آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ (۱) تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

02:07PM Fri 15 Sep, 2017

  ذی الحجہ کی دسویں تاریخ انسانی تاریخ میں قربانی کے عالمی دن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی تاریخ کو اللہ تعالی کے مقدس نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ،اپنے جان سے عزیز فرزند کی قربانی پیش کی تھی ، جو بارگاہ یزدی میں ایسی قبول ہوئی کہ یہ قربانی کی سب سے عظیم علامت بن گئی ۔ لیکن بھٹکل والوں کے لئے یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ امسال جب منی کی وادی میں ۱۰/ ذی الحجہ کا سورج غروب ہورہا تھا، بھٹکل و اطراف کے مسلمانوں کی فلاح وبہبود، ان کی اصلاح ،ان کے لئے قال اللہ و قال الرسول کا سرچشمہ جاری کرنے والی جس شخصیت نے اپنی قیمتی زندگی کے پچھتر سال سے زیادہ کا عرصہ قربان کیا تھا ، اور تجارت اور مال و دولت کے مادی اسباب کو ترک کرکے اپنی زندگی اصلاح معاشرہ اور دینی تعلیم کے فروغ کی جدوجہد میں صرف کی تھی ،اس مبارک تاریخ کو اس کا بارگاہ خداوندی سے بلاوا آگیا۔ اس کا جنازہ اس شان سے اٹھا کہ جب نماز ظہر ادا کرکے ،نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے لوگ کھڑے ہوئے ،تو جسد خاکی کے دائمی سفر پر روانگی سے پہلے اللہ اکبر اللہ اللہ ، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے صدائیں ہزاروں زبانوں سےبلند ہوئیں ۔ایک صدی گذار کر دنیا سے اس شان سے کوئی جائے تو اس کی خوش بختی کا کیا کہنا ؟ آخر اسے سب سے بڑے دربار میں مغفرت اور اعلی درجات کی نشانی کیوں کر نہ مانیں ؟ ڈاکٹر علی ملپا صاحب جنہیں اب ہم مرحوم و مغفور کہنے پر مجبور ہیں جن کا یہ جنازہ اٹھا تھا انہوں نے اس دنیا میں ۹/ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ مطابق ۵!اگسٹ ۱۹۲۰ء کی تاریخ میں آنکھیں کھولیں تھیں ، ہجری تاریخ کے حساب سے آپ نے زندگی کے پورے ایک سو (۱۰۰) سال اس دنیائے فانی میں پورے کئے ،دنیا شاہد ہے کہ زندگی کا یہ طویل سفر رضائے الہی کے حصول میں صرف ہوا ، آپ کی رحلت کے ساتھ اس علاقے نے ہمیشہ کے لئے اپنے ایک ایسے عظیم محسن کو کھودیا ہے ، جس نے یہاں والوں کو جنت کی راہ بتانے اور اس پر چلانے کے لئے عمر عزیز کی قیمتی گھڑیاں لگادی تھی ، ان کی شخصیت ایسی تھی کہ جن کی دعاؤں سے عذاب الہی ٹلا کرتے ہیں ،اور جنہیں ایک بار دیکھنا کیا بڑے کیا بزرگ سب اپنی خوش نصیبی گردانتے تھے ، اس پر اگر دل پژمردہ اور آنکھیں اشک بار نہ ہوں تو کیوں کر ؟ بیسویں صدی کے اوائل میں آج کی طرح تعلیم کے وسائل کہاںمیسر تھے ، نہ ہی تین چار سال کی عمر میں نرسری اور اسکول میں بھیجنے کا رواج تھا ، ابتدائی سن و سال میں سے کچھ کھیل کود میں گزر جاتے اور کچھ گھریلو مکتبوں میں قرآن اور دین کی ضروری باتیں سیکھنے میں ، لہذا عمر کے دسویں سال آپ کا باقاعدہ انجمن اسکول میں داخلہ ہوا جہاں آپ نے ۱۹۳۷ء میں ساتویں کلاس مکمل کی،انجمن کا یہ دور جناب اسماعیل صدیق مرحوم کی صدر مدرسی کا دور تھا، آپ کے دوران تعلیم ہی میں صدیق صاحب ۱۹۳۶ء میں بمبئی قانون ساز اسمبلی کے الیکش میں کامیاب ہوکر عملی سیاست میں شامل ہوئے تھے ، اس وقت یہاں کے نمایاں اساتذہ میں مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ اور محتشم میراں مرحوم خاص طور پر ذکر ہوتا ہے ۔ یہاں آپ کو ابتدائی درجات میں مولانا ندویؒ کی تین چار سال صحبت نصیب ہوئی ، یہ انجمن کا ابتدائی دور تھا ، اس دور کے اساتذہ اپنا ایک مشن رکھتے تھے ، ان کی زندگی کا اولین مقصد تھا کہ جو ملت اقراء پر اٹھائی گئی تھی اور اس وقت ناخواندگی کے دلدل پھنسے جارہی تھی ، اسے تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کیا جائے ، جب ہدف متعین ہو ، قربانی کا جذبہ کارفرما ہو، تو اس وقت قلاشی اور فقر و فاقہ مستی آڑے نہیں آیا کرتے ، لہذا ان اساتذہ کی یہ خوبی تھی کہ ابتدائی دو چار سالوں میں اپنے طالب علموں کو اتنا کچھ سکھا پڑھا دیتے تھے اور ان میں ایسا تعلیمی ذوق اور کتابوں کے مطالعہ کا ایسا شوق پیدا کردیتے تھے کہ ان میں ایسی صلاحیت پیدا ہو جاتی کہ اسکی نیو پر علم و عرفان کا محل تعمیر کریں۔ مولانا ندوی علیہ الرحمۃ اساتذہ کی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے اپنے شاگردوں کی تعلیمی بنیاد مضبوط کی ، اور انہیں علمی و دینی مجلات اور کتابوں کا ایسا رسیا بنا دیا کہ جس کی بنیاد پر پرائمری تعلیم کے دو چار سالوں میں ڈاکٹر صاحب جیسے گہر پارے تیار ہوئے ۔ جن کے علم و معرفت کے سامنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بیسیوں سال گزارنے والے شرما جائیں ۔ مولانا ندوی خوش نصیب تھے کہ ان کا نام آج تک بھٹکل میں زندہ ہے ، اور امید ہے کہ مدتوں یہ نام اسی طرح قوم کے حافظے میں تابندہ رہے گا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں ، جن کے ذکر کا یہ محل نہیں ، لیکن جو افرا د درد رکھتے ہیں اور قوموں کی ترقی کے خواب دیکھتے ہیں ، قوم کے دیگر محسنین کے ناموں کو قومی حافظہ میں محفوظ رکھنا ان کے لئے ایک اجتماعی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے ، ان محسنین میں اساتذہ کا طبقہ ہمارے معاشرے میں نہایت مظلوم رہاہے ، اسے کم ہی یاد رکھا جاتا ہے، حالانکہ ان ہی کے خون جلانے اور وقت سے پہلے جسم کے قوی کمزور کرنے سے قوم ترقی کی سیڑھیاں طے کرتی آئی ہے ، لیکن اس طبقے کے ناموں کو گمنام سپاہی کی طرح یکسر فراموش کردیا جاتا ہے ۔ ورنہ کیا بات ہے کہ انجمن جیسے عظیم تعلیمی ادارے کو جن اساتذہ نے ابتدا میں اپنے خون جگر سے سینچا تھا ، جن کی قربانیوں کے طفیل بھٹکل اور اطراف میں گنجہائے گرامایہ کا ظہور شروع ہوا تھا، ان کی ابتدائی نسل کے دو ایک ناموں ہی کا اب تک تذکرہ ہوتا آیا ہے ۔ ، لیکن اس ابتدائی دور کے اساتذہ میں مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی، بڈھن ماسٹر ، قاضیا ابو الحسن ماسٹر ، قاضی عبد الکریم ماسٹر کے نام سننے میں نہیں آتے، یہاں کے ایک اور استاد مولانا ارشادعلی (فاضل دیوبند) کا نام بھی کبھی سننے میں نہیں آیا ، جب کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان علیہ الرحمۃ نے خود ہم سے کہا تھا کہ یہ آپ کے سگے ماموں تھے ، اور اس زمانے میں بھٹکل میں مدرس ہوکر گئے تھے ، بعد میں اس کی تصدیق ہم سے مرحوم برہان باشہ صدیقی نے بھی کی تھی ۔ کیا ہی اچھا ہو مستند ذرائع سے ان اساتذہ کی فہرست منظر عام پر لائی جائے ، یہ بڑی احسان مندی کی بات ہوگی۔ آپ نے گھر کی معاشی ضروریات سے مجبور ہوکر اسکول کی تعلیم کو خیرباد کہا اور ۱۹۳۷ء میں کولکاتہ کا رخ کیا ، جہاں آپ نے ملازمت اور پھر چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا ، آپ کے کولکاتہ جانے کے پانچ سال بعد ۱۹۴۳ء میں مولانا ندوی نے بھٹکل کو خیر باد کہا اور کچھ عرصہ بعد مولانا خود کولکاتہ تجارت کرنے پہنچ گئے ، ساتھ ہی ساتھ آپ نے یہاں اپنی پرانی ہومیوپیتھک کی پریکٹس بھی کرتے رہے ، یہاں ڈاکٹر صاحب کو از سرنو اپنے مشفق استاد کی قربت میسر آئی ،انہی ایام میں آپ نے مولانا ندوی سے ہومیوپیتھک علاج کا ذوق و شوق ہوا اور اس سے واقفیت پیدا کی ۔ جو آئندہ آپ کے اور قوم کے کام آئی ۔ مولانا ندوی علیہ الرحمۃ کو تفسیر قرآن سے بڑا شغف تھا ، مولانا تھانوی علیہ الرحمۃ کو آپ نے دیکھا تھا، خاص طور آپ کی تفسیر بیان القرآن کے بڑے شیدا تھے، مولانا عبد الماجد دریابادی علیہ الرحمۃ آپ کے پڑوس ہی کے تھے جن کے آپ عاشق زار تھے ، ، تحریک خلافت کے دنوں میں بھی آپ سے رفاقت رہی تھی ، جس کی وجہ سے روابط کو مزید تقویت ملی تھی ، اس زمانے میں بھٹکل کے پڑھے لکھے طبقے کو مولانا دریابادیؒ کے سچ ،صدق اور صدق جدید اور آپ کی تحریروں کا جو چسکہ لگا ، اس میں مولانا ندوی کی تعلیم و تربیت کے انداز کا بھی بڑا ہاتھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمۃ کا مجلہ الفرقان لکھنو بھی اس زمانے میں یہاں متعارف ہوا ، مولانا ندوی کے شاگردوں میں یہ مجلہ بھی زیر مطالعہ آنے لگا ، جس کے نتیجے میں اس زمانے میں شمالی ہند کے اہل قلم ، علماء اور اہل اللہ بھٹکل جیسے دور دراز اور ایک طرح سے دنیا جہاں سے کٹے ہوئے قصبے میں متعارف ہوئے ۔ڈاکٹر صاحب نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس تعارف کو تعلق میں بدل دیا ، اس تعلق میں مولانا ندوی کے ساتھ ساتھ ان مجلات کے مسلسل مطالعہ کا بھی بڑا ہاتھ رہا ۔ انہی مجلات نے آپ کو علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد الباری ندوی ، مولانا مناظراحسن گیلانی علیہم الرحمۃ اور اور حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ سے وابستہ بزرگارن دین کے حلقے سے مربوط کردیا۔ ویسے بھٹکل میں اس زمانے میں حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کی مجلس میں حاضر ی دینے اور انہیں بالمشافہ دیکھنے والوں میں آئی یس صدیق اور مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم جیسی یہاں کی علمی و سماجی شخصیات بھی پائی جاتی تھیں ۔ قیام کولکاتہ کے دوران آپ کی مولانا دریابادی علیہ الرحمۃ سے باقاعدہ مراسلت شروع ہوئی ، اور اپنے نجی و دینی معاملات میں آپ سے مشورے لینے لگے ، مولانا دریابادی ہی کے ذریعہ سے آپ کے روابط اس دور کے ایک بزرگ اور مشہور ماہر عملیات حاجی محمد شفیع بجنوری(ف ۱۹۵۱ء) سے قائم ہوئے ۔اور یکے بعد دیگرے حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کے خلفاء سے بیعت و ارشاد کا تعلق پیدا ہوا ، یہ بیعتیں بہ یک وقت نہیں ہوئیں تھیں ، بلکہ ایک بزرگ کی رحلت کے بعد دوسرے بزرگ سے بیعت کا یہ تعلق قائم ہوتا تھا۔ جن کی ترتیب حسب ذیل ہے ۔ مولانا عیسی الہ آبادی (ف ۱۹۴۴ء) حاجی حقداد خان لکھنوی (ف ۱۹۵۰) علامہ سید سلیمان ندوی (ف ۱۹۵۳ء) اور علامہ کے مشورے ہی سے مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری (ف ۱۹۶۷ء) سے تعلق بیعت قائم کیا ، جہاں سے آپ کو سلسلہ تصوف کی اجازت مرحمت ہوئی ، آپ کی رحلت کے بعد مولانا شاہ ابرارالحق علیہ الرحمۃ (ف ۲۰۰۵ء) سے آپ نے اصلاحی تعلق قائم کیا ، جوآپ کی وفات تک جاری رہا ، مولانا ابرار الحق علیہ الرحمۃ نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت مولانا ابرارالحق علیہ الرحمۃ حضرت تھانوی کا نمونہ تھے ، آپ کے یہاں بھی انہی قواعد و ضوابط کا اہتمام ہوتا تھا جن کی حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کے یہاں پابندی ہوا کرتی تھی ۔ کولکاتہ کے قیام کے دوران حاجی محمد شفیع بجنوری علیہ الرحمۃ نے ایک خط کے ذریعہ آپ کومشور ہ دیا کہ بھٹکل کو آپ کی ضرورت ہے ، وہاں جاکر آپ دین و ملت کی خدمت انجام دیں ۔لہذا آپ کی وفات کے تین سال بعد سنہ ۱۹۵۴ء میں آپ نے کولکاتہ سے کاروبار و ملازمت وغیرہ سمیٹ کر اپنے وطن کا رخ کیا اور یہاں پر اصلاحی کوششیں شروع کردیں اور تادم واپسین یہیں کے ہورہے ۔ جاری 2017-09-03 ammuniri@gmail.com واٹس اپ : 00971555636151