تبصرات ماجدی۔۔۔(۰۱۹)۔۔۔ گزشتہ لکھنو۔۔۔ از : عبد الحلیم شرر۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:51AM Tue 29 Sep, 2020

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (19)۔

 گزشتہ لکھنؤ از مولوی عبد الحلیم شرر مرحوم

440 صفحے، قیمت آٹھ روپے پچاس پیسے، مکتبہ جامعہ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔20

شرر مرحوم جو بیسیوں کتابیں اپنی یادگار چھوڑ گئے، ان میں بڑی تعداد تو ناولوں کی ہے لیکن اچھی خاصی تعداد میں تاریخ، سیرت و سوانح عمری کی جامع اور پرمغز کتابیں بھی ہیں اور چار پانچ جو اُن کی بہترین و مفید ترین کتابیں ہیں، ان میں سے ایک گزشتہ لکھنؤ بھی ہے۔ اسے شرر نے اپنے ماہنامہ دلگداز میں ’’ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ‘‘ کے عنوان سے قسط وار شروع کیا تھا اور کتاب کی صورت میں ان کی نظرِ ثانی کے بعد ان کی زندگی ہی میں چھپ گئی تھی اور شکر ہے کہ اب جامعہ والوں کے معیاری ادب کے سلسلۂ انتخاب میں آگئی اور اس کا نیا ایڈیشن مع پیشِ لفظ ہے۔ تعارف اچھا خاصا مفصل رشید حسن خاں کے قلم سے ہے۔ انتخاب جس طرح کتاب کا ہوا ویسا ہی تعارف نگار کا بھی۔ انھوں نے کتاب کی کسی عبارت میں تو ہاتھ لگایا نہیں۔ البتہ ایک بڑی مفصل فہرست مضامین پچاسوں بلکہ شاید سیکڑوں عنوانات لگا کر شایع کر دی ہے اور تعارف ایسا لکھ دیا ہے جو سپاٹ اور سرسری نہیں بلکہ گہرا اور پر مغز ہے۔ تصنیف ہی نہیں مصنف کے جوہرکوبھی چمکا دینے والا……خیر تقریظ تو کیا ہوتی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تنقید برائے تنقید ہی ہوکر رہا جائے اور تعارف نگار کی طرف سے مصنف پر دل کے بخار نکلنے کا ایک سامان بن جائے……چٹکیاں بھی ہیں، گدگدیاں بھی زیادہ نہیں ہیں اور حسب گنجائش چٹکیاں کم ہیں اور حسب ضرورت!

کتاب معلوماتی حیثیت سے تو ایک مخزن کا کام دیتی ہے بعض ٹکڑے بڑی ہی عبرت کے ہیں۔ ایسی معلومات کا ایک نمونہ:

’’واجدعلی شاہ نے مٹیا برج میں بہت سے نئے کبوتر جمع کئے تھے، کہتے ہیں کہ ریشم پرے کبوتروں کا ایک جوڑا پچیس ہزار کو لیا تھا۔۔۔۔ جب انتقال ہوا تو چوبیس ہزار سے زائد کبوتر تھے جن پر سیکڑوں کبوتر باز نوکر تھے۔‘‘

(ص217)

ظاہر ہے کہ یہ شاہ خرچیاں شاہی کے زمانے کی نہیں معزولی بلکہ کہنا چاہئے کہ اسیری کے زمانے کی ہیں۔۔۔۔۔واجد علی شاہ نے اپنا ملک واپس لینے کے لیے ایک وفد لندن کو بھیجا تھا اور پھر اپنے ہاتھوں بہکانے والوں کے کہے میں آ کر وہ جس طرح خراب و نا کا م آیا، اس کی داستان دردص 110، 111 پر پڑھنے کے قابل ہے۔

بعض مصارف کی تفصیل بھی اسیری کے زمانے کی شرر صاحب کی زبان سے سنیے:

