حج کا سفر۔۔۔منی وعرفات میں (۱ )  ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

11:37AM Fri 16 Jun, 2023

مكہ معظمہ سے تقریباً چارمیل دور منٰی میں 8/ذی الحجہ كو اپنی گھڑی سے 9/ بجے دن میں پہونچ گئے تھے اور ایك خیمہ میں فروكش ہوگئے تھے ‏، اپریل كی 10/تاریخ تھی ‏، ہمارے حساب سے ایسی گرمی كے دن نہ تھے كہ خیمےتپنے لگیں ‏، یا سایہ میں بھی گرمی كی شدت پریشان كرے ؛ لیكن جہاں ہم تھے وہ پہاڑی علاقہ چٹانوں اور پتھروں كی سرزمین تھا ‏، صبح ہی سے اس كا تپنا برحق تھا ‏، پھر ریگستان اور پہاڑی علاقے میں جہاں تك دن كا تعلق ہے اپریل كا مہینہ ہمارے یہاں كے مئی كے مہینے سے بھی زیادہ گرم ہوتا ہے ۔

خیمے بھی بس اكہرے كپڑے‏، یا ٹاٹ كے اتنے بڑے تھے كہ چار ‏، یا پانچ بستر بچھ جائیں پھر خیمے كے اندر جوتے اتارنے كی بھی جگہ نہ رہے ۔

آج یہاں كوئی خاص كام حج سے متعلق نہ تھا ‏، بچھونے بچھائے سامان ركھا اور اس تپش میں آرام كرنے كی سوچنے لگے ۔

ہمارے معلم صاحب كے خیموں كا پورا سلسلہ ہمارے جاننے والوں ہی سے آبادتھا ‏، پہلے خیمے میں لكھنؤكے مسٹر اشتیاق احمدعباسی بیرسٹر كی بیوی بیگم اختر اشتیاق تھیں ‏، دوسرے میں شیخ ظہور الحسن (ریٹائرڈ جوڈیشنل مجسڑیٹ محكمہ مال یو‏، پی ) ان كی اہلیہ ان كے چھوٹے بھائی شیخ محمود الحسن ریٹائرڈ جو ڈیشنل مجسٹریٹ (اور ہمارے حج ویلفیر آفیسر) اور ان كی اہلیہ ‏، تیسرے خیمہ میں ہمارا قیام تھا ‏، چوتھے میں سید اكرام الحق (لاٹوش روڈ لكھنؤ )ان كی اہلیہ ‏، عارف خیرآبادی عرف ملامیاں ‏، اصغر علی انصاری ( لاٹوش روڈ لكھنؤ ) ان كی اہلیہ ‏، رفیق صاحب اور ان كے صاجزادے (یحیٰ گنج چوراہے پر جن كی لانڈری ہے ) اس كے آگے ہمارے عزیز شیخ ظہیر حسین (ركاب گنج )سعید الظفر اور رشیدالظفر (لكھنؤ) مولانا محمد اویس نگرامی (استاد دارالعلوم ندوہ) مع اہلیہ اور ہمارے بزرگ عزیز مولانا محمد عتیق فرنگی محلی اور ان كی اہلیہ وغیرہ ‏،خیموں كے سلسلے كے پیچھے بڑا شامیانہ تھا اس میں اترپردیش كے چالیس ‏، پچاس حاجی اور حجنیں تھیں ۔

خیموں كے سامنے سڑك تھی كوئی آٹھ ‏،دس فٹ چوڑی كہ موٹر اور بس گزرسكے ‏، سڑك كی دوسری سمت پھر خیمے اور شامیانے تھے جس میں دوسرے معلمین كے حجاج قیام پذیر تھے ‏، خیموں اور شامیانوں كا یہ سلسلہ تاحد نظر دكھائی دیتا تھا ‏، گھوم پھركردیكھنے كی ہمت تو نہ ہوئی ‏، دور ہی سے دیكھتے تھے ۔

