سچی باتیں۔۔۔روزہ داری کے فوائد۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:09PM Thu 25 Feb, 2021

1928-03-02

کھانا کھانے میں آپ کو لطف کس وقت آتاہے؟ اُس وقت جبکہ بھوک کھُل کر لگی ہو، یعنی کچھ دیر پیشتر سے کھانا نہ کھایاہو۔ پانی کے گلاس میں مزہ کس وقت ملتاہے۔ اُس وقت جبکہ پیاس لگی ہوئی ہو، اور پانی پینے کی طلب بیقرار کررہی ہو۔ نیند سُکھ سے کِس وقت آتی ہے؟ اُس وقت جبکہ کچھ گھنٹے قبل سے آپ برابر جاگ رہے ہوں ۔ اِن ساری مثالوں میں آپ کو روزمرّہ، ہروقت اور ہرجگہ تجربہ ہوتارہتاہے، کہ مادی لذتوں سے بھی پوری طرح لطف اُٹھانے کے لئے کسی قدر ضبط، صبر واحتیاط لازمی ہے۔ یہی آپ کا مشاہدہ ہے، یہی آپ کا تجربہ ہے، اوراسی پرآپ کا عمل ہے۔ یہ آپ کبھی نہیں کرتے، کہ مسلسل چوبیسوں گھنٹے منہ میں نوالے چباتے رہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں کرتا، کہ ہر منٹ لگاتار پانی کے گھونٹ اُتارتارہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھا، کہ دِن اوررات، صبح وشام ہروقت برابر پڑاسوتا ہی رہے۔ ’’روشن خیالی‘‘ جب ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، تو تعطیل اور چھُٹّی کو بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی جزوبنادیتی ہے۔ اسکولوں کے کمرے، کالجوں کے ہال، عدالت العالیہ کے ایوان، ہفتوں سے بند چلے آرہے ہیں، اس لئے کہ موسمِ گرما کی تعطیل کلاں کا زمانہ ہے! کچہریاں اور دفتر بند ہیں، اس لئے کہ آج بڑادن ہے۔ ڈاکخانہ اور تارگھر، بینک اور خزانے بند ہیں، اس لئے کی آج اتوار ہے! یہ سب اس لئے ہے، کہ دماغ کوآرام ملتارہے، اور تازہ دم ہونے کے بعد کام بہتر طور پر انجام پاتارہے۔ آپ اپنے اس نظام اور اس انتظام پر شرماتے نہیں ، فخر کرتے ہیں۔ اور آپ کی ؑعقلیت وروشن خیالی کا یہ ایک مسلّمہ ہے، کہ کام میں زیادہ مستعدی، اور بہتر کارگزاری (Effecincy)کے لئے جسم واعضاء جسم کو آرام دیتے رہنا لازمی ہے! یہ نہیں کہتے ، کہ اس سے کام میں خواہ مخواہ ہرج اور نقصان ہوتاہے۔ لیکن جب مذہب آپ سے کہتاہے ، کہ سال کے ایک خاص زمانہ میں چند گھنٹوں کے ایک محدود وقت کے لئے معدے کو آرام دیتے رہو، بھوک اور پیاس کو ضبط کرتے رہو، تو معًا آپ کی عقلیت وروشن خیالی بغاوت پرآمادہ ہوجاتی ہے، آپ اپنے روزمرّہ کے تجربہ اور مشاہد ، نظریات وعملیات، سب کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، رمضان کی آمد کو اپنے لئے ایک قہر ومصیبت سمجھنے لگتے ہیں، اور اگر زبان سے نہیں، توکم از کم دل میں تو یہ ضرور کہنے لگ جاتے ہیں، کہ روزہ کی یہ قیدیں کیسی سخت ہیں، اورآپ کی کمزور قوئے ہرگز اتنی بڑی محنت کو نہیں برداشت کرسکتے! بیشک ، اگرآپ ہزاروں روپیہ کمانے اور اُڑانے والے بیرسٹر ہیں، اگرآپ اپنی ’’سرکار ابد قرار‘‘ کے بنائے ہوئے جج یا کلکٹر ہیں، اگرآپ صوبہ یا مُلک کی کونسل کے ممبر ہیں، اگرآپ لاٹ صاحب اور بڑے لاٹ صاحب کی پارٹیوں میں شریک ہونے والوں میں ہیں، اگرآپ کے پاس سواری کے لئے موٹریں، اور رہنے کے اونچی اونچی کوٹھیاں موجود ہیں، توآپ کی محرومی وحرماں نصیبی نے، اجرروحانی وراحتِ سرمدی کی طرح، روزمرّہ کی مادّ ی لذتوں، اور جسمانی فائدوں کا بھی دروازہ آپ بند کررکھاہے، اورآپ کی اس بے مائگی پر جنّ وبشر ، حوروملائک، جتنا بھی ترس کھائیں کم ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی خوش بختی سے کوئی غریب کاشتکار ہیں، کوئی مفلس مزدور ہیں، کوئی کم حیثیت خدمتگارہیں، بھاری بھاری بوجھ کی گٹھریاں اور گٹھے اپنے سر پر لادنے والے ہیں، دھوپ میں جل جل کر ، اور بھُن بھُن کرکام کرنے والے ہیں، تو ان شاء اللہ آج آپ اپنے خالق ومالک کے حکم کی تعمیل میں رمضان مبارک کے بارانِ رحمت سے سیراب ہورہے ہوں گے! یقین کیجئے کہ آج آپ کے مرتبہ پر زمین پر بسنے والے نہیں، آسمان پر اڑنے والے، فضائے قدس میں سانس لینے والے، حریمِ عرش کے پایہ تھامنے والے رشک کررہے ہیں! ممکن ہے کہ آج یہ شاعری معلوم ہورہی ہو لیکن کل ان شاء اللہ حقیقت ہوکررہے گی، اوراُن بے خبروں کو بھی خبردار کرکے رہے گی ، جو آج روزہ داری کے طبّی فواء اور مادّی لذتوں سے بھی محرومی میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں!۔