وہ رات۔۔۔ جب رکن اسمبلی ڈاکٹر چترنجن کا قتل ہوا (دوسری قسط) ۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

09:00AM Tue 10 Apr, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... وہ 10اپریل 1996کی ایک عام رات تھی۔ ڈاکٹر چترنجن کی جیت کو ابھی سال دیڑھ سال ہی ہواتھا۔ چونکہ پارلیمانی انتخاب کی مہم چل رہی تھی اس لئے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اوربھٹکل فسادات کی تحقیقات کے لئے قائم جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں چل رہے معاملات پر غور وفکر کے لئے ہم تنظیم کے کچھ ذمہ داران خاص کر سید محی الدین برمار ، یحییٰ دامودی اور میںآپس میں مل بیٹھنے کا کوئی نہ کوئی موقع نکال لیا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر رات عشاء کے بعدتنظیم کے جنرل سکریٹری جناب یحییٰ دامودی کا معمول تھا کہ وہ مین روڈ پر لکڑی ڈپو کے سامنے واقع میرے دواخانے (جواس وقت میری رہائش بھی تھی)پر ضرور آتے اور ایک آدھ گھنٹہ شہر اور سیاست کے حالات پر ضروری گفتگو کے بعد چلے جاتے تھے۔ 10اپریل1996 کی اس رات کو بھی حسب معمول ملاقات کے بعد تقریباً رات دس بجے قریب وہ چلے گئے،اور میں کلینک کا دروازہ بند کرکے آرام کرنے کی نیت سے اندرونی کمرے میں چلاگیا۔ ابھی دس پندرہ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ یحییٰ دامودی کا ایک چونکانے والافون آیا ۔ پولیس اسٹیشن میں ہلچل: اس دن شہر کے حالات یوں تو بالکل نارمل تھے اور کسی بڑی انہونی کی توقع بھی نہیں تھی ۔حالانکہ اس زمانے میں موبائل فون توتھے نہیں ۔ لینڈ فون سے ہی کام چلانا پڑتا تھا۔ مگر الحمد للہ ہم لوگ اس پرانے سسٹم کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ برابر رابطے میں رہتے تھے اور بر موقع کارآمد اقدام کے لئے بڑی حد تک تیار رہتے تھے۔ اسی معمول کے تحت جناب یحییٰ دامودی نے فون کرکے مجھے الرٹ کیا کہ کچھ خاص اور معتبر ذرائع سے اشارے مل رہے ہیں کہ شاید کوئی بہت بڑا ناخوشگوار واقعہ ہواہے اور محسوس ہورہا ہے کہ شاید وہ ڈاکٹر چترنجن سے متعلق ہے۔ پولیس اسٹیشن میں ہلچل مچ گئی ہے۔ تم جاگتے رہواور ذرا باہر نکل کر دیکھو کہ کیا حالات ہیں؟ میں اپنے طور پر بھی کوشش کرتاہوں اور تمہیں اپ ڈیٹ کرتا رہوں گا۔تم بھی مجھ سے برابر رابطے میں رہنا۔میں نے ہامی بھری اور فون کاٹ دیا۔ پولیس کی غیر معمولی چہل پہل: میں نے فون بند کرکے جیسے ہی باہر سنسان سڑک کی طرف جھانکا تو ایک پولیس جیپ بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ میرے گھر کے سامنے سے ماری کٹہ کی طرف نکل گئی۔کار اسٹریٹ کی نکڑ پر جو رکشہ پارک کیے ہوئے تھے ان سب کو وہاں سے بھگادیا گیا۔ معمول کے مطابق بازار اور دکانیں کب کے بند ہو چکے تھے ۔ایک کوالیٹی ہوٹل کھلاتھا جسے بندکروانے کے بعد جیپ اسی سمت میں آگے بڑھ گئی۔اورمین روڈ پر ایک بے نام سے سناٹا چھا گیا۔ پولیس جیپ کو چوتنی کی سمت غائب ہوتے دیکھ کرمجھے گمان ہواکہ شاید منڈلّی یا نستار پر کوئی فرقہ وارانہ تصادم پیش آیا ہوگا۔اس لئے میں نے اپنایہ احساس یحییٰ دامودی کو فون پر بتانے کے بعد منڈلّی میں موجودجنتا دل لیڈر دامو گرڈیکر سے فون پررابطہ قائم کیا اور پولیس کی جیپ تیز رفتاری سے ان کے علاقے کی طرف جانے کی بات کہتے ہوئے درخواست کی کہ وہ اپنے ذرائع سے معلوم کریں کہ منڈلّی اور نستار کی صورتحال کیا ہے۔چند منٹوں کے بعددامو گرڈیکر نے منڈلّی اورنستار میں حالات پرامن ہونے کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے براہ راست پولیس اسٹیشن کو فون کرکے پوچھا تو وہاں سے بھی کسی ناخوشگوارواقعے کی بات پتہ نہیں چلی ہے، بلکہ پولیس نے انہیں سب کچھ نارمل ہونے کی بات بتائی ہے۔دامو گرڈیکر کی بات پر مطمئن ہوکر بیٹھنامیرے لئے اس وجہ سے ممکن نہیں تھا کہ غیر معمولی ہلچل کے اشارے بہت ہی معتبر ترین ذریعے سے ملے تھے۔

اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر پتّے لرز رہے تھے ، ہوا کے بغیر بھی

اور پولیس نے میرے گھر کامحاصرہ کرلیا: ابھی دامو گرڈیکر سے بات ختم کرکے چند منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ میرے کلینک کی کال بیل بجی۔ اندرونی دروازہ کھول کر دیکھا تو ایک پولیس بس میرے گھرکے بالکل سامنے کھڑی ہے اور بہت سارے پولیس والے مین دروازے اور اطراف کو گھیرے ہوئے ہیں جن کی قیادت سرکل انسپکٹرالہاس ویرنیکر صاحب کررہے ہیں۔ ان کے چہرے پر پسینہ اور ہوائیاں اڑتے ہوئے مجھے صاف دکھائی دے رہاتھا۔ میں نے داخلی دروازہ کھولے بغیران سے پوچھا کہ کیا بات ہے ۔ تو سرکل انسپکٹر نے کہا کچھ دیر کے لئے تمہیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہوگا۔ میں نے پھر پوچھا کہ آخر ہوا کیا ہے تو اس نے کہا کہ کچھ نہیں ، بس تم ہمارے ساتھ چلو۔ میں نے پلٹ کر یحییٰ دامودی کو فون کیا اور صورتحال بتائی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں سرکل انسپکٹر سے اس کا مقصد جانے بغیر باہر نہ نکلوں۔ لیکن میں دیکھ رہاتھا کہ سرکل انسپکٹراپنی فورس کے ساتھ بہت زیادہ عجلت میں ہے اور میں آنا کانی کرتا رہوں گا تو پھر وہ شایددروازہ توڑنے کے لئے طاقت کا استعمال بھی کرسکتے ہیں ۔ پولیس کی ٹکڑی میں شامل کچھ ہماری جان پہچان کے کچھ ہیڈکانسٹیبل وغیرہ بھی بالکل دوستانہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ سر کوئی مسئلہ نہیں ہے ، بس کچھ دیر کے لئے پولیس اسٹیشن چلنا ہے۔ پولیس کا رویہ دیکھ کر میں نے یحییٰ صاحب کو بتایا کہ میں نہیں چاہتا کہ اس وقت پولیس کسی بھی حالت میں میرے گھر کے اندر داخل ہو، اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں خود نکلوں۔آگے کے معاملات تم دیکھ لینا۔

