عید الفطر کا پیغام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابابادی رحمۃ اللہ علیہ

Bhatkallys

Published in - Other

09:39PM Fri 22 May, 2020

لکھنوریڈیواسٹیشن کی دعوت پرکی گئی ، مولانا مرحوم کی15  منٹ کی یہ تقریر 13نومبر 1939ءکونشرکی گئی۔اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں عیدالفطر کی خصوصیات کااحاطہ لکھنوی سلیس روزمرہ میں کیاگیاہے۔

اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الّااللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الحمد!آپ نے سنا، یہ ہرمحلّہ سے اورہرگوشہ سے، ہرسڑک سے اورہرچوراہے سے تکبیرکی آوازیں کیسی چلی آرہی ہیں، گویا خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگے ریت کے ذرّے اورخاک کے بگولے، اوراپنے رب کانام جپنے لگے مکانوں کے درودیواراوردرختوں کے برگ وبار!آپ نے دیکھا یہ بستی کی ہرہرسمت سے کیسے امڈے چلے آرہے ہیں۔ رئیسان نام دار بھی اوران کے ادنیٰ خدمت گار بھی۔ عالم وفاضل دین دار بھی اورجاہل مطلق گنوار بھی۔ جھکے جھکے آہستہ آہستہ قدم اٹھانے والے بوڑھے بھی اوردوڑتے اچھلتے کودتے چلنے والے بچّے بھی۔ زرداربھی ناداربھی، پیدل بھی سواربھی، کوئی سائیکل پرکوئی موٹر پر، کوئی یکّہ پرکوئی تانگے پر۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوںنے رمضان کے دن بھوکے پیاسے رہ رہ کررمضان کی راتیں رکوع وسجود، تسبیح و تلاوت میں روروکر گزاری ہیں اوروہ بھی جوسال میں ایک باربھی سجدے میں نہیں گرے، ایک مرتبہ بھی کعبہ کی طرف نہیں جھکے ۔آج سب کے سب رواں ہیں، دواں ہیں، عیدگاہ کی طرف ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ، اچھّے اچھّے کپڑوں کے ساتھ۔ یہ عملی تفسیرہورہی ہے اس حدیث نبوی کی، جس میں آیاہے کہ عیدکی فجر سے اللہ کافرشتہ پکارتارہتاہے لوگوں کوعیدگاہ کی طرف! یہ عیدگاہ کاجماﺅ اورجمگھٹا، یہ راستہ بھرنمازیوں کی ریل پیل، یہ سال سال بھرکے بے نمازیوں کایک بیک نمازی بن جانا، یہ بڑے بڑے پرانے بے غسلوں کا کڑکڑاتے جاڑوں میں صبح سویرے غسل پر آمادہ ہوجانا۔ یہ نازک خراموں کا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں اتنی دورآنااور جانا اگرغیبی پکارنے والے کی پکارکا اثرنہیں تواورکیاہے؟ تفسیر زبان سے نہیں عمل سے، قال سے نہیں حال سے!

