کیااسکولوں میں فیل نہ کرنے کی پالیسی معیارِتعلیم کو برباد کررہی ہے؟۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

01:05PM Fri 16 Mar, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com ایک طرف موسم گرما کی آمدآمد ہے اور دوسری طرف اسکولوں کے تعلیمی سال کا اختتام قریب آگیا ہے اور نئے داخلوں کے موسم کا بھی آغازہوچکا ہے ۔ جہاں تک بڑے شہروں کا تعلق ہے نامورنجی اسکولوں میں داخلوں کے لئے والدین ہرامکانی کوشش اور اثر و رسوخ کااستعمال کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کیونکہ ان ’معیاری انگلش میڈیم اسکولوں‘ میں جہاں پر سی بی ایس سی یا آئی سی ایس ای کا نصاب رائج ہو وہاں پر بچوں کا داخلہ کروانا جوئے شیٖر لانے سے کم نہیں ہوتا ۔ جبکہ سرکاری اسکولوں میں تمام تر سہولتوں اور ترغیبات کے باوجود ہر سال داخلوں میں کمی آتی جارہی ہے۔اوران بیشتر سرکاری اسکولوں پر تالے لگ رہے ہیں جہاں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے ۔لیکن ہماری حکومت کی طرف سے ’حق تعلیم‘(رائٹ ٹو ایجوکیشن) کے تحت پہلی جماعت سے آٹھویں تک No Detention Policy کے نام سے اپنائی گئی طلباء کو ’فیل نہ کرنے‘ کی تعلیمی پالیسی کیا اسکولی سطح پر معیار تعلیم کو برباد کرنے کا سبب بن گئی ہے؟ جس کی وجہ سے حکومت اب اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبورہوئی ہے؟! تعلیمی پالیسی میں اختلاف: ہمارے ملک میں ایک تو ریاستی تعلیمی نصاب ہوتے ہیں جن کے اپنے امتحانی بورڈز ہوتے ہیں اوروہ ریاستی حکومتوں کے تابع ہوتے ہیں، دوسرے مرکزی نصاب تعلیم ہوتے ہیں جو سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن(CBSE)اورانڈین سرٹفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (ICSE)وغیرہ کے نام سے ملک بھر میں طلباء کویکساں تعلیم فراہم کرتے ہیں۔کچھ برسوں پہلے تک ہر ریاست کی تعلیمی پالیسی جداجداتھی اور اس میں مشترکہ بات یہ تھی کہ بچوں کی تعلیمی استعداد کا امتحان لیتے ہوئے انہیں ہر سال پاس یا فیل کیا جاتا تھا۔جبکہ سی بی ایس سی نصاب تعلیم والے بورڈ نے اس سے ملحقہ اسکولوں میں سی سی ای(Continous and Comprehensive Evaluation)کا نظام رائج کیا جس کے تحت ان کے یہاں سالانہ امتحانات کے بجائے پورے سال کے مختلف مراحل میں طلباء کے تعلیمی معیار کو مسلسل جانچنے کے بعد انہیں اگلی جماعت میں آگے بڑھاناہوتا ہے۔اور کمزور بچوں کو فیل کرنے کے بجائے انہیں دو مہینوں کی remedial teachingفراہم کرنے کے بعد دوبارہ امتحان re examلے کر پروموٹ کرنا ہوتاہے۔ حق تعلیم‘کا قانون اور سی سی ای: دستور ہند کے آرٹیکل 21-A کے تحت بچوں کو مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم فراہم کرنے کی جو ضمانت دی گئی ہے اس پس منظر میں 6 سال سے 14سال کی عمر تک یعنی پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک elementryدرجے کی تعلیم مفت اور لازمی طور پر حاصل کرنا کسی بچے کا بنیادی حق قرار دینے والا قانون’ حق تعلیم‘(RTE)سن 2009میں ملکی سطح پر رائج ہوا۔ اس ایکٹ کی دفعہ16کے تحت ’اسکول میں داخلہ لینے والے کسی بھی طالب علم کوelementryدرجے کی تکمیل تک کسی بھی کلاس میں روکنا یا اسکول سے خارج کرنا ممنوع ‘ہوگیا۔اور اسے (No Detention Policy) این ڈی پی کا نام دیا گیا۔