Abdul Haleem Mansoor Article
؎ تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہو نصیب تو محمل نہ کر قبول
ٹیپو سلطان شہیدؒ کا نام ہندوستان کی تاریخ میں صرف ایک حکمران کے طور پر نہیں آتا بلکہ بہادری، عزتِ نفس، عدل و انصاف اور آزادی کی علامت کے طور پر جگمگاتا ہے۔ وہ برصغیر کے پہلے ایسے حکمران تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو للکارا، اپنی سلطنت کے وسائل جدید خطوط پر استوار کیے، اور آزادی کی وہ شمع روشن کی جس کی روشنی آج تک مدھم نہیں ہوئی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاست نے اس عظیم شخصیت کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ کرناٹک میں ٹیپو جینتی کا تنازع اسی رویے کی روشن مثال ہے، جہاں کبھی انہیں احترام ملا، کبھی انہیں نظرانداز کیا گیا اور کبھی غیرضروری تنازعات میں دھکیل دیا گیا۔
سدارامیا کی پہلی حکومت نے جب 2015 میں ہر سال 10 نومبر کو ٹیپو جینتی سرکاری سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تو مقصد یہ تھا کہ نئی نسلوں کو اس مردِ آہن کی تاریخ سے روشناس کرایا جائے جو غلامی پر موت کو ترجیح دیتا تھا۔ اس موقع پر سرکاری تعطیل رکھی گئی، ریاست بھر میں تقریبات ہوئیں، اور ٹیپو سلطان کی شجاعت، دوراندیشی اور اصلاحات پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ فیصلہ کسی سیاسی یا مذہبی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثے کی قدردانی کے لیے کیا گیا تھا۔
مگر جیسے ہی اقتدار بدلا، فیصلہ بھی بدل گیا۔ بی جے پی حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی سرکاری ٹیپو جینتی کو منسوخ کر دیا، حالانکہ اسی بی جے پی میں یڈیورپا کی قیادت کے دوران اقلیتی مورچہ پُر وقار انداز میں ٹیپو جینتی منایا کرتا تھا۔ اُس وقت ٹیپو سلطان کی شجاعت کے تذکرے ہوتے تھے اور انہیں ’’شیرِ میسور‘‘ کہا جاتا تھا، لیکن سیاسی ماحول بدلا تو موقف بھی بدل گیا اور ایک قومی ہیرو کو غیر ضروری تنازع کا حصہ بنا دیا گیا۔
چند مقامات پر پیش آنے والے معمولی تناؤ کو بہانہ بنا کر سرکاری پروگرام ختم کر دیے گئے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر تناؤ سیاسی مفادات کی پیداوار تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ٹیپو جینتی ہی امن کے لیے خطرہ تھی؟ یا پھر اس تنازع کو سیاسی طور پر پروان چڑھایا گیا تاکہ ایک تاریخی شخصیت کو کمزور کیا جا سکے؟
حقیقت یہ ہے کہ امسال بھی ریاست بھر میں برادرانِ وطن کی متعدد علاقائی شخصیات کی جینتیاں سرکاری سرپرستی میں منائی گئیں، لیکن ٹیپو جینتی پر قدغن برقرار رہی۔ اس امتیازی طرزِ عمل نے یہ تاثر مضبوط کیا کہ مسئلہ امن کا نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کا ہے۔
تاریخی دستاویزات بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے اپنے دور میں مذہبی ہم آہنگی کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ اُن کی انتظامیہ میں بڑی تعداد میں ہندو عہدیدار تھے، انہوں نے مندروں کے لیے زمینیں وقف کیں، رعایا کے مذہبی جذبات کا احترام کیا اور مختلف عقائد کے پیروکاروں کو برابر حقوق فراہم کیے۔ انگریز ریکارڈ تک اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ ایک منصف اور انصاف پسند حکمران تھے۔ اس کے باوجود انہیں مذہبی تنازع میں گھسیٹ کر اُن کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
سدارامیا کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد لوگوں نے توقع کی کہ شاید ٹیپو جینتی دوبارہ سرکاری سطح پر بحال ہو جائے گی، لیکن سیاسی مصلحتوں نے اس امکان کو بھی ختم کر دیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ تاریخی حقائق بھی سیاسی دباؤ کے سامنے خاموش ہو گئے ہیں۔ ٹیپو سلطان کی عظمت کسی جینتی کی محتاج نہیں، لیکن اس جشن کے آغاز اور خاتمے نے اُن کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور منظم غلط فہمیوں کو ضرور تقویت دی۔
ٹیپو سلطانؒ کو کبھی ’’جابر‘‘ کہا گیا، کبھی ’’سیکولر ہیرو‘‘؛ کبھی ’’ظالم‘‘ اور کبھی ’’مجاہدِ آزادی‘‘۔ مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی کردار کو اُس کے دور، اُس کے حالات اور اُس وقت کی ضرورتوں کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان نہ مذہبی انتہا پسند تھے اور نہ جدید معنی کے سیکولر۔ وہ ایک منظم، منصف، دوراندیش اور بین الاقوامی بصیرت رکھنے والے حکمران تھے جنہوں نے برطانوی پیش قدمی روکی، فوجی و عدالتی اصلاحات نافذ کیں، زرعی و معاشی پالیسیوں کو مضبوط کیا، راکٹ ٹیکنالوجی کو جنگ میں استعمال کیا، اور فرانس، ترکی اور ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔
ٹیپو سلطان کی شخصیت کا خلاصہ اُن کے ہی قول میں چھپا ہوا ہے:
؎ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے
یہ محض ایک قول نہیں بلکہ اُن کے پورے کردار کا عکاس ہے۔ انہوں نے اپنی جان، تاج اور سلطنت قربان کر دی، مگر غلامی اور کمزوری قبول نہیں کی۔
مسئلہ دراصل ٹیپو سلطانؒ نہیں بلکہ وہ سیاست ہے جو تاریخ کو اپنی ضرورت کے مطابق بدل دیتی ہے۔ اقتدار کے ساتھ فیصلے بدل جانا دراصل تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ رویہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا کرتا ہے، قومی ورثے کی بے قدری کرتا ہے، اور ایک ایسے مجاہد کی شبیہ بگاڑتا ہے جو ہندوستان کی آزادی کے اولین چراغوں میں سے ایک تھا۔
ٹیپو جینتی کا تنازعہ اس بات کی زندہ مثال ہے کہ آج ملک میں تاریخ تحقیق کا نہیں بلکہ سیاست کا موضوع بن چکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیپو سلطانؒ کو سیاسی خانوں سے آزاد کیا جائے، انہیں مذہبی تقسیم کے پیمانوں میں نہ تولا جائے، بلکہ اس عظیم سپوت کے طور پر یاد رکھا جائے جس نے ہندوستان کو عزت، خودداری اور مزاحمت کا پیغام دیا۔
؎ جیتے ہیں مثالِ شمع وہی جو جل کے مر جائیں
نام اُن کا زندہ رہتا ہے، باقی سب کہانی ہے
ضروری وضاحت : اس مضمون میں درج تمام خیالات مضمون نگاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں سے کسی بھی بات پر ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادار ہ بھٹکلیس