گرچہ تفسیر بیاں روشن گزست

لیکن عشق بے زباں روشن ترست

عید آئی اپنے وقت پر ہے لیکن آمد آمد کہنا چاہیے کہ ایک مہینہ قبل سے شروع ہوجاتی ہے اور روزہ داروں کوجو بے شمار فرحتیں اس دنیا میں نصیب رہتی ہیں ان میں سے ایک خاص فرحت یہ عید کا انتظاربھی ہے۔ ادھررمضان آیا ادھرعید کی تیاریاں شروع ہو گئیں، کہیں چھپ کرکہیں کھل کر ۔ عیدگاہ کی صفائی کا،سفیدی کااہتمام ہونے لگا۔ راستہ ٹھیک کیاجانے لگا۔ دوکانوں پرعیدکے لیے نیامال آنے لگا۔ میدہ کی باریک باریک سوئیاں دیکھیے تو نازک اوراٹھائیے توسبک ، بننے اورپکنے لگیں، رمضان ختم ہونے کے قریب آئے اور ادھرچاند کاانتظار واشتیاق دلوں سے زبانوں پرجگہ پانے لگا۔ جہاں دیکھیے یہی چرچا۔ جنتر یاں دیکھی جارہی ہیں۔ اندازوں کے تیرچل رہے ہیں کہ چاند ۲۹کا ہوگا ۳۰کا ۔ اسکولوں اورکالجوں کے طالب علم ،کچہریوں دفتروں کے اہل کار عہدہ دار چھٹی کاحساب لگا رہے ہیں۔ روزہ خودغریب کوان لذّتوں کی کیاقدر! لیجیے ماہ مبارک کی انتیسویں آگئی۔ نہ پوچھیے کہ آج چاند دیکھنے کے کیسے کیسے انتظام ہورہے ہیں ۔ بچوں بوڑھوں بہتوں کے دل میں یہی ارمان کہ چاندآج ہی ہوجائے۔ کچھ اللہ والوں اوراللہ والیوں کی زبانوں پر یہ دعابھی کہ چاندآج کی جگہ کل ہو، اورتیسوں پورے ہوجائیں۔ شام کے انتظارمیں گھڑیاں صبح ہی سے گنی جارہی ہیں۔ اسلامی ریاستوں اورشہروں میں تودوردور سے چاندکی خبریں منگانے کے باضابطہ سرکاری انتظامات رہتے ہیں۔ جوں ہی شام ہوئی اوربے شمارنظریں آسمان پرجم گئیں۔ گویاآسمان پرکوئی قصیدہ لکھاہوا ہے جس کے مطلع کی تلاش ہے۔ اور جو کہیں عین وقت پرابر آگیا تونہ پوچھیے دلوں پر کیسی جھنجھلاہٹ چھاکر رہی! خداخداکر کے چاند نظرآیا!گولے پٹاخے چھوٹنے لگے۔ لیکن اس سے بھی پہلے جس نے چانددیکھا اس نے دعاپڑھی۔ اللہ اکبر! چاندبہت بڑا ،بہت روشن، بہت چمک دار سہی لیکن بڑائی اس میں کیارکھی ہے ،بڑاتووہ ہے جس نے اس کو پیدا کیا۔ اللّٰھم اھلّہ بالیُمن والایمان۔  اے ہمارے اچھّے پروردگار چاند دکھاہم سب کوساتھ خیروبرکت اورساتھ سلامتی وایمان کے ۔ والسلامة والاسلام اورساتھ خیریت اورعافیت اور اسلام کے۔ والتوفیق لماتحب وترضیٰ اورساتھ توفیق اس چیزکے جوتیری پسند ومرضی کے مطابق ہو۔ ربّنا وربک اللہ ۔گواہ رہ اے چاندکہ اللہ ہی پروردگار ہمارا بھی اورتیرابھی ۔ یہ اسلام کی مملکت ہے یہاں تو بات بات پر دعا اورقدم قدم پراپنے مالک ومولیٰ سے التجا

چاند دیکھا چھوٹوں نے بڑوں کوسلام کیا اوران کی زبان سے دعائیں لیں۔ شریف گھرانوں میں اسلامی معاشرت کی اب تک یہ جھلک پائی جاتی ہے۔ دوست احباب ایک دوسرے کومبارک باددینے لگے۔ روزانہ افطارکے بعد تراویح کی فکررہتی تھی آج ادھر سے اطمینان ہے، بچّے خوشی سے اچھل کودرہے ہیں، گھرکے بڑے بوڑھے صبح کی ضرورتوں کی فکر میں لگ گئے۔ دودھ اتناآئے گا،سوئیاں اتنی پکیںگی ۔فرش فروش رات ہی سے ہونے لگا۔ درزی اورموچی کی دوکان پر رات رات بھیڑلگی ہوئی، جوڑا اورپھرنیا،یہی ہے آرزواور ارمان کی چیز۔ گھر کے اندر راتی رات لپ جھپ روشنی کے آگے کپڑوں کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ادھردوپٹہ پرلچکا ٹک رہاہے ادھر پائجامہ پرگوٹ لگ رہی ہے۔ بک بک جھک جھک کاایک ہنگامہ برپا لیکن اس ہنگامہ میں تلخی نہیں خوش گواری۔

