سفر حجاز۔۔۔(۱۷)۔۔۔ دیار حبیب ﷺ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:56PM Fri 16 Jul, 2021

مدینہ شہر کی موجودہ بستی کچھ ایسی بڑی نہیں،آبادی ہندوستان کے چھوٹے شہروں یا بعض بڑے قصبوں کے برابر ہوگی،سنتے ہیں کہ کسی زمانے میں آبادی کی وہ کثرت تھی کہ راستہ چلنا مشکل تھا،لیکن جس وقت سے ریل کے قدم آئے،جہاز ریلوے کا اسٹیشن کھلا اور شام سے ریل کی آمدورفت شروع ہوئی اسوقت پہلے تو اخلاق و قلوب کے عالم میں انقلاب آیا اور چھپ چھپا کر بھی نہ ہوتا تھا،وہ کھلے خزانے ہونے لگا،اور پھر وہ زبردست مادی جھٹکے لگے کہ ساری آبادی تباہ ہوکر رہ گئی ،ترکی حکومت کی بربادی ،شریفی دور، نجدی دور ہر سیاسی زحف کا پہلا ہدف اس شہر کو بننا پڑا ،اور اس وقت مدینہ دنیا کے مظلوم ترین شہروں میں ہے،سچے اور مدینہ والے سچے کا قول بالآخر پورا ہوکر رہنا تھا کہ ظہور دجال کے وقت بیت المقدس آباد ہوگا،اور مدینہ تباہ،بیت المقدس کی آبادی تو روز افزوں رونق و آبادی سب دیکھ رہے ہیں۔پھر مظلوم مدینہ کی تباہی و بربادی پر حیرت کیوں ہو؟ لیکن شہر آباد ہو یا برباد ،آبادی خواہ بڑھے خواہ گھٹے،بس ایک مدینہ والا سلامت رہے کہ اس کے طفیل میں مدینہ بھی ہمیشہ سلامت ہی رہے گا۔شاعر نے کہا ہے۔ مکیں کی خیر ہو یا رب مکاں رہے نہ رہے لیکن اگر مکین سلامت ہے تو مکان کی سلامتی بھی یقینی ہے،اور بھلا کون ایسا مکان ہوگا کہ سارا عالم تو اس کے مکین کی برکتوں سے مہک رہا ہو،اور خود ہی مکان محروم رہ جائے۔ صاحب جذب القلوب نے ایک مستقل باب فضائل شہر مدینہ کا باندھا ہے۔اور اس کی فضیلت پر مفصل عقلی و نقلی دلائل قائم کئے ہیں ،لیکن درحقیقت اس تفصیلی بحث کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ،جن کے پہلو میں دل ہو ان کے لیے تو بس یہی ایک دلیل سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان کا محبوب آقا، اور ان کے رب کا محبوب ترین بندہ اس سرزمین پر آرام فرما ہے!۔ خاک یثرب ازدوعالم خوشتراست اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست اور جن کے سینہ میں دل ہی نہیں ان کے لیے دلیل و بحث کے دفتر کے دفتر بھی بیکار ہیں۔مثنوی میں مولانا نے ایک حکایت لکھی ہے کہ کسی کنوئیں کو ایک دیو زاد نے اپنا مسکن بنالیا تھا اور جو کوئی اس کنوئیں کے اندر اترتا اس سے وہ سوال کرتا کہ بہتر شہر کون ہے؟ ہر شخص اپنی اپنی پسند کے مطابق کسی شہر کا نام لیتا اس پر وہ ناخوش ہوکر اسے وہیں قید کرلیتا اور باہر نکلنے نہ دیتا۔آخر میں ایک مرددانا اترا اور اس سے جب حسب معمول سوال ہوا تو اس نے جواب میں کہا کہ محض بطور خبر کے نہیں بیان فرمایا گیا ہے بلکہ مدینہ میں مرنے کی رغبت بھی دلائی گئی ہے۔ جس کے لیے ممکن ہو کہ وہ مدینہ میں آکر دفات پائے تو اسے چاہیئے کہ یہیں آکر مرے اس لیے کہ جو یہاں مرے گا میں اس کا گواہ اور شفیع ہوں گا۔ اس سے ملتے جلتے ہوئے مضمون کی متعدد احادیث ہیں، اور صحابہ کرام برابر مدینہ میں اپنے مرنے کی دعائیں اور آرزوئیں کرتے رہتے تھے، پس جس شہر میں جینا اور جس شہر میں مرنا دونوں اس قدر مبارک ہوں کس کو وہاں حاضر ہونے اور حاضر رہنے کی تمنا نہ ہوگی۔ یوں تو سال کے بیشتر حصہ میں سناٹا چھایا رہتا ہے۔دوکانیں بند، بازار سرد، مکانات مقفل رہتے ہیں۔لیکن موسم حج میں تین چار مہینے کے لیے اچھی خاصی چہل پہل ہوجاتی ہے اور سڑکوں اور بازاروں میں اچھا خاصا مجمع رہنے لگتا ہے۔ذی الحجہ کی ۲۰، ۲۲ تاریخ سے حاجیوں کے قافلے ماشاءاللہ بہت بڑی تعداد میں آنے لگتے ہیں اور یہ مجمع آخر محرم تک قائم رہتا ہے۔شوال و ذیقعدہ میں مجمع نسبتاً ہلکا رہتا ہے پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں رہتا ہے خصوصاً ذیقعدہ میں، بازاروں میں ضرورت کی سب چیزیں مل جاتی ہیں اور نرخ بھی کچھ زیادہ گراں نہیں۔گوشت (بکرے اور دنبہ دونوں کا) گھی، شکر، گیہوں کا آٹا، بعض سبزیاں، دودھ دہی ان میں سے ہر چیز اچھی حالت میں بآسانی دستیاب ہوجاتی ہے۔عام دستور یہ ہے کہ لوگ روٹی گھر میں نہیں پکاتے بلکہ بازار سے خرید لیتے ہیں، باقی سالن وغیرہ گھروں میں پکتا ہے۔صبح کے وقت بہت تڑکے سے جو ناشتہ بازاروں میں ملنے لگتا ہے وہ خاص طور پر لذیذ و خوش ذائقہ ہوتا ہے۔اور قیمت میں بھی ازراں، شام کا کھانا عموماً عصر کے وقت ہوجاتا ہے۔شب میں کھانے کا دستور نہیں، دوکانیں بھی شام ہی کو بند ہوجاتی ہیں اور عشاء کے بعد بالکل سناٹا چھا جاتا ہے، کپڑے وغیرہ کی بھی ضرورت ہی کی نہیں بلکہ شوق کی بھی سب چیزیں مل جاتی ہیں۔ مادّی نعمتوں میں دو چیزیں ایسی ہیں جو صرف مدینہ ہی کے لیے مخصوص ہیں۔ایک تو کھجور ہے جس کے خدا معلوم کتنے اقسام بازاروں میں ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے، میٹھے اور بڑے میٹھے، خشک و شاداب، سیاہ سرخ جتنے طرح کے اور جس نرخ کے چاہے لیجئے، اتنے لذیذ اور نفیس کہ پیٹ بھرجائے گا لیکن جی نہ بھرے گا، افسوس ہے کہ ہندوستان زیادہ مقدار میں لانا اول تو دشوار و زحمت طلب اور پھر اگر دشواریاں برداشت کرکے لایا بھی جائے تو یہاں زیادہ عرصہ تک ٹھہرتے نہیں، خراب ہوجاتے ہیں، بمبئی میں جو کھجور ملتے ہیں وہ عراق وغیرہ کے ہوتے ہیں، مدینہ کے کھجور بجز مدینہ کے اور کہیں نہیں دستیاب ہوتے، اور بجز مدینہ کے شاید کہیں کی ہو انھیں راس نہیں آتی، دوسری مادی نعمت اس سے بھی کہیں بڑھ کر مدینہ شریف کا پانی ہے۔زبان اس کی تعریف سے حقیقتاً قاصر ہے۔اتنا سرد لطیف، اتنا سبک ایسا ہاضم پانی شاید پردہ ارض پر کہیں بھی نہ ہو۔بار بار برف کا دھوکا ہوتا تھا۔جتنا چاہے پیتے چلے جایئے۔ذرا بھی گرانی محسوس نہ ہوگی۔جنت میں جو پانی، ساقی کوثر کے ہاتھ سے ملے گا۔شاید اسی کا نمونہ اس جنت ارضی میں دکھادیا گیا ہے! افسوس ہے کہ اس تحفہ کو مدینہ سے باہر لانے کی کوئی صورت اس وقت تک ممکن نہیں ہوئی ہے۔ مکانات کے کرائے بہت ازراں، موسم حج میں نسبتاﹰ گراں ہوجاتے ہیں۔پھر بھی کہاں تک؟ کوئی پرانا مکان خریدنا منظور ہو تو وہ بھی بہت سستے داموں مل سکتا ہے۔