اس پالیسی پرپورے ملک میں یکساں طور پر عمل شروع ہواتو بچوں کے تعلیمی معیار کو جانچنے کے لئے تمام ریاستوں میں ایک زمانے سے چلے آرہے’ پاس اور فیل کرنے کے نظام‘ کو ختم کردیا گیااورمرکزی بورڈ کا متعارف کیا گیا CCEکا طریقہ اپنانا لازمی ہوگیا۔اس طرح ملک گیر سطح پر چاہے کسی بورڈ سے ملحقہ تعلیمی ادارہ کیوں نہ ہو، وہاں پر پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک بچوں کو فیل کرنے پر پابندی لگ گئی۔ سی سی ای کے تحت کیا ہوتا ہے: اس سسٹم میں کسی بھی طالب علم کی استعداد اور قابلیت کا معیار جانچنے کے مختلف طریقے وضع کیے گئے ہیں ۔ مضمون پڑھانے والا استاد طالب علموں کی قدرتی صلاحیت، ذہنی بالیدگی اور شعور کو سامنے رکھ کران میں سے کوئی بھی مناسب طریقہ اپنی صوابدید پراپناتا ہے۔ جانچنے یاassessmentکے دو پیمانوں پر عمل کیا جاتا ہے جنہیںFormative اورSummativeکہاجاتا ہے۔ اس کے تحت ہر ایک یا دو اسباق کی پڑھائی کے بعدچھوٹے موٹے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں۔ کچھ موضوعات پر پروجیکٹس بنانے کا کام دیا جاتا ہے۔زبانی امتحان ہوتے ہیں۔کوئی سرگرمی ( ایکٹیویٹی) دی جاتی ہے۔ اور سال کے آخر میں امتحان کے وقت 80مارکس کا تحریری پرچہ ہوتا ہے جبکہ ٹیچرکے پا س انٹرنل 20مارکس ہوتے ہیں۔طالب علم کو پاس ہونے کے لئے تحریری پرچے میں 24مارکس لینا لازمی ہوتا ہے، بقیہ متعلقہ ٹیچر کے انٹرنل مارکس کی بنیادپر بچہ پاس یا پروموٹ ہوکر اگلی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے۔ فیل نہ کرنے کی پالیسی کا نتیجہ: اس سسٹم کونافذ کرنے کا بنیادی مقصد بچوں کے اندرسے امتحانات کا خوف اور stressدور کرنے اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو قدرتی انداز میں نکھرنے اور پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کرنا تھا۔مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ لازمی طور پر دوسری جماعت میں پروموٹ کیے جانے کی پالیسی سے بچوں کے اندرامتحانات کی اہمیت ہی باقی نہیں رہی۔ اس لئے پڑھائی میں دلچسپی اور محنت کم سے کم تر ہوتی گئی۔ سرکاری پالیسی کے مطابق اگر بچہ کسی جماعت میں پاس نہیں ہوتاہے تو اسے دومہینے کی اضافی تربیت کے بعد دوبارہ امتحان دینے کا موقع ملنا چاہیے اور اس کی بنیا دپر اگلی جماعت میں شامل کروانا چاہیے۔یہ توفطری بات ہے کہ ہر جماعت میں کچھ کمزور یادداشت والے یا پڑھائی لکھائی سے جان چھڑانے کے چکر میں رہنے والے یا پھر انتہائی غبی قسم کے دوچار طلباء موجود رہتے ہیں۔انہیں پڑھائی پر آمادہ کرنے کا ہتھیار فیل ہونے کا خوف ہی ہوسکتاتھا، لیکن اس نئے نظام سے ایسے طالب علموں کوبھی اس بات کا یقین ہوگیا کہ کوئی بھی مائی کالال انہیں فیل نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں ذہین یا اوسط ذہانت والے بچوں کے حق میں بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے اندر اچھے اور عمدہ نتائج کے لئے بڑھ چڑھ کر مقابلہ کرنے کا جذبہ کم ہوتاگیا۔ اساتذہ کی مجبوریاں: ایک تو اس نظام میں کاغذی کارروائیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اساتذہ کو فراغت کم ہی ملتی ہے اور بلاوجہ کی مصروفیت ان کے لئے ذہنی و اعصابی تناؤ کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ کمزور اور کُند ذہن بچوں پر توجہ دینا چاہیں تو بھی بچوں اور والدین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ اورجب کسی بچے کو فیل کرنا ہی نہیں ہے تو پھر’ کون خواہ مخواہ اپنی جان کھپائے‘ والی صورتحال بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ کی بڑی تعداد آسان راستے سے کاغذی کارروائیاں پوری کرنے اور رزلٹ تیار کرنے میں ہی عافیت سمجھے گی۔ اس لئے کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ اسکول میں مشاہدہ کرنے پر ایسے بچے تک مل جائیں گے جو آٹھویں او رنویں کلاس میں رہنے کے باوجود اپناپورا نام اور پتہ صحیح ڈھنگ سے لکھ نہیں پائیں گے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور السلام علیکم جیسے الفاظ صحیح ڈھنگ سے لکھ نہیں پائیں گے۔ تجربے سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اسی طرح مسلسل پاس یا پروموٹ کیے جانے کی وجہ سے کالج کی سطح پرفطری ذہین اور چالاک طلباء کو چھوڑکر باقی ماندہ طلباء کی استعدادعام طور پر وہ نہیں ہوتی جوکہ ہونی چاہیے۔ سرکاری افسران کا دباؤ: یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ سرکاری، امدادی اور غیر امدادی اسکولوں کے اساتذہ پرمحکمۂ تعلیم کے افسران کا دباؤ الگ سے ہوتا ہے کہ کسی بھی حالت میں اسکول کا رزلٹ خراب نہیں آنا چاہیے۔سی سی ای سسٹم کے تحت ٹیچر کے پاس جو 20مارکس (یافرسٹ لینگویج کے لئے 25مارکس) ہوتے ہیں اس میں صرف ایک یا دو مارکس ہی کم کیے جاسکتے ہیں، بقیہ 18(یا 23مارکس) ہر حالت میں دینا ہوگا۔سالانہ امتحان میں فرض کیجیے کہ 80مارکس کے تحریری پرچے میں طالب علم نے چاہے صرف دو یا تین مارکس بھی کیوں نہ حاصل کیے ہوں، سسٹم کہتا ہے کہ اسے دو مہینے تک remedialٹیچنگ دی جائے۔ اگر کچھ اساتذہ اپنی چھٹیاں غارت کرکے دوایک ہفتے تک ایکسٹرا کلاس لیں یا پھر وہی سوالات والاپرچہ چھٹیوں میں گھر پر حل کروانے کے بعداس کا re examلیں، اور اس وقت بھی وہ طالب دو، چاریا چھ مارکس حاصل کرے تب بھی اسے فیل نہیں کیا جاسکتا بلکہ خواہ مخواہ کے مارکس رجسٹر میں بھر کر اسے اچھے نمبروں سے پاس دکھانا پڑتا ہے۔اورنہ چاہتے ہوئے بھی اساتذہ کو اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ جوٹیچر بچوں کو اخلاقی اقدار کی تعلیم دے، جھوٹ اور فریب سے دور رہنے اور بدعنوانیوں سے بچنے کا سبق پڑھائے اور پھر اس کے بعد اسی ٹیچرکواپنے ضمیر کے خلاف عملاً بدعنوانیاں کرنے پر مجبورہونا پڑے تو ایسے میں ہمارا معیار تعلیم وتربیت بربادنہ ہوگا تو پھر کیا ہوگا۔

منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا بڑا کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستانِ گلاب لکھنا

پبلک امتحانات کے نتائج معیار نہیں ہوتے: عام طور پر چاہے مرکزی بورڈز ہوں یا ریاستی بورڈز کے پبلک امتحانات ہوں، چند بہت ہی ذہین طلباء کی اپنی ذاتی صلاحیتوں سے ہٹ کر منجملہ اگر دیکھا جائے تو ہر جگہ گول مال نظر آتا ہے۔ جہاں تک CBSEاورICSEبورڈز کا تعلق ہے ان کے یہاں ابتدائی یا elementaryدرجات تک کوئی سخت او رمبسوط نصاب تعلیم نہیں ہوتااور امتحانات بھی نہیں ہوتے، جو کچھ ہونا ہے وہ متعلقہ تعلیمی ادارے کی پالیسی کے مطابق ہوتا ہے۔سیکنڈری اورسینئر سیکنڈری لیول پرCBSEکا نصاب تعلیم ہوتا ہے اور اسی نصاب پر مشتمل تمام نیشنل لیول کے اینٹرنس امتحانات ہوتے ہیں۔ ویسے سیکنڈری اورسینئر سیکنڈری سطح پر ان بورڈز کے امتحانات میں بھی زیادہ تر معاملات متعلقہ تعلیمی ادارے کے ہی ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ مرکزی بورڈز سے ملحقہ اسکولوں کے تعلق یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ جس قسم کا بھی رزلٹ متعلقہ تعلیمی ادارہ بناکر بھیجتا ہے اس کی توثیق کردی جاتی ہے اور ا ن مرکزی بورڈز سے ملحقہ اسکولوں کے مجموعی طور پر100% رزلٹ نکلنے کے پیچھے کی کہانی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ کچھ یہی حال ریاستی بورڈکے امتحانات کا بھی ہے۔ البتہ شعبۂ تدریس سے وابستہ جانکاروں کا کہنا ہے کہ پبلک امتحانات میں ریاستی نصاب والے اسکولوں کے نتائج کی شرح کم اس لئے ہوتی ہے کہ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اب بھی یہاں جانچ پڑتال میں کچھ تو سختی اور چستی باقی ہے جبکہ مرکزی بورڈز کے امتحانات کے نتائج ہمیشہ صد فی صد یا دو ایک فیصد کم نکلنے کے پیچھے تعلیمی اداروں کی طرف سے دکھائی گئی کاری گری کا بڑا رول ہوتا ہے۔اس لئے چند ایک معروف ترین اور معتبر تعلیمی اداروں کو مستثنیٰ کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ پبلک امتحانات کے نتائج کی شرح فیصدکسی تعلیمی ادارے کامقام اورمعیار تعلیم ظاہر کرنے والا پیمانہ نہیں ہوتی ۔

اب مرے رازِ محبت کا خدا حافظ تبصرے اس نگہہِ ناز تک آ پہنچے ہیں

حکومت کو اس کا احساس ہے: آر ٹی ای قانون اور اس کے ساتھ سی سی ای کا نظام اورNo Detention policy ملک بھر میں لاگو کرنے کے بعدمعیار تعلیم میں جو گراوٹ آئی ہے اور ’’آٹھویں جماعت تک کسی بھی طالب علم کو کسی بھی حالت میں فیل نہ کرنے ‘‘کے نقصانات سامنے آرہے ہیں اس کا احساس مرکزی حکومت کو ہوگیا ہے۔وزارت فروغ انسانی وسائل (HRD) کی طرف سے اس کا جائزہ لینے کے لئے قائم (CABE) Central AdvisoryBoard of Educationنے 2012میں ایک ضمنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جس نے 2014میں اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی ۔اگست 2015میں CABE نے ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزکے ماتحت علاقوں(Union Territories)سے گزارش کی کہ No Detention policy کے مسئلے پر اپنی آراء اور تجاویز بورڈ کو بھیجیں۔اس کے جواب میں ملک کی 23ریاستوں نے اس نئے نظام کی وجہ سے معیار تعلیم کی گراوٹ اور اس پالیسی کے نقصانات کا ذکر تے ہوئے مشورہ دیا کہ این ڈی پی میں ترمیم کی جائے ۔پھر ترمیمات کے امکانات اور مشوروں کاجائزہ لینے کے لئے CABEنے ایک اور ضمنی کمیٹی بنائی گئی۔جس کے بعد پالیسی میں ترمیم کے تعلق سے نئی تجاویزیہ سامنے آئیں کہ : ۱) پانچویں جماعت میں طلباء کا امتحان ہو۔ اور یہ امتحان اسکول کی سطح پر ہوگا یاریاستی بورڈ کی سطح پر ہوگا اس کا فیصلہ متعلقہ ریاستوں اور مرکز کے ماتحت علاقوں پر چھوڑدیا جائے۔ ۲) اگر طالب علم اس امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو اسے دوبارہ امتحان لکھنے کا ایک موقع اور دیا جائے۔ پھر بھی وہ فیل ہوتا ہے تو اسے پانچویں کلاس میں روک لیا جائے۔ ۳) چھٹی اور ساتویں جماعت میں اسکول کی سطح پرطلباء کا امتحان ہونا چاہیے۔ ۴) آٹھویں جماعت میں بیرونی externalامتحان(پبلک) ہو ۔ اگر طالب علم اس امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو پھر دوبارہ امتحان لکھنے کا ایک او ر موقع اسے دیا جائے۔ پھر بھی وہ فیل ہوجائے تو اسے آٹھویں جماعت میں روک لیا جائے۔ نصاب میں ترمیم کے لئے حکومت کا اقدام: واضح رہے کہ ان تجاویز پر عمل درآمد کے لئے آر ٹی ای ایکٹ2009 کی دفعہ 16میں ترمیم ضروری ہے ۔