سابق فوجیوں سے مودی کا خطرناک مذاق(از:حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

06:23AM Thu 12 Nov, 2015
از:حفیظ نعمانی وزیر اعظم شری نریندر مودی کی آج جو حالت ہوگی اس کا سمجھنا کوئی معمہ نہیں ہے۔ اندر سے ان کا ضمیر انہیں آمادہ کررہا ہوگا کہ وہ اس شکست کی ذمہ داری کو پوری طرح قبول کریں اور اپنے ساتھ ہی نااہل بے شعور اور غیرسیاسی اپنے ابوالخیر امت شاہ کے ساتھ دو چار سال کے لئے گھر بیٹھ جائیں۔ بزرگ لیڈروں نے وہ فرض ادا کیا ہے جو بوڑھا باپ یا چچا کیا کرتا ہے۔ اور راج ناتھ سنگھ ان دونوں کو ذمہ داری سے بچانے کی کوشش اس لئے کررہے ہیں کہ پھر وہ بھی وزیر داخلہ نہ رہ سکیں گے۔ سب سے اچھا یہ ہے کہ مودی امت شاہ اور موہن بھاگوت اپنے ضمیر کے اوپر فیصلہ چھوڑ دیں۔ انسان کے ضمیر سے زیادہ منصف جج کوئی نہیں ہوتا۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں نے 18 مہینے میں ایک دن کی چھٹی نہیں لی۔ یہ بات فخر کی نہیں یہ اقتدار کی بھوک ہے۔ اب انہیں پانچ دن کی چھٹی لے کر کسی بھی ایسی جگہ چلا جاناچاہئے جہاں انہیں روحانی سکون ملے اور وہاں وہ اپنے ہر اس بھاشن کو یاد کریں جو انہوں نے 2014 ء سے لے کر سیکڑوں کی تعداد میں ملک کے ہر گوشہ میں دیئے ہیں اور یاد کریں کہ انہوں نے کیا کیا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کیا کیا؟ یا کیا کیا نہیں کیا لیکن اس کی معافی بھی نہیں مانگی۔ اس کے بعد بھی اگر ان کا ضمیر اجازت دے تو اپنی کرسی پر آجائیں ورنہ یہ ذمہ داری کسی دوسرے کو دے دیں۔ ہر وہ انسان جو تقریر سننے کے لئے اپنے ضروری کام بھی چھوڑکر آتا ہے۔ وہ کچھ ایسا سننا چاہتا ہے جس سے اسے معلوم ہوجائے کہ اب اس کی کون کون سی پریشانی دور ہوجائے گی اور کون کون سی مرادیں پوری ہوجائیں گی۔ پھر وہ جب دیکھتا ہے کہ راتیں بھی اتنی ہی بھیانک ہیں اور دن بھی اتنے ہی خون چوسنے والے ہیں تو اس کے اندر ردّعمل جاگتا ہے۔ اور وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اب انجام اچھا ہو یا برا اس لیڈر کو ذلیل کرنا ہے جو صرف جھوٹ بولتا ہے اور اسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہلی میں کجریوال کے سر پر تاج رکھ دیا جاتا ہے اور بہار میں حکومت کا ریموٹ لالو کو مل جاتا ہے۔ مودی کے حکم سے گوشہ نشین کئے جانے والے بزرگ لیڈروں کا اچانک میدان میں کڑے تیوروں کے ساتھ آجانا پارٹی کے غیرمطمئن لوگوں کو طاقت کے انجکشن لگانا جیسا ہے اور اچانک ریٹائرڈ فوجی افسروں اور جوانوں کا بہادری کے میڈل تمغے خاص دیوالی کے دن واپس کرکے کالی دیوالی منانے کے اعلان نے مودی کی ریڑھ کی ہڈی پر اپنی رائفل کی بٹ ماری ہے۔ خوب یاد ہے کہ 2014 ء میں انتخابی ریلیوں میں مودی نے ہریانہ میں ایک زبردست ریلی کی تھی جس کے ڈائس کی پشت پر پارلیمنٹ کی عمارت اشارہ کررہی تھی کہ اب مودی یہاں آنے والے ہیں۔ ہریانہ اور پنجاب کی نمائندگی فوج میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ مودی کو معلوم تھا کہ سابق فوجی بہت دنوں سے وَن رینک وَن پینشن کا مطالبہ کررہے ہیں اور سونیا من بیخ کررہی ہیں۔ مودی صاحب نے اس دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھا اور بے سوچے سمجھے کہ یہ کتنا بڑا فتنہ ہے؟ اعلان کردیا کہ میری سرکار بنوا دو میں سب سے پہلے تمہارا پورا حق دلوا دوں گا۔ بات یہاں سے بگڑی کہ جب ایک سال گذر گیا تب ان بہادروں نے اونچی آواز میں باتیں شروع کردیں اور مودی نے کہہ دیا کہ اس کے اندر یہ ہے، وہ ہے اور ایسا ہے اور ویسا ہے؟ بس آپ ہمیں تھوڑا وقت اور دیجئے۔ مودی صاحب نے وزیر اعظم کی ذمہ داریوں کو بھی کچھ ایسا ہی سمجھا تھا جیسے اپنے پتاجی کے چائے کے ڈھابہ کو کہ ’’پانی اُبالا شکر ڈالی دودھ ڈال کر چائے پتی ڈالی اور اُتار دیا۔