بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (چھٹی قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(گزشتہ سے پیوستہ .....)
پچھلے دنوں رابطہ تعلیمی ایوارڈ اجلاس میں شرکت کے لئے نائب وزیراعلیٰ کرناٹک ڈاکٹر جی پرمیشورا بھٹکل تشریف لائے تھے تو یہاں کے نومنتخب رکن اسمبلی سنیل نائک نے انہیں میمورنڈم پیش کرتے ہوئے جو مطالبات رکھے تھے ان میں دو باتیں خاص توجہ طلب ہیں۔ ایک تو جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن اور جسٹس رامچندریا کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی مانگ ہے۔ دوسرے شہر کے اطراف میں چیک پوسٹ قائم کرکے ’ہتھیاروں کی اسمگلنگ‘ روکنے کا مطالبہ ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ جسٹس جگن ناتھ شیٹی اور جسٹس رامچندریا کی رپورٹس کوبی جے پی نے کرناٹکا میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔بس یہ لوگ اپوزیشن میں رہتے وقت ہی اس قسم کے مطالبے کرتے رہے ہیں۔
اس مرتبہ اسمبلی الیکشن سے قبل بی جے پی نے ساحلی کرناٹکا میں بھٹکل کے 93فسادات کے بعد والا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ خاص کرکے ہوناور میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد پریش میستا نامی نوجوان کی مشکوک موت کو مسلمانوں کی طرف سے ۱۹۹۳ ء میں ہندوؤں کے خلاف کیے گئے مبینہ مظالم سے تمثیل دی گئی تھی۔ خود بھٹکل کے بی جے پی لیڈران نے کھلے عام اس قسم کے بیانات دیتے ہوئے اسے بھٹکل کی مسلم دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف اسی جارحانہ پروپگنڈے کا اثرتقریباً وہی ہوا جو کہ 1994کے اسمبلی اور 1996کے پارلیمانی انتخابات میں ہواتھا۔یعنی بی جے پی کا سیاسی مفاد پورا ہوگیا۔
اب 2018کے اسمبلی انتخابات کے بعد پھر 2019کے انتخابات درپیش ہیں اور بی جے پی کے سر پر ہرحال میں پوری اکثریت کے ساتھ دہلی پر قبضہ جمانے کا بھوت سوار ہے توپھر ایسے میں وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنے کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے ہندو ووٹرس کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جائے اور مسلمانوں کی دہشت گردی کا خوف دلاکر بی جے پی امیدوار کی جیت یقینی بنائی جارہی ہے۔ مقامی رکن اسمبلی سنیل نائک کی جانب سے نائب وزیر اعلیٰ کو دیا گیا میمورنڈم اور ا س میں جگن ناتھ شیٹی کمیشن،رامچندیا کمیشن اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے تذکرے کواس سلسلے کی پہلی کڑی سمجھنا چاہیے۔
بہر حال جسٹس جگن ناتھ شیٹی میں ہمارے معرکے کی دلچسپ داستان قریب الختم ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
وکیل : بھٹکل میں کتنے آٹو رکشہ اور کتنے ٹیمپو ہیں؟
جواب :تقریباً سو دو سو آٹو رکشہ اور چار ٹیمپوہیں۔(تنظیم ٹیمپو)
وکیل : کیا 1993 کے فسادات میں رکشہ ڈرائیورس ملوث رہے ہیں؟
جواب : جہاں تک مجھے علم ہے اس دفعہ آٹو رکشہ ڈرائیورس فسادات میں ملوث نہیں رہے۔
وکیل : اس سے پہلے کے فسادات میں؟
جواب : ہاں۔ اس سے پہلے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔
وکیل : بھٹکل میں تنظیم کیا کرتی ہے؟
جواب : تنظیم غریبوں کی مالی امدادکرتی ہے۔ کبھی دوائیاں فراہم کرتی ہے، کبھی کفن دفن کا انتظام کرتی ہے۔
وکیل : کیا یہ صرف مسلمانوں کی مالی امداد کرتی ہے؟
جواب : نہیں، غیر مسلم بھی مدد طلب کرے تو اس کی بھی مدد کرتی ہے۔
وکیل : کیا تم بتا سکتے ہو کہ کتنے غیر مسلموں کی امداد کی گئی ؟
