خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ محاوروں کی دلچسپ کتاب۔۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
علیہ السلام لکھا جارہا ہے۔ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، تاہم مفسرین اور علماءکرام نے کچھ کلمات مخصوص کررکھے ہیں۔ رسول اکرم کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہ، اور دیگر بزرگوں کے لیے رحمت اللہ علیہ۔ حضرت عزیر کے نام پر بھی علیہ السلام کی علامت ’ع‘ بنائی جاتی ہے۔ مزید وضاحت علماءکرام کریں۔
ایک قاری نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی کی کتاب ”اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ“ خریدنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو ان کو منع کردیا، کیونکہ اس کتاب میں جتنی غلطیاں یکجا کردی گئی ہیں کسی اور کتاب میں نہیں ملتیں۔ بظاہر اس کا عنوان علمی و ادبی ہے۔ لیکن اشعار غلط، املا غلط، انشاءغلط، محاورات غلط یعنی بالکل غلط، یکسر غلط۔ ایک محاورہ دیا گیا ہے ”بغضِ الٰہی“۔ موصوفہ نے اس کے معنیٰ پر غور فرمایا؟ انہوں نے محاورے کی وضاحت کی ہے ”یہ خدا واسطے کا بیر کہلاتا ہے اور اسی کو بغضِ الٰہی کہتے ہیں“۔ لیکن اس کا مطلب تو اللہ کا بغض ہوا جو شدید توہین آمیز ہے۔ اس پر موصوفہ کو توبہ کرنی چاہیے۔ اصل محاورہ بغضِ الٰہی نہیں بغض للّٰہی ہے، یعنی اللہ کے لیے کسی سے بغض رکھنا۔ اور اس کو خدا واسطے کا بیر کہا جاتا ہے۔ موصوفہ نے میر امن دہلوی کی ’باغ وبہار‘ کے حوالے سے لکھا ہے ”جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پاسکتے۔ کہیں نہ کہیں ان سے چوک ہوجائے گا“۔ چُوک ہندی کا لفظ اور مونث ہے۔ میر امن دہلوی اسے مذکر نہیں لکھ سکتے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہوسکتی ہے جس کی تصحیح عشرت جہاں کو کرنی چاہیے تھی ورنہ ان کا لکھا ”سند“ بن جائے گا کہ دلی میں شاید چُوک مذکر ہو۔ حرف خوانی وصی اللہ کھوکھر نے کی ہے اور کئی اغلاط کی نشاندہی کی ہے، لیکن وہ بھی کہاں تک تصحیح کرتے! سید ضمیر حسن دہلوی نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ انہوں نے ایک شعر دیا ہے:۔