تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (چوتھی قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

03:30PM Mon 31 Oct, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... سابقہ قسط میں اجمالی طور پر بتایاگیا کہ مجلس اصلاح و تنظیم کو سیاسی محاذ پرکن پیچیدگیوں کا سامنا ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تنظیم کو قانونی شکنجے میں جکڑنے کی کوشش پر تو اس وقت قابو پالیا گیا، مگر اس طرح کے ملت دشمن عناصر کا خاتمہ کرنا نہ کل ممکن تھانہ ہی آج ایسا ہوسکتا ہے۔یہ ہرزمانے میں سرگرم رہتے آئے ہیں اور رہیں گے۔بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنے قدم سوچ سمجھ کر اورہوشمندی کے ساتھ اٹھانے چاہئیں۔ جذباتی انداز میں اور جلد بازی میں لیے گئے فیصلوں میں ملی مفاد کا نقصان پہلے ہی سے تھا، مگر اب اس کے امکانات اور زیادہ ہوگئے ہیں۔اس موڑ پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر تنظیم کیا کرے ؟! اوراس کا اگر کوئی جامع جواب ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ مجلس اصلاح و تنظیم کو سیاسی رہنمائی اور اجتماعی فیصلوں کے ساتھ ساتھ ملت مخالف سرگرمیوں پر قابو پانے کے سلسلے میں یعنی دونوں محاذ وں پر اپنی حکمت عملی ازسر نوطے کرنی ہوگی۔ ؂

وقت کی گردشوں کا بھروسہ ہی کیا ، مطمئن ہوکے بیٹھیں نہ اہلِ چمن ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے، کھو گئے رہنما ، لُٹ گئے راہزن

عوام مخمصے میں ہیں!: ان حالات میں اگر ہم عوامی منظر نامہ دیکھیں تو اب عوام کے اندر ایک بڑا اور باشعور طبقہ ایسا ہے جو موجودہ جالی پٹن پنچایت انتخابات کے حوالے سے عجیب مخمصے میں ہے۔وہ فیصلہ نہیں کرپارہا ہے کہ غلطی کہاں ہورہی ہے۔ایک طبقہ وہ بھی ہے جو پارٹی اور گروہی پولیٹکس کی عینک سے اس مسئلے کو دیکھ اور اچھال رہا ہے۔اورایسی کسی خصوصی عینک کے بغیر دیکھنے والوں کو بظاہر اس میں کچھ صداقت بھی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف بہت پہلے سے یہ آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں اور آج کل اس میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے کہ تنظیم کو سیاسی فیصلے اپنے طور پر کرنے کے بجائے اسے عوام کے لئے کھلا چھوڑ دینا چاہیے۔ خاص کر اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں تنظیم کو بالکل مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور اپنے آپ کو بلدی اداروں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ چلئے انہی زاویوں سے کچھ جائزہ لیتے ہیں۔ کیا تنظیم کی حکمت عملی غلط تھی؟: موجودہ جالی پٹن پنچایت انتخاب کے سلسلے میں تنظیم کے سیاسی پینل کی کارروائی پر نظر دوڑائی جائے تو سابقہ پالیسی اور نظریے کی رو سے اس کی کارروائی میں کوئی بڑا جھول نظر نہیں آتا۔ ایک نکتہ ایسا ہے جسے حالات کا turning pointکہا جاسکتا ہے۔ یعنی ایم ایل اے یا حکمراں کانگریس پارٹی کے ساتھ سیاسی پینل کے اور تنظیم کے ذمہ داران کا مناسب تال میل نہ ہونا۔ مگر یہ کوتاہی ہماری عام سوچ اور نظریے کی غماز ہے۔اس کے ساتھ ہی اس طرح کے پر اعتماد رابطے میں کچھ ٹیکنیکل مجبوریاں جو پہلے تھیں اب زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آگئی ہیں۔ اس پر آگے بات کریں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی پینل نے ضابطے کی بقیہ کارروائیاں اپنے طور پر بحسن و خوبی پوری کرلی تھی۔اور سابقہ نہج پرہی حتی الامکان قطعی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ (تنظیم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اس بارے میں کیا کہتی ہے ، ابھی اس کا خلاصہ نہیں ہوا ہے)