اللہ غریق رحمت کرے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو، اس طمع میں ایک مکان مدینہ طیبہ میں خرید رکھا تھا کہ شاید اسی بہانے حشر میں اپنا شمار اہل مدینہ میں ہوجائے! یہ راہ ہر خوش عقیدہ اور خوشحال مومن کے لیے اب بھی کھلی ہوئی ہے۔اور لکھنؤ کے ایک مشہور تاجر اعظم کا تو عمل ہی اس پر ہے۔آبادی میں بیرونی عنصر کثرت سے شامل ہوگیا ہے۔ترک، کرد، عراقی، ہندی، مصری، نجدی، مغربی خدا معلوم کتنے خاندان باہر سے آکر آباد ہوگئے۔سب کے اخلاق اور سب کے مزاج جداگانہ، باقی جو چند مخصوص گھرانے اصلی اہل مدینہ یعنی سادات و انصار کے رہ گئے ہیں ان کے اخلاق اور ان کے جوہر شرافت کا کیا کہنا، ہم لوگوں کو قدرتاً ہندیوں ہی سے زیادہ سابقہ پڑا، ان سب میں ایک بار پھر سب سے پہلا نام قلم کی زبان پر مولانا سید احمد فیض آبادی کا آتا ہے جنھوں نے مسافرت کو ہر پہلو سے گویا وطن بنادیا، جی میں آتا ہے کہ اس پیکر اخلاص و ایثار، اور مجسمہ بےنفسی و خدمت خلق کے رازوں کو خوب کھول کر بیان کردیا جائے۔ لیکن پھر بھی انہیں کی ناخوشی و ناخوشگواری کا خوف غالب آکر زبان روک دیتا ہے۔اب یہ اللہ ہی جانے کہ نفس کا اتنا پاک ہوجانا حرم رسول ﷺ کی تیس سالہ مجاورت کی برکت ہے یا نفس پہلے ہی سے خود اتنا پاک ہوچکا تھا کہ اس نے وطن اور عزیزان وطن سے ہزاروں میل دور کسی کے آستان پاک پر پڑے رہنے پر آمادہ کردیا! اللہ ان کے مقاصد دینی و دینوی پورے کرے اور ان کے مدرستہ الیتامیٰ کو اپنے خزانہ غیب سے مالامال کر، انھیں کے ایک بار پھر خیال کرلیجئے کہ یہ ذکر ۱۹۲۹ء انگریزی ۱۳۴۷ ہجری کا ہے نہ کہ اس کے برسوں بعد کا۔ ہم نشینوں میں ایک صاحب منشی محمد حسین فیض آبادی ہیں، ان کی یاد بھی شکر گذاری کے ساتھ دل میں قائم ہے۔ لکھنو کے خاندان فرنگی محل کے ایک ممتاز رکن اور مولانا عبد الباری کے حقیقی بہنوئی مولانا عبد الباقی صاحب بھی سالہا سال سے ترک وطن کئے ہوئے یہیں مقیم ہیں ، اور مدرسہ نظامیہ کو چلا رہے ہیں۔ بڑی شفقت اور بزرگانہ نوازش سے پیش آئے اور اپنے ہاں ٹھہرانے پر اصرار فرماتے رہے۔ان کے مدرسہ کی عمارت بہت وسیع اور مہمانوں کے لیے ہر طرح آرام دہ تھی۔لیکن مسجد نبوی سے ذرا فاصلہ پر تھی۔اس لیے معذرت کردینی پڑی، ہندی تاجروں میں اطراف بمبئی کے ایک صاحب عبدالغنی دادا نامی ہیں، چائے اور غلہ کی دوکان ہے۔دوکان کا نام عثمان احمد و شرکاء ہے۔بڑے ہمدرد و خدمت گزار، معمولی تعارف پر ہر طرح امداد و دستگیری فرماتے رہے۔اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ ہم لوگ یکم ذیقعدہ کو داخل ہوئے تھے ہندی عشاق میں معلوم نہیں کتنے ایسے تھے جو اس سے قبل سے یہاں حاضر تھے۔منشی امیر صاحب کاکوروی کا ذکر اس سے قبل آچکا ہے مہینوں پیشتر سے حجاز آچکے تھے۔اور مکہ معظمہ میں حاضری دے کر اور عمرہ سے فارغ ہوکر آستان حبیب پر مقیم تھے اسی طرح مولوی غلام بھیک صاحب نیرنگ (ایڈوکیٹ انبالہ و معتمد انجمن تبلیغ الاسلام) بھی ایک مدت سے حاضر آستانہ تھے۔