بے تحاشہ کود پڑتے ہیں وفا کی آگ میں ہم ہیں اس مٹّی سے، جس مٹّی سے پروانہ بنا

اور پولیس مجھے لے گئی !: باہر یہ سب چل رہاتھا ، اور اندر میری اہلیہ اور دو کم عمر بچے بے خبر سورہے تھے ۔اڑوس پڑوس میں کوئی گھر نہ ہونے کی وجہ سے تنہائی کاعالم تھا۔سرکل انسپکٹر ورنیکر سے چونکہ بے تکلفی تھی، میں نے کہاکہ دیکھو اس وقت دو چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر کے اندر میری اہلیہ تنہا ہے اور ماحول کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔ میں تمہارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم پہلے مجھے شاذلی اسٹریٹ میں واقع اپنی بیوی کے گھر لے چلو۔ وہاں سے میرے سسر یا بیوی کے بھائی کو ساتھ لاکر یہاں چھوڑیں گے پھر تم مجھے پولیس اسٹیشن لے جانا۔ سرکل انسپکٹر نے بغیرکسی حیل و حجت کے بڑی ہی خوش دلی کے ساتھ میری شرط مان لی۔ میں نے برآمدے سے ہی آواز دے کر اہلیہ کو جگایا اور اچانک درپیش مسئلہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ گھبرائیں نہیں ، چند منٹوں میں اس کے والد یہاں آجائیں گے اور میرے سلسلے میں ہماری ٹیم (یحییٰ دامودی، سید محی الدین برماور،پرویز قاسمجی وغیرہ) اپنا کام کرے گی۔ پھر میں دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلا انسپکٹر نے مجھے جیپ میں بٹھایا(جسے غالباً وہ خود ہی ڈرائیو کررہا تھا) اور شاذلی اسٹریٹ کی طرف جانے کے لئے گاڑی آگے بڑھائی۔ لیکن جیسے ہی وہ ماری کٹہ مندر کے پاس پہنچا، اچانک بڑی تیز رفتاری سے جیپ کو کار اسٹریٹ کی طرف موڑ کر ریورس ٹرن لیا اور آناًفاناً مجھے پولیس اسٹیشن لے جاکروہاں ایک کمرے میں ٹھونس کے ساتھ ہی رفو چکرہوگیا۔ پولیس اسٹیشن میں وہشت کا عالم : پورا پولیس اسٹیشن خالی پڑا ہواتھا۔ صرف ایک کانسٹیبل (جو کہ رائٹر کی ذمہ داری پر تھا) وہاں موجود تھا۔ باقی پولیس والے کہاں گئے تھے کچھ پتہ نہیں۔شہر میں کیا حادثہ یا واقعہ پیش آیا ہے ، اس کا کوئی اندازہ نہیں ۔گھر پر اہلیہ اور بچوں کے تنہا ہونے کی وجہ سے اضطراب بڑھ رہا تھا۔ڈیوٹی پر موجود تنہاکانسٹیبل ایک بار میری طرف خونخوار نظروں سے دیکھنے کے بعد جو لاتعلق ہوکر بیٹھا تو پھروہ کوئی بات کرنے کا روادار ہی نہیں لگ رہا تھا۔ ہر طرف ہُو کا ساعالم طاری تھا۔ تھوڑی دیر بعد مقامی پولیس اسٹیشن سے وابستہ ایک دو کانسٹیبل آئے اور چلے گئے۔ اس دوران ایک مسلم ہیڈکانسٹیبل کمرے داخل ہوا۔ شناسائی کی وجہ سے اس نے بڑی حیرانی کے ساتھ مجھ سے پوچھاکہ’’ کیا ہوا صاحب آپ کیوں یہاں آئے ہو؟‘‘ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا،پہلے سے ڈیوٹی پر موجود پولیس والانفرت انگیز لہجے میں چلااٹھا:’’اے ! کوئی بھی اس سے بات نہ کرے۔ ‘‘ وہ بے چارہ مسلم ہیڈکانسٹیبل تو خاموشی اور حیرانی سے مجھے دیکھتا ہوا نہ جانے کدھر چلاگیا، مگر میری تشویش بڑھنے لگی ، کہ یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے! پھر فون کی گھنٹی بجی اور راز کھلا: پھر اچانک پولیس اسٹیشن کے جس کمرے میں مجھے بٹھایا گیا تھاوہاں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔ فون اسی پولیس اہلکارنے اٹھایا اور گھنٹی کی آواز سن کر دوسرے کمرے سے آنے والے ایک اور پولیس اہلکار کو اس نے بتایا کہ :’’باڈی ، سرکاری اسپتال پہنچائی گئی ہے!‘‘یہ سننا تھا کہ میرا ماتھا ٹھنکا اور جو خطرناک خدشہ ہوسکتاتھا وہ سچ بن کر میرے تصور میں گھومنے لگا۔چند لمحوں کے بعد ان دوپولیس والوں کی گفتگو سے واضح ہوگیا کہ رکن اسمبلی ڈاکٹریُو چترنجن کوان کے اپنے گھرمیں گولی مارکر موت کے گھاٹ اتاراگیا ہے۔اورتب میں پوری طرح خالی الذہن ہوگیا۔ آگے کیاہوگا اور مجھے کیا کرناہے اس بارے میں سوچنے کے لئے دماغ ساتھ نہیں دے رہاتھا۔پھرکچھ دیر کی کشمکش کے بعد بس اللہ پر توکل کرتے ہوئے تمام خدشات اور منفی خیالات کو ذہن سے جھٹک کر اپنے آپ کو پُر سکون رکھنے میں الحمدللہ میں کامیاب ہوگیا۔دل میں یک گونہ اطمینان تھا کہ ہمارے ساتھی جو باہر ہیں ، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے، کوئی نہ کوئی اقدام ضرور کریں گے۔ چترنجن پریہ پہلا حملہ نہیں تھا: ڈاکٹر چترنجن کے قتل کی خبر سے میرے رگ وپے میں سنسنی دوڑنے اور بدترین خدشات ذہن میں ابھرنے کی خاص وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر چترنجن پریہ دوسرا قاتلانہ حملہ تھاجوکامیاب ہوا تھا۔ اس سے پہلے جالی کراس پر شام کے وقت اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ اسکوٹر پر گزرتے وقت مبینہ طور پر ڈاکٹر پر جان لیواحملہ ہواتھا۔ اور پولیس میں درج شکایت کے مطابق ریوالور جام ہوجانے کی وجہ فائر نہیں ہوسکا اور ڈاکٹر اورا ن کا ساتھی حملہ آور سے الجھ کر ریوالور چھین لینے میں کامیاب ہوگئے ۔ حملہ آور تو فرار ہوگیا مگر ریوالور انہوں نے پولیس کے حوالے کیاتھا۔ پولیس نے اس قتل میں ایک مسلم نوجوان کو ملزم بنایا ہواتھا۔ اس پس منظر میں دوسرے حملے کا الزام بھی مسلمانوں پر آنا لازمی تھا۔اسی پس منظر میں پولیس نے ڈاکٹر کو گولی لگنے کے چند منٹوں کے اندر اور لاش اسپتال پہنچانے سے پہلے ہی مجھے اپنے گھر سے اٹھالیاتھا۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے پیچھے پولیس کی کوئی نہ کوئی تھیوری تھی، اور وہ میرے حق میں نظر نہیںآرہی تھی۔بہرحال اوکھلی میں سر آہی گیا تھا اور مجھے موسلوں کا انتظار کرنا تھا۔

