حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  ( ۰۱)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:19PM Tue 13 Jun, 2023

تین چار روز جو ہمارے لئے فرصت کے تھے، ان ہی میں مناسک حج کی ادائیگی کے انتظامات کرنا تھے،حج کے زیادہ تر مناسک(ارکان)مکہ معظمہ سے دور آٹھ دس میل کی مسافت پر ادا ہوتے ہیں ۔

حج کا دن نویں ذی الحجہ (یومِ عرفہ )ہے ، اس سے ایک دن قبل مکہ معظمہ سے اس طرح روانہ ہو کر منی،جو چار میل دور ہے، جانا چاہئے کہ پانچ وقت کی نمازیں وہاں پڑھ کر دوسرے دن کوئی دس میل دور اور آگے عرفات روانہ ہواجائے۔

جانے کے لئے سواریوں کا انتظام ہے،بسیں ٹیکسیاں(اور آج سے پہلے اونٹ اورگدھا گاڑیاں تھیں) حاجیوں کو منی اور عرفات پہنچاتی ہیں، ہمت والے لوگ، اور ان کی تعداد بھی خاصی ہوتی ہے، یہ مسافت پیدل ہی طے کر لیتے ہیں،مگر ایسی ہمت ہر ایک کے پاس کہاں۔

دوریال تین ریال فی سواری کے حساب سے بسیں مکہ سے منی پہنچا رہی تھیں ،حج کا سفرہر معلم اپنے حاجیوں کے لئے بسیں فراہم کرتا ہے اور ایک ساتھ سب کو سوار کر کے روانہ کہ دیتا ہے، لیکن پہلا حج کرنے والے کو اس موقع پر بھی حج کا تجربہ رکھنے والوں کے مشورے کی ضرورت پڑا کرتی ہے،ہم سے مشورہ دینے والوں نے بھی کہا کہ: ہم اپنے لئے الگ ٹیکسی کا انتظام حج کے تمام دنوں کے لئے کر لیں، یعنی ایک ٹیکسی کریں،جو پہلےہمیں منی پہنچائے ،وہاں ٹھہری رہے، دوسرے دن ہمیں عرفات پہنچائے اور شام کوعرفات سے واپس منی لاتے ہوئے رات بھر مزدلفہ میں قیام کے دوران ٹھہری رہے،صبح کو مزدلفہ سے منی پہنچائے ،پھر تین دن کے بعد منی سےمکہ معظمہ واپس پہنچا دے۔

اس مشورے کو بسر و چشم قبول کر لیا، خواتین جو ساتھ تھیں، مناسک حج کے سلسلہ میں کوئی اندیشہ مول کیسے لے سکتے تھے ؟

 کرایہ؟ کسی کو یقین نہ آئے گا کہ ایک دن چار میل دوسرے دن دس جانے ، پھر دس میل واپس آنے اور تین دن کے بعد پھر چار میل لوٹ آنے کا کرایہ ایک ٹیکسی نے پورے سات سو ریال لیا ہو گا! اور اگر ہندستانی سکےمیں آپ کو بتائیں کہ چودہ سو روپے کرایہ دیا،تو آپ کہیں گے کہ کیا مذاق ہے ؟

ہمارا قافلہ سات افراد پر مشتمل تھا،امی، پھوپھو جان، ممانی،متین میاں،عظیم بھائی(چودھری عظیم الدین اشرف)،ان کی بیوی اور خود ہم ،ایک بڑی ٹیکسی جو سات سواریوں کے لئے آرام دہ ہو،سات سو ریال میں اپنےمعلم مولاناعبدالہادی سکندر کی معرفت طے کرلی۔

بسوں سے جانے والوں کو پورے سفر میں فی کس دس بارہ ریال دنیا پڑے،ہمیں فی کس سوریال کیو نکہ ہم تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے تھے ،چاہے دیوالیہ ہوجائیں! خیر دیوالیہ تو نہیں ہوئے ،لیکن تکلیف سے بھی نہ بچ پائے ،منی اور عرفات میں اتنے حاجیوں کے ٹھہرنے کے لئے قیام گاہیں نہ ہیں،نہ ہوسکتی ہیں دونوں جگہ خیمے اور شامیانے معلمین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں،جن کا کرایہ حاجیوں کو ادا کرنا ہوتا ہے،بڑا سا شامیانہ ہے تو اس کے نیچےسوڈیڑھ سو حاجی پڑر ہے اور فی کس تیس ریال دونوں جگہوں کے لئے دےدئے ،اگرکوئی حاجی شامیانے سے فائدہ نہ اٹھائے تو اس پر کوئی جبر بھی نہیں میدان میں پڑرہے ۔

