اکھلیش رتھ صرف سواری نہیں سیاسی لکیر بھی ہے

از:حفیظ نعمانی
بچپن میں جب اردو پڑھی تھی تو الف سے انار، ب سے بکرا کے کافی بعد رے سے رتھ پڑھا تھا اور کتاب میں جو تصویر رتھ کی بتائی گئی تھی وہ نہ اس رتھ جیسی تھی جیسا رتھ ایڈوانی جی نے اپنی زہر افشانی کے لیے بنوایاتھا اور نہ اس رتھ جیسی تھی جو کل ٹی وی پر وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا دکھایا گیا تھا، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس میں بیٹھے ہوئے اکھلیش کو عوام آسانی سے دیکھ سکیں گے۔ رتھ میں ہی ایک چھوٹا ساوزیر اعلیٰ کا دفتر بنایا گیا ہے اور انٹر نیٹ وائی فائی جیسی سہولتیں بھی ہیں۔
یہ رتھ ایک ایرکنڈیشن بس جیسا ہے جسے سماج وادی پارٹی کے جھنڈوں کے رنگ سے رنگا گیا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دماغوں میں کسی بھی مہم کے لیے رتھ کیوں بھرا ہوا ہے؟ جبکہ اسے چلانے کے لیے بیلوں کی جوڑی کے بجائے ایک انجن ہے جس کی غذا تیل ہے۔ ایڈوانی جی یا مودی جی اپنی ہر سواری کو رتھ کہیں تو یہ ان کی ذہنیت کا عکس ہے اور کسی حد تک ملائم سنگھ کو بھی چھوٹ دی جاسکتی ہے لیکن اکھلیش یادو اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی تفصیل لے کر جس سواری پر اتر پردیش کے عوام کے پاس جارہے ہیں وہ یا تو واقعی رتھ جیسی کوئی سواری بنواتے۔ ورنہ اسے’’ کرانتی بس‘‘ یا’’ وجے بس‘‘ بھی کہتے تو کون ان پر اعتراض کرتا؟ اس کے بجائے نئی نسل یہ سمجھتی کہ ان کی ریاست کے وزیر اعلیٰ نے ثابت کیا ہے کہ وہ نئی نسل کے ترجمان ہیں اور گھوڑے تلوار اور رتھ کے دورسے کئی سو برس آگے آگئے ہیں۔ اس لیے بھی کہ ان کی بیوی کا نام سیتا نہیں ڈمپل ہے۔
ریاستی صدر شیوپال سنگھ یادو، اجیت سنگھ اور چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پرشانت کشور کو جانتا بھی نہیں۔ اور پرشانت کشور ملائم سنگھ سے کانگریس کے ساتھ مل کر ا لیکشن لڑنے کی بات کررہے ہیں، جبکہ اکھلیش یادو کے بارے میں خبر آرہی ہے کہ ان کے اور راہل گاندھی کے درمیان دوریاں کم سے کم تر ہوتی جارہی ہیں۔
ان تمام باتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے لیڈروں کو یہ یقین نہیں ہے کہ ممتا بنرجی اور جے للتا کی طرح اپنے کاموں کے بل پر وہ اکیلے حکومت بنا سکتے ہیں۔ اور کانگریس بھی کروڑوں روپے خرچ کرکے اس نتیجہ پر پہنچ گئی کہ پرشانت کشور ایک اچھے مشیر تو ہیں مگر مسیحا نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۷ سال کا رونا رونے کے بجائے ’’سپا‘‘، ’’بسپا‘‘ میں سے کسی کے سہارے دریا پار کیا جائے۔
آج ۳؍ نومبر کو وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اپنے رتھ کو خود ہری جھنڈی دکھائیں گے جبکہ پارٹی کے بانی اور ان کے پتا ملائم سنگھ موجود بھی ہیں اور شاید انکار بھی نہ کرتے۔اس طرح اگر ۳؍ نومبر کے بجائے اس رتھ کی روانگی کے لیے اکھلیش بابو ۶؍ نومبر کی تاریخ رکھ دیتے تو ۵؍ نومبر کو پارٹی کے ۲۵ سالہ جشن کے بعد ہوسکتا ہے کہ کوئی اور اچھی شکل بن جاتی؟ پارٹی کے مسئلہ میں دونوں باپ بیٹوں کے اختلاف نے کچھ ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ جیسے کوئی پھوڑا پھول تو گیا ہو مگر نہ پھوٹنے کی پوزیشن میں ہو اور نہ دبنا ممکن ہو۔ اکھلیش یادو نے اعلان کیا تھا کہ وہ ۵؍ تاریخ کے جشن میں شریک ہوں گے اور ہیلی کاپٹر کے زمانہ میں وہ کسی بھی ضلع میں پہنچ چکے ہوں ایک گھنٹہ کے لیے آنا اور واپس جا کر پھر سفر کرنا کیا مشکل ہے؟ لیکن صورت حال جب ایسی ہو کہ نتیش کمار اور ان کے ساتھی بھی ابھی ۵؍ کو جشن کی رونق بننے نہ بننے کا فیصلہ نہیں کرسکے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ پارٹی کافی حد تک پھٹ چکی ہے۔ اور ملائم سنگھ کی عہد شکنی اور اقتدار کے لیے یہ دیکھے بغیر کہ کون کتنا زہریلا ہے، گلے لگانے کی ایک تاریخ ہے تو کیوں نہ انجام دیکھنے کے بعد باپ اور بیٹے میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے؟
