دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور کیرانہ کے قصبوں سے گزرے۔ خیال تھا کہ صبح دس گیارہ بجے تک پہنچیں گے۔ لیکن وہ انسان ہی کیاجو اپنے تمام ارادوں میں کامیاب ہو جائے، خالق اور مخلوق کے فرق کا احساس ایسے ہی موقعوں پر ہوا کرتا ہے۔کاندھلہ پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہوگیا۔ کاندھلہ یوں تو ایک تاریخی بستی ہے، مسلمان ہند کے علم و جہاد کی داستانیں اس سے وابستہ رہی ہیں ، مغلوں کے آخری دور اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ قصبہ مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل بن گیاتھا، ۱۸۵۷ ء کے انقلاب میں اس قصبہ نے خون سے اپنی تاریخ لکھی، اس تاریخی قصبے کو دیکھنے، یہاں کی مٹی کو سرمہ بنانے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم یہاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصد اسلاف کی نشانی ، اور برصغیر کے عظیم مورخ و محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔ مولانا ایک عظیم کتب خانہ کے مالک ہیں ، اور آپ کی بہت ساری علمی اور تحقیقی کتابیں منظر عام پر آکر اہل علم میں سند قبولیت حاصل کرچکی ہیں، لیکن اب بھی آپ کے سینے میں عظمت اسلاف کی ایسی داستانیں محفوظ ہیں، جو صفحہ قرطاس میں قید نہیں ہوئی ہیں۔ اس قصبے میں مسلمان چھٹی صدی ہجری سے آباد ہیں ، مولانا کے آباء و اجداد پہلے پہل ۷۵۰ھ میں یہاں آئے تھے، یہاں پر علماء و اکابر مغلوں سے پہلے سے پائے جاتے رہےہیں ، اپنے سنہرے دور میں یہاں پر بڑے بڑے کتب خانے آباد تھے، لیکن مغلوں کے آخری دور میں مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں نے اس علاقے کو تاراج کیا اور دو مرتبہ یہاں کے قیمتی کتب خانوں کو جلا دیا۔اس تاراجی کے بعد مولانا مفتی الہی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر از سر نو علم کی سیج سجائی ، اور کتب خانہ کی بنا ڈالی، آپ کے پوتے مولانا نور الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا نام پایا، آپ بہت زبردست عالم دین تھے، دو مرتبہ شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری کا درس مکمل کیا تھا، مفتی صدر الدین آزردہ کے بھی آپ شاگرد رشید تھے،آپ علامۃ الدھر تھے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ جیسے متکلم اسلام نے عیسائیوں کے خلاف جب اپنی عظیم الشان کتاب ازالۃ الاوہام لکھی تو آپ کو اپنی کتاب نظر ثانی کے لئے یہ کہ کر عنایت کی کہ آپ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی نظر اس کتاب کی کمزوریوں تک جاسکے ۔یہاں سے اس کتب خانے نے بڑی ترقی کے مراحل طے کئے، اس زمانے میں اس میں نو ہزار قلمی نسخے محفوظ تھے، ہندوستان میں چھپنے والی سبھی کتابیں یہاں آتی تھیں،یہ کتب خانہ تقسیم ہند کے دنوںمیں ضائع ہوگیا۔ مولانا نور الحسن راشد صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو اس میں ڈھائی سو کتابیں باقی رہ گئی تھیں، اس وقت کسی نے آپ کو قلمی کتابوں اور کتب خانے کی قدر وقیمت بتائی نہ ہی مخطوطات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کی، بس خدا کی ایک دین تھی جو آپ کو اس قومی ورثے کی اہمیت کا احساس ہوا ، اور راہیں کھلتی چلی گئیں، آپ نے پیٹ کاٹ کر کتابیں جمع کرنی شروع کیں، کچھ دوست احباب بھی کتابیں ہدیہ کرنے لگے، اس طرح برصغیر کا ایک منفرد اور انمول کتب خانہ کھڑا ہوگیا، جہاں سترہ سو ۱۷۰۰ بڑے ہی قیمتی علمی مخطوطات زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں ، ان میں بعض مخطوطات ساتویں صدی ہجری کے ہیں، یہاں ایک سو پچھٹر ۱۷۵ مصنفین کی اپنے قلم سے لکھی ہوئی کتابیں پائی جاتی ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی کے قلم سے لکھا گیا مقدمۃ فتح الباری، اور ابن عبد البر کی کتاب استغناء کا ۶۸۶ ھ میں نقل کیا گیا نسخہ موجود ہے۔