ان صاحبوں کے ذوق و شوق کا کیا پوچھنا جس دربار کی زیارت اگر ایک دن کے لیے بھی میسر آجائے تو خوش قسمتی ہے، وہاں یہ حضرات مہینوں کی مسلسل حاضری سے بھی سیر نہ تھے۔بہار کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر عبدالرحمن بھی حکومت نظام حیدرآباد کی طرف سے خدمت حجاج پر متعین یہیں مقیم تھے اور فرائض علاج و تیماداری کے علاوہ یوں بھی ہر طرح حاجیوں اور زائروں کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔خدا جانے کتنے لوگوں کے کام ان کے ذریعہ سے نکلتے تھے۔حیدرآباد کے وکیل مولوی ابوالخیر خیر اللہ صاحب جو سچ کے صفحات میں کبھی کبھی جلوہ گر ہوچکے ہیں اور فیض آباد کے منشی محمود عالم صاحب جن سے بہت قدیم خاندانی تعلقات ہیں۔بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں، زیادہ ملنے جلنے کی یہاں فرصت کسے تھے، ہر شخص اپنے اپنے مشاغل میں مست تھا۔پھر بھی بشریت سے منزہ تو کوئی ہو نہیں گیا تھا۔ملاقاتیں بھی ہوتیں اور دعوتیں بھی، آپس کے لوگ ہنستے بھی اور بولتے بھی، بعض خوش نصیبوں کی موت بھی اس پاک سرزمین پر آتے دیکھی، جنازے لائے جاتے اور مسجد نبوی کے اندر محراب عثمانی کے سامنے نماز پڑھائی جاتی، اور روضہ اقدس کے سامنے سے، اور کبھی پشت سے "روضہ جنت " کے اندر ہوتے ہوئے باب جبرئیل سے میت کو باہر لاتے اور بقیع میں لے جاکر سپرد خاک کر آتے، اللہ اللہ ان مردوں پر کتنے زندوں کو رشک نہ آئے گا! مدینہ کی موت پھر مسجد نبوی کے اندر نماز جنازہ، پھر رسول کریم کے ہم وطنوں اور مہمانوں کی دعائے مغفرت ،پھر شافع امت کے مواجہہ مبارک یا سرہانے سے میت کا گزرنا ،پھر بقیع کا قبرستان جس کے لیے اتنے سامان رحمت جمع ہوجائیں اس پر کیوں کر رشک نہ آئے بیچارہ فرنگی، ایمان کی لذت و حلاوت سے ناآشنا اپنی جان پر ہر وقت جان دیتا رہتا ہے اسے کیا خبر کہ اس ناسوتی زندگی سے بڑھ کر بھی کوئی زندگی ہے۔اقبال کا یہ شعر بھولتا نہیں، رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ دیں اور کو حضور یہ پیغام زندگی ہم موت ڈھونڈھتے ہیں زمین حجاز میں! مدینہ پاک بلکہ سارے حجاز کا طرز معاشرت ظاہر ہے کہ ہندوستان سے مختلف ہے، لیکن ایسا مختلف نہیں کہ دل کو اس سے وحشت ہو یا زیادہ نامانوس معلوم ہو بس ایسا ہی اختلاف ہے جیسا خود ہندوستان کے مختلف صوبوں بلکہ ایک ہی صوبہ کے دور دراز شہروں کے درمیان پایا جاتا ہے، زبان اردو بقدر ضرورت اچھی خاصی سمجھ لی جاتی ہے، اگر عربی بولنے پر قدرت ہو تو سبحان اللہ، ورنہ کوئی ضروری کام خالی اردو جاننے والوں کا بھی اٹکا نہیں رہتا، مدینہ کا موسم بھی کچھ ایسا سخت نہیں اپریل اور آغاز مئی کا تجربہ ہے۔گرمی سخت اور دھوپ تیز تھی لیکن یوپی کے لوگوں کو تو کوئی غیر معمولی شدت نہیں محسوس ہوئی، درمیان میں بارش کئی بار ہوئی۔راتیں عموماً ٹھنڈی اور خوشگوار رہتی تھیں اور بارش کے زمانہ میں تو اچھی خاصی سردی پڑی، ایسی کہ جو لوگ کافی سرمائی سامان نہیں رکھتے تھے، انھیں تکلیف اٹھانی پڑی، راتوں کو کمرہ کے اندر بھی دولائی یا کمبل کی ضرورت پڑگئی۔