جانور باز آٹھ سو سے زائد کی تعداد میں ملازم تھے

کبوتر باز تین سو کے قریب۔۔۔۔ ایضاً

ماہی پرور اسی کے قریب۔۔۔۔ ایضاً

مار پرور 30 یا 40۔۔۔۔ ایضاً

دیگر جانوروں کی خوراک میں کچھ کم نو ہزار ماہانہ صرف ہوتے تھے

پہرے کے سپاہی ایک ہزار تھے۔

مکان دار پانسو سے زائد تھے۔

مالی پانسو سے۔۔۔۔۔ ایضاً

کہار پانسوسے۔۔۔۔۔ ایضاً

محرر اسی زائید۔۔۔۔ ایضاً

معزز مصاحبین اور اعلیٰ عہدہ دار 40 یا 50

صفحہ 117-118

’’ان کے علاوہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے محکمے تھے۔ باورچی خانہ، آبدارخانہ، بھنڈارخانہ، خس خانہ اور خدا جانے کیا کیا تھا۔ پھر ایک مد لواحقین کے رشتے داروں اور بھائی بندوں کی تھی جنھیں حسبِ حیثیت تنخواہیں ملتی تھیں۔‘‘

(ص118)

کتاب کے اندر ایک دو نہیں پچاسوں اصطلاحیں (خصوصا سواری، لباس، تفریحات سے متعلق اب نامانوس ہوگئی ہیں، خوب ہوتا جو اُن کے معنی ایک فرہنگ میں دے دیئے جاتے اور مصنف کو جن اہم طبقات پر توجہ کا موقع نہیں ملا مثلا علما فرنگی محل یا شیعہ مجتہدین وغیرہ ان کا تذکرہ بڑھا کر اب تکملہ کی امید کس سے کی جائے؟

رشید حسن خاں صاحب کے انداز تحریر کی داد بھی دی جا چکی ہے۔ ان کا توازن، ان کا قل و دل انداز بیان دونوں مثالی ہیں لیکن بشریت آخر کہیں تو اپنا رنگ دکھا ہی جاتی ہے، ص 33 کے شروع میں جہاں مباحثہ گلزارنسیم کے سلسلے میں شرر پر کڑی تنقید ہے، انصاف کا تقاضہ ہے کہ ذرا اودھ پنچ پربھی کچھ لکھ دیا جاتا۔ شرر کی تنقید جو کچھ بھی تھی، نسیم کے محض فن پر تھی، باقی شرر صاحب کی داڑھی پر۔ جسم کے رنگ پر، قد و قامت پر، وطن پر، یہاں تک کہ عبدالحلیم کے بجائے بواحلیمن پر تضحیک وتفضیح کی بدعت بازاری زبان میں کس نے روا رکھی ہے۔

ص59 کے ختم کے قریب ایک عبارت ملتی ہے جس کا مطلب تعارف نگار کے نزدیک خبط ہو گیا ہے، وہ فقرہ یہ ہے:۔

’’جنھوں نے ان سب محلوں سے دور جا کر اپنی گڑھی بنائی جو مقام آج تک پیر خاں کی گڑھی کہلاتا ہے۔‘‘

لیکن اس فقرے میں خبط ہو جانے کی بات تو کوئی مل نہ سکی ’’متشابہ‘‘ شائد ’’جو مقام“ سے لگا لیکن یہ تو انگریزی ترکیب میں بالکل جائز ہے، ’’جو‘‘ کا تعلق ’’گڑھی‘‘ سے ہے اور انگریزی میں اس موقع پر which place آتا ہے، شرر صاحب باوجود اردو کے ادیب کامل ہونے کے بہت جگہ انگریزی ترکیبیں استعمال کر گئے ہیں۔

ایک اعجوبہ پر نظر ابھی ابھی پڑی، شرر صاحب ارمان کو مونث لکھتے تھے اور جمع ارمانیں اسی کتاب میں موجود ہیں،……ڈھول بھی شرر صاحب کی زبان پر مذکر بھی ہے اور مونث بھی، ایک ہی صفحہ پر دونوں استعمال ملتے ہیں۔

(صدق جدید نمبر39، جلد 21 مورخہ 26 نومبر 1971)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (20)۔

صنف ادب (تذکرہ)۔

انجمن ترقی اردو کی کہانی از غلام ربانی صاحب

انجمن ترقی اردو، دہلی

موضوع نام سے ظاہر ہے۔ انجمن کی پچھلی تاریخ موجودہ کام اور آئندہ کی تجویزوں کا ایک دلچسپ اور جامع تذکرہ۔ مصنف صاحب کا تعلق دکن کے محکمہ آثار قدیمہ سے ہے لیکن قلم کو ماشاءالله قدرت آثارِ قدیمہ وجدیده ’’دونوں پر یکساں ہے۔‘‘

