ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

از:حفیظ نعمانی
سماج وادی پارٹی میں اب تلواریں باہر آگئی ہیں، کہیں سے کوئی آواز ایسی نہیں آتی جس میں مصالحت کا اشارہ ہو۔ اعظم خاں بھی اپنی پوری طاقت اور صلاحیت قربان کرکے اب خاموش ہیں۔ سنا ہے کہ آخری ٹیلی فون ملائم سنگھ نے اپنے بیٹے کو کیا تھا کہ اب بھی مان لو کہ میں قومی صدر ہوں لیکن رام گوپال کو وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔ آج شہرت کی حد تک انتخابی نشان کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ سائیکل کسے ملی یا کسی کو بھی نہیں ملی۔ اس لیے کہ دونوں نے متبادل پارٹی اور نشان تیار کرکے رکھا ہے۔اگر ایسا ہوتا کہ جسے سائیکل ملے گی وہ الیکشن لڑے گا اور جسے نہیں ملے گی وہ گھر بیٹھ جائے گا تب اس کی اہمیت تھی۔
ملائم سنگھ جو کل تک اکیلے تھے اب مولانا توقیر رضا اور ڈاکٹر ایوب سے ہاتھ ملارہے ہیں۔ مولانا نے دو دن پہلے کہا تھا کہ ملائم سنگھ کمزور ہیں اور اکھلیش ظالم ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ملائم سنگھ سے زیادہ سیکولردوسرا ہندو لیڈر نہیں ہے، ہم مولانا کی شان میں قصیدہ پڑھ چکے ہیں۔ ان پر اعتراض نہیں کریں گے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ مسئلہ کو بہت باریک بینی سے دیکھیں۔ گذرے ہوئے پانچ سالوں میں ایک سال ہی نہیں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گذرا ہے جو اکھلیش ایک بد لحاظ بیٹے کی طرح بھی باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا ہو۔ مسئلہ گھر کی رونق، اس خاتون کا ہے جو دوسری بیوی ہے اور جس کے گھر میں بھی دوسری بیوی اور اس کی اولاد آجاتی ہے اس گھر میں اس کی حکومت ہوجاتی ہے۔ اور سب سے بڑا محسن وہ ہوتا ہے جس نے گھر کو دوبارہ آباد کیا ہے۔ اگر یہ دو طاقتیں نہ ہوتیں تو اکھلیش تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ الگ ہوجائیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اکھلیش کا کیا ہوگا؟ مسئلہ یہ ہے کہ جسے ملائم سنگھ آخر کار وزیر اعلیٰ بنائیں گے وہ صوبہ اور پارٹی کا کیا حال کرے گا؟ اس لیے کہ سب کچھ وہ امر سنگھ ہوں گے جن کی بیوی گھر میں رہتی ہیں اور چھڑی کے طور پرہروقت ان ساتھ جیا پردہ رہتی ہیں۔
نہ اکھلیش یہ مانتے ہیں کہ ان کے والد کی نیت خراب ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن یہ حقیت ہے کہ وہ اب اپنے قابو میں نہیں ہیں۔
آج ساکشی مہاراج جس کی بد زبانی سے بی جے پی کو بھی دامن جھاڑنا پڑتا ہے، اس کی سیاسی حیثیت ملائم سنگھ نے ہی بنائی تھی۔ اور وہ اپنے کو گراگر بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ سے ملے تھے اور میں نے بہت غور سے دیکھا ہے کہ کلیان سنگھ جسے سہارے کی ضرورت تھی وہ ملائم سنگھ کے گھر ایک بار بھی نظر نہیں آیا اور ملائم سنگھ اکثر اس کے گھر میں جا کر بیٹھتے تھے اور اس کے باپ سے زیادہ بدنام بیٹے کو انھوں نے ہی پارٹی میں لیا تھا اور ٹکٹ دیا تھا۔
ہم ملائم سنگھ کا مقابلہ اکھلیش سے نہیں کررہے ہیں ہم بتا رہے ہیں کہ اگر پرانے لیڈروں میں سیکولر دیکھنا ہو تو وہ لالو یادو ہیں جنھوں نے ایڈوانی کو چوہے دان میں بند کرکے ان کی رتھ یاترا کی ہوا نکال دی تھی۔ ملائم سنگھ خود فرقہ پرست نہ سہی لیکن جس ناپسندیدہ آدمی کے ہاتھ میں انھوں نے اپنی ڈور ڈال دی ہے وہ کسی کا نہ ہوا اور نہ ہوگا۔
