سفر حجاز۔۔۔ (۳۸)۔۔۔ جملہ معترضہ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:34PM Mon 26 Jul, 2021

معلم عبدالقادر سکندر کے مظالم کا تذکرہ بار بار آچکا ہے عجب نہیں کہ بعض ناظرین اس تذکرہ سے اکتاگئے ہوں، لیکن حقیقتاً جو کچھ کہا جاچکا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو نہیں کہا گیا ہے! ۔آپ بیتی کے یہ چند موٹے موٹے واقعات تھے جن کا ذکر ناگزیر تھا، باقی اگر وہ کل جزئیات لکھے جائیں جو ہم لوگوں کو پیش آکر رہےیا ہم نے دوسروں کو پیش آتے دیکھے اور کسی ایک پر نہیں بلکہ منشی امیر احمد صاحب علوی کاکوردی ڈسٹرکٹ جج نیمچ سے لےکر غریب سے غریب ہر طبقہ کے حاجیوں پر گزرتے دیکھے، اگر ان سب کو لکھا جائے تو یہ سفرنامہ، سفرنامہ کے بجائے اچھا خاصا ”سکندر نامہ“ بن جائے، اور سکندر نامہ بھی پرانے طرز کا ”بری“ یا ”بحری“ نہیں بلکہ نئے طرز کا ریگستانی! ۔۔۔۔۔خوش عقیدہ ناظرین اپنے دلوں میں کہہ رہے ہوں گے کہ یہ عجیب طرح کا مسافر حجاز ہے، گیا حج کرنے اور لگا معلم کے مظالم کا دکھڑا رونے، اگر واقعتاً معلم کی ذات ایسی ہی ظالم و طامع و خود غرض وبے درد و دینوی ہے تو آخر دوسرے حجاج یہ شکوے کیوں نہیں کیا کرتے، اتنا شور و شغب یہی تنہا کیوں کررہا ہے؟ لیکن خوش عقیدہ حضرات کا یہ حسنِ ظن صحیح نہیں، یہ تباہ کار پہلا مسافرِ حجاز نہیں جس نے معلموں کے خلاف فریاد برپا کی ہے۔

مولانا محمد حسین الہ آبادی کا نام بالکل غیر معروف نہیں حضرت  حاجی امداد اللہ صاحب کے مرید و خلیفہ تھے اور تمام تر عشق و محبت کے رنگ میں رنگے ہوئے، اجمیر میں عین حالت سماع میں انتقال فرمایا اور اس زمانہ میں سارے ہندوستان میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی تھی۔آج سے ۳۰، ۳۲ سال قبل ۱۳۱۷ ھ میں چوتھی بار حج کے لیے تشریف لے گئے تو واپسی پر والہانہ و مستانہ زبان میں مختصر سفر نامہ رحلۃ المسکین الی البلد الامین کے نام سے شائع فرمایا، داستان سفر کیا ہے گویا داستان عشق ہے، عرب اور اہلِ عرب کے ساتھ محبت و شیفتگی میں یہ غلو کہ ان کے خلاف ایک حرف شکایت سننا بھی گوارا نہیں، صفحہ ۷۷، ۷۸ وغیرہ پر باایں ہمہ آپ بیتی بیان کرتے وقت یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ مکہ سے ۸/ ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہوتے وقت اس سال اونٹوں کے ملنے میں بہت دیر لگی، اس وجہ سے عصر کے وقت مکہ سے روانگی ہوئی، مغرب حدود منیٰ میں پڑھی اور عشاء کے وقت منیٰ میں قیام ہوا، فجر کی نماز پڑھ کر وہاں سے چلنا چاہیئے تھا مگر بدو اور مطوف کے ملازمین نے نہ مانا، منیٰ میں قیام بھی بمشکل میرے اصرار سے کیا تھا، اخیر شب کو عرفات کو چل دیئے، اور قبل طلوع آفتاب وہاں پہنچ گئے، بدو اور مطوف چونکہ ہمیشہ حج کو آیا جایا کرتے ہیں اور مقصود ان کا حج ہوتا بھی نہیں، فقط حاجیوں سے تحصیل زر مد نظر ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کی نظر میں سنن یا مستحبات چنداں باوقعت نہیں ہوتے۔یہ ستم پیشہ مطوفین اور ان کے ملازمین اس کا کچھ لحاظ نہیں کرتے اور اپنی تھوڑی سی راحت کے لیے ان کو ۔(یعنی حاجیوں کو)۔ رنج بھی پہونچاتے ہیں، اور ثواب سے محروم رکھتے ہیں۔“ ۔(صفحہ ۶۱، ۶۲)۔