دور سے دیكھا ‏، تو ہم لوگ جن پہاڑوں كے درمیان مقیم تھے ان پہاڑوں پرنیچے سے اوپر تك چٹانوں كی آڑ میں لاكھوں آدمی ٹہرے ہوئے تھے ‏، نہ خیمے نہ شامیانے ‏، نہ دھوپ سے بچنے كے لیے چھتریاں ‏، نہ پردے ‏، ان میں بچے بھی ہوں گے ضرور ‏، مگر ہمیں نیچے سے دیكھنے میں سب ہی بچے نظر آئے تھے ‏، چھوٹے ‏، چھوٹے قد حركت كرتے  دكھائی پڑتے ‏، رات كے وقت جب پہاڑ كے باشندوں كی لالٹینیں ایك ساتھ جلیں ‏، تو اندازہ ہوا كہ نیچے سے كئی گنا زیادہ آبادی اوپر مقیم ہے‏، مگر یہ سب عرب كے باشندے اور زیادہ تر اعراب(دیہی باشندے) تھے ‏، جو پہاڑوں پر بے تكلف ٹہرگئے تھے ۔

آج كل منٰی كی آبادی كی نہ پوچھئے ۱۴ لاكھ انسان یہاں بسے ہوئے تھے ‏، كوہ اور دامنِ كوہ كی آبادی كو ملاكر۔

جب حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج كے سلسلے میں منٰی تشریف لائے تھے اور صرف ایك ہی بار آپ نے حج فرمایا ‏، وہی حج اولین تھا اور وہی وداعی (آخری) تو منٰی صرف ایك میدان تھا جو پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ‏، آپ نے خیمہ نصب فرماكر مسجدِ خیف ہی میں قیام فرمایا تھا ‏، صحابہ كرام نے عرض كیا كہ اجازت ہو ‏، تو حضور كے قیام كے لیے ایك مكان یہاں بنادیا جائے ‏، حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عرضداشت كو منظور فرمایا۔

اس وقت سینكڑوں ‏، ہزاروں پختہ اور عالی شان مكان منٰی میں نئے اور پرانے ہیں ‏، یہ صرف چار‏، پانچ دن كے لیے آباد ہوتے ہیں‏، پھر خالی پڑے رہتے ہیں ‏، مالكان مكان ان كا كرایہ اسی طرح لیتے ہیں جیسے ہمارے یہاں نینی تال اور مسوری كے مكان مالكان كا دستور ہے كہ پورے سیزن كا كرایہ انہیں ملنا چاہیئے چاہے دو دن رہنا ہو ‏، منٰی میں تو پانچ دن سے زیادہ رہنے كا كوئی سوال ہی نہیں ‏، كرایہ پورے سال بھر كا دینا ہوتا ہے ۔

ہمارے سفارت خانے كو دوسرے تمام ملكوں كے سفارت خانوں كی طرح منٰی میں اپنا عارضی دفتر كھولنا ہوتا ہے ‏، اپنے حاجیوں كی دیكھ بھال كے لیے اس میں ڈسپنسری بھی ہوتی ہے اور مریضوں كے پلنگ بھی ‏، سفیراور ان كے عملے كے قیام كےلیے كمرے بھی‏،اور عام حاجیوں كو حكومت ہند كی طرف سے برف كا پانی پلانے كے لیے سبیل ركھنے كی گنجائش بھی ۔

سفارت خانے كی ضروریات كے لیے ایك متوسط درجے كا تین منزلہ مكان لبِ سڑك لیا گیا تھا ‏پانچ دن كے لیے صرف‏، جس كا كرایہ سولہ ہزار ریال ادا كیا گیا ‏، سركاری اسپتال اور دوسری ضروریات كے دفاتر بھی یہاں ہیں ‏، ان كے لیے بڑی عمارتیں بطرزِ جدید بن گئی ہیں ‏، بجلی بھی ہے اور واٹر وركس بھی ‏، دوكانیں بھی ہیں ‏، ہوٹل بھی اور شاہی افراد كے لیے محلات بھی ۔

منٰی وہ تاریخی جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ السلام ابنے خواب كی تعبیر پوری كرنے كے لیے اپنے بیٹے اسماعیل علٰی نبینا وعلیہ السلام كو ذبح كرنے لائے تھے اور راستے میں تین جگہ شیطان نے ان كو اس ارادے سے باز ركھنے كے لیے بہكانے كی كوشش كی تھی ۔

پھر اس خواب كی تعبیر بیٹے كے بجائے دنبے كے ذبح كرنے سے پوری ہوئی ‏، اس كے بعد سے آج تك قربانی كی رسم جاری ہے ‏، یہ اسی ‘ذبحِ عظیم’’ كی یاد میں ہے بلكہ پورا حج در اصل سنتِ ابراہیمی كی پیروی ہے ۔

