین کی ایک کانفرنس میں قرآن کریم کے  ایک مترجم سے ملاقات ہوئی ، جنہیں عربی لکھنی بولنی نہیں آتی تھی۔ پتہ نہیں یہ کیسے قرآن کا درست ترجمہ کرسکیں گے؟۔

لیکن بیان وتحریر پر دسترس کا مطلب یہ نہیں کہ  جدید عربی زبان وادب   کا رعب آپ پر طاری ہو اور اس پر قدرت کو اپنا عروج سمجھنے لگیں،  ہم نے کئی سارے ہمارے قدیم دینی اداروں کے اساتذہ و فارغین کو دیکھا  ہےوہ  جدید عربی زبان وادب پر  لپکے پڑتے ہیں اس پر مہارت کو معراج سمجھتے ہیں، اور کوئی ایسا استاد انہیں مل جائے تو پھر تعریفوں کے قلابے باندھنے لگتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی فکر کی بلندی کتنی ہے، اور اس جدید زبان میں ادائیگی کے لئے اس کے پاس کیسا علمی مواد ہے؟۔اب  یہ ایک طرح کا فیشن بن گیا ہے، کچھ عرصہ پہلے علی گڑھ میں ہمارا قرآنی  مخطوطات اور اس کے رسم املا پر ایک محاضرہ  ہوا تھا، اس میں میزبان صدر مجلس  پروفیسر  صاحب کے اس وصف کو زیادہ اجاگر کیا گیا تھا کہ  موصوف  جدید عربی لٹریچر کے بڑے پارکھ ہیں، حالانکہ  ہم نے  ڈاکٹر طہ حسین اور مولانا علی میاں ندوی ؒ  جیسے چوٹی  کے ادیبوں  اور نثر نگاروں  کو  ہزار سال قدیم  ابو الفرج الاصبھانی، جاحظ  و شریف رضی کے اسلوب سے متاثر ہوکر اسے اپناتے ہوئےجانا  ہے ۔اور ان کے مشائخ و اساتذہ   نے جن سے انہوں نے عربی زبان و ادب کا ذوق پایا تھا،   اپنے عقیدے اور دین داری  میں کٹرپن  کے باوجود  انہی  قدیم ادبی اسلوب   کی کتابیں اپنے طلبہ  پڑھائی تھیں۔   

اس وقت ہماری   اپنے بعض اہم مرکزی  دینی تعلیمی اداروں سے شکایت بجا ہے کہ وہ موجود زمانے میں مطلوبہ تعلیمی وتربیتی ضرورتوں کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں، لیکن ان  اداروں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں، جو  ان کے نصابی میدان  میں انقلابی اقدامات اٹھانے کے آڑے آتی ہیں، کیونکہ ان کا   اپنا ایک انتظامی نٹ ورک ہوتا ہے ، جس کو چلانے کے  لئے مجلس شوری اور انتظامیہ کے فیصلوں کا  انہیں پابند ہونا پڑتا ہے، جس کے لئے سب کو ہمنوا بنائے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا جاسکتا، اور  بھی کئی ایک ایسی  مصلحتیں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سےیہ ادارے کوئی بڑا انقلابی اقدام اٹھا نہیں پاتے۔   ہمیں ان کی مجبوریاں سمجھ کر انہیں مطعون کرنے سے حسب الامکان بچنا چاہئے۔

 اس وقت ہمارے ملی  دینی تعلیمی اداروں کی  سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان میں موسساتی نظام  عملا مفلوج ہوتا جارہا ہے، اگر وہ چند شخصیات پر تکیہ کرنے کے بجائے،  حکومتی اداروں اور یونیورسٹیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ماہرین وتجربہ کا اساتذہ پر مشتمل نصاب تعلیم بورڈ بنانے کا اہتمام کریں، اور نفسیات تعلیم و تربیت     میں مرور زمانہ کے ساتھ ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھائیں  تو  نصاب کے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔  بد قسمتی سے موسساتی عمل کا  تصور ہماری قوم میں  عنقا   ہوگیاہے،  جس کی وجہ سے چند ایک افراد ذاتی طور پر دو چار  نصابی کتابیں  لکھتے ہیں، اور ذاتی اثر رسوخ  سے انہیں  اداروں پر مسلط کردیتے ہیں،جب یہ چند کتابیں نصاب میں شامل ہوجاتی ہیں تو پھر طلبہ کی نسلوں  کے ذہن ودماغ  میں ان  کتابوں کے مصنفین کا نام  اتنا رچ بس جاتا ہے کہ جنہوں نے ان نونہالوں کی تعلیم وتربیت میں برسوں اپنا خون جلایا ہے،وہ پس پردہ چلے جاتے ہیں،

 پھر اس کے منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں۔ لہذا انفرادی طور پر  لکھی  گئی  کتابوں کو   قومی اداروں میں داخل نصاب کرنے کے بجائے، مستقل بورڈ بنا کر ان کی تیار کردہ کتابوں کو داخل نصاب کرنا اس مسئلہ کا دیر پا حل ہے۔