(صدق نمبر 3 جلدنمبر6 مورخہ 2 مئی 1940)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (21)۔

ہم اور وه از خواجہ محمد شفیع صاحب دہلوی

مکتبہ جامعہ دہلی

قدیم و جدید کی بحث اب خود قدیم ہو چکی ہے اور کوئی جدت اس میں باقی نہیں رہی، پھر بھی جب کوئی زندہ شخصیت اس میں حصہ لیتی ہے تو بحث کی مردہ ہڈیوں میں پھر سے جان پڑ جاتی ہے۔ مدت سے کہا یہ جا رہا تھا کہ دلی اب دلی والوں سے خالی ہوگئی اور زبان دانی اس خطہ سے رخصت ہوگئی ۔ ’’ہم اور وہ‘‘ نے ثابت کر دیا کہ دلی میں دلی والے اب بھی پڑے ہوئے ہیں اور دلی کی زبان اب بھی ماشاءاللہ آن بان سے زندہ قائم و پابند ہے، درخشاں و تابندہ ہے۔ مصنف نے ایک اچھوتے طریقے پر قدیم و جدید کی بحث کو اٹھایا ہے اور محاکمہ کا حق ادا کر دیا ہے۔ نتائج تک پہنچتے پہنچتے ممکن ہے کہ قلم کا رخ کہیں کہیں غلو و مبالغہ کی جانب جھک گیا ہولیکن بہ حیثیت مجموعی بات جو بھی کہی ہے سچی، کھری، سیدھی اور خدالگتی، اور حسن و زبان و بیان کے لحاظ سے تو اپنی نظیر آپ ہے۔ فصاحت سطر سطر پر بلائیں لیتی جاتی اور بلاغت قدم قدم پر نثار ہوتی جاتی ہے۔ حسنِ انشا کا ایسا نمونہ دیکھنے کواب آنکھیں ترسا کرتی ہیں۔ اللہ ان کی عمر میں بہت بہت برکت، ان کے قلم کو بہت بہت قوت عطا کرے۔ گلشنِ اردو کو ایسی ہی نہروں سے سیرابی کی ضرورت ابھی مدتوں تک باقی رہے گی۔

(صدق نمبر25، جلد نمبر6، مورخہ 28 اکتوبر 1940)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (22)۔

 دلی کا سنبھالا از خواجہ محمد شفیع دہلوی

مکتبہ جامعہ نئی دہلی

کتاب کا تعارف ذرا مشکل ہے۔ بس یہ سمجھ لیا جائے کہ گویا ایک آئینہ ہے جس میں اگلے دلی والوں ( کچھ دلی والیوں کی بھی) کی زندہ تصویریں، چلتی پھرتی بولتی چالتی نظر آرہی ہیں اور پھر اس مجمع میں سب ہی طرح کے لوگ تو ہیں، عالم و فاضل بھی، رند اور اوباش بھی، زاہد و مرتاض بھی اور شوخ وطرار بھی۔ ایک طرف شاه عبدالقادر، شاہ عبدالعزیز ،شاہ رفیع الدین، شاہ اسمٰعیل شہید، سرسید، حالی، نذیر احمد، حکیم محمودخاں تو دوسری طرف فلاں گویئے اور فلاں ستارنواز، اور فلاں بی صاحبہ۔ مصنف کا مقصد تاریخ نگاری نہیں، اس لئے ایسی فروگزاشتوں کو نظر انداز کیجیے کہ مولانا اسمٰعیل شہید نے علم جہادحکومت برطانیہ کے خلاف بلند کیا تھا (ص 111)۔ مصنف کا مقصود اپنی زبان دانی کا جوہر دکھانا اور پرانی دلی کا جیتا جاگتا نقشہ کھینچ دینا ہے اور ان دونوں مقصدوں میں وہ اس طرح کامیاب رہے ہیں کہ گویا امتحان کے پرچے میں سو نمبروں میں پورے سو پا لئے ہوں۔ زبان کی صحت اور زبان کا حسن دو الگ الگ چیزیں ہیں، یہ ضروری نہیں کہ جو اہلِ قلم دلچسپ فقرے لکھ لیتے ہوں، وہ تر کیبوں، محاوروں، بندشوں کی صحت پر بھی قادر ہوں، دونوں کا اجتماع اس وقت اردو لکھنے والوں میں تو خال ہی خال نظر آتا ہے۔ خواجہ شفیع صاحب ان مستثنیٰ مثالوں میں سے ایک ہیں۔

