(۵منٹ کا یہ نشریہ حضرت اقبال کی مشہور نظم شکوہ اورجواب شکوہ پر دہلی ریڈیواسٹیشن سے ۱۲ اپریل ۱۹۴۳ءکو بسلسلہ یوم اقبال نشرہوا۔ مولانا کو علامہ اقبال اور ان کی شاعری سے خصوصی انس تھا اور وہ ان کےکلام و پیام سے بہت متاثرتھے۔ اس تقریر میں مولانا دریابادیؒ نے بڑی خوبی سے شکوہ اور جواب شکوہ دونوں نظموں کا نہایت مختصر الفاظ میں مگر جامع و مانع تجزیہ پیش کیا ہےاور ان کا خلاصہ بڑے البیلے انداز میں پیش کیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)
-------------------------------------------------
شکوہ اورجواب شکوہ
"جو زبان خوگرتھی حمد و ثنا شکر و مناجات کی، وہ آخر اک بار گلہ و شکوہ پر کھلی ۔ یا یوں کہیے کہ کھلوائی گئی۔ آقا کا کرم جب خود ناز برداری پر آمادہ ہو جائے تو کون بندہ ہے جو ”نیاز“ کے فرش زمیں کو چھوڑ کر ”ناز“ کی فضا میں نہ اڑنے لگے۔ عبدیت کی دنیا میں سنتے ہیں کہ گریۂ یعقوبؑ کے ساتھ ساتھ ایک منزل تبسّم سلیمانیؑ کی بھی تو آتی ہے ۔
اقبال کے شکوہ میں (شاعر اس وقت تک شاعر اسلام بن چکا تھا) بندہ اپنے خالق سے گویا روٹھ کر کہتا ہے کہ واہ بیگانوں پر، باغیوں پر، سرکشوں پر تو لطف و نوازش کی یہ بارشیں، اور ہم اہل توحید کی یہ حالت زار، کیا یہی ہماری وفا کیشی کاصلہ ہے؟ یہی ہماری توحید پرستی کا انعام ہے؟
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟
کس کی شمشیر جہانگیر جہاندار ہوئی؟
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئی؟
لیکن ”شکوہ“ نام ہی کا شکوہ ہے، مضمون وہی حمد و مناجات کا اس لفافہ کے اندربھی موجود ہے۔ ہر طنز میں عبدیت کی چاشنی، ہر گلہ میں توحید پرستی کی شیرینی ۔
اقبال کی اردو شاعری کی شہرت و عظمت کی اصل بنیاد یہی شکوہ ہے ۔ خوب چلا، خوب پھیلا۔ جو کچھ بھی نہ سمجھے انھوں نے بھی مزے لے لے کر پڑھا اور جو مطلب بالکل الٹا سمجھے انھیں تو اپنی گویا آزاد خیالی کے لیے ایک سند و دستاویز ہاتھ آگئی۔
حکیم ملت کہ ملت کا نباض تھا، قوم کے رگ و ریشہ سے واقف تھا، بھانپ گیا کہ جو آب حیات کا قطرہ تھا وہ شیشوں اور گلاسوں تک پہنچتے پہنچتے زہر کی بوند بن گیا ۔ معاً پلٹا اور شکوہ کے جواب میں ”جواب شکوہ“ کہہ ڈالا۔ جوش و خروش وہی زور بیان وہی۔ البتہ حقائق زائد ۔ حقیقتوں کی تعبیرکھلی ہوئی اور صداقتوں کا اظہار فاش و برملا ۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ وہ ”وعدے تو مسلموں اور پرستاران توحید کے لیے تھے، تم مسلم اورموحدہو کب؟ نظر قال پرنہیں اپنے حال پرکرو۔ اپنے اعمال پرکرو۔“
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر از بر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیوں کر ہو؟
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
عوام اپنے جذبات کی ترجمانی ”شکوہ“ میں زیادہ پاتے ہیں، اس لیے پست مذاق طبقہ آج تک شکوہ پسندی ہی چلا آرہا ہے، حالانکہ ”جواب شکوہ“ کی سطح ”شکوہ“ سے کہیں بلند ہے۔ ”شکوہ“ والا اقبال ایک صاحبِ حال سالک ہے ”جواب شکوہ“ والا اقبال ایک صاحبِ مقام عارف ہے۔ پہلے کے قدم اقلیم کی وادیوں میں ۔ دوسرے کی نگاہ فضائے روح کی بلندیوں میں۔"
(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)