جواب : نہیں ۔ یہ تو میں اس وقت نہیں بتا سکتا، لیکن ہمارے ریکارڈ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
وکیل : کیا تم بتا سکتے ہو کہ اب تک ہندوستان میں تنظیم سے کتنے لوگوں نے فائدہ اٹھا یا ہوگا؟
جواب : یہ بھی میں بتا نہیں سکتا۔
وکیل : کیا تم اسلم ٹائیگر گروپ کوجانتے ہو؟**
جواب : نہیں۔ میں نے اسلم ٹائیگر گروپ کا نام بھی نہیں سنا ہے۔
وکیل : زبیر لائن گروپ ؟**
جواب : نہیں ، اس گروپ کے بارے میں بھی میں نے نہیں سنا۔
( **یہاں کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ میں نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں سوالوں کی نوعیت پر پھر سے غور کریں تو بات صاف ہو جائے گی)
وکیل : جماعت اسلامی کے بارے میں سنا ہے؟
جواب : جی ہاں، جماعت اسلامی ہند کے بارے میں سناہے۔
وکیل : کیا یہ بھٹکل میں موجود ہے؟
جواب : نہیں، بھٹکل میں جماعت اسلامی ہند کی شاخ موجود نہیں ہے۔
( واقعتا اس وقت جماعت اسلامی کی با قاعدہ اور با ضابطہ شاخ بھٹکل میں موجود نہیں تھی۔صرف ایک باضابطہ رکن ہونے کی وجہ سے یہاں حلقۂ متفقین قائم تھا)
وکیل : جماعت اسلامی کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟
جوا ب: یہ ایک آل انڈیا تنظیم ہے۔ اس کے اہم مقاصد قرآنی تعلیمات اور اسلامی احکامات کو مسلمانوں میں عام کرنااور فسادات وغیرہ کے موقع پر متاثرین کی مدد کے لئے آگے بڑھناہے۔
وکیل : کیا بھٹکل میں فسادات کے وقت جماعت اسلامی والے متاثرین کی مدد کے لئے آئے تھے؟
جواب : نہیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی بھی متاثرین کی مدد کے لئے بھٹکل نہیں آیاتھا۔
وکیل : اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نیاز احمد نے دونوں فرقوں کے لئے ایک ڈنر میٹنگ رکھی تھی۔ کیا تم نے اس میں شرکت کی تھی؟
جواب : نہیں۔ میں اس میں شریک نہیں رہا۔
وکیل : ڈی،سی،نیاز احمد نے کہا ہے کہ بھٹکل کے فسادات کا سبب مسلمانوں کی معاشی ترقی ہے ،جسے غیرمسلم برداشت نہیں کر رہے ہیں۔ کیا تم اس سے متفق ہو؟
جواب : ہاں میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ بھی ایک سبب ہے۔
وکیل : دوسرے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
جواب : دوسرا سبب سیاسی رسّہ کشی او مفاد پرستی ہوسکتا ہے۔
وکیل : کیا تم جانتے ہو کہ کانگریس پارٹی میں ہی آپسی رقابت تھی؟
جواب : نہیں، مجھے پتہ نہیں۔
وکیل : ڈپٹی کمشنرنیاز احمد نے فسادات کا سبب یہ بھی بتایا ہے کہ مسلم فرقہ کے نوجوان بے لگام اور اپنے بڑوں کے کنٹرول میں با لکل نہیں ہیں۔ کیا تم مانتے ہو؟
جواب : نہیں میں اس سے با لکل اختلاف کرتا ہوں۔بلکہ نوجوان قابو میں تھے اسی لئے تو فساد اس سے زیادہ نہیں پھیلا۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلم نوجوان ذرا سی اشتعال انگیزی پر بھڑک اٹھتے ہیں۔اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
جواب : نہیں ، یہ بالکل غلط بات ہے ۔ میں نہیں مانتا۔
وکیل : پھر تمہاری نظر میں فسادات کا بنیادی سبب کیا ہے؟
جواب : سوائے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی نفرت کے ،فسادات کا بنیادی سبب کچھ اورنہیں ہے۔ حالانکہ مسلم فرقہ کے لوگ ہندوؤں سے ہمیشہ محبت رکھتے آئے ہیں، اور آج بھی رکھتے ہیں۔
وکیل : مگر یہ تو سچ ہے کہ بغیر دو ہاتھوں کے تالی بجائی نہیں جا سکتی ؟
جواب : بجائی جا سکتی ہے۔(پھر اپنے سامنے والے ٹیبل پر ایک ہاتھ مارکر آواز نکالتے ہوئے ) اس طرح!