‘‘ وہ سمجھے تھے کہ میں ایک وزیر دفاع بنا دوں گا اسے حکم دوں گا کہ وَن رینک وَن پینشن کا خاکہ بناکر دے دو اور وہ بن جائے گا تو میں اس کا اعلان کرکے ثابت کروں گا کہ نہرو گاندھی پریوار جو کام پچاس برس میں نہ کرسکا وہ میں نے چھ مہینے میں کردیا۔ وہ یہی سمجھتے رہے تھے کہ جیسے میں 14 سال تک گجرات کی حکومت چلاتا رہا ایسے ہی بھارت کی حکومت چلاؤں گا۔ جس سے ڈر ہوگا کہ وہ مخالفت کرے گا اسے عدم آباد بھجوادوں گا۔ حزب مخالف کو پورے اجلاس کے لئے معطل کردوں گا اور حکومت چلتی رہے گی۔ ان کی پرورش اگر موہن بھاگوت صاحب کے بجائے اٹل جی نے کی ہوتی تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ سابق فوجیوں افسروں اور جانبازوں کی بے چینی کا اثر ان پر کیا پڑے گا جو سال دو سال میں سابق ہونے والے ہیں؟ یہ سوچ کر ہم کانپ جاتے ہیں اور یہ صرف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ ان کے ہی ایک ممبر پارلیمنٹ نے یہ کہہ کر بہار کی ہار کی ذمہ داری ان کے اوپر ڈالی ہے کہ ان کے بڑبولے پن کی وجہ سے پارٹی ذلیل ہوئی ہے۔ سابق فوجیوں کی ناراضی اسی وجہ سے ہوئی ہے کہ ہریانہ میں وہ بے سوچے سمجھے اعلان کربیٹھے کہ یہ مطالبہ جائز ہے آپ کا حق ہے اور یہ میں دلاؤں گا۔ اب تک جن ادیبوں، دانشوروں، سائنس دانوں، فنکاروں، فلم سازوں اور شاعروں و کویوں نے اپنے ایوارڈ واپس کئے تھے ان کی وہ حیثیت نہیں تھی جو اُن سابق فوجیوں کی ہے۔ پورے ہندو سماج نے ہر فوجی کی موت کو شہادت کہنا اور اسے برسوں سے شہید کہنا شروع کردیا ہے۔ یہ جہاد میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کا تمغہ ہے اور جہاد سے دشمنوں کو نابود کرکے اور اپنے ملک، اپنی حکومت، اپنے پرچم اور اپنی جان کو جو بچاکر لاتے ہیں انہیں غازی کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ سارے کے سارے غازی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک بڑے افسر نے کل اپنے جذبات کی ترجمانی اس شعر سے کی ہے ؂ ہم نے جب وادئ پر خار میں رکھا تھا قدم دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو یہ وہ بہادر لوگ ہیں جو صرف گولی کی زبان بولتے اور گولی کی ہی سمجھتے ہیں ان کے ساتھ مودی صاحب نے کھلواڑ کرکے جمہوریت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ آج انہیں چاہے بہار کے الیکشن کی طرح آدھا ملک فروخت کردینا پڑے انہیں ان کے مطالبات جن کا وہ سوچے سمجھے بغیر وعدہ کرچکے ہیں پورے کردینا چاہئیں۔ آج فوج میں ہندو ہیں یا سکھ اور سب کا سب سے بڑا تہوار دیوالی ہے اور ان کا ایوارڈ تمغہ ان کی بہادری کا ثبوت ہے جسے وہ جان سے پیارا مانتے ہیں۔ وزیر دفاع کا ایک مہینہ پہلے یہ اعلان کرنا کہ ہم نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا اور اب اُن بہادروں کے اس اعلان کے بعد کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے۔ اس لئے ہم کالی دیوالی منائیں گے۔ اور وزیر دفاع کا جواب کہ ’ہر مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکتا۔‘ بہت خطرناک کھیل ہے۔ ہم سب نے اپنے پچھم میں اور پورب میں دیکھا ہے کہ کسی وزیر اعظم کو اس کے پورے خاندان کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا گیا اور ان کے بعد بھی خونریزی جاری رہی اور کسی وزیر اعظم کو فوج کی حکومت نے پھانسی دے دی۔ یا اُتر کے نیپال میں راج محل سے نکال کر گھوڑوں کے اصطبل جیسے کمروں میں پہونچا دیا گیا۔ ہمیں اپنے ملک پر فخر ہے کہ جمہوریت دہلی اور بہار کے نتیجہ کے بعد بھی اسی طرح چمک رہی ہے اور مودی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اب مودی کی باری ہے۔ فون نمبر: 0522-2622300