اور پھر اسلوبِ بیان کی دلکشی۔ دلکشی نہیں دلبری، اس پر قیامت۔ ممکن نہیں کہیں سے کوئی صفحہ کھل جائے اور پھر ختم کئے بغیر آپ کو چھوڑنے کا جی چاہے۔ ایک دو منظروں پر نگاہ اچٹتی ہی سہی ڈالتے چلئے:

 ”اہلِ دربار مؤدب کھڑے ہو گئے۔ دلی ماتا نے تعظیم دی۔ یہ کون تین بھائی آرہے ہیں کہ ملاء اعلیٰ طبقات لیے ساتھ ساتھ ہیں۔ نقیب نے آواز دی مولانا شاہ عبد القادر صاحب مترجم کلام پاک ، مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح العزیز کے مولف ، مولانا شاہ رفیع الدین صاحب۔ بھاٹ نے عرض کی :

خاموشی در ثنانے تو حدثنائے تست!

رفعت علم تالب عرش لینے آئی۔صف علم میں مرتبہ پر لے جا بٹھایا۔

مولوی میاں نذیرحسین صاحب اپنے معتقدوں کے ہمراہ دفاتر احادیثِ مقدسہ لئے تشریف لائے۔ اہلِ دربار نے تعظیم دی، دلی ماتا نے بہ نظرِ عنایت دیکھا اور کہا سر پرنور شہادت پر تو فگن ہے۔ ان کا مستقبل بتاؤ۔ منجم قدرت نے دلی ماتا کی پیشین گوئی کی شہادت دی۔

علم وتقدس کی اس شہ نشین سے اتر کر اب ضلع جگت کے میدان میں آئیے۔

’’روز محفل آراستہ ہوتی ہے۔ شہر بھر کا تیز طرار شوخ گفتارجمع ہوتا ہے۔ اکثر زبان دراز دور دور سے مقابلے کے لئے آتے ہیں۔ استاد کی سب سے چھوٹ ہوتی ہے، جو منہ میں آتا ہے، منہ کی کھاتا ہے۔ ظالم ایک نہ ایک فقرہ ایسا چست کرتا ہے کہ بڑے سے بڑا منہ زور منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جواب نہیں بن پڑتا، اپنا سا منہ لے کر چلا جاتا ہے۔ استاد چلتے چلتے فقرہ کستا ہے۔ دیکھنا جیسے پیٹھ دکھائی ویسے منہ بھی دکھانا۔ پھر بھی آنا۔ جو ایک دفعہ مقابلے پر آ جاتا ہے، اس کا پھر منہ نہیں پڑتا کہ منہ دکھائے۔ استاد ایسا منہ توڑ، دندان شکن فقرہ کہتا ہے کہ منہ پھیردیتا ہے۔“

زبان و ادب کے معیار سے ایسی کتاب مدت کے بعد دیکھنے میں آئی اور عام متفرق معلومات کے لحاظ سے بھی کتاب گھٹیا نہیں۔

(صدق نمبر 46 جلد نمبر 6، 12 اپریل 1941)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (23)

تذکرہ اردو مخطوطات حصہ اول از ڈاکٹر محی الدین زور

دائره ادبیات اردو حیدرآباد کن

کتب خانہ اداره ادبیات اردو دکن کے 275 مخطوطات کا مفصل اور پر معلومات ’’تذکرہ‘‘ اس عملی جائزہ میں تفسیر و حدیث یا تاریخ سے لے کر کہانیوں تک کے 11 مختلف علوم وفنون آگئے ہیں۔ تذکرہ ہر لحاظ سے دلچسپ اور شائقین علم و ادب کے لیے بڑے کام کا ہے۔ ایک خشک موضوع کو اس حد تک دلچسپ اور اس پیمانہ پر وسیع بنا دینے کی غالباً یہ پہلی مثال ہے۔