کمال یہ ہے کہ افواہ سرخیوں میں ہے خبر جو خاص تھی اخبار تک نہیں پہنچی

کیا ایم ایل اے تنظیم کا امیدوار تھا؟: تنظیم کے بعض ارباب حل وعقدکے علاوہ کانگریس مخالف طبقے نے یہ شوشہ چھوڑا اور سوشیل میڈیا میں بھی اسے خوب اچھالا گیا کہ ایم ایل اے نے تنظیم کے ساتھ دھوکہ کیا اور عملی سیاست سے ناوابستہ عوام نے بڑی حد تک اس کو مان بھی لیاکہ تنظیم کو اندھیرے میں رکھ کر اس نے تنظیم امیدوار کے خلاف باغی امیدوار کے بطور کانگریسی کارکن کو میدان میں اتارا اور تنظیم کو شکست دی۔پتہ نہیں تنظیم کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ جو ایم ایل اے ہے اس نے کسی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں جیتا ہے۔ بلکہ اس نے تو نیشنل پارٹیوں کی سیاسی بساط پرپہلے سے جمے ہوئے مہروں کو مات دے کراپنی بازی جیتی ہے۔ اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کو تنظیم کا اجتماعی سہارا بھی نہیں دیا گیا تھا۔ بلکہ اس کے مخالف محاذ پر تنظیم کا اپنا امیدوار موجودتھا ، جو خود بھی ہار گیاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ جیتنے کے بعد اایم ایل اے کو کانگریس کیمپ میں شامل کرلیا گیا تھا۔مگر اس نے الیکشن تو صرف اور صرف اپنے بل بوتے پر جیتا تھا جو اس کے سیاسی میدان کے ماہر کھلاڑی ہونے کی علامت ہے۔ کیا ایم ایل اے کا رویہ تنظیم مخالف تھا؟: اس پس منظر میں دیکھیں تو پھر ایم ایل اے کے تعلقات بالفرض ہمارے ساتھ اگرمعاندانہ ہوتے بھی ہیں یا اس کے دل میں پرخاش اور کھوٹ ہمیں نظر آجائے تو اس میں غیر فطری بات کیا ہے؟لیکن گزشتہ تین سال کے دوران اگر ہم انصاف کی نظر سے دیکھیں تو ایم ایل اے کا رویہ مسلمانوں اور بالخصوص مجلس اصلاح و تنظیم کے ساتھ بہت ہی دوستانہ اور آپسی تعاون والا تھا۔ ضروری نہیں کہ یہ اس کے پرخلوص ہونے کی علامت ہو۔ مگریہ اس کی سیاسی ضرورت یقینی طور پر تھی۔ اور اس نے یہ جانتے ہوئے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ہی سہی، تنظیم سے خوشگوار تعلقات استوار توکرکھے تھے۔ یہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ رولنگ پارٹی کا ایم ایل اے ہے اس لئے تنظیم کے ساتھ روابط رکھنا اس کے اخلاقی یا منصبی تقاضے میں شامل تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی رولنگ پارٹی ہوتو اس کا ایم ایل اے یا پھر ایم پی ہمیں کبھی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اورہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ کانگریس یا دوسری سیکیولر پارٹی اقتدار میں ہونے پر ہماری مکمل تائید اور اجتماعی ووٹوں سے چن کر آنے والے سابقہ ایم ایل ایز کا ہمارے ساتھ کیا رویہ رہا ہے۔ کتنا تعاون ہمارے ساتھ کیاہے اور کس حد تک وہ ہمارے سماجی اور ملی مفاد کے لئے کار آمد ہوئے ہیں۔دونوں کے سلوک اور رابطے کا تقابلی جائزہ لیں تو عام ووٹروں کے علاوہ ہماری اجتماعیت کے ساتھ موجودہ ایم ایل اے کے رویے کو یقینی طور پر زیادہ بہتر کہنا غلط نہیں ہوگا۔

ترے ستم کو شریکِ خیال کر نہ سکے تری وفا بھی جفا کے ساتھ یاد آئی

ایم ایل اے تو چال چلے گاہی: کیا ہم یہ سچائی نہیں جانتے کہ سیاسی نمائندوں اور لیڈروں کو اخلاص اور ایماندارانہ جذبات سے زیادہ موقع شناسی (بلکہ موقع پرستی) سے کام لینا ہوتا ہے۔اس وقت آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ ہر علاقے میں برسراقتدار پارٹی کے نمائندے کیا وزیر اور کیا ایم ایل اے ،سب کے سب عوام کا دل جیتنے ، پارٹی کو مضبوط بنانے اور اپنی ٹکٹ پکّی کرکے انتخابات میں جیت سے ہمکنارہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کون بے وقوف ایم ایل اے ہوگا جو کسی ایک مقام پر ایک اجتماعی ادارے کو خوش کرنے کے لئے پارٹی مفاد کو طاق پر رکھتے ہوئے سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوجائے گا! اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ اسے یہ محسوس ہونے لگے کہ اس کے اس طرح سے سمجھوتہ کرنے سے کسی اور سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچے گا۔میں نے جو ٹیکنیکل مجبوریوں کی بات کہی تھی، اس میں سے یہ ایم ایل اے کی مجبوری تھی۔اس کو تو بس چال چلنی ہی تھی، سو اس نے چل دی۔ اب اسے تنظیم کے ساتھ دھوکہ قرار دیناسیاسی حقائق سے نظریں چرا کر تھوڑی دیر کے لئے خوش ہونے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

بتا اے ہم نفس تجھ سے کہوں روداد کس کس کی لٹائی ہیں امیدیں کارواں در کارواں میں نے (کیا سیاسی پینل کی بھی کوئی مجبوری تھی۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں!)

haneefshabab@gmail.com

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