یہاں تین شیطان بنے ہوئے ہیں (مجسمے یا بت نہیں ‏، صرف علامتیں ) جن كو كنكریاں مارنا حج كے مناسك میں ہے ۔

یہیں مسجدِ خیف ہے جہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا تھا ‏، صحنِ مسجد میں آپ كا قیام تھا ‏، جہاں ایك قبہ بہ طور مبارك یادگاربنادیاگیاتھا ‏، قبر اب بھی موجود ہے ۔

آج 8/ ذی الحجہ كو یہاں كوئی خاص كام نہ تھا ‏، صرف پانچ وقت كی نمازیں یہاں اداكرنا تھیں ‏، كیا اچھا ہوتا كہ یہ نمازیں وہیں مسجدِ خیف میں ادا ہوتیں جہاں حضور انور ﷺ نے ادا فرمائی تھیں ‏، مگر پانچ كیا ! ایك نماز بھي وہاں نصیب نہ ہوئی ‏، ہم میں سے بہتوں كو اپنی قیام گاہوں ہی میں كبھی جماعت سے كبھی بغیر جماعت نماز پڑھنا پڑی ۔

مسجدِ خیف میں یااس سے قریب تر كہیں قیام كرنا افضل ہے ‏، مگرصورتحال یہ ہے كہ لوگوں نے مسجدِ خیف كوسرائے بناركھا ہے اور سعودی حكومت نے اس صورتِ حال سے چشم پوشی اختیار كرركھی ہے ‏، مرد ‏، عورتیں بچے ہنڈیا ‏، چولہا سمیت اس وسیع و عریض مسجد میں ہرطرف اس طرح قیام پذیر ہیں كہ جماعت میں شامل ہونے كے لیے مسجد كے اندر پہونچنے كا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔

ایك دفعہ مسجد كی زیارت كے لیے نماز كے اوقات كے علاوہ گئے ‏، تو اندرونِ مسجد كوئی ایسی جگہ نہ ملی جسے صاف كیے بغیر دو ركعتیں نفل كی پڑھ لیتے ‏، پختہ سنگ مرمر كا فرش مگروہ بھی صاف نہیں رہ پاتا ۔

احرام باندھ كے مكہٴ معظمہ سے روانہ ہوئے تھے ‏، احرام باندھے رہنا ہے موٹا تولیہ ہم نے احرام كے لیے منتخب كیا تھا كہ اس سے ریڑھ كی ہڈی دھوپ كی تمازت سے بچی رہتی ہے سو اس گرمی میں وہ بھی بار‏، بار اپنی یاد دلاتا رہتا تھا ۔

خیر ! اپنے خیمے میں بچھونے بچھاكر دس بجے دن كے قریب ہم نے سونے كا ارادہ كیا اور باوجود تپش كے آنكھ لگ بھی گئی ‏، تھوڑی دیر ہوئی ہوگی كہ جگانے سے اٹھے ‏، دیكھا ہمارے سفیر احرام پوش كھڑے ہمیں جگارہے تھے ۔

‘‘ تم پڑے سورہے ہو اور ہم اس گرمی میں جگہ ‏، جگہ گھوم رہے ہیں ’’

ہم نے معذرت كی كہ ‘‘ تھكن معلوم ہورہی ہے سوجانے دیجئے ’’

مدد بھائی نے معذرت قبول نہیں كی ‏، پہلے حكم دیا كہ خواتین كو خیمے سے سفارت خانے پہنچادو جہاں مدد بھائی كی بیوی تھیں۔

ایك صاحب كو ساتھ كیا كہ وہ سفارت خانہ كا پتہ بتادیں گے ۔

ایك میل سے كم مسافت ہوگی ‏ہماری قیام گاہ سے سفارت خانے كی مگر یہاں سے وہاں تك ٹیكسی جانہیں سكتی ممنوع ہے ‏، امی وغیرہ كو اتنی دور پیدل چلانا بھی ٹھیك نہ تھا ‏، متین میاں نے ایك خچر گاڑی طے كرلی اس كو اجازت تھی اِس پر سب كو بدقتِ تمام سوار كركے سفارت خانے پہونچایا ‏، ہم تین آدمی :متین میاں ‏، عظیم بھائی اور ہم خیمے میں آئے ۔

