’ کیاسانور فاریسٹ ڈیسیز ‘کی ساحلی کرناٹکا پر دستک ۔ کیا ہے یہ مرض ؟۔۔۔۔۔از:! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
آج کل کرناٹکاکے ساحلی اضلاع میں وبائی مرض ’بندر بخار‘ Monkey Feverیا ’کیاسانور فاریسٹ ڈیسیز‘کا چرچا سنائی دے رہا ہے۔کیونکہ شیموگہ ضلع کے ساگر تعلقہ کے بعد اب اس مرض نے متصلہ ضلع اُڈپی، شمالی کینرا اور سداپور وغیرہ میں بھی دستک دے دی ہے جس کی وجہ سے عوام کے اندر خوف و دہشت کا سا عالم پید ا ہوگیا ہے۔اس سے پہلے ملیریا، چکُن گُنیا، چوہے کے بخارrat fever،زرد بخار، ڈینگیdengue بخار وغیرہ کے معاملات الگ الگ مقامات سے سامنے آرہے تھے۔ جس پر قابو پانے کے لئے محکمہ صحت عامہ کی جانب سے ضلع اور تعلقہ سطح پر باقاعدہ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور مسلسل حالات کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اب اچانک ’بندر بخار‘ کے کچھ معاملات سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے محکمہ صحت عامہ پوری طرح حرکت میں آگیا ہے۔آئیے اس وبائی مرض کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
کیا ہے اس ’بندر بخار‘تاریخ؟!: عام طور پر monkey feverکے نام سے جانے والے اس مرض کو Kyasanur Forest disease (KFD)کے نام سے جاناجاتا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے یعنی مارچ 1957میں اس بخارکی وباء کرناٹکا میں شیموگہ ضلع کے ساگر تعلقہ میں واقع دیہات ’کیاسانور ‘ Kyasanurکے جنگلات میں بندروں کے اندر پائی گئی تھی اور اس بیماری سے سیکڑوں بندر ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بعد سے کرناٹکا کے نیل گریس میں واقع بنڈی پور نیشنل پارک ، چامراج نگر میں بھی بندروں کے اندر اس بیماری کے وائرس پائے گئے۔اس کے علاوہ کیرالہ، تملناڈو ، گوا اورمہاراشٹرا وغیرہ میں اس کے وائرس virusپائے گئے ہیں۔ بندروں میں یہ بیماری ایک خاص قسم کے کھٹمل نماکیڑے bug یا tickکے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس وائرس کو Flaviviridae خاندان سے منسوب کیا جاتا ہے جوانسانوں اور جانوروں میں مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔جس میں سے ایک ’زرد بخار‘ یا ’محرقہ یرقانی‘yellow fever بھی ہے۔یوں تو اس مرض کو بندروں کے جسم پر پائے جانے والے ’پِسّو‘ سے پھیلنے والے مرض کے طور پر جانا جاتا ہے مگر چوہے، گلہریاں اورچھچوندر وغیرہ بھی اس وائرس والے پسوکو پھیلانے کاکام کرتے ہیں۔
تحقیق کیا بتاتی ہے: دنیا بھر میں اس وائرس کے تعلق سے تحقیقات ہوئی ہیں اور سعودی عربیہ میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق اس وائرس کو وہاں پرپائے جانے والے ’الخرمہ وائرس‘Alkhurma virus,سے قریب تر پایا گیا ہے جو کہ ’الخرمہ بخار ‘ کا سبب بنتا ہے۔(بحوالہ: "Complete coding sequence of the Alkhurma virus, a tick-borne flavivirus causing severe hemorrhagic fever in humans in Saudi Arabia". Biochem. Biophys. Res. Commun. 287 (2): 45515061 )
اسی طرح 1989میں چین کے Nanjianin شہر میں ایک مریض کے جسم میں ملنے والے وائرس سے بھی اس کی مماثلت ثابت ہوئی ہے۔کافی تحقیقات کے بعدوائرولوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس’بندر بخار‘ کے وائرس کی پیدائش 1942کے آس پاس ہوئی ہوگی۔اس مرض میں انسانوں کی ہلاکت کی شرح 3-10%ہے ، جبکہ ایک سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ عام حالات میں سالانہ 400-500سے افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔ (بحوالہ:Holbrook, Michael (2012). "Kyasanur forest disease". Antiviral Research. 96 (3): 353150362.