وقت کے قدرشناس آج کی شب کوبھی خالی نہیں جانے دیتے ۔رمضان کی ایک ایک رات دولتوں سے مالامال تھی۔ حدیث میں آتاہے کہ وہی نعمتیں شب عیدتک پھیلادی جاتی ہیں۔ اللہ اللہ۔ جب بندہ نوازیوں لٹانے پرآئے توبندہ مانگنے میں کیوں کوئی کسراٹھا رکھے۔ آج کی رات رات   ہے دعاﺅں مناجاتوں کی ،روحانیت کی ،ربّانیت کی ۔ادھرسے عبودیت کی ،ادھرسے ربوبیت کی ،فضائے کائنات میں ہرہرمیٹرپر ،ہرہر (Wave Length)ویو لینتھ  پر بارش ہوئی رات رات بھرلطف ونوازش کی، عطا وبخشش کی۔

صبح ہوئی اورابھی صبح ہونے کہاں پائی کہ بچے کھڑک سے اٹھ بیٹھے ،رات بھر مارے خوشی کے نیند ہی کس کوپڑی؟ ہرگھر میں نہانے نہلانے کا کاروبار پھیل گیا۔ کسی کے یہاں حمام گرم ہے اورکوئی گھرکی انگنائی سے غسل خانہ کاکام لے رہاہے، کوئی نہارہاہے مکان کی چھت پراورکوئی کنویں کی جگت پر۔ آج مسلمان کے یہاں خوشی کادن ہے اوراس کو اپنی بولی میں عید کہتاہے ۔ عیداس کے یہاں سال میں دوبارآتی ہے ۔آج کی عیدکانام عیدالفطر ہے۔ افطار اورافطاری کے محبوب نام اسی فطرسے نکلے ہیں۔ مسلمان کادن ہرروز فجر کے وضوسے شروع ہوتاتھاآج غسل سے شروع ہوگا۔ وضواورغسل دونوں کے لیے مستقل دعائیں ہیں کہ جسم کی صفائی کے ساتھ ساتھ روح بھی دھلتی اورنکھرتی چلی جائے۔ سبحان اللہ وبحمدہ کیساجامع پروگرام ہے اورکیسامکمل انتظام! جسم کانکھار بھی اور روح کا نکھار بھی،اِدھر تفریح، اُدھرتسبیح ، ادھرجسم کی جِلااُدھر روح کی ضیاء

آج کے دن قبل نمازعیدہرصاحبِ حیثیت مسلمان پرصدقہ ایک خفیف سی مقدار میں واجب ہے، اس کانام صدقہ فطرہے۔ اہمیت اس حدیث نبوی سے ظاہرہے کہ جب تک یہ صدقہ ادانہ ہولے گا رمضان کے روزوں تک کااجرمعلّق رہے گا۔ آج مسلمان کے قومی و ملّی جشن کادن ہے۔ کم از کم آج تومفلس سامفلس بھی اسلام کی عمل داری میں بھوکا نہ رہنے پائے ۔ صدقہ تونام ہے اس مالی اعانت کا جواسلام کے ملّی نظام معاشیا ت میں ہرپیسہ والا بے روزگار کی کرتارہتاہے اور جس کے بعد بے روزگاری بے معاشی کا کو ئی سوال ہی نہیں پیداہوتا۔

غرض نہادھوکر کپڑے بدل بدلا، عطروخوش بو لگا، صدقہ دے دلا، شیرخرما اور سوئیاں پی پلا، مسلمان نمازکے لیے چلا۔ نماز عیدگاہ میں ہوگی ۔ عیدگاہ بستی سے باہرمیدان میں ہوتی ہے۔ نہ پٹی ہوئی چھت نہ دالان وشہ نشیں ۔خطہ کے لوگ محلہ کی مسجد میں توروزہی پانچ پانچ مرتبہ جمع ہوتے، ملتے جلتے رہتے ہیں اورہفتہ میں ایک باربستی کے مسلمان جمعہ کی دوپہرکو۔ سال میں دوباردونوں عیدوں کے موقع پر شہراورآس پاس کے مسلمان ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں، اوریہ مجمع گویاہرمرکز کے ایمانی بھائیوں کی ایک کانفرنس ہوتاہے۔ شریعت کی تاکید ہے کہ وحدت اُمّت کے پروگرام کی یہ اہم کڑی کمزورنہ ہونے پائے۔