کانگریس کا رخ بھی دوہرا ہے اتنا تو اس کے لیڈروں نے سمجھ لیا کہ وہ جو حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے وہ پورا ہونا ناممکن ہے۔ شاید اس لیے سونیا گاندھی نے پرینکا وڈیرا کا نام تو دیا مگر تاریخ نہیں دی اور آخری خبر نومبر کی آنے کے بعد خاموشی ہے۔ سونیا اگر اس آخری کارتوس کو پردے میں ہی رہنے دیں تو اچھا ہے، انکے ساتھ اگر دادی کی ادائیں تو شوہر کے کارنامے بھی ہیں جنھیں بڑی عیاری سے حکمراں پارٹی نے اسی لیے محفوظ رکھا ہے کہ وہ ان کا آخری کارتوس ہے۔
ہم خود تو اس حال میں ہیں نہیں کہ باہر نکل کر دیکھ سکیں اور معلوم کرسکیں کہ مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟ لیکن گھر بیٹھے جتنا معلوم ہوسکتا ہے اس سے اندازہ یہ ہورہا ہے کہ ۲۰۱۲ء میں مسلمانوں نے جو سن کر اور سوچ کر ملائم سنگھ کو پھر مولانا ملائم سنگھ بنایا تھا وہ گذرے ہوئے ہر دن میں پنڈت ملائم سنگھ بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے شاید یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کی کیا فکر ہے وہ جائیں گے تو کہاں؟ ہندوؤں میں ٹھا کر اور کرمی ووٹ اپنانے کے ڈول ڈالو۔
بالکل چل چلاؤ کے وقت انھوں نے جس بھونڈے پن اور سیاسی پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے امر سنگھ اور بینی پرشاد کو پارٹی میں واپس لیا اور راجیہ سبھا کا تاج دونوں کے سر پر رکھا اس نے مسلمانوں کو بہت دور کردیا۔ ہم اس معاملہ میں الگ سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کسی مسلمان کا کاؤنسل اورراجیہ سبھا میں کسی پارٹی کی طرف سے جانا انھیں غلام بنانا ہے۔ وہ پارٹی کے مکھیا کی اجازت کے بغیر ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ ہمارے نزدیک یہ بات نہیں ہے کہ انھوں نے کسی مسلمان کو راجیہ سبھا میں کیوں نہیں بھیجا؟ بلکہ شکایت اس پھوہڑ پن کی ہے جو انھوں نے امر سنگھ اور بین پرشاد ورما جیسے سیاسی کباڑ کو پارٹی میں لیتے ہی تاج دار بنادیا۔ اس کے لیے ذرا چند جملے ریتا بہوگنا کے پڑھ لیجیے:
وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں چلی گئیں وہ کہتی ہیں:’’ ویسے تو امت شاہ بڑے اخلاق سے پیش آئے مگر جاتے جاتے انھوں نے ایک فائل مجھے تھما دی، گھر آکر دیکھا تو اس میں میرے ان تمام بیانات کی کٹنگ تھی جو میں نے بی جے پی کے خلاف دئے تھے۔‘‘ آگے لکھتی ہیں کہ ’’میں اپنے فیصلے سے پریشان نہیں مگر اداس ہوں، شاید میں نے بی جے پی سے کچھ زیادہ ہی ا میدیں لگا رکھی تھیں۔ اب وہاں سے کوئی جواب نہیں آرہا ہے تو لگتا ہے میری قربانی رائیگاں گئی۔ ایسا ہر پارٹی میں ہوتا ہے۔ دوسری پارٹی سے کٹ کر جب لوگ کانگریس میں آتے تھے تو ہم بھی انھیں گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ ریتا کہتی ہیں مجھے کسی ملک کا سفیر بنا سکتے تھے۔ کسی ریاست کا گورنر بنا سکتے تھے مگر سب نے ۱۵ د نوں سے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔‘‘ یہ ہے پارٹی کے خلاف بیانات دینے کا انجام۔
بی جے پی اور کانگریس کا حال پڑھنے کے بعد سماج وادی پارٹی کے سب کچھ ملائم سنگھ کا جب امر اور بینی پرساد پیار دیکھتے ہیں تو مسلمانوں کو حق ہے کہ وہ جو چاہیں فیصلہ کریں۔ اور ملائم سنگھ بھی سمجھ لیں کہ وہ اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں کہ جتنے بوڑھوں کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔
موبائل نمبر:9984247500