کیا ہوتی ہیں اس کی علامات؟: ’مَنکی فِیوَر‘ یا کے ایف ڈی کا جب حملہ ہوتا ہے تو بندر اچانک مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بیمار بندر جب جنگلات سے قریبی دیہاتوں میں گھروں کے آنگن اور گلیوں میں مرنے لگتے ہیں تو ان کے جسم پر موجود ’پِسّوُ‘ انسانوں کو کاٹنے سے یہ وائرس انسانوں کے خون میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب ایک بار یہ وائرس خون میں داخل ہوجاتا ہے توپھروہ 2سے3دن تک اپنی نشو ونما کرتارہتا ہے جسے incubation period کہا جاتاہے۔ اس کے بعد اس وائرس کے نوزائیدہ بچوں کی وجہ سے تعدیہ infectionکا آغاز ہوجاتا ہے جس سے بہت تیز بخار اور سر کے پیشانی والے حصے میں شدید درد ہونے لگتاہے۔اس کے ساتھ ناک، مسوڑھے،گلے یا پیٹ کی آنتوں سے خون رِسنے کی بھی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔قئے، عضلات muscles میں سختی اور اینٹھن،ذہنی پراگندگی، ہاتھوں او رپیروں میں کپکپاہٹ وغیرہ اس کی اہم علامات ہیں۔
مرض کتنے دنوں میں ٹھیک ہوتا ہے: اس مرض کی تشخیص کے لئے خون کی جانچ کرنے پر اس میں سفید ذراتwbc، سرخ ذراتrbcاور platelessکی تعداد بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کا بلڈ پریشر بھی کم ہوجاتا ہے۔جہاں تک مریض کے ٹھیک ہونے کا سوال ہے، مرض شروع ہونے کے بعد ایک سے دو ہفتے کے اندر مریض ٹھیک ہوجاتاہے ، مگر اس کے بد اثرات جسم پر لمبے عرصے تک رہتے ہیں اور پوری طرح شفا یاب ہونے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔جس کے دوران مریض کے عضلات میں درد اور اینٹھن ہونے کی وجہ سے وہ اپنا جسمانی محنت والا کام نہیں کرپاتا ہے۔اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس وائرس کا حملہ دماغ کے خلیات cellsپر ہوتا ہے اور اس سے دماغ کی نسوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
تازہ صورت حال کیا ہے!: ’مَنکی فِیوَر‘ کی خبریں اچانک پھر سے سرخیوں میں اس لئے آگئیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے شیموگہ ضلع کے ساگر میں کچھ افراد اس مرض شکار ہوگئے۔ اس کے بعد اڈپی ضلع کے بعض مقامات پر اچانک بیمار بندروں کے مرنے اور ان کی لاشیں بازیاب ہونے کے واقعات پیش آئے۔پھر سداپور ضلع سے بھی بندروں کے مرنے کی خبریں ملنے لگیں۔ ساگر ضلع میں انسانوں میں اس بیماری کے پھیلنے کے بعد ہلاکتوں کی خبریں بھی آرہی تھیں ۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ 14 جنوری21019 کو ساگر تعلقہ کے آرالگاڑو اور بالیگارو گاؤں کے دو مریض منی اسپتال میں کافی دنوں تک علاج کے بعد موت کاشکار ہوگئے ہیں۔اس طرح اب تک کے ایف ڈی سے مرنے والوں کی تعداد10سے زیادہ ہوچکی ہے ۔جبکہ تیرتھلّی اور اس کے اطراف مردہ بندروں کے باقیات پائے گئے ہیں۔ بھٹکل سے قریبی علاقوں میں بیندور، کنداپور کے علاوہ شمالی کینرا کے ہوناور کے دیہاتوں میں بھی مردہ بندروں کی بازیابی سے خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔منی پال اسپتال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹراویناش نے جو اعداد وشمار بتائے ہیں اس کے مطابق منی اسپتال میں 12جنوری 2013تک ’بندربخار ‘ کے 73 مریض داخل ہوئے تھے۔ جن میں سے 27مریضوں کی جانچ میں یہ وائرس موجود پایا گیا ہے۔یہ تمام مریض شیموگہ ضلع کے رہنے والے ہیں۔تاحال اڈپی ، جنوبی کینرا یا شمالی کینرا میں کسی انسان کو یہ مرض لاحق ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
علاج کیا ہے؟!: بدقسمتی تمام جدید طبی ترقی کے باوجود اس مرض کا ابھی کوئی واضح علاج موجود نہیں ہے۔ مریض کا علاماتی symptomatic علاج کیا جاتا ہے۔جیسے بخار اور بد ن درد کم کرنے اور اعصابی یا عضلاتی تناؤ کی شدت کم کرنے والی دوائیاں دی جاتی ہیں۔ خون میں پانی کی کمی دور کرنے کے لئے گلوکوزیا سلائن بھی دیا جاتا ہے۔وباء پھیلنے کی صورت میں احتیاطی تدبیر کے طور پر اس کا ویکسین دیاجاتا ہے۔یہ ویکسین کتنا نتیجہ خیز ہوتا ہے اس کے بار ے میں رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اگر اس کے2ڈوز لیے جائیں تو اس کی نتیجہ خیزی کی شرح 62.4%ہے۔جبکہ تیسرا اضافی ڈوز لینے پر یہ شرح بڑھ کر 82.9%تک پہنچ جاتی ہے۔
عوام خوف زدہ نہ ہوں: محکمہ صحت عامہ کے افسران نے خاص طور پر ساحلی علاقے کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں۔ ابھی یہاں انسانوں میں اس وائرس کے حملے کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ محکمہ جاتی سطح پرریڈالرٹ جاری کرتے ہوئے اس بیماری پر قابو پانے کی پوری تیاری کی گئی ہے۔مردہ بندروں کی لاشوں کاپوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ان کے اجزاء جانچ کے لئے لیباریٹری کو بھیجے جارہے ہیں اور بندروں کی لاشوں کو جنگلوں میں لے جاکر جلایا جارہا ہے۔ افسران کی ہدایات کے مطابق عام حالات میں عوام مچھروں اور پِسوؤں کے کاٹنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی حفاظتی تدابیرکریں۔ گھروں اور احاطے میں مچھر مار دواؤں کا استعمال کیا کریں۔مردہ یا بیمار بندر نظر آنے پر محکمہ جنگلات کے افسران کو مطلع کریں اور ایسے بندروں سے کم از کم 50 میٹر کا فاصلہ بنائے رکھیں۔ اور بندروں یا ان کے اجزاء کو چھونے سے باز رہیں۔
haneefshabab@gmail.com