ہمیں یہاں بھی آرام کی سوجھی،اور اپنے قافلے کے لئے بعض دوسر ےواقعی خوشحال حاجیوں کی طرح منی اور عرفات میں الگ الگ خیموں کا آرڈر اپنے معلم کو دےدیا، اور خیموں کا کرایہ تین سو ریال بھی ساتوں کی طرف سے پیش کر دیا، معلم صاحب بھی کہتے ہوں گے کہ یہ نہ انکم ٹیکس دیں  نہ سیلس ٹیکس دیں، آخر کس بوتے پر ان کو شاہ خرچیاں سوجھ رہی ہیں۔اور ہم دوسروں سے یہ سن سن کر دہلے ہوئے تھے کہ منی اورعرفات میں بڑی بڑی زحمتیں ہوتی ہیں، بڑی افرا تفری ہوتی ہے، ساتھی بہت گم ہوتے ہیں اور عرفات کا گم شدہ ساتھی پھر مکے ہی میں ملتا ہے،اس لئے پہلے ہی سے انتظام خوب چوکس رکھنا چاہئے۔

بہر حال سب انتظامِ روانگی اور قیام کا ٹھیک کر کے، اب اس سامان کو درست کیا ،جوچارپانچ روز مکہ معظمہ سے باہر رہنے میں درکار ہوگا، باقی سامان عموماً مکہ معظمہ ہی میں چھوڑ دیا جا تا ہے،ہماری قیام گاہ کافی محفوظ جگہ تھی،اس لئے مکہ معظمہ میں بے کھٹکے سامان چھوڑدیا۔

عرفات میں ایک دن اور منی میں چاردن خیموں میں ٹھہرنا ہے ، عرفات میں دوپہرکاکھانامعلمین اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں،منی میں چاردن کھانے پکانے کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے،اس لئے چولہا  برتن،جنس وغیرہ اور بستر، کپڑے سب لے جانا ہوں گے،خیر سامان بھی ٹھیک کرلیا، جو کمی تھی،مثلاً لالٹین ،ٹارچ وغیرہ ،خیمے کی زندگی کے لئے یہ بہت ضروری ہیں، وہ بازارسے خریدیں، مطلب یہ نہیں کہ یہ سب بذاتِ خود ہم نے کیا،کیا انہیں متین میاں نے ،جواب تک سب کرتے آئے ہیں یا پھر عظیم بھائی نے ۔

منی کے لئے روانگی سے ایک دن قبل جمعہ تھا، ہمارا پہلا جمعہ مکۂ معظمہ میں یہیں تھا،اور یوم ِحج سے اتنے قریب جو جمعہ پڑتا ہے ،اس میں نمازیوں کا اجتماع دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ بلکہ یوم حج کے دو چار دن پہلے جب تمام حاجی ہر طرف سے سمٹ کر مکہ معظمہ میں جمع ہو جاتے ہیں، پانچوں وقت کی نمازیں بھی جمعہ کی نماز کی طرح ہوتی ہیں، نمازیوں کا وہی اجتماع ، جگہ کے لئے وہی کش مکش، اور دو گھنٹے پہلے اگر نماز پنج گانہ کے لئے نہ جائیں ،تو حرم شریف کے اندر جگہ پانا ناممکن ،سوائے ایک عصر کی نماز کے اس میں مجمع نسبتاً کم ہوتا ہے، اس لئے کہ حرم شریف میں جس وقت عصر کی نماز ہوتی ہے، اس وقت حنفیوں کے نزدیک نماز عصر کا وقت ہی نہیں آتا ہے،احناف کے مفتیٰ بہ مسلک پر دو مثل سایہ جب تک نہ ہو جائے ،ظہر کا وقت ختم نہیں ہوتا۔

حنبلی مسلک پر ایک ہی مثل پر ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، جب سے سعودی خاندان یہاں حکمراں ہوا ہے، جن کا فقہی مسلک حنبلی ہے،حنبلی وقت کے مطابق عصر کی نماز حرم شریف میں ہوتی ہے۔ اس سے قبل حرم شریف میں چاروں مصلے جنفی،مالکی ،حنبلی اور شافعی الگ الگ تھے اور الگ الگ جماعتیں ہوتی تھیں،یہ مصلے اب توڑ دیئے گئے ہیں، اور آثارِ قدیمہ کی طرح اب صرف ان کی زیارت کی جاسکتی ہے ،کسی بھی فقہی مسلک کا حاجی ہو بلکہ کسی بھی عقیدے کا حاجی ہو،اگروہ حرم شریف  میں باجماعت نمازادا کرنے کا خواہش مند ہے، تو اسےحنبلی امام کی اقتدا کرنا ہوگی، دیکھنے میں آیا کہ عموماٍ کا تمام مسلم فرقے حرم شریف کی نمازبا جماعت کی فضیلت کو تمام فقہی اور اعتقادی اختلافات سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

