سچی باتیں ۔۔۔ نفسیات بشری ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

07:50PM Wed 24 Oct, 2018

             اللہم انی استغفرك مما تبت الیک منه ثم عدت فیه واستغفرك لما اعطیتک من نفسی ثم لم اوف لک بہ واستغفرک  النعم التی تقویت بھا علی معصیتی و استغفرک لکل خیر اردت بہ الیک تخالطنی فیہ ما لیس لك

             اے اللہ میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس گناہ سے جس سے میں نے توبہ کی اور پھر لوٹ کر اس میں بڑا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس چیز کے بارے میں جس کا میں نے تجھ سے وعدہ کیا اور پھر اسے پورا نہ کیا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس نیکی کے بارے میں کہ اسے میں نے خالص تیرے ہی لئے کرنا چاہیے تھا، مگر اس میں وہ چیز مل جل گئی جو تیرے لیے نہ تھی۔

             لاچار مستقل دعاؤں کی جامع دعا حدیث نبوی کی ہے، ہر امتی کے پڑھنے کے قابل، روزانہ ورد رکھنے کے قابل، رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے حکیم اعظم بھی تو تھے، کیسی گہری گہری باتیں، کام کی، پتہ پتہ کی فرما گئے ہیں ۔۔۔ بشری کے کیسے کے سے تاریک گوشے گویا نظر کے سامنے آئے ۔ آئینہ توجہ وہ التفات سے امت کا ایک فرد بھی محروم نہیں۔ زاہد شب زندہ دار اور اہل تقوی سے لے کر بڑے سے بڑے عاصی و مجرم تک۔

            ذرا پہلے اپنے نفسوں کو ٹٹول کر دیکھیں گے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور پھر اندازہ کیجئے کہ کتنے محتاج ان دواؤں اور ان ان التجاؤں کے ہیں۔ ۔گناہ کرتے ہیں، چونکتے ہیں، توبہ کرتے ہیں اور پھر اسی معصیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ نہ ہم گناہ کو چھوڑتے ہیں نہ گناہ ہم کو، تنگ آکر اپنے میں عزم راسخ پیدا کرنے کے لئے اپنے خالق سے عرض کرنا پڑتی ہے کہ اے اللہ ہمیں اس گناہ سے بچا، جس سے ہم توبہ کرتے ہیں، اور پھر پلٹ پلٹ کروہی کیے جاتے ہیں، نیکی کی دل میں اٹھتی ہے، عبادت کرتے ہیں، اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ فلاں چیز کریں گے، کھلا نہ کریں گے شیطان اور نفس غالب آجاتے ہیں، ہمت کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں جو کہا تھا اسے بھلا بیٹھتے ہیں، جو نہ کرنا تھا وہ کر گزرتے ہیں آخرکار پھر اسی مالک و مولیٰ کے دربار میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ در گزر کر مجھ کمینے سے جو بار بار وعدہ کرتا ہے اور بار بار وعدہ توڑ ڈالتا ہے، پھریاد پڑھ جاتا ہے کہ گناہ کی یہ قوت اور سکت کہاں سے آتی ہے؟ انہی کی دی ہوئی غذائیں کھا کھا کر، انہیں کا دیا ہوا پانی پی پی کر، انہی کی چلائی ہوئی ہوا میں سانس لے لے کر، غرض یہ کہ ساری انہی نعمتوں کے بل پر تو یہ خون میں حرارتیں اور نظمیں شرارتیں ہیں،واہ رے بے اہمیت، اب تو سجدے میں گر اور دعا کے لئے جھک کہ جو کھلائے، پلائے، جلائے عین اسی کے مقابلے میں بغاوتیں

             ایک نفس پر جب سے بڑھ کر ضرب کاری چوتھی اور آخری دعا۔ ہائے ہائے کس کو اس کا تجربہ نہیں؟ کس دن یہ آپ بیتی گزر کر نہیں رہتی،  شروع شروع میں کیسا اخلاق ہوتا ہے، ایسا سچا جوش اللہ ہی کی رضا جوئی کا ہوتا ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے، کیسا شرک شروع ہوجاتا ہے، خالق کی رضا کے ساتھ ساتھ مخلوق کی رضا طلبی بھی کیسی شریک ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ غالب آتی جاتی ہے اور عمل کرنے والے کو بالکل بربادہی کرکے رہتی ہے، کتنے واعظ ہیں جو حاضرین کی”سبحان اللہ“ اور”ماشااللہ“ کی صداؤں کے انتظار میں نہیں رہتے؟ کتنے اہل قلم ہیں جو ناظرین کی داد تحسین سے مستغنیٰ ہیں؟غرض کوئی حاضرین کو اپنا آلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی ناظرین کو، رسول کی دعائیں امت ہیں کہ حال کا آئینہ ہیں، ورنہ جو سید الانبیاء بنا کر بھیجا گیا، ظاہر ہے اس کی اپنی ذات معصوم کے لیے تو یہ کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتے، کیا حرج ہے اگر کبھی ہم اور آپ آئینے میں اپنا اپنا چہرہ دیکھ لیں