چنانچہ مولانا مجبوراً آئندہ عازم حج کو مشورہ دیتے  ہیں کہ وہ بجائے مطوف کے مکہ سے کسی ذی علم سمجھ دار کے ساتھ ہولے اور ادائے ارکان میں مطوفوں کا پابند نہ رہے۔ (ص ۶۳)

فقہ حنفی میں ۱۲/ کو منیٰ سے مکہ کی واپسی بعد زوال ہی درست ہے نہ کہ قبلِ زوال لیکن ظالم مطوفوں کے ہاتھوں مولانا پر کیا گزری، اسے مولانا ہی کی زبان سے سنئے۔

”بارھویں کی صبح سے مطوف کے ملازمین نے مکہ چلنے کے لیے تقاضا شروع کیا اور بدؤں کو ایسا سبق پڑھایا کہ ہرگز زوال کے وقت تک ٹھہرنے کو راضی نہ ہوئے، مطوف کے ملازم کچھ پڑھے ہوئے بھی تھے، ایک کتاب میں سے ایک روایت امام ابوحنیفہ ؒ کی دکھائی جس سے اس دن قبل زوال ہی رمی کرنے کا جواز نکلتا تھا، میں نے کہا یہ روایت ظاہر روایت کے خلاف ہے اور غیر مفتی بہا ہے، مگر انھوں نے ایک نہ مانا، بمجبوری ان کا ساتھ چھوڑنا پڑا، وہ میرا سامان لے کر چل دیئے۔میں مع اپنے چند رفیقوں کے رہ گیا، اور زوال کے بعد رمی کرکے روانہ ہوا، راہ میں بمشکل سواری کے لیے گدھا ملا۔ (ص ۷۲)

مولانا کے مذہب میں عرب و اہلِ عرب کے متعلق شکایات کا ایک حرف بھی زبان پر لانا گناہ کیسی کچھ اذیت پہونچی ہوگی جب جاکر دبے لفظوں میں اتنا بھی قلم سے نکلا۔

۱۹۱۳ء میں گورکھپور کے مشہود رئیس مولوی سبحان اللہ خاں صاحب نے سفر حج کیا اور واپسی پر اپنا سفر نامہ میرا سفر حج کے عنوان سے شائع کیا۔اس سفر نامہ کے بھی بعض فقرے سننے کے قابل ہیں۔مولوی صاحب موصوف جانتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی بات زبان سے نکالنا خوش عقیدگی کے مذہب میں کتنا بڑا جرم ہے اس لیے بیان کرنے سے قبل تمہید بیان یوں اٹھاتے ہیں:

”اس کے بعد میں مطوفوں  کے پورے حالات لکھوں گا، میں خوب جانتا ہوں کہ اول تو لوگ اس کو باور ہی نہ کریں گے، اور اگر واپس آئے ہوئے حاجی میری اس تحریر کو دیکھیں گے تو یقیناً مجھ پر بےدینی یا اہلِ حرم کی عظمت کا دل میں خیال نہ ہونے کا الزام لگائیں گے۔۔۔۔مگر دو خیالوں نے اس گستاخی کا ارتکاب کرایا ہے، اول یہ کہ یہ تحریر نامکمل نہ رہے، دوسرے جانے والے اشخاص آگاہ ہوجائیں۔“ ص ۵۴، ۵۵ ۔