یہاں كھانے پینے كی دكانیں بہت ہیں اور ہم لوگ كیا سب ہی لوگ كھانا پكانے كا سامان ساتھ لائے تھے ؛لیكن زیادہ ترلوگوں نے خرید ہی كر كھایا ‏، آج ہی تو ٹہرنا ہے ‏، كل صبح عرفات جانا ہے ‏، ہمارے سفیر اپنے عملے كے بعض افراد كے ساتھ منٰی میں مقیم ہندستانیوں كی خیر خبر لینے كے لیے دورے پر چل پڑے ‏، سب ہندوستانی حاجی ایك ہی جگہ تو ٹہرے نہیں تھے ‏، اپنے ‏، اپنے ‘‘معلمین’’ كے علاقوں میں جابہ جا ٹہرے تھے ‏، ان سب تك پہونچنا مدد بھائی نے ضروری سمجھا ‏، سب كی ضروریات پوچھیں ‏، مولانا اویس صاحب كی اہلیہ كو بہت سخت بخار تھا ‏، ان كے لیے اپنے ڈاكٹر كو بلوایا ‏، اس طرح تمام ہندستانیوں كی خیرسلاپوچھتے ہوئے اور جو انتظامات سفارتخانے كے عارضی دفتر كے ذریعہ ممكن تھے ان كا بندوبست كرتے ہوئے نہ معلوم كے بجے اپنے دفتر واپس ہوئے ہوں گے ‏، ایك دن میں ہرجگہ وہ پہونچ بھی نہ پائے تھے ۔

كل صبح عرفات كے لیے روانگی ہے ‏، ہمارے ٹیكسی ڈرائیور نے جو نوجوان آدمی ہے ہدایت كی كہ فجر كی نماز كے بعد ہی یہاں سے عرفات چل دیں ‏، مگر اس كے حكم كی تعمیل میں دشواری یہ تھی كہ صبح خواتین كو سفارت خانے سے خیمے تك لانا تھا ‏، ٹیكسی وہاں جانانہیں سكتی تھی ‏، یك طرفہ ٹریفك كی وجہ سے یہاں سے پیدل جانا ہوگا ‏، وہاں سے عورتوں كو پیدل ہی لانا ہوگا ‏، خچرگاڑیاں اور گدھا گاڑیاں سب عرفات كے لیے بُك ہو چكی تھیں‏، یہ اتنی جلدی كیسے ہوپائے گا ۔

وہی ہوا كہ فجر كی نماز كے بعد روانہ ہونے كے بجائے كوئی آٹھ بجے دن كو ہمارا قافلہ منٰی سے عرفات كے لیے روانہ ہوا ‏، آٹھ ‏، دس میل كی یہ مسافت تھی اور ناتجربہ كاری سے سمجھ رہے تھے كہ گھنٹہ ‏، ڈیڑھ گھنٹے میں عرفات پہونچ جائیں گے ‏، چارگھنٹے میں وہاں پہونچے ‏، تو سمجھے بڑی دیر كی پہونچنے میں ‏، بعد میں پتہ چلا كہ بہت جلد ی پہونچے ‏؛بعض اللہ كے بندے آٹھ ‏، دس گھنٹے میں منٰی سے عرفات پہونچ پائے ۔

رہ روِراہِ محبت كا خدا حافظ ہے

اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں

منٰی سے عرفات پہنچنا ‏، اس دفعہ وہ مشكل مرحلہ ثابت ہوا كہ سب ہی كے چھكے چھوٹ گئے ‏، ٹریفك كا بہت ہی معقول انتظام تھا ‏، یك طرفہ ٹریفك تھی اور جگہ ‏، جگہ ٹریفك كنٹرول كے لیے احرام پوش افراد سونٹے ہاتھوں میں لیے متعین تھے ‏، بیشتر ان میں نوجوان نظر آتے تھے ‏، خیال ہوا كہ یہاں پولیس میں سب نوجوان ہی ہیں ‏،مگر یہ خام خیالی تھی ‏، یہ نوجوان سعودی كنبے كے چشم وچراغ تھے ‏، سلطان ابنِ سعود كے زمانے سے یہ دستور ہے كہ عرفات اور منٰی كے راستے پر ٹریفك كی دیكھ بھال شاہی خاندان كے نوجوانوں كے سپرد رہتی ہے ۔