سورج ابھی پوری طرح بلندبھی نہیں ہونے پایاکہ مسلمان اس نئی نمازکے لیے نکل کھڑاہوگا۔ گاتابجاتا ہوانہیں، رنگ کھیلتا ہوا نہیں، نشہ سے جھومتا جھامتا نہیں۔ آج اس پر ہولی ڈے موڈ طاری ہے خوشی کی مستی سوارہے۔ صدائیں لگاتا نعرے بلند کرتا چل رہاہے۔ آپ سنیں گے یہ نعرے کیاہیں؟ اللہ اکبر اللہ اکبر! بڑائی ہم میں کہاں ہماری کسی چیزمیں کہاں!ہم آپ کے حضورمیں ہیچ محض صفر مطلق بڑائی توصرف آپ میں ہے !لاالٰہ الّااللہ !معبود آپ کے سوااورہے کون؟ زندگی کااصل مقصود آپ کے سوا اورہے کون۔ واللہ اکبر اللہ اکبرولِلّٰہ الحمد۔ بڑائی میرے مولا وآقاآپ کے سوااورہے کون، واللہ اکبر ،اللہ اکبر وللّٰہ الحمد ۔بڑائی میرے مولاوآقا صرف آپ میں ، بڑائی صرف آپ میں ،حسن وجمال صرف آپ کی ذات میں، عزّت وکمال صرف آپ کی صفات میں ،ہماری ہرجنبش لب آپ ہی کی مدح وستائش کاایک عنوان ،ہماراہرتارنفس آپ ہی کی قدرت وعظمت کی ایک داستان

نمازیں روزپانچ وقت کی ہوتی تھیں، آج چھ وقت کی ہوگئیں! یہ مسلمان کے خوشی منانے کا اندازسب سے انوکھا ،سب سے نرالا ،مہینہ بھرکی قید اورپابندیوں کے بعدکہیں آج توجاکرچھٹی ملی اور اس کاانعام یہ کہ نماز گھٹنے کے بجائے آج ایک اوربڑھ ہی گئی! مسلمان آج جیب میں پیسے ڈال کر اس لیے باہرنہیں نکلے گا کہ جوئے میں لگائے شراب میں اڑائے ،راگ رنگ میں گنوائے ، بلکہ قدم اٹھائے گا عبادت کے لیے !جسم کی صفائی وپاکیزگی کے ساتھ، روح کی صفائی وپاکیزگی کے لیے !بستی کے باہربستی کے کلمہ گوﺅں کے ساتھ رکوع وسجودکی دولت حاصل کرنے کے لیے ۔ یہ ہے اس کی خوشی، اس لیے کہ اسی میں اس کے مولیٰ کی خوشی

عیدگاہ پہنچے ،یہاں کے جماﺅ کا کیا کہنا ۔کوئی معمولی قصبہ ہے تومجمع سیکڑوں کا، شہر ہے توہزاروں کا،بڑاشہر ہے توہزارہا ہزار کا، اور کلکتہ وبمبئی ہے تونوبت لاکھوں کی ! امیر بھی فقیر بھی، بڑے بھی چھوٹے بھی، شہری بھی دیہاتی بھی، بوڑھے بھی جوان بھی، چہروں سے ایمان کی مسرّت ٹپکتی ہوئی ۔بشروں سے ادائے فرض کی بشاشت جھلکتی ہوئی ۔کوئی وضوکررہاہے کوئی راہ کے گردوغبار سے ہاتھ منہ دھورہا ہے ۔کچھ لوگ آپس میں ہنس بول رہے ہیں ،کچھ مصلّوں پرقابض ہوکرذکرووردکی تسبیح میں لگ گئے ہیں، اورکوئی صاحب ہیں کہ جوتوں کی فکرو انتظام میں لگے ہوئے ہیں— صحن عیدگاہ سے باہرکامنظر بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ سودے والوں کاہجوم، خوش غلاف گاہکوں اورتماشائیوں کی دھوم! خوانچہ والوںکی بہار ،پھیری والوں کی چیخ پکار۔ ادھرسرخ سرخ کباب سیخ پرلگ رہے ہیں ادھر پکوان کے گھان کڑھائی سے اتر رہے ہیں۔ حقہ پان سگریٹ کی، حلوائیوں کی دوکانوں کے ٹھاٹھ ،کہیں چائے والے اپنے دم سے محفل گرمائے ہوئے، کہیں برف کی قلفی والے اپنارنگ جمائے ہوئے! اورسب سے بڑھ کربچّوں کے کھلونوں ،غباروں، جھنجھنوں والوں کاشوروغل ، چیخ وپکار، بچّوں کے ساتھ خود بھی بچّہ بنے ہوئے۔

لیجیے نمازکاوقت آگیا اورامام صاحب اپنے مصلّے پرآگئے اورصفیں درست ہونے لگیں۔ آج نہ اذان، نہ اقامت ۔ مقصد ان دونوں کااطلاع ہوتاہے مسجد کے اندروالوں اور باہروالوں کوآج یہ مقصد خودبخود حاصل ۔ اس لیے اطلاع بے محل ۔نمازجماعت کااہم پہلو عسکری بھی ہے، اورصف بندی کی اہمیت آج جس لشکری سے چاہیے پوچھ دیکھیے۔ کوئی صاحب کھڑے ہو کرلگے پکارپکار کرترکیب نماز کی تلقین کرنے۔ نماز عیدکوئی پیچیدہ یا دشوار نہیں۔ کل دورکعتیں ۔ نیّت وہی جوسب نمازوں کی ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا اوراتنے کے لیے ہردفعہ تلقین کی ضرورت پڑتی ہے کہ خدائے پاک کی بڑائی آج اورزیادہ تاکیدوتکرار کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔ چنانچہ معمولی تکبیروں کے علاوہ آج چندتکبریں زائدکہی جائیں گی، ان کی تعداد حنفیوں کے یہاں چھ ہے۔ تین تکبیریں رکعتِ اوّل میں نیت نمازکے بعد اورقراءت فاتحہ سے قبل کہی جاتی ہیں،اورباقی تین دوسری رکعت میں رکوع سے قبل اورقرا ءت فاتحہ کے بعد۔

عیدگاہ نہ کوئی سربفلک عمارت، نہ یہاں کوئی جگمگاتا ہواہال، نہ کوئی عظیم الشان دالان، سرے سے چھت تک نہیں ،پوری چار دیواری بھی نہیں۔ صرف ایک لمبی دیوارمغرب کی سمت کھنچی ہوئی۔ آگے چبوترہ ،بس یہ کل اتنی کائنات، سادگی کی انتہا، دین فطرت کی سادگی کاایک نمونہ، اوراس پراس کی دل کشی اوردلآویزی کشش محبوبی! کسی دوسرے مجمع کو مقابلہ میں اورکسی دوسرے منظرکو مثال میں بتلایاجائے، حدیہ ہے کہ شاعرکی دنیا میں عیدگاہ دوسرانام ہے کوئے یارکا، دیارمحبوب کا!

ع عیدگاہِ ماغریباں کوئے تو

اپنوںنے جوکچھ دیکھا اسے چھوڑیے ،غیروں نے جوکچھ ان نمازکے نظاروں میں پایا، اس کی جھلک سرٹامس آرنلڈ اور بشپ لی فرائے وغیرہ کے الفاظ میں دیکھیے۔ اس متن کی شرح وتفصیل کی تاب، شام عیدکی یہ چلتی ہوئی ملاقات کہاں سے لاسکتی ہے۔؟

نمازختم ہوئی اوردورکعتوں کے بعدامام نے سلام پھیرا اورمنبر پرجاخطبہ شروع کردیا۔ خطبے وہی دوہوتے ہیں جمعہ کی طرح۔ دونوں خطبوں میں ہوتاکیاہے؟ نہ پھڑکتی ہوئی غزلیں نہ رنگین افسانے، نہ ادب لطیف کے نمونے نہ پرجوش ترانے ۔وہی رب کی نعمتوں کاشکراوراس کااقرار۔ ترغیب توبہ اورتلقین استغفار۔ اس سے وعدہ اس کے لیے وعید ، ایک کوبشارت دوسرے کوتہدید ۔کہیں جنّت کے پھولوں کی مہک ،کہیں جہنّم کے شعلوں کی لپک ،نیکوں کودلاسے اورخوش خبریاں اوربدوں کوڈراوے اوردھمکیاں، کچھ فقہ وشریعت کے مسائل کچھ رمضان وعید کے فضائل ،غرض وہ سب کچھ جس کے ذکروفکرسے شاندار اور نامور روزناموں کے صفحات خالی رہتے ہیں اور آرٹ اورسائنس کے باتصویر میگزینوں کے اوراق کورے۔ دوسراخطبہ ختم ہواتوامام نے ہاتھ اٹھائے دعاکے لیے اورکئی کئی منٹ تک دعائیں مانگیں اللہ کے فضل وکرم کی، اِس دنیامیں بھی اوراُس دنیامیں بھی ،آج کے لیے بھی اورکل کے لیے بھی، انبیاءاولیاءاورصالحین کے لیے بھی اورعام مومنین ومسلمین کے لیے بھی۔ دعاختم ہوئی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے آپس میں ملناملانا شروع ہوگیا۔ اودھ کے علاقوں میں معانقہ یاگلے ملنے کی رسم شدّت کے ساتھ جاری ہے۔

نماز پڑھی ،خطبہ سنا، دعامانگی، یہ سب ملاکر دیراچھی خاصی لگتی ہے اس ساری مدّت بھرخاصی کڑی دھوپ میں سارے نمازی بیٹھے رہتے ہیں۔ کہیں کہیں شامیانہ کے نیچے اوراکثرمقامات پرنہ توشامیانہ نصب نہ کسی درخت کاسایہ ،اورپھربیٹھے کاہے پرہیں۔ کوچ نہیں نہ صوفے ،مخملی قالین ہیں نہ ریشمی گدّے ، کہیں دری کہیں چٹائی، اورکہیں کھرّافرش زمین! نہ اکتااکتا کر گھڑی دیکھیںگے نہ گھبرا کرشورمچائیںگے۔ پسینے میں شرابور ہیں لیکن اٹھنے اورہلنے کانام نہ لیںگے، جب تک امام خوددعاکے بعد منہ پرہاتھ نہ پھیرلیں۔ امام کے اٹھنے پرمجمع منتشر ہوا اور آپس میں ملتے ملاتے ہوئے لوگوں نے اپنے گھرکاراستہ لیا۔ واپسی پھراسی طریقہ سے ہورہی ہے، توحید کاکلمہ پڑھتے ہوئے اللہ کی بڑائی جپتے ہوئے۔ واپسی بہترہے کہ دوسرے راستہ سے ہوتاکہ دیکھنے والوں پر شوکت اسلام کااثرزیادہ پڑے۔

گھرپہنچے اورعزیزوں دوستوں کے جلسے جمنے لگے۔ آپس میں ملناملانا،کھلانا پلانا، ایک دوسرے کے ہاں آناجانا، شام اسی میں ہوگئی۔ اوراب ہمیشہ کے معمولات پراضافہ کیا، بیسویں صدی کی ایجاد ریڈیو اوراس کے ذہین کارکنوں کے لئے، ایک گم نام گوشہ نشین کاعید کی شام کو یہ عید کا سلام۔

۔۔۔۔۔۔

نشریات ماجد ۲۰۱۶