اس کے آگے مطوفوں یا معلموں کے مناقب سنئے:۔

۔”اب سنئے، مطوف آپ کے ساتھ ہرگز ہمدردی سے نہ پیش آئیں گے۔وہ ظاہری طور پر آپ کو چکنی چپڑی باتوں سے خوب خوش کریں گے۔میں خادم ہوں، کفش برادر ہوں، آپ کی مرضی میں میری بھی مرضی ہے جو حکم دیجئے بجا لاؤں۔۔۔لیکن کسی شہر والے سے حتی الوسع آپ کو ملنے نہ دے گا۔اگر جبراً فہراً ملائے گا تو خود یا اپنے ملازم کو جسے وہاں کی اصطلاح میں صبی کہتے ہیں، ساتھ کرے گا جب آپ کے ساتھ ان میں سے کوئی ہوگا تو اگر کوئی صلاح آپ چاہیں کہ وہاں کے کسی شخص سے لے سکیں، ناممکن ہوگی۔۔۔۔یہ برتاؤ عام لوگوں کے ساتھ ہے، خاص لوگوں کے ساتھ علانیہ تو ایسا نہیں کرتے مگر در پردہ یہی تمام باتیں ان کے ساتھ بھی کی جاتی ہیں۔۔۔۔سودے سلف میں تبرکات کی خریداری میں مطوف کا حق لازمی ہے جس کا پتہ آپ کو نہ چلے گا، بنارس یا لکھنؤ کے دلال ساتھ ہولیتے ہیں اور اشارہ کے ساتھ خریداری میں حق قائم ہوجاتا ہے۔“ ص ۵۵، ۵۶۔

آگے مکان کے کرایہ، خیمہ کے کرایہ وغیرہ میں معلم صاحبان کے حقوق کا تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں کہتے ہیں:

”یہ تو چند ظاہری باتیں ہیں جن کو میں نے ظاہر کیا، ورنہ اس کا منشا یہی رہتا ہے کہ دھوکے سے، فریب سے، منت سے جس طرح ہو آپ سے حاصل ہی کرتا جائے۔“(ص ۵۷)۔

یہ الفاظ ایسے شخص کی زبان سے نکلے ہیں جس کی فیاضیوں حد اسراف تک پہونچی ہوئی ہیں، اور جس کی داد و دہش کی صوبہ بھر میں شہرت اور جس کو خود اپنے معلم سے مطلق کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی۔

خان بہادر عبدالرحیم صاحب نقشبندی، علاقہ پنجاب کے رہنے والے مدراس میں محکمہ سروے کے کسی معزز عہدہ پر ممتاز تھے ۱۹۱۱ء۔ میں انھوں نے سفر حج کیا اور سفر حرمین الشریفین کے عنوان سے اپنا مفصل و مبسوط سفر نامہ تین حصوں میں شائع کیا، اس میں معلم صاحبان کے حالات و اسرار خاصی تفصیل سے بیان کئے ہیں، سب کی نقل کی گنجائش نہیں جستہ جستہ فقرے کافی ہوں گے فرماتے ہیں:۔

۔”گویہ امر بدمزہ ہے اور طبیعت پر اس کے اظہار سے ناگواری اور گرانی ہے، کیونکہ یہ اغیار کی برائی نہیں بلکہ خود اپنے عیب دوسری اقوام کے روبرو بیان کئے جاتے ہیں، مگر ان واقعات کا چھپانا جو حجاج کی ایذا کے باعث اور عرب کی بدنامی کے موجب، اس سے بھی زائد ناگوار ہے بس کہنا ہی پڑا کہ علی العموم ان بزرگوں ۔(یعنی معلموں)۔ سے ہندوستانی حجاج کو سخت ایذا و تکلیف پہونچتی ہے..... جس وقت حجاج جدہ شریف آتے ہیں، تو یہ لوگ خود یا اپنے مطوفوں کو جدہ روانہ کرکے حجاج کو اپنے دام میں کرلیتے ہیں..... حاجیوں کو یہ لوگ کھیتی سمجھتے ہیں، اور سالانہ پیداوار جہاں تک ممکن ہو نکالنے میں کوئی دقیقہ فردوگذاشت نہیں کرتے..... جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے، حجاج کو لوٹتے ہیں، اور کسی طرح اپنے سال بھر کے گزارے کا مبلغ جمع کرلیتے ہیں...... انتہا یہ ہے کہ مطوفین..... امیر حاجی کو لنگوٹی بندھواکر چھوڑنا زیادہ ثواب سمجھتے ہیں، یہ حالت عام ہے شاذ کا ذکر نہیں، خوف میں ڈالنا، غلط خبریں سناکر روحی ایذا پہونچانا تو معمولی باتیں ہیں۔۔۔ناواقف ہندوستانیوں کے لیے یہی کافی ہے کہ فلاں مطوف مکی ہے، مکہ کے رہنے والے ہندوستانیوں کی نظر میں معصوم اور واجب التعظیم ہیں۔ خواہ ان کے افعال کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔۔جو کچھ میں نے لکھا ہے میرا اور مختلف حجاج کا تجربہ ہے۔“ ۔(ص ۲۳۹ تا ۲۴۳ حصہ اول)۔

