بابری مسجد یوم شہادت : پڑھیں ، چھ دسمبر 92 کو ایودھیا کی آنکھوں دیکھی صورت حال

Bhatkallys

Published in - Other

03:23PM Tue 6 Dec, 2016
نئی دہلی۔ دو دہائی سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے، لیکن کچھ باتیں ذہن میں ایسے بیٹھ جاتی ہیں جو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ آپ اسے بھلانا بھی چاہیں تب بھی یہ ممکن نہیں ہوتا۔ 6 دسمبر 1992 کا دن بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج یہ لڑائی لڑی جا رہی ہے کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد کی متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین پر مالکانہ حق کس کا ہے۔ تاہم 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اس زمین کو ہندو، مسلمان اور نرموہی اکھاڑے میں بانٹنے کا فیصلہ سنایا تھا لیکن اس فیصلے سے کوئی بھی فریق خوش نہیں تھا اور اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ جس دن فیصلہ آنا تھا، ایودھیا کے لوگ یہی دعا مانگ رہے تھے کہ بس فیصلہ آ جائے۔ اتنی سخت سیکورٹی انہیں قید میں ہونے کا احساس کراتی رہی ہے۔ لیکن انہیں نجات نہیں ملی۔ گاہے بگاہے جب بھی مندر بنانے کی بات ہوتی ہے، وہاں سیکورٹی کا نظام اور سخت کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی ایودھیا جاتا ہوں، یہی سننے کو ملتا ہے کہ متنازعہ احاطے کے ساتھ ہم بھی قید میں ہیں۔ آج بھی وہ متنازعہ احاطے مکمل طور پر مرکزی حکومت کے سخت حفاظتی گھیرے میں ہیں۔ حکومت کسی بھی چوک کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر 22 سال پہلے یہی مستعدی دکھائی ہوتی تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔
کوئی نہیں بھانپ پایا کارسیوکوں کا ارادہ آج بھی وہ دن مجھے پوری طرح یاد ہے۔ میں ان دنوں ملک کی پہلی ویڈیو میگزین نيوز ٹریک میں رپورٹر تھا۔ 21 نومبر 1992 کو مجھے ایودھیا جانے کو کہا گیا۔ 6 دسمبر کو کارسیوکوں نے رام جنم بھومی پر کار سیوا کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے متنازعہ رام جنم بھومی پر کسی طرح کی تعمیر کے کام پر پابندی لگا رکھی تھی اور ایک آبزرور بھی مقرر کر رکھا تھا۔ سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ نے بھی سپریم کورٹ کو کہا تھا کہ اس کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ 22 نومبر 1992 کو ایودھیا پہنچا۔ کارسیوکوں کا جتھا آہستہ آہستہ پہنچنے لگا تھا۔ شام کے وقت میں ایودھیا میں کارسیوک پورم میں جا کر وہاں کا جائزہ لیتا تھا۔ لوگوں سے ملتا تھا، باتیں کرتا تھا۔ ہر دن متنازعہ احاطے سے کچھ دور رام چبوترہ پر وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لیڈر کارسیوکوں سے روبرو ہوتے، تقریریں ہوتیں لیکن اس وقت تک یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کارسیوکوں کے ارادے اس بار کچھ کر دکھانے کے ہیں۔ تیس نومبر سے کی جانے لگی تھی منصوبہ بندی تیس نومبر سے ایودھیا پہنچنے والے کارسیوکوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ساتھ ہی ان کے تیور بھی سخت ہونے لگے۔ اس کا احساس ان کے نعروں اور رہنماؤں کی تقریر سے ہونے لگا۔ کارسیوک پورم میں آر ایس ایس، بجرنگ دل کے رہنماؤں کی مسلسل جاری ملاقات سے اشارے ملنے لگے تھے کہ اس بار معاملہ آر پار کی لڑائی کا ہے۔ کچھ کارسیوکوں کا یہ کہنا تھا کہ ہر بار کی طرح اس بار وہ خالی ہاتھ نہیں جائیں گے اور اس بار تو وزیر اعلی کلیان سنگھ بھی انہی کے آدمی ہیں۔ سیاں بھے کوتوال تو ڈر کا ہے کا۔ دو دسمبر 1992 کو میں نے اپنی ایڈیٹر مدھو ترہن سے کہا کہ ایک اور کیمرے ٹیم کی ضرورت ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ بھیڑ دیکھ کر میں چکرا گیا ہوں۔ اس درمیان تقاریر کے انداز تیکھے ہو چلے تھے۔ وی ایچ پی لیڈر آچاریہ دھرمیندر نے تو صاف صاف کہا کہ توہین کے اس کھنڈر کو ہر حال میں گرانا ہو گا۔ اشوک سنگھل نے کہا کہ وزیر اعظم نرسها راؤ کو دوسرا بابر نہیں بننے دیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کورٹ سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ آپ کورٹ (سپریم کورٹ) کی بات درمیان میں کیوں لا رہے ہیں۔ ڈھانچہ گرانے کا کیا گیا تھا ریہرسل حالانکہ وی ایچ پی، بجرنگ دل کا اعلان تو یہ تھا کہ 6 دسمبر کو 2 لاکھ کارسیوک سریو ندی سے ایک ایک مٹھی ریت لاکر متنازعہ 2.77 ایکڑ میں بنے گڑھے کو بھریں گے لیکن کارسیوکوں کے ارادے کچھ اور تھے۔ 4 دسمبر 1992 کو ان کا نعرہ تھا : مٹی نہیں سركائیں گے، ڈھانچہ توڑ کر جائیں گے۔ اسی دن رام چبوترہ کے قریب ایک بڑے سے ٹیلے پر کافی سارے کارسیوک چڑھ گئے۔ سارے کے سارے رسی، كدال اور پھاوڑے سے لیس ہوکر اسے ڈھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ پہلا اشارہ تھا کہ کس طرح بابری مسجد کو گرانے کی مشق کی جا رہی ہے۔ شام کو کارسیوک پورم میں کافی گہما گہمی تھی۔ ہر کارسیوک صرف یہی کہہ رہا تھا کہ اس بار بابری مسجد کو گرا کر ہی جانا ہے۔ 5 دسمبر 1992 کو یہ پتہ چلا کہ اگلے دن یعنی 6 دسمبر کی پوری منصوبہ بندی بن چکی ہے۔ میں نے اپنی ایڈیٹر سے ایک بار پھر بات کی لیکن وہ اب بھی تیار نہیں تھیں۔ آخر کار میں نے کہا کہ اضافی ٹیم بھیجنے کا خرچ آپ میری تنخواہ سے کاٹ لیں لیکن ٹیم بھیجیں ضرور۔ ان کا جواب تھا،تمہاری تنخواہ ہے ہی کتنی۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی وہ میرے ایک سینئر ساتھی کے ہمراہ ٹیم بھیجنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ پانچ دسمبر کی شام تک یہ بات طے ہو چکی تھی کہ اس بار کارسیوکوں کے ارادے خطرناک ہیں۔ اگر پتہ نہیں تھا تو یہ کہ صحافی بھی ان کے نشانے پر ہوں گے خاص طور پر فوٹو گرافر اور کیمرہ اہلکار۔ آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے سینئر رہنماؤں نے بھی آف دی ریکارڈ بتایا کہ بابری مسجد کا گرنا طے ہے۔ آخر کار وہ دن آ ہی پہنچا جس کا سب کو انتظار تھا۔ میرے ذہن میں متعدد خدشات تھے۔ صبح سے ہی میں وہاں اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھا۔ جو وقت مجھے بتایا گیا تھا وہ تھا قریب بارہ بجے کا۔ دن تھا اتوار کا۔ چھ دسمبرکو جب پھٹ گیا ٹائم بم ایک ٹائم بم جو برسوں سے ٹک ٹک کر رہا تھا اچانک پھٹنے والا تھا۔ ایک طرف وہاں جمع مشتعل اور غصہ سے بھرپور کارسیوک بابری مسجد توڑ ڈالنے پر آمادہ تھے تو دوسری طرف وزیر اعلی کلیان سنگھ دوہری چال چل رہے تھے اور سپریم کورٹ سے وعدہ کر چکے تھے کہ متنازعہ مقام پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو گا اور ان سب کے درمیان ایک وزیر اعظم جو اپنی اس مرکزی پولیس پر اعتماد کر رہا تھا جو بابری مسجد کی حفاظت کے لئے تعینات کی گئی تھی۔ چھ دسمبر 1992 کی صبح 11 بجے تک سب کچھ معمول پر تھا۔ متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین پولیس اور آر ایس ایس کے رضاکاروں کے گھیرے میں تھی۔ صرف سنتوں اور صحافیوں کو ہی اندر جانے کی اجازت تھی۔ تقریبا 11 بجے پہلی بار مشتعل کارسیوکوں نے اس گھیرے کو توڑ کر اندر آنے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا۔ اس درمیان فیض آباد کے ایس ایس پی بھی وہاں آئے اور میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور صورت حال کنٹرول میں ہے۔ چند منٹ بعد وہاں وشو ہندو پریشد کے سینئر لیڈر اشوک سنگھل آئے۔ ان کے ساتھ بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی بھی تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہلچل مچی۔ دیکھا بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی وہاں پہنچے ہیں اور حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس درمیان وہاں جمع کارسیوکوں نے ایک بار پھر گھیرا توڑ اندر گھسنے کی کوشش کی لیکن وہاں تعینات سویم سیوکوں نے اس بار بھی ان کی کوشش ناکام کر دی۔ اس درمیان اس جگہ سے تھوڑی دور سیتا رسوئی کی چھت پر ریاستی حکومت کے سینئر افسران اور سپریم کورٹ کے آبزرور موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعد کارسیوکوں کا ایک بھاری جتھا پھر آگے آیا۔ تبھی سر پر پیلی پٹیاں باندھے سویم سیوکوں کا گروہ وہاں پہنچا اور کارسیوکوں کو اندر آنے سے روکنے لگا۔ تبھی مجھے لگا کہ کارسیوکوں کے درمیان یہ کون سے کارسیوک آ پہنچے ہیں۔ کیا وہ خاص مقصد سے وہاں پہنچے ہیں۔ پولیس پہلے ہی کر چکی تھی سرینڈر یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ اچانک میرے کیمرہ مین نے مجھے اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا بابری مسجد کے اندر سے پولیس کی ٹکڑی باہر آ رہی تھی۔ میں حیران تھا کہ جس پولیس پر بابری مسجد کی حفاظت کی ذمہ داری تھی، وہ اپنی جگہ کس طرح چھوڑ گئی۔ سامنے سیتا رسوئی میں سارے افسران بیٹھے تھے اور چائے پی رہے تھے۔ لیکن کسی نے کسی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ میرے ذہن میں تصویر صاف ہو رہی تھی اور تبھی متنازعہ احاطے کے گھیرے میں زور زور سے پتھر بازی شروع ہو گئی۔ کارسیوک بے قابو ہو گئے اور بھیڑ دیوار کو توڑنے کی زور آزمائش کرنے لگی۔ باڑے میں استعمال چھڑ اور پائپ کارسیوکوں کا ہتھیار بن رہے تھے۔ اب تو بچے کھچے وردی والے بھی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ نہ کوئی فائرنگ، نہ کوئی لاٹھی چارج، اور نہ ہی آنسو گیس کے گولے۔ بے قابو بھیڑ لوہے کے پائپ اور لاٹھی لے کر ڈھانچے پر حملہ بول چکی تھی۔ تبھی بگل بجنے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دیکھا کہ بابری مسجد کے گنبد پر کارسیوکوں کا ایک جتھا چڑھ آیا اور کدال، پھاوڑے اور لوہے کی چھڑوں سے ڈھانچے پر وار کرنے لگا۔ اس درمیان فیض آباد کے ایس ایس پی ڈی بی رائے جو بعد میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھی رہے، نے اپنے پولیس والوں کو حکم دیا: '' گولی چلاو، کچھ تو کرو۔ ہوا میں گولی چلاو لیکن پولیس چپ چاپ کھڑی رہی۔ کیا یہ بغاوت تھی یا پہلے سے طے شدہ ڈرامہ۔ افسران اب بھی سیتا رسوئی کی چھت سے نظارہ ہی دیکھ رہے تھے۔ منٹوں میں ہی ڈھانچہ کے چاروں طرف کھڑی دیوار گرا دی گئی۔ لوگ اب بابری مسجد کے ڈھانچے میں گھس رہے تھے۔ اس درمیان میں نے دیکھا کہ وائس آف امریکہ کے صحافی پیٹر ہنلن کو کارسیوک گھیر کر پیٹ رہے ہیں۔ ان کا چہرہ لہولہان تھا۔ صحافی بھی بنے کارسیوکوں کا نشانہ اب صحافیوں پر حملہ شروع ہو چکا تھا۔ کچھ لوگ میرے کیمرہ کی طرف بڑھے۔ میں اور میری ٹیم کے لوگ وہاں سے بھاگے۔ اس درمیان ہم پر ڈنڈے اور پتھر پھینکے جانے لگے۔ بابری مسجد کے بالکل سامنے مانس دھرم شالہ میں ہم گھسے۔ اندر بھی صحافیوں کو گھیر کر مارا پیٹا جا رہا تھا۔ اسی درمیان میرے ساؤنڈ ریكارڈسٹ اشوک بھنوٹ نے ٹیپ نکال کر کمرہ نمبر 37 میں رکھے پلنگ کے نیچے گھسا دیا اور پھر ہم بھاگ کر سیتا رسوئی جانے لگے۔ یہاں پولیس اور افسران موجود تھے۔ کچھ تھپڑ، کچھ مکے، کچھ ڈنڈے پڑے لیکن تب تک سی آر پی ایف کے کچھ جوانوں نے ہمیں اپنے گھیرے میں لے کر سیتا رسوئی میں اندر کر دیا۔ ہم وہاں چھت پر پہنچے اور پھر کیمرے نکال کر شاٹ لینے لگے۔ ہمارا کیمرہ چلتا رہا. تب کارسیوکوں نے ہمارے اوپر پتھر پھینکنا شروع کر دیا۔ لہذا ہمیں کیمرے بند کر نیچے کمرے میں پناہ لینی پڑی۔ میری سب سے بڑی فکر تھی اپنے ٹیپ کی۔ پولیس والوں نے مجھے رام نام لکھی چادر دی اور ہم کارسیوکوں کی بھیڑ میں شامل ہو گئے۔ میں پھر مانس بھون گیا اور اتفاق سے وہ کمرہ کھلا تھا اور وہ ٹیپ وہیں پڑا تھا۔ ٹیپ کو ہم نے محفوظ رکھا اور میں بابری مسجد کے ڈھانچے کی طرف چلا گیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ میں انہی میں سے ایک ہوں۔ تھوڑی ہی دور پر رام چبوترہ تھا جس کی چھت پر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، آچاریہ دھرمیندر، سادھوی رتمبھرا سمیت کئی لیڈران موجود تھے۔ سادھوی رتمبھرا اور وی ایچ پی لیڈر لاؤڈ اسپیکرز پر نعرے لگا رہے تھے 'ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو۔ چار بجے تک گرا دیا پورا ڈھانچہ تبھی مجھے بھیڑ میں ونے کٹیار مل گئے اور رام چبوترے کی چھت پر لے آئے