معزول شاہ سعود بھی اپنی ولی عہدی كے زمانے میں یہ خدمت انجام دیتے تھے بلكہ ان كے سلسلے میں ہمارے حاجی فقیر محمد صاحب نے تو ایك دلچسپ لطیفہ بھی بنایا ‏، غالبٌا  1949.50 كی بات ہے ‏، سلطان ابنِ سعود كا زمانہ تھا ‏، حاجی صاحب بھی اس سال گئے تھے اور ہمارے ایك پھوپھا حاجی وكیل احمد قدوائی بھی ۔ہمارے پھوپھا علاوہ بہت سی منفرد خصوصیات كے تعلقات پیداكرنے میں بڑے حاتم ہیں ‏، جہاز پر انہوں نے جن بہت سے لوگوں سے تعلقات پیدا كیے ان میں ایك مدراسی تاجر بھي تھا جس كا ربر كا كاروبار تھا ‏، اس نے ربركے كچھ تكئے انہیں دئیے ‏، عرفات میں انہیں تكیوں میں ہوا بھرنے كی ضرورت پیش آئی ‏، منحنی جسم اور پستہ قد كے پھیپھڑوں میں اتنا بوتا كہاں كہ وہ موٹے ربر میں ہوا بھر پائے ‏، یہ بچارے ہوا بھرنے كی كوشش میں ہلكان ہوئے جارہے تھے ‏، سامنے سڑك پر ٹریفك كنٹرول كرنے والا ایك چھ فٹ سے بھی اونچا مضبوط جسم كا آدمی كھڑا تھا ‏، اس كے پاس تكیےلیے پہونچے اور اس كی طرف بڑھادیا ‏، یہ ان كی زبان سے نابلد ‏، اس نے اشارے سے پوچھا ‘‘ یہ كیاہے ؟’’ انہوں نے انگلی سرسے اونچی كركے گھمائی اور زبان سے ‘‘طیارہ’’ كہا گویا ہوا میں جس طرح طیارہ پرواز كرتا ہے اسی طرح اس ربر كے خول میں ہوا چاہیئے اور منہ سے پھونكنے كی كیفیت دكھاكر اس كڑیل عرب كے سامنے اپنی ضرورت كو متجسم كردكھانے كی كوشش كی ‏،وہ سمجھ گیا اور پوری قوت سے تكیے میں پھونكا وہ پھول كر كپا ہوگیا ‏، قدوائی صاحب تو اپنا كام لے كر چلے آئے ‏، بعد كو لوگوں نے انہیں بتایا كہ یہ ولی عہد شاہزادہ سعود تھے ۔

تو شاہی خاندان كے افراد جو بجائے خود ایك پلٹن كے برابر تھے ‏، احرام باندھے چلچلاتی دھوپ میں سعودی پولیس كے ساتھ ٹریفك كنٹرول كرنے پر مامور تھے ‏،مگر كنٹرول بےقاعدگی ہی پر كیاجاتا ہے!

موٹروں ‏، ٹیكسیوں ‏، بسوں اور اسٹیشن ویگنوں كی تین ‏، تین قطاریں منٰی سے عرفات جانے والی چوڑی سڑك پر یك طرفہ چل رہی تھیں اور كسی كو اپنی قطار‏، یا دوسری قطار كی كسی اگلی سواری كو پاركرنے كی اجازت نہ تھی ‏، كیسی ہی سست رفتار سے بھی قطاریں چلتی رہتیِں ‏، تودو‏،ڈھائی گھنٹے میں منزلِ مقصود پر پہونچ جاتیں ‏، مگر اس كا كسی كے پاس علاج نہ تھا كہ قطار كی اگلی موٹر ‏، یا بس اگر بگڑ جائے !

چالیس ‏، پجاس ہزار موٹروں اور بسوں میں دو نہیں ‏، سینكڑوں كا چلتے چلتے بگڑجانا بدیہی ہے اور قطار كی ایك گاڑی بگڑی تو وہ قطار جم كر رہ گئی ‏، جب تك گاڑی درست نہ ہو اور آگے نہ بڑھے ‏، پیچھے والی گاڑیاں كیسے چلیں ‏، كچھ عجلت پسندوں نے قطار سے نكل كر اور سڑك سے ہٹ كر ریت میں گاڑیاں ڈال دیں ‏، اپنے حساب سے وہ جلدی پہونچ جائیں گے ؛لیكن فائدہ كچھ نہ ہوا ‏، اول تو ریت میں گاڑی دوڑانے اور ناہموار راہ پر لدی پھندی بسوں كو ہچكولوں كے ساتھ لے چلنے سے كئی گاڑیاں اور بسیں الٹ گئیں ‏، بہت سی ٹوٹ گئیں جن كو ہم نے راہ چلتے اپنی آنكھوں سے دیكھا ‏، خدا كا فضل تھا كہ كسی زخمی كو نہیں دیكھا ‏، دوسرے یہ كہ آگے پہونچ كر پتہ چلا كہ وہاں سے راستہ جما ہوا ہے ۔