امرتسر کے ایک صاحب محمد شریف ہیں۔انھوں نے ۱۹۲۷ء ۔میں سفر حج کیا، اور واپسی پر اپنا مختصر سفر نامہ ۳ جزو کا شائع کیا، معلوم ہوتا ہے کہ بزرگوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں، اس چھوٹے سے رسالہ کے اوراق میں بار بار اس کی تاکید کرتے ہیں کہ جو کچھ گزرے حاجی کو چاہیئے صبر وتحمل کے ساتھ اسے برداشت کرے جو امور ناگوار طبع پیش آئیں انھیں اللہ کی جانب سے آزمائش سمجھے وقس علی ہذا،  لیکن ان مواعظ اور نصائع کے باوجود یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ:۔

۔”عموماً سنا گیا ہے کہ مکہ شریف میں بہت سے معلم لوگ اپنے فرائض پوری طرح ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، یہ شکایت خانہ کعبہ میں (غالباً حرم شریف مراد ہے) لوگوں کی زبانی سنی جاتی تھی۔۔۔ہم کو بھی اپنے معلم سے تکلیف ہی ہوئی اور کوئی ایسا آرام اس سے نہیں ملا۔“ ۔(ص ۳۷)۔

اس کے آگے اپنی تکلیف کی تفصیلات لکھی ہیں، یہ تکلیفیں وہی ہیں جو اکثر و بیشتر حاجیوں کو معلموں کے ہاتھوں پیش آتی رہتی ہیں۔مثلاًعین وقت پر باوجود ہر طرح کے پختہ وعدوں کے سواری کا انتظام سے جواب دے دینا، سواری کا سامان ۔(شعذف وغیرہ)۔ باوجود پوری قیمت لینے کے، بوسیدہ اور تکلیف دہ قسم کا دینا،  مکہ ہی سے روانگی کے وقت سواری بہم پہنچانے میں مطلق مدد نہ دینا، وغیرہ وغیرہ۔