وکیل : یہ تالی نہیں، تھاپ ہوئی!
جواب : میرا مطلب یہ ہے کہ زبردستی بھی تالی بجا نے کی کوشش کی جا تی ہے۔
وکیل : میرا مطلب یہ تھا کہ دونوں فرقوں نے فسادات میں حصہ لیا ہے۔
جواب : نہیں میں یہ بات نہیں مانتا۔
وکیل : کیا تم نے اس کمیشن کے سلسلے میں جاری حکومت کا نوٹی فکیشن پڑھا ہے؟
جواب : ہاں میں نے پڑھا ہے اور اسی کے مطابق اپنا بیان دے رہا ہوں۔
وکیل : آئندہ حالات پر امن رہیں، اس کے لئے تمہاری رائے میں کیا اقدامات ہونے چاہئیں؟
جواب : ۱)کچھ ایسے سماجی پروگرام ہونے چاہئیں، جہاں دونوں فرقہ کے لوگ جتنی زیادہ بار ممکن ہو آپس میں ملتے جلتے رہیں۔
۲) ملازمتوں کے لئے زیادہ مواقع نکالنے ہونگے۔جہاں بیکار نوجوان نوکریاں حاصل کر سکیں اور معاشی استحکام پیدا ہو۔
۳) مشترکہ تفریحی پروگرام ہوتے رہنے چاہئیں۔
۴) انتظامی سطح administrative level پرمسلم مخالف پروپگنڈہ کو جڑ سے ختم کیا جانا چاہئے۔
۵) پولیس فورس بڑھائی جائے اور اسے زیادہ سیکیولر اور غیر جانبدار بنایا جائے۔
۶) کسی بھی فرقہ کے مجرموں کو گرفتار کرنے اور سزا دلانے کے لئے بر وقت اقدامات ہونے چاہئیں۔
۷) تعلیمی نصاب میں تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہئے۔
۸) تمام مذاہب کو حقائق کی روشنی میں پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملنا چاہئے۔
وکیل : کیا یہ سب فیکٹرسfactorsاب تک موجود نہیں تھے؟
جواب : ہاں، اس کی کمی تھی اور صرف بھٹکل ہی میں نہیں۔ میں پورے ہندوستان کی بات کر رہا ہوں۔
وکیل : تو بھٹکل میں اس طرح بڑے لمبے عرصہ تک فسادات جاری رہنے کا سبب کیا تھا؟
جواب : یہ فسادات اس لئے بھڑکتے ہی رہے کیونکہ سخت ترین اور بر وقت اقدامات نہیں کئے گئے۔ او ر پھر جب دسمبر ۹۳ ء میں سخت اقدام کیا گیا ( یعنے سنگھ پریوار کے بڑے لیڈروں کو بشمول ڈاکٹر چترنجن، گرفتار کیا گیا) تو فساد نہ صرف رک گیا بلکہ اب تک رکا ہوا ہے!!
یہاں پر وکیلوں کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حالانکہ سنگھ پریوار کے وکیل نے تین طلاق، چار شادیوں اور جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ پر بھی چبھتے ہوئے سوالات کیے تھے، مگر اس زمانے میں الاتحاد اخبار قسط وار چھپے ہوئے اس مضمون کا تھوڑا سا حصہ میرے پاس محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ سوالات و جوابات یہاں درج نہیں کیے جاسکے۔
جیسے ہی وکیلوں کی طرف سے جرح کا سلسلہ ختم ہواتوسب سے پہلے سنگھ پریوارکے اس وکیل کو جس کانام بی ایم اڈیگا تھا اور جس نے مجھ پر اسلام او ر مسلمانوں کے تعلق سے سوالات کی بوچھار کی تھی، میں نے اسلام کے متعلق کچھ کنڑا کتابچے تحفتاً دئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ اسلام کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرے ۔ میں نے اس سے کہا کہ اگلی کسی ملاقات میں قرآن کا ترجمہ اسے تحفے میں دوں گا۔ اس نے نہ صرف خوش دلی سے اسلامی لٹریچر قبول کیا بلکہ قرآن کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
(...ڈاکٹر چترنجن بطور گواہ.....وکیل کو قرآن کا تحفہ اور اس کا اثر..... ملاحظہ کریں...اس سلسلے کی اگلی اور آخری قسط)
haneefshabab@gmail.com