یہاں پر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندا ن کے علماء کی جملہ تصانیف، حاجی امداد اللہ، تحریک سید احمد شہید کے جملہ علماء، اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ کی جملہ تصنیفات محفوظ ہیں۔ مولانا راشد صاحب سے یہ ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی، مولانا بڑی اپنائیت سے ملے، ایسا لگا جیسے مولانا مدتوں سے اس ملاقات کے انتظار میں تھے، اور عرصہ سے وہ اس ناچیز سے واقف ہیں ، یہ آپ کے اخلاق کی بلندی تھی، ورنہ ہم کہاں اس قابل ، مولانا کی اس اپنائیت پر ۱۹۸۴ ء میںایک عظیم اللہ والے بزرگ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب کی الہ آباد میں ملاقات یا د آئی ، ہر آنے والے مہمان سے اسی اہتمام اور محبت سے مل رہے تھے، جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھے ہوں، جسم کمزور ہوگیا تھا، کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو گر پڑتے، لیکن جوش میں ہر نووارد مہمان کی آمد پر یکدم کھڑے ہوتے، اور بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے تواضع کرتے، کتنے عظیم لوگ تھے یہ بھی، جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ راشد صاحب نے بھی بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ سے ابتدا سے آخر تک درسیات حرفا حرفا پڑھیں، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ خاندان کے بزرگ تھے ان سے قربت رہی، اور آپ سے امام صغانی کی کتاب مشارق الانوار کا مکمل درس لیا، یہ شرف پانے میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کے نواسے مولانا محمد شاہد مظاہری صاحب صرف آپ کے شریک رہے۔ کاندھلہ میں بھٹکل کے نوجوان عالم مولوی محمد عاکف سے ملاقات ہوئی ،جو دو ماہ سے آپ کے زیر تربیت تھے، اور مولانا کے خادم خاص مولوی ارشد قاسم کاندھلوی تو بچھے ہوئے تھے، اس نوجوان کو دیکھ کو دل بہت خوش ہوا، اس وقت مولانا نور الحسن راشد صاحب مسلمانان ہند کے ایک زرین عہد کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہیں، کتاب بیزاری کے اس دور میں دور تک ایسے افراد نظر نہیں آتے جو اس بار امانت کو آئندہ نسل تک منتقل کردیں، مولانا نےاپنی بساط سے زیادہ قربانی دے کر علمی و تاریخی ورثے کو جتنا محفوظ کرسکتے تھے کیا، مولوی ارشد نے جب گھر کی اوپری منزل پر اس عظیم کتب خانے کو دکھایا تو دل پر ایک آری سی چل گئی، ان دفینوں میں کونسے خزانے محفوظ ہیں ؟ انہیں مولانا راشد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ایک بوسیدہ منزل پر جہاں درست روشنی کا انتظام بھی نہیں ہوسکا ہے، کتابیں اس حالت میں ہیں کہ صاحب کتب خانہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کونسی کتاب کہاں رکھی ہے؟اور جو کتاب ہے اس کی قدر وقیمت کیا ہے؟مولانا بھی عمر کے جس مرحلے میں ہیں اس میں ایک ایک کتاب کے لئے سیڑھیاں چڑھنا ، جان جوکھوں کا کام ہے، دل میں ایک ہوک اٹھی، کاش سونے سے زیادہ قیمتی ان علمی جواہر پاروں کی حفاظت کا کوئی انتظام ہوجائے، اگر ایسا کوئی نظم نہ ہوسکا تو شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کرسکیں۔کام کی جو وسعت ہے، بلند حوصلگی کے باوجود مولوی ارشد جیسے نوجوانوں کے بس کا نہیں ہے، اس کے لئے جہاں جگہ کی وسعت مطلوب ہے، اس کے پوشیدہ خزانوں تک رسائی کے لئے مخلص باذوق نوجوانوں کی ایک کھیپ کی ضرورت ہے۔ جاری۔۔۔