سچی باتیں۔۔۔موت وحیات کی کشمکش۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:00PM Sat 18 Feb, 2023

1931-08-14

(مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

بمبئی کے انگریز مصور ہفتہ وار ٹائمس آف انڈیاؔ (۲؍اگست کے پرچہ) میں ایک انگریز شکاری کی تصویر شائع ہوئی ہے، جو شیر کا شکار کرنے گیاتھا۔ شیر نے اُلٹا خود اُسی پر حملہ کردیا۔ تصویر میں منظر یہ دکھایاہے، کہ شیر اپنے پچھلے پَیروں پر کھڑا ہوا، پوری غضبناکی، خون ریزی اور درندگی کے ساتھ شکاری پر حملہ آورہے، شکاری کی بندوق دانتوں میں لئے ہوئے چاہتاہے ، کہ چباکر ریزہ ریزہ کرڈالے، اور پنجوں سے چاہتاہے کہ شکاری کے چہرہ اور بازو کو چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ شکاری کے چہرہ پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں، وہ سمجھ رہاہے، کہ جانور کا نہیں، ملک الموت کا سامنا ہے، خون کے شرارے جسم سے جاری ہیں، پھر بھی ہمت وپامردی سے مقابلہ کئے جارہاہے، یہاں تک کہ (اخبار کے مضمون نگار کی تصریح ہے) غالب آجاتاہے، زخمی درندہ مہلک زخم کھاکر خود ہی بھاگ نکلتاہے۔

حکایت اپنے سارے جزئیات میں صحیح ہو یا نہ ہو، یہاں سوال صرف یہ ہے کہ آپ نے اس قصہ سے کوئی سبق حاصل کیا؟ آہ، کہ ہم بھی اسی طرح دُنیا کے وسیع صحراء میں، خواہشوں اور آرزوؤں کے لق ودق جنگل میں ایک بڑے زبردست وہیبتناک درندہ کے چنگل میں گرفتارہیں۔ ہم کو بھی ایک بڑے پُرقوت موذی سے اسی طرح دست بدست جنگ، اور مَوت وحیات کی کشمکش درپیش ہے، اِس دشمن کا نام شیطان رکھئے، یا نفس کہہ کر پکارئیے، بہرحال مقابلہ شیر ہی کی طرح سخت ہے۔ الحمد للہ کہ ایمان کی بندوق ہر مومن کے ہاتھ میں ہے، درندہ اس پر بھی حملہ کرے گا ، لیکن اگر ہم نے بندوق کا استعمال پوری طرح سیکھ لیاہے، اگر ہم نے ایمان کو اپنے قلب میں راسخ کرلیاہے، تو ان شاء اللہ خود اُس حملہ آور کے دانت ٹوٹ کر گرجائیں گے، اور یقینا وہ موذی باالآخر خود ہی ناکام وخوار ہوکر بھاگے گا شرط یہ ہے ، کہ ہمت قوی رہے، مقابلہ پامَردی سے جاری رہے، اور ضعف و بُزدلی دل میں راہ نہ پانے پائے۔

آئیے، ہم اور آپ مل کر، تنہائی کی گھڑیوں میں ، رات کی خلوتوں میں، دل کی رقّتوں کے ساتھ، روکر اور گڑگڑاکر، رکوع میں جھُک جھُک کر ، اور سجدہ میں گرگر کر یہ دعا مانگیں، کہ اے حاکموں کے حاکم اور مالکوں کے مالک ، زندگی جو جس طرح کٹ رہی ہے، بہرحال کٹ ہی جائے گی، لیکن جب وہ وقت آئے، کہ گرم گرم سانس سینہ میں گھٹنے لگے، یہ چلتی ہوئی زبان لڑکھڑا لڑکھڑا کر رُکنے لگے، یہ چمکتی ہوئی آنکھیں پتھرانے لگیں، یہ پنڈلیاں برف کی طرح سرد ہوکر رہ جائیں، یہ عزیز خون رگ رگ کے اندر کھنچ کرنکلنے لگے، اپنی آنکھ اور اپنے کان اپنے ہاتھ اور پانے پیر سب دغا دے کر رہیں، یہ دھڑکتا ہوا دل اپنی آخری دھڑک کے ساتھ بند ہونے لگے، اُس وقت اے کریموں کے کریم، اور داتاؤں کے داتا، آخری کشتی اُس دیولعین کے ہاتھ نہیں، تیرے رسولؐ کے امتی کے ہاتھ رہے، اپنی کریمی اور رحیمی کے صدقہ، اُس گھڑی غلبہ اسی مشت خاک کو دینا ! زندگی کے سارے سانس اگر کفرانِ نعمت میں گزر رہے ہیں، تو گزرتے رہیں، لیکن سب سے آخری سانس، کفر پر نہیں، ایمان پر، تیری توحید کے ایمان، اور تیرے رسولؐ  کی تصدیق پر ٹوٹے!