آب و ہوا بہت اچھی ہے اور کوئی شخص اگر خود ہی بد پرہیزیاں اور بے احتیاطیاں نہ شروع کردے تو بیمار پڑنے کی نوبت انشاءاللہ نہ آئے گی۔ہمارے قافلہ کے اکثر لوگ بیمار پڑے لیکن جلد اچھے ہوگئے، مکانات عموماً صحن سے خالی ہوتے ہیں۔مگر اس کی تلافی بالاخانہ کی کھڑکیوں اور کھلی ہوئی چھتوں سے ہوجاتی ہے۔اکثر مکانات میں ٹھنڈے تہ خانے میں ہوتے ہیں۔مہتروں کی کوئی قوم یہاں آباد نہیں، اس لیے مکانات میں کنویں کی طرح گہرے گڑھے ہوتے ہیں، وہی پاخانہ یا سنڈاس کا کام دیتے ہیں، ضروری ہے کہ فنائل وغیرہ بدبو مارنے کے لیے دوائیں اکثر چھڑکی جاتی رہیں، قیام اگر دو ہی چار روز کا ہے تو ہر مکان میں گزر ہوجائے گی، لیکن اگر کچھ زیادہ روز حاضر رہنے کا ارادہ ہو، اور خصوصاً جبکہ بیویاں بھی ہمراہ ہوں، چاہیے کہ مکان تلاش کرکے اپنی پسند اور کل ضرورتوں کے مطابق لیا جائے، اس میں بے پروائی یا کفایت کو دخل نہ دیا جائے، اگر مکان تکلیف دہ ہوا تو قلب کو تشویش رہے گی اور یکسوئی نصیب نہ ہوگی، بشری ضرورتوں اور آسائیشوں کی طرف سے بالکل بےنیاز ہوجانا اعلےٰ درجہ کا مجاہدہ ہے جس پر خواص بلکہ اخص الخواص ہی قادر ہوسکتے ہیں، ہر شخص کو اپنے متعلق یہ حسن ظن قائم نہ کرلینا چاہیئے بعض مکانات بہت ہی شاندار اور کوٹھی نما دیکھنے میں آئے، ایک مرتبہ ضرورۃً شیخ عبداللہ الفضل (بمبئی والے) کی قیام گاہ پر جانا ہوا، بڑا لق و دق احاطہ اور کھجوروں کا باغ نہایت وسیع، شاداب درمیان میں ہندوستان کے رئیسوں کی طرح ایک بلند کوٹھی۔ وطن چھوڑے ہوئے آٹھ دس ہفتے ہوچکے، مگر وطن کی یاد کچھ زیادہ نہیں آئی، ہندوستان کی ڈاک یہاں مہینے میں تین بار (ہر دس دن کے بعد)تقسیم ہوتی ہے اور جلد سے جلد ایک مہینہ کی مدت میں وہاں پہونچتی ہے۔۔۔۔یہاں کا ڈاکخانہ اپنے ارتقاء کی ابھی بالکل ابتدائی منزل میں ہے۔۔۔۔لفافہ پر تین آنے کا ٹکٹ لگتا ہے، بعض عزیزوں، اور دوستوں کے خطوط آئے اور انھیں پاکر دل کو خوشی بھی ہوئی مگر ویسی خوشی نہیں ہوئی جیسی ایک مسافر کو اپنے وطن سے دو ڈھائی ہزار میل کے فاصلہ پر رہ کر، ڈیڑھ دو مہینہ کے بعد، اپنے والوں کی خیریت سن کر طبعاً ہوا کرتی ہے۔کیا یہ قلب کی قساوت یا سنگدلی ہے؟ کیا رحمت عالم کے آستانہ پر پہونچ کر اپنے عزیز و قریب یوں ہی بھلادیئے جاتے ہیں؟ یہ صورت تو نہ تھی، اپنے والے کوئی بھی بھولے نہ تھے، والدہ ماجدہ کی خیر خیریت میں خاص طور پر دل لگا رہتا تھا، اور روضہ جنت میں حاضری کے وقت رحمتہ للعالمین کے واسطہ سے رب العالمین سے دعائیں مانگتے وقت تو خاص خاص عزیزوں اور دوستوں کا ذکر نہیں، خدا معلوم کون کون بھولے ہوئے اور کہاں کہاں کے دور دور کے محض شناسا تک یاد پڑجاتے تھے۔البتہ دل پر ہر وقت یاد کسی کی بھی غالب نہ رہتی۔اسے اگر محض سرزمین پاک کی برکت، اور جوار آستانہ رسول کے تصرف سے تعبیر نہ کیجیے تو اور کیا کہیے!