اس تعلق سے حکومت نے Right to Education (2ndAmendment) Bill, 2017پارلیمنٹ میں پاس بھی کروالیامگر امتحانات اور ’پاس اور فیل ‘کرنے کا پرانا نظام اسکولوں میں دوبارہ واپس لانے کی ترمیم ابھی التواء میں پڑی ہوئی ہے۔ امسال بجٹ سیشن میں اسے پاس کروانے کی امید HRDوزارت کی طرف سے جتائی گئی تھی۔ تاحال تمام اسکولوں کا نظام پہلے سے رائج پالیسی کے تحت چل رہا ہے۔ وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکرنے تازہ ترین بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ تعلیمی سال یعنی 2019 - 20میں نصاب تعلیم کی پالیسی پر مرکز اور ریاستی حکومتوں کو صلاح دینے اور درسی کتابیں تشکیل دینے والے مرکزی سرکار کے ادارے این سی آ ر ٹی The National Council of Educational Research and Trainingکی طرف سے طلباء کے لئے اس وقت اول جماعت سے بارھویں جماعت تک رائج نصاب میں50فی صدی کی تخفیف کی جائے گی۔اس کا اطلاق CBSE اورICSEجیسے مرکزی بورڈ ز کے علاوہ یاستی بورڈز پربھی ہوگا۔اس سے دو ایک ہفتے پہلے NCERTنے اعلان کیا تھا کہ وہ درسی کتب میں کچھ اہم اصلاحات کرنے جارہی ہے، تاکہ طلباء کے اندر تخلیقی وناقدانہ (Creative & Critical)سوچ کو پروان چڑھایا جاسکے۔وزیر موصوف کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اساتذہ کے معیار تدریس کو بہتر اور کارآمد بنانے کے لئے 20لاکھ اساتذہ کوآر ٹی ای قانون کے تحت خصوصی ٹریننگ دینے کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔ کیا یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی ہے؟: طلباء اور والدین نے جہاں نصاب میں تخفیف کے اس منصوبے کو پسند کیا ہے جس کی توضیح وزیر فروغ انسانی وسائل نے یہ کی ہے کہ طلباء کو خواہ مخواہ کے درسی ابواب سے چھٹکارہ دلانا اور ان کے بستے کا بوجھ کرتے ہوئے انہیں زندگی کے لئے کارآمد فنون اور اسلوب life skillsسے ہم آہنگ کرنا ، ان کے فطری میلانات کی نشو ونما کرنا اورانہیں موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بنانا ہے۔اس کے باوجود کچھ حلقوں کی طرف سے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اگرچہ کم عمر اسکولی بچوں پر فی الحال ’بستے کا بوجھ‘ بہت ہی زیادہ ہے اور حکومت کی نئی پالیسی یقیناًچھوٹے چھوٹے بچوں کو اس سے نجات ضرور دلائے گی ۔لیکن سچائی تو یہ بھی ہے کہ زعفرانی سیاست کے عملی ایجنڈوں میں نصاب تعلیم کو اپنے مقاصد پورا کرنے کے لائق بنانا بھی شامل ہے۔ اور خاص کر تاریخ (ہسٹری) کا مضمون فسطائی ایجنڈے کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ نصاب میں تخفیف کے بہانے ردو بدل اور حذف واضافے کا عمل شاید زعفرانی تصورات کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ درس وتدریس کے ماہرین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جویہ سمجھتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر نصاب میں تخفیف طلباء کو مختلف مضامین اور مختلف النوع معلومات سے نابلد کرنے یا بالکل سطحی معلومات تک محدود رکھنے کا سبب بننے کے علاوہ ان کے مقیاس ذہانت(IQ) Intelligence Quotient میں گراوٹ کا سبب بن جائے گی۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جب اس پالیسی کا عملی اطلاق ہوگا تو کیا رنگ کھل کر سامنے آتا ہے۔بقول اقبالؔ

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