معلم حضرات اگر صرف اسی پر بس کرتے کہ حاجیوں سے زیادہ سے زیادہ وصول کرلیا کرتے اور اس کے بعد حاجیوں کو پوری طرح اعمال حج ادا کرنے دیتے تو بھی زیادہ مضائقہ نہ تھا، معلم بیچاروں کا آخر ذریعہ معاش ہی حاجیوں کی آمدنی ٹھہری لیکن اصلی رونا ان کی حرص و ہوس کا نہیں بلکہ قیامت یہ ہے کہ رہبری کا دعویٰ کرکے رہزنی کرتے ہیں۔مدعی اس کے ہوتے ہیں کہ حج صحیح طریقہ پر کرا دیں گے، مگر ہوتا اس کے برعکس عموماً یہ ہے کہ انھیں معلموں کے باعث خدا معلوم کتنے مستحبات چھوٹ جاتے ہیں، سنن رہ جاتے ہیں، اور کتنی بیش بہا گھڑیاں محض ضائع ہوجاتی ہیں، پھر ان کی وجہ سے قلب کو جس تشویش و خلجان کا شکار بننا پڑتا ہے اور عین شکستگی و فروتنی کے وقت زبان پر جیسے ناملائم کلام آتے ہیں، یہ سب مستزاد۔  مولانا گنگوہی کے خلیفہ مولانا خلیل احمد مرحوم و مغفور سہارن پوری ۔(شارح ابوداؤد)۔ شریعت و طریقت کے جامع بزرگ حج کے موقعہ پر ۹۔/ ذی الحجہ کو منیٰ میں قبل طلوع فجر اپنے نوافل معمولہ میں مصروف تھے کہ معلم صاحب نے آکر شور مچانا شروع کردیا، کہ عرفات کے لیے فوراً روانہ ہوں، اس ہنگامہ میں سکون قلب کے ساتھ نماز میں مشغول رہنا مولانا ہی کا کام تھا، سلام پھیرنے کے بعد غصہ کے ساتھ معلم سے ارشاد ہوا کہ ہم نے تمہیں مطوف قرار دیا ہے، استاد یا پیر نہیں قرار دیا ہے۔ ہم شروق آفتاب سے ایک منٹ پہلے بھی نہیں اٹھیں گے، جمالوں کو اپنے اونٹوں پر اختیار ہے، اپنے اونٹوں کو لے جائیں، ہم پیدل ان شاءاللہ عرفات پہونچ جائیں گے۔ (تذکرۃ الخلیل ص ۲۶، ۲۷ ملخصاً) ۔

ان چند شہادتوں سے اندازہ ہوگیا کہ عالم، عامی، صوفی، رئیس جس کسی کو بھی حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ اسے ساتھ ہی معلم صاحبان کی ان عنایتوں کا بھی لذت آشنا ہونا پڑا ہےگویا:۔

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

ان معلموں ہی کے طائفہ عالیہ کی شان میں ہے، بدویوں کی لوٹ مار کے افسانے آج سے چند سال قبل ہر شخص کی زبان پر تھے، معلموں کے کارنامے اب تک عام نظروں سے مخفی ہیں۔۔۔۔۔ظاہر ہے کہ کسی طبقے کے سب افراد یکساں نہیں ہوتے، یہ جو کچھ لکھا جارہا ہے، ایک عمومی اور اکثری حیثیت سے لکھا جارہا ہے، بعض معلم صاحبان یقیناً کلیہ میں مستثنیات کی حیثیت رکھتے ہیں، ناظر یار جنگ بہادر کے معلم۔ (جو شاید حیدرآبادی حجاج کے معلم ہیں) ۔میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنے حاجیوں کی خدمت گزاری پوری توجہ و تندہی سے کررہے تھے اور بعض ثقہ بزرگوں سے معلوم ہوا کہ سید امین عاصم مرحوم کے پوتے سید عقیل عطاس معلموں کے طبقہ میں ایک یگانہ ہستی ہیں۔

۔(عبدالقادر سکندر مرحوم پچھلے سال راہی ملک بقا ہوچکے اور اپنی وفات سے کئی سال قبل مجھ سے اپنی تمام کوتاہیوں اور لغزشوں پر معافی طلب کرچکے تھے۔ اللہ ان کی توبہ کو قبول فرمائے اور ان کے سیات کو حسنات سے بدل دے، ناظرین بھی ان کے حق میں دعائے خیر فرمائیں۔ مرحوم کثیر الادلاد تھے۔ان کے دو لڑکے شاکر سکندر اور عبدالہادی سکندر اب بھی لکھنؤ ہی میں مستقل سکونت رکھتے ہیں۔ (پتہ: عرب ہاؤس مولوی گنج لکھنؤ) ۔اور یہی پیشہ معلمی رکھتے ہیں اور اپنے بیان سے تو بہت سدھرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جو صاحب ان کا تجربہ کرنا چاہیں، اس سفر نامہ کی کوئی بھی عبارت ان کی راہ میں حائل نہ ہو۔)۔

ناقل: محمد بشارت نواز