 ایک دن عصر کی نماز کے بعد مغرب کی نماز کے انتظار میں ہم اورمتین  میاں مطاف میں بیٹھے تھے دیکھا،دوشیعہ مجتہد نجف اشرف کےرہنے والے آئے اوراپنی عبائیں بچھا کر نوافل پڑھنے لگے،بالکل قریب ہی علما کو پاکر ان سے باتیں کرنے کا شوق اس لئے پیدا ہوا کہ ان کی کتابی عربی ہم سمجھ اور بول لیتے تھے،وہ دونوں جب نفل سے فارغ ہوئے ،تو ان کو مخاطب کر کے ہم نے بات چیت شروع کر دی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ ہم ہندستانی اور لکھنوی ہیں، تو وہ ہندستان میں مسلمانوں کی حالت کے بارے میں استفسارات کرنے لگے ، ان میں سے ایک مجتہد مولانا سیدمحمد سعید صاحب کے شناسا تھے، انہوں نے ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کیا،اس سے قبل روڑکیلا اور جمشید پور میں سخت فسادات ہو چکے تھے، جن کا حال عراق کے اخباروں میں انھوں نے پڑھا تھا۔

ہم نے ان کو صاف صاف بتایا کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں ،جن میں سے بعض تنظیمیں جارحانہ انداز رکھتی ہیں اورفسادات کرانا ان کامدعا رہتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ: ان فسادات میں حکومت ہند تو فریق نہیں ہوتی ؟ ان کا یہ سوال ان کی سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تھا، ان کو بتایا کہ جہاں تک ہندستانی مسلمانوں کا تعلق ہے ،وہ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں حکومت سے احتجاج کرتے ہیں، وفود لے جاتے ہیں، توجہ نامے پیش کرتے ہیں اور کنونشن وغیرہ کرتے ہیں، اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ وہ حکومت ِہند کو فسادات میں فریق نہیں سمجھتے، انھوں نے کہا: تو وجہ شکایت باقی نہیں رہتی،جب حکومت فسادیوں سےنپٹنےکی کوشش کرتی ہے ۔

خیرنمازِمغرب کا وقت آگیا،اذان ہوئی ،ہمارے یہاں کے دستور کےبرعکس اذان اورمغرب کی جماعت شروع ہونے کے درمیان تھوڑا وقفہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ہوتا ہے،بعض صحیح حدیثوں کی متابعت میں کہ صحابہ مغرب کی اذان کے بعد،جب تک حضور انورﷺ حجرۂ مبارک سے بر آمد نہ ہوں نفلیں پڑھنے کے لئے مسجد نبوی کے ستون کی طرف لپکتے تھے،اس وقفے کو حنفی مسلک کے بر خلاف بہت سے احناف یہاں نوافل میں صرف کرتے ہیں اور ہم بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں ذرا کم چوکتے تھے۔

بہر حال اس وقفے کے بعد جماعت کھڑی ہوئی ،تو ان دونوں مجتہدوں نے اوران کے ساتھ ایک اور عراقی مجتہد نے جو بعد میں آگئے تھے، جنبلی امام کی اقتدا میں نمازمغرب پڑھی، مالکی مسالک کے بھی بہت سے اہل سنت جو سوڈان اور افریقہ کے دوسرے ملکوں سے آئے تھے ،اسی حنبلی امام کی اقتدا میں ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے، جیسے شیعہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں۔

تواب چاروں مصلے ختم ہو چکے ہیں اور ایک ہی امام جوحنبلی ہے، پانچوں وقت کی نماز پڑھاتا ہے اور سب اس کے پیچھے پڑھتےہیں،عصر کی نماز میں جو احناف کے نزدیک حرم شریف میں قبل از وقت ہو جاتی ہے ،بعض حنفیوں کو دیکھا کہ وہ شریک نہیں رہتے،جو حنفی شریک ہوتے تھے،ان کی اتباع ہم نے بھی کی اگر چہ ہمارے بزرگ مولانا مفتی محمد عتیق صاحب فرنگی محلی نے سمجھوتہ کی راہ سوجھا دی تھی کہ عصر کی نماز میں نفل کی نیت سےشریک ہو کر ،احناف کے وقت آجانے پر پھرعصر کی نماز پڑھ لی جائے، وہ اسی پرعمل کرتے تھے ۔(جاری)