(صدق نمبر2 جلد10 مورخہ 8 مئی 1944)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (24)۔

مادر ہمدرد از خواجہ حسن نظامی

امیرخسرو اردو لائبریری، دہلی

دہلی کے ’’ترک ہزارشیوہ‘‘ خواجہ حسن نظامی مدت کے بعد پھر اہل قلم کی بزم کاغذی میں جلوہ نما ہوئے ہیں۔۔۔۔انداز رفتار میں وہی سبک گامی، وہی نازک خرامی جو ہمیشہ سے ملتی۔

نام کتاب میں تر کیب توصیفی یعنی اضافی ہے۔ مادر ہمدرد صفت موصوف نہیں مضاف مضاف الیہ ہیں۔ ہمدرد مہربان و مشفق کے معنی میں بس بلکہ اسم اور ذات ہے اور اس سے مراد دہلی کا ایک مشہور و مرحوم روزنامہ نہیں بلکہ شہر کا ایک زندہ اور زندگی بخش دواخانہ ہے۔۔۔۔۔حکیم عبدالحمید صاحب کو مبارک ہو کہ ان کے لق ودق اور ہر اشتہار وتعارف بے نیاز کارخانے کو بے کدو کاوش نقیب اور منادی ایسا زبردست ہاتھ میں آ گیا!

کتاب کا موضوع یہ بتایا گیا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور روس کا کلچر خود غرضی پر مبنی ہے، اس کے مقابلے میں ایشیا اور اسلام کے کلچر میں مادری تربیت کی بڑی اہمیت ہے اور اس میں ہر طرح کا سکون روح   و  راحت قلب ہے لیکن کتاب کے ورق ورق الٹتے چلے جایئے، موضوع کی جھلک دیکھنی بھی نصیب نہ ہوگی بشرطیکہ کتاب کی دلچسپیوں میں گم ہوکر ذہن میں موضوع کی یاد باقی بھی رہ جائے!

کتاب کے اندر بیسیوں نہیں پچاسوں بلکہ سیکڑوں شخصیتوں کا ذکر ہے کسی کا سطر دو سطر میں اور کسی کا کئی کئی صفحوں میں اور پھر اس میں ماضی بھی ہے اور حال بھی، مدح بھی ہے اور قدح بھی ، طنز بھی ہے اور ظرافت بھی، شخصیتیں بھی ہر درجہ و مرتبہ کی اور ہر ذ ہنیت ونوعیت کی۔ بادشاہ اور رعایا، انگر یز اور ہندوستانی ، ہندو و مسلمان، رند و زاہد، امیر وغریب، شاعر اور گوشے میں سے کوئی بھی چھوٹنے نہیں پایا۔ پھر محض شخصیتوں ہی پر بس نہیں بحثیں بھی زمین و آسمان کی۔ ابھی ذکر جمہوریت کا تھا اور موضوع داڑھی کا چھڑ گیا!۔۔۔۔۔ر یویو نگار غریب حیراں کہ اس ساری رنگارنگی اور بوقلمونی کو سمیٹ کر کتاب کی کون سے صنف قرار دی جائے اور اسے کس فن کے تحت لایا جائے۔

درویشوں میں ایک قسم سیلانیوں کی ہوتی ہے۔۔۔۔ خواجہ صاحب کا قلم بھی ایک آزاد درویش کا قلم ہے لیکن ہر بے ترتیبی ژولیدگی کے مرادف نہیں اور بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی، نری شاعری نہیں واقعہ بیانی بھی ہے، ایسے ہی موقعوں کے لیے۔ کتاب دلچسپ شروع سے آخر تک ہے بعض دفعہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ تذکره و سوانح عمری کے بجائے کسی افسانہ، پر اسرار افسانہ کے صفحے سامنے کھلے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز اور مؤثر حصہ بنارس کی ایک طوائف کی سرگزشت ہے صفحہ 53 تا 59۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوفی عنایت خاں مرحوم کا تذ کر صفحہ 137 تا 139۔

(صدق نمبر45، جلد15 مورخہ 31 مارچ 1950ء)

ناقل: محمد بشارت نواز

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/