حفیظ صاحب ابھی آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟

Bhatkallys

Published in - Other

10:09AM Sat 19 Mar, 2016
حفیظ نعمانی ممتاز مارکیٹ کی تباہی کی گونج ختم ہونے والی نہیں ہے۔ لکھنؤ کے ڈی ایم بھی پرسہ دینے اور ضلع کے سب سے بڑے افسر ہونے کی حیثیت سے یہ دیکھنے کے لئے آئے تھے کہ ایسی تباہی کیوں ہوئی؟ سنا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے معلوم کیا کہ اس کا نقشہ جو ایل ڈی اے سے پاس ہوا تھا وہ کہاں ہے؟ جواب ملا کہ کوئی نقشہ بنا ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ جس جس محکمہ سے این اوسی لینا ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ جواب ملا کہ کیسی این او سی؟ سیکڑوں دکانیں صرف اس حساب سے بنائی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پگڑی مل سکے اور وہ قابض گروہ کی جیب میں آجائے۔ شاید اسی من مانی اور قانون کی پامالی کی تکلیف محسوس ہوئی کہ ڈی ایم صاحب نے کہا کہ پوری مارکیٹ سیل کردی جانا چاہئے۔ ہم نے دو دن پہلے اپنے بارے میں لکھا تھا کہ ہم 1953 ء میں باغ گونگے نواب میں آئے تھے۔ جس عمارت میں تنویر پریس لگا تھا وہ 12 ہزار فٹ کے ایک قطعۂ آراضی پر دو ہزار فٹ میں بنی ہوئی تھی۔ اتنی اتنی جگہ میں ہی بھگوان داس اینڈ سنس اور ہری کشن کی دو تھوک کی دکانیں تھیں۔ اس عمارت کے مالک حاجی سلیم صاحب تھے جن کا مقدمہ کلکتہ کے ان کے شرکاء سے چل رہا تھا۔ وہ جب منقدمہ ہار گئے تو انہوں نے چاہا کہ جتنی زمین جس کرایہ دار کے پاس ہے وہ اپنے نام سے لے لے۔ اس زمین پر صرف 6 ہزار فٹ پر عمارت تھی اور باقی زمین پر عمارت نہیں تھی۔ پڑوس میں پرتاپ مارکیٹ بن جانے کے بعد اس کی قیمت 20 گنا ہوگئی تھی۔ شری بھگوان داس نے تجویز رکھی کہ ہم سب مل کر یہاں بھی مارکیٹ بنالیں۔ اور وہاں بازار بن گیا۔ ہم نے اپنی زمین پر پریس لگایا اور آفس بنا لیا۔ یہ بازار ممتاز کی طرح قوم کا نہیں تھا صرف ہم تین خاندانوں کا تھا۔ لیکن اسے بناتے وقت ہر اس چیز کا خیال رکھا گیا جو ہر برے اور اچھے موسم کا کوئی اثر قبول نہ کرے۔ نقشہ ہم نے بھی نہیں پاس کرایا تھا۔ اس لئے کہ سڑک کے کنارے ہم لوگ پانچ سو فٹ زمین کیسے چھوڑ دیتے؟ ایل ڈی اے کے انجینئر اور امین آباد تھانے کی طرف سے چھوٹ تھی کہ اتنے اتنے روپئے روز دیئے جاؤ۔ چاہے رات دن کام کراؤ، یا صرف دن میں۔ ہمارا حصہ دیتے جاؤ اور چاہے تاج محل بناؤ چاہے قطب مینار۔ اور ہم نے ایک مہینہ میں سب کچھ بناکر کھڑا کردیا۔ ممتاز مارکیٹ قوم کی چیز ہے آج اگر کسی کا قبضہ ہے تو کل انہیں نکالا بھی جاسکتا ہے۔ اور دوسروں کو جواب دینا پڑے گا۔ اس لئے ایل ڈی اے سے نقشہ بھی بنوانا چاہئے تھا۔ اور ہر متعلقہ محکمہ کی این او سی بھی لینا چاہئے تھی تاکہ اگر شریفوں کو جواب دینا پڑے تو وہ شرمندہ نہ ہوں۔ بنانے والوں کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ ممتاز اسکول کی عمارت ان کے باپ کی نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کی چیز ہے اور اسے ایسا بنانا چاہئے کہ 100 برس کے بعد بھی اگر کوئی حادثہ، آفت ارضی و سماوی سے ہوجائے تو کسی مسلمان کی آنکھ نیچی نہ ہو۔ بیشک اس میں زمین بھی سڑک کے لئے چھوڑنا پڑتی اور پوری مارکیٹ میں تین سو کے بجائے دو سو دکانیں بنتیں۔ لیکن کسی بھی ڈی ایم جیسے افسر یا وزیر کے سامنے ہر سوال کے جواب میں دلالوں، بروکروں اور ایسے بھڑوؤں کی طرح تو گردنیں نہ جھکتیں جیسے جسم فروشی کے اڈے چلانے والوں کی چھاپہ مارنے والی پولیس کے سامنے جھکتی ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ قوم کی امانت میں خیانت اور قانون کی ہر دفعہ کو جوتے سے روندنے والے اتنے بڑے قانون داں ہیں کہ حکومت نے ان کے سر پر خدمت گار کا تاج رکھ دیا ہے۔ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان کی قانون دانی سے مرعوب ہوکر نہ صرف رکن بنایا ہے بلکہ بابری مسجد کے مقدمہ کی لگام بھی ان کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ جنہوں نے ممتاز مارکیٹ بنوانے میں قانون کی درجنوں دفعات میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ اب یہ حکومت اُترپردیش اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سوچنے کی بات ہے کہ بھروسہ کا رشتہ باقی رکھیں یا نہ رکھیں؟ پرسوں ہم نے جو الفاظ میں دل کی آگ کو بھرکر کاغذ کو سرخ کیا تھا۔ اسے پڑھ کر ایک کالج کے چالیس سال تک خدمت کرکے ریٹائر ہونے والے محترم نے فون کیا کہ آپ نے بیشک بہت کچھ لکھ دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ کیا کیا ہوتا ہے؟ اور کیسے کیسے ہوتا ہے؟ جب ممتاز کی آگ کی جلن ختم ہوجائے گی تب ہم آپ کو بتائیں گے کہ جن کو آپ نے دبنگ لکھا ہے ان میں کیسے کیسے وہ بھی ہیں جنہیں دیکھ کر ہر سڑک پر سلام کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں اور جب وہ لوٹ مچاتے ہیں تو شاید شیطان بھی سیکھنے کے لئے مؤدب ہوکر بیٹھ جاتا ہوگا؟ ٹیلیفون کا سلسلہ رات عشاء کے وقت تک رہا۔ کسی نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے اقلیتی اداروں کے پرنسپل کو ساٹھ ہزار ملتے ہیں اور ٹیچر کو چالیس ہزار ان کی اطلاع یہ ہے کہ ایسی ایسی خواتین بھی انٹرکالج کی پرنسپل ہیں جو مڈل پاس بھی ہیں یا نہیں یہ بھی نہیں معلوم؟ اور وہ دبنگوں کے بچے کھلاتی ہیں اور گھروں میں کھانا پکاتی ہیں اور دن بھر دستخط کرتی رہتی ہیں جس کے عوض انہیں پانچ ہزار روپئے ملتے ہیں اور ٹیچر وہ اسکول کے ہوں یا مدرسہ کے سب کو چالیس ہزار ملتے ہیں۔ وہ ڈرائیور کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں اور بازار کے بھی سارے کام کرتے ہیں۔ اور جو لوگ پڑھاتے ہیں وہ دبنگوں کے پرائیویٹ نوکر ہوتے ہیں۔ یعنی قابلیت کے اعتبار سے تنخواہ دے دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے دل میں لگی آگ کی وجہ سے لکھ دیا تھا کہ مسلم اداروں کا اقلیتی کردار اب ختم کرا دینا چاہئے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ نہ جانے کتنے دلوں میں یہ ذلیل حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہم سے بھی زیادہ آگ لگی ہوئی ہے۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ صرف اس کا خاکہ بنوانے کے لئے ملنے آئیں گے۔ اور انہیں اس سے بھی اتفاق ہے کہ 100 میں 10 اسکول خدمت بھی کررہے ہیں۔ لیکن 90 فیصدی بے ایمانوں اور سنگھیوں سے زیادہ مسلم دشمنوں کے ہاتھوں برباد ہورہے ہیں۔ ہم نے تو صرف ان اسکولوں اور کالجوں کے لئے لکھا تھا جن سے ہم ذاتی طور پر واقف ہیں لیکن اخبار تو کئی شہروں میں پڑھا جاتا ہے۔ اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ملک کے پندرہ بیس اخبار ہمارا مضمون بڑے اہتمام سے چھاپتے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کہیں نوکری دینے کے بدلے کار لے لی جاتی ہے کہیں موٹر سائیکل اور کہیں سال بھر کی تنخواہ پہلے وصول کرلی جاتی ہے۔ ایک ہفتہ میں ملک کے ہر شہر میں مضمون چھپ چکا ہوگا اور دس دن میں ملک کے اکثر مقامات سے وہاں کے لوگوں کا تاثر معلوم ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہم دوستوں سے مشورہ کرکے ایک جلسہ کریں گے جس میں صرف 100 صاحب رائے مسلمانوں کو بلاکر فیصلہ کریں گے کہ اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟ اس کے بعد اسمرتی ایرانی صاحبہ سے ایک وفد ملے گا اور انہیں بتائے گا کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ لیکن کچھ بھی کرنا پڑے دبنگوں کی داداگیری کو ہر حال میں ختم کرنا ہے۔ فون نمبر: 0522-2622300