جیسی جیسی دیر ہوتی جاتی تھی‏، ویسی ‏، ویسی دھوپ تیز ہوتی جاتی تھی ‏، پیاس سے زبانیں خشك ‏، اتر كر پانی ڈھونڈنے كا موقع كہاں ؟ تھرماس میں  برف ركھنا منٰی میں بھول گئے تھے ‏، عجیب سراسیمگی كا عالم تھا ‏، ہمارا نہیں سب كا یہی حال تھا۔

ادھر ہمارا یہ حال ‏، اُدھر ہمارا ڈرائیور تاؤ میں آكر بار ‏، بار عربی میں یہی كہتا ‘‘ اس سب كی ذمہ داری تم ہی لوگوں پر ہے ‏، كہ دیا تھا كہ فجر كی نماز كے بعد ہی نكل چلنا ‏، نہیں مانے ‏، اب بھگتو’’۔

ادھر وہ عربی میں تاؤ كررہا ہے ‏، اِدھر ہمارے عظیم بھائی اردو میں تاؤ كررہے ہیں ‘‘یہ سب ڈرائیور كی شرارت ہے ‏، ہم نے چونكہ اس كا كہنا نہیں مانا ‏، اب وہ ہمیں سزادے رہا ہے ’’۔

بڑی خیریت ہوئی كہ دونوں تاؤ كرنے والے ایك دوسرے كی زبان سے ناواقف تھے‏، ورنہ اس وقت كشیدگی ایسی تھی كہ محض كہا سنی تك بات محدود نہ رہتی ‏، اس وقت اللہ تعالٰی كی رحمت كی نشانیوں میں زبانوں كے اختلاف كے ذكر كی اہمیت بھی سمجھ میں آنے لگی ۔

ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم وألوانكم

ہم لوگ پھر بھی سویرے روانہ ہوئے تھے اور بعد میں روانہ ہونے والے ہم سے بھی زیادہ زحمتوں میں مبتلاہوئے ‏، ہم لوگ موٹر میں بیٹھے گرمی میں جھلستے عاجز ہوچكے تھے ‏، جب یہ اندازہ ہوا كہ اب میل ‏، ڈیڑھ میل عرفات رہ گیا ہے ‏، تو موٹر سے اتركر پیدل چلنے كی بات ہونے لگی ‏، ہزاروں پیدل جارہے تھے ‏، ہمارا ڈرائیور اس پر راضی نہ ہوا یہ بھی عظیم بھائی كے لیے ایك وجہ شكایت بن گیا ‏، حالانكہ ڈرائیور نے ہماری خیرخواہی ہی میں ہمیں اترنے نہ دیا تھا جس كا اندازہ آگے چل كر ہوا ‏، اگر اتر جاتے‏، تو حشرتك اپنے معلم كے جھنڈے كے نیچے نہ پہونچ پاتے اور اس گرمی اور تپش میں عرفات كے میدان میں ٹكریں كھاتے رہتے ‏، پوری دنیا اس وقت عرفات میں‏، خیموں اور شامیانوں میں آباد تھی ‏، كس معلم كا ‘‘علاقہ’’ كہاں ہے ؟یہ ناوقف كو معلوم ہوجانا محال تھا ‏، بہرحال ڈرائیور صاحب كے منشا كے مطابق ہم لوگ موٹر میں بیٹھے رہے اور چار گھنٹے تك رینگنے كے بعد عرفات میں اپنے خیمے میں پہونچے ‏،بس اتنا قبل كہ وضو كركے فوراً مسجد نمرہ گئے ‏، تو وہاں امام خطبہ شروع كرچكا تھا ‏، اگر چہ آج جمعہ نہ تھا ‏،مگر عرفات میں امام جماعت خطبہ دیتا ہے ۔(جاری)

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/

مکمل سفرنامہ یکجا پڑھنے کے لئے بھٹکلیس ڈاٹ کام کی مذکورہ بالا لنک پر کلک کریں