کانگریس جو ۲۷ سال یوپی بدحال کا نعرہ لے کر اٹھی تھی اب صرف اکھلیش کے انتظار میں ہے کہ وہ نام اور نشان لے کر آئیں اور اجیت سنگھ کو ساتھ لے کر ایسا ہی اتحاد کریں جیسا بہار میں لالو نتیش اور راہل نے کیا تھا۔ اور اسی جذبہ کا مظاہرہ کریں۔ ملائم سنگھ کے ساتھیوں میں اکثریت ان کی ہوگی جنھیں اکھلیش ٹکٹ نہیں دیں گے۔ ان کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا وہ جانیں لیکن اس کا خیال رہے کہ ڈاکٹر ایوب نے 2012کا الیکشن بھی وزیر اعلیٰ بننے کے لیے لڑا تھا اور اب تو وہ لاکھوں روپے کے اشتہار صرف یہ کہہ کر چھپوا چکے ہیں کہ 1952سے اب تک مسلمانوں نے ہندو کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے ووٹ دیا اب باری ہندوؤں کی ہے کہ وہ مسلمان یعنی ڈاکٹر ایوب کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے ووٹ دیں۔ انھیں دو چہرے ہندوؤں کے مل بھی گئے تھے جنھوں نے انہیں وزیر اعلیٰ تسلیم کرلیا تھا اور ایک معروف صحافی بھی ان کے ساتھ آگئے تھے جنھوں نے نہ جانے ڈاکٹر ایوب کے اندر کیا دیکھا کہ انھوں نے قائد اعظم ڈاکٹر ایوب لکھ دیا۔
لیکن جب سے سپریم کورٹ نے مذہب ذات اور زبان کے نام پرووٹ مانگنا جرم قرار دیا ہے اس دن سے ڈاکٹر ایوب کا پورے صفحہ کا اشتہار بند ہوگیا اور اب مسلمانوں کی بات بھی نہیں ہوتی لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ قائد اعظم ہیں یا نہیں؟
اترپردیش کا اور پنجاب کا الیکشن بی جے پی کے سامنے نوٹ بندی کے بعد کا پہلا بڑا الیکشن ہے۔ نوٹ بندی سے جتنا نقصان ہندوؤں اور سکھوں کا ہوا ہے اس کا چوتھائی بھی مسلمانوں کا نہیں ہوا اور اس کی وجہ صاف ہے کہ مسلمانوں میں نہ بڑے صنعت کار ہیں او ر نہ کارخانوں کے مالک اور نہ بڑے تاجر ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ تمام گھر جہاں پرانے یا بعد میں نئے نوٹوں کے خزانے ملے ہیں ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے اور ملک کی واحد مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر ہے جو اکیلی ایسی ریاست تھی جہاں کسی بینک میں لائن نہیں لگی۔ اس کے دوسرے حصے جموں میں لگیں جو ہندو اکثریت کا حصہ ہے۔ اس لیے بی جے پی کو ہرانے کی فکر ہندو کو ہونا چاہیے اتنی کسی کو نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کہیں ۱۰ آدمی بیٹھے ہوں تو کوئی ایک نوٹ بندی کے فائدے کی بات کرے تو سب مارنے پر تیارہوجاتے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ سیکولر اور مسلم دونو ں کی تقسیم اور تقسیم کے بعد بھی اگر بی جے پی کامیاب نہیں ہوتی تو ثابت ہوجائے گا کہ عوام ناراض ہیں اور اگر کامیاب ہوتی ہے اور ووٹ ۲۰ فیصدی ملتے ہیں یا اس سے بھی کم تو اسے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا نتیجہ قرار دیا جائے گا۔ اگر پیس پارٹی اور او یسی کی پارٹی سے مل کر لڑتی ہیں تو سیکولر ووٹوں کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہوگا لیکن اگر دونوں الگ الگ لڑتی ہیں تو یہ مان لینا چاہیے کہ امت شاہ جنھوں نے بہار میں منہ کی کھائی تھی وہ اترپردیش میں کامیاب ہوں گے۔
ملک کے وہ ہندو جنھوں نے عمر بھر بی جے پی کو ووٹ دئے ہیں ان کی بڑی آزمائش ہے ۔ انھوں نے ہی ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لگادیا اب وہ کس منہ سے بی جے پی کی مخالفت کریں اور کیسے حمایت کریں کہ جو دولت مند تھے وہ اب صرف لکھ پتی رہ گئے اور جو دال روٹی کھاتے تھے انھیں چٹنی بھی نصیب نہیں ہورہی ہے۔ ۸۰ فیصدی کارخانے آج بھی بند ہیں، مالک اچھے دنوں کا انتظار کررہے ہیں۔ بینک کی پابندی برقرار ہے اور جب تک حسب ضرورت روپے ہاتھ میں نہیں آئیں گے مزدوروں کو کام کیسے دیں گے۔ اب مل مالکوں اور مزدوروں کے پاس صرف ایک ووٹ ہے، وہی ان کی بندوق ہے ، وہی تلوار ، وہ جسے دشمن اور اس بدحالی کا ذمہ دار سمجھیں اس کے خلاف ووٹ دے دیں گے۔ اور بس۔