دینی اداروں میں منصوبہ بند طور پر ایسے درجات قائم کرنے چاہئیں جن  میں  زبانیں   ترجمہ کرکے سکھانے کا نظام  ختم کیا جائے، اور زبانیں اسی طرح سکھائی جائیں جس طرح دنیا کی  دوسری ترقی یافتہ  زبانیں سکھائی جاتی ہیں، کم از کم اردو ہی کے طریقہ تدریس کو اپنا یا جائے،اور  جب طالب علم کو عربی بولنا اور سمجھنا آجائے تو جملہ  دینی علوم وفنون عربی ہی میں پڑھائے جائیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

 یہ ناچیز جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے  عربی چہارم کے بعد الکلیۃ العربیۃ الجمالیہ  ، چنئی میں داخل ہوا تھا، یہاں چار سال  میں عالمیت اور فضیلت  مکمل کی، کالج میں اردو بولنے والے ہم دوتین افراد ہی تھے، باقی سب  طالب علم ٹامل ناڈو، ملبار ، انڈونیشیاء، ملیشیاء، سری لنکا، تھائی لینڈ کے تھے، چند ایک طالب علم بوسنہ کے بھی تھے جو اس وقت یوگوسلاویا کی ایک ریاست ہوا کرتا تھا،ان کی بھانت بھانت کی بولیاں تھیں، جو ہمیں نہیں آتی تھی، ہمارے درمیان رابطہ کی زبان صرف عربی تھی،  ہمارا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہے کہ  ہم نے جمالیہ  کے نظام تعلیم سے زیادہ وہاں کے  ماحول سے سیکھا، اور اس ماحول میں اپنی محنت سےکئی گنا زیادہ فائدہ ہمیں نظر آیا۔  

کئی ایک احباب  ہم سے کہتے ہیں کہ عربی میڈیم کا مطالبہ  ہورہاہے، فلان اسکول کے بچے عربی میں بات چیت کرتے ہیں، تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ موجود عربی اول سے چہارم تک کے نصاب کو بدلنا ہوگا، موجودہ   نصاب باقی رکھ کر آپ عربی میڈیم جاری کریں گے تو پھر بچوں کو نہ اردو آئے گی، نہ عربی، ایک چن چن کا مربہ ہوگا، لہذا زبان کو اس کے تعلیمی اصول کے مطابق سکھائیے،

اب مشکل یہاں پیش آتی ہے کہ مدرسہ کسی بڑی درسگاہ سے  ملحق ہے، نصاب تبدیل ہوگا، تو پھر الحاق ختم ہوگا، اور الحاق ٹوٹنے سے  دوسرے مفاسد سر اٹھائیں گے۔ ہم ذاتی طور پر بڑے اداروں سے الحاق ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں ، کیونکہ بڑے اداروں میں اپنا بھر م رکھنے کےلئے ہی  سہی اساتذہ کچھ فکر مند ہوتے ہیں، اور ناک رگڑ کر محنت کرتے ہیں، ورنہ الا ماشاء اللہ عموما ہمارے مدرسین کا  حال بہت برا ہے، یہ حضرات عوام الناس کا احتساب تو  اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن خود کو عملا احتساب سے بالا تر سمجھتے ہیں۔طلبہ بھی اپنے محدود ماحول میں جان نہیں پاتے کہ علم کی دنیا  کتنی  وسیع ہے، وہ جب باہر نکلتے ہیں تو پھر انہیں اس کی وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ اب اساتذہ اپنا بھرم رکھنے ہی کے لئے سہی  کچھ محنت کرنے لگیں  تو کیا نقصان ہے؟

ہمارے مدارس میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ نصاب اور نظام  تعلیم  میں تبدیلی چند کتابوں کو بدلنے سے آجاتی ہے، یہ ایک سراب ہے، صرف کتابوں کی تبدیلی سے صلاحیتیں نہیں بڑھتیں، کتاب کی تبدیلی کے ساتھ ماحول کی فراہمی، ذوق مطالعہ کا فروغ، اور سب سے اہم نامکمل ہونے کا احساس اور ہل من مزید کا جذبہ پیدا کرنا ہے، جس طرح ناخن انگلیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، تعلیم وتربیت یہ سبھی عناصر بھی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، انہیں  ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

دینی مدارس اور جامعات کی ڈوبتی نیا کو پار کیسے لگائیں؟ ہمارے نونہالوں کی عمریں کیوں کر ضائع ہونے سے بچائیں؟۔  اس فکر کے ساتھ  چند سرپھرے  ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھیں گے فرد کے بجائے اجتماعیت کو تقویت پہنچانے میں  اگر وہ مخلص ہونگے تو پھر ان شاء اللہ کام آسان ہوگا، لیکن اگر مقصد مارکیٹنگ   اور شہرت کی خواہش ہو، یا  پھر اپنا اختیار چلا  نا اور  لوگوں کو اپنے نظرئے او رحلقے کے تابع کرنا ہو تو پھر اس کام میں برکت نہیں ہوگی، اس وقت ہمارے ملی منصوبوں کی ناکامی اور قوم کے بچھڑنے  کا  بنیادی سبب ہمیں  یہی نظر آتا ہے۔ واللہ ولی التوفیق

2025-01-14