Abdur Rahman Akrami Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار و در"
سلطانی محلہ شہر بھٹکل کا ایک تاریخی محلہ ہے۔ وہ محلہ جہاں ایک زمانے میں علم و ادب کی روشنی پھیلی، بڑے بڑے ادباء شعراء اور دین و ملت کے خدمت گزار پیدا ہوئے اور قوم کے وقار کو دنیا بھر میں عام کیا۔ چند سال قبل تک یہاں کی گلیاں رونق افزا تھیں، ہر گھر میں زندگی کی حرارت تھی اور سلطانی مسجد کی عظمت نے پورے علاقے کو ایمان و تقویٰ کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔
بھٹکل کی قدیم عیدگاہ پر شہیدِ ملت حضرت ٹیپو سلطان نے اپنے دورِ حکومت میں ایک شاندار مسجد ١٢١١ ہجری مطابق ١٧٩٦ عیسوی میں تعمیر کروائی جو خوبصورتی اور عظمت و رفعت کا نمونہ تھی۔ یہاں پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ عیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں ۔ یہ مسجد رفتہ رفتہ "سلطانی مسجد" کے نام سے مشہور ہوئی اور اس کے اطراف کا علاقہ بھی "سلطانی محلہ" کہا جانے لگا ۔ یوں یہ مسجد آج بھی بھٹکل کی تاریخ اور ٹیپو سلطان کی دینی وابستگی کی روشن یادگار ہے۔
دعوت و تبلیغ کی تاریخ بھی اس مسجد کے در و دیوار سے جڑی ہوئی ہے۔ کہاجاتاہے کہ پہلی مرتبہ ١٩٥٢عیسوی میں گجرات سے آنے والی تبلیغی جماعت اسی سلطانی مسجد میں اتری تھی۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک بروز بدھ بعد نماز عصر پورے شہر کا ہفتہ واری تبلیغی مشورہ اسی مسجد میں ہوتا تھا۔
سلطانی مسجد میں رمضان المبارک کی بابرکت راتیں ایک خاص روحانی کیفیت سے لبریز ہوا کرتی تھیں۔ یہاں تراویح میں باقاعدہ ختمِ قرآن کا حسین اور منظم نظام رائج تھا۔ قراء کرام اپنی خوبصورت تلاوت کے ذریعے سامعین کے دلوں کو نورِ ایمانی سے منور کرتے اور مسجد کے گوشے گوشے میں ایک روح پرور سکون چھا جاتا۔
اس زمانے میں بھٹکل کی محض ایک دو ہی مساجد میں ختمِ قرآن کے ساتھ تراویح کا یہ بابرکت سلسلہ قائم تھا، اور ان میں سلطانی مسجد کا شمار ہمیشہ نمایاں رہا۔ اسی طرح سلطانی مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف بڑے بزرگوں کی نگرانی میں تعلیم وتربیت کے اعتبار سے ایک یادگار اعتکاف ہوا کرتا تھا۔
اس زمانے میں جب فون اور واٹس ایپ کی سہولت نہیں تھی، لوگ اپنے عزیز و اقارب کی خیر خبر خطوط کے ذریعے لیا کرتے تھے۔ سلطانی محلہ میں صحن کے ایک گوشے میں ٹوکری( مُٹّی) رکھی جاتی، جہاں دور دراز سے آنے والے خطوط ڈالے جاتے۔ یہ خطوط ان افراد کے ہوتے جو معاش کی غرض سے ہندوستان یا بیرونِ ملک مقیم رہتے اور اپنے گھر والوں کو حالات سے آگاہ کرتے۔ یوں یہ محلہ ایک مثالی نظام اور رابطے کا مرکز تھا۔
بھٹکل کی مساجد میں قدیم زمانے میں تالاب ہوا کرتے تھے، جن کا استعمال وضو کے ساتھ ساتھ سماجی تربیت کے لئے بھی ہوتا۔ صحنِ سلطانی کا عظیم تالاب اس کی روشن مثال تھا ؛جہاں بچے اور بوڑھے سب تیراکی کیا کرتے تھے۔ یہ نظام نہ صرف صحت مند جسم اور مضبوط اعصاب کا ضامن تھا بلکہ بچوں میں نڈر پن اور خود اعتمادی بھی پیدا کرتا تھا۔