زخم اپنا ہے سلامت تو ہم بھی دیکھ لیں گے دنیا کی چٹکیوں میں کتنانمک رہا ہے

طنز اورگالیوں کی بوچھاڑ: پھر کچھ ہی دیر میں ذہنی اذیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔سرکل انسپکٹرویرنیکر مجھے جس کمرے میں ایک بینچ پر بٹھاکر نظروں سے غائب ہوگیا تھا، وہاں سے مجھے ہِلنے کے لئے بھی نہیں دیا جارہاتھا۔دو ایک گھنٹے گزرنے کے بعد کمٹہ، ہوناور، انکولہ وغیرہ سے بیرونی پولیس دستوں کی آمد شروع ہوئی اور پولیس اسٹیشن میں ہلچل تیزتر ہوتی گئی۔ باہر سے آنے والے بیشتر پولیس والے پہلے اسی کمرے میں آتے تھے ، جہاں مجھے بٹھا کر رکھا گیا تھا،اور وہ لوگ مجھ پر نظر پڑتے ہی گالیاں دینا شروع کرتے تھے۔خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے طنزیہ فقرے کستے تھے۔ پولیس والوں کی زیادہ تر گالیاں ہماری مسلمان قوم کے لئے ہوتی تھیں۔ خاص طور پر یہ گالی بار بار سننے کو ملی کہ ’’حرام زادوں کو گائے کا گوشت کھاکر بہت زیادہ چربی آئی ہے۔سالوں کو چھوڑنا نہیں ۔ان کو نیست ونابود کردینا چاہیے ، ‘‘ وغیرہ۔ اور میری حالت یہ تھی کہ زبان سے اُف بھی کرتا تو نہ جانے میراکیا حال کردیتے۔ مصلحت کا تقاضا بس یہی تھا کہ ہر کڑوے کسیلے جملے پر صبر اور خاموشی اختیار کی جائے اور کسی بھی قسم کے ردعمل سے باز رہا جائے۔ پھر ایک اور ساتھی کا اضافہ ہوا: کچھ دیر بعد میرے کمرے میں مزید ایک ساتھی کا اضافہ ہوا۔غالباً رات بارہ بجے کے بعد پولیس کی ایک ٹیم گنگولی اسلم مرحوم (المعروف انڈا اسلم)کو پکڑ لائی۔93فسادات کے تعلق سے اسلم گنگولی مرحوم (اللہ اس کی بال با ل مغفرت کرے ) ایک واقعے کے پس منظر میں پولیس کے radar پر تھا۔ ایک مرتبہ اس سے پہلے بھی اس کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس وقت پولیس نے اس کے گھر سے ریولوار برآمد ہونے کی جھوٹ موٹ کی کہانی تیار کرکے عدالت میں پیش کرنے کی سازش رچی تھی، مگر اتفاق سے قبل از وقت یہ بھنک مجھے مل گئی تھی اور میں نے کچھ ایسی کوشش کی تھی کہ پولیس ہتھیارکی ضبطی دکھانے کے اپنے اُس جھوٹے پلان میں ناکام رہ گئی تھی۔بہر حال اب کی بار پھر اسے پکڑکر لایا گیا تو وہ شاید نیند سے جگاکر لائے جانے پر بہت زیادہ پریشان تھا۔ اسے بھی حقیقت کا پتہ نہیں تھا۔ جب میں نے پورا واقعہ اور اب ہمیں درپیش صورتحال اس پر واضح کی تو وہ اوربھی زیادہ مشتعل ہوگیا۔ قومی لیڈر شپ کے خلاف اناپ شناپ بولتارہا۔وہ مسلسل احتجاج اور بھڑاس نکالنے پر آمادہ تھا۔ اس کے اس ناقابل برداشت رویے کی وجہ سے میرا دماغ تپنے لگا ، پھر صبر کے ساتھ حالات سے لاتعلق ہوکر بیٹھنے کی شعوری کوشش کرتے ہوئے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میرا سر بینچ پر بیٹھے بیٹھے ہی سامنے رکھے ہوئے بوسیدہ ٹیبل پر اپنے ہی ہاتھ کے تکیے سے ٹک گیا اور کب سولی پر بھی نیند آجانے والی بات سچ ہوگئی۔ اور جب اچانک آنکھ کھُلی : غالباً صبح تین چار بجے کا وقت تھا۔ پولیس والوں کے زور زور سے باتیں کرنے کی آوازوں کے ساتھ کسی جانی پہچانی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ جب نیند بھری آنکھوں کو ملتے ہوئے دیکھا تو میرے سامنے تنظیم کے صدر جناب سید محی الدین برماور اور جنرل سکریٹری جناب یحییٰ دامودی کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی میری بانچھیں کھل گئیں۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر اداکیا کہ آدھی سے زیادہ رات کرب واضطراب سے گزرگئی سو گئی، اب ہماری ٹیم کے یہ ذمہ داران پولیس کے شکنجے سے مجھے چھڑا لے جانے کے لئے بالآخر پہنچ ہی گئے ہیں۔ مگر.....چند ہی لمحوں میں یہ خواب بھی جھوٹا ثابت ہوا، کیونکہ جب پوری طرح غنودگی سے نکل کر میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ پولیس ان دونوں کو بھی میری طرح اپنے اپنے گھروں سے اٹھالائی ہے۔پسینہ تو کب کا خشک ہوچکا تھا اب پھر کہاں سے چھوٹتا۔دل سے بس ایک ہی آواز نکلی : ؂

آ عندلیب کریں مل کے آہ و زاریاں تو ہائے گُل پکار ، میں چلاؤں ہائے دل!

مختلف مقامات سے پولیس دستوں کی آمد مزید بڑھ گئی تو اب ہم چاروں کوایک دوسرے کمرے میں منتقل کردیا گیا اور دروازے پر دو ہتھیار بندسنتری تعینات کردئے گئے۔رات ڈھلتے ڈھلتے صبح کے دروازے پر دستک دینے لگی اور وقتی ہیجان کم ہونے لگا توڈھارس بندھی کہ وقت نے ایک کی جگہ تینوں کی ٹیم کوایک ساتھ جمع کردیا ہے تو اس سچویشن پر سوچنے اور نتیجہ خیز لائحۂ عمل بنانے کا موقع ملے گا جس کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ ضرور نکلے گا ! (دوسرے دن کا سورج نکلا۔۔۔مگر۔۔۔کاش کوئی ہماری خیر خبر لینے والا ہوتا!۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کیجیے) haneefshabab@gmail.com   (اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے اور ان کے اپنے خیالات پر مشتمل ہے۔ اس سے ادارہ کا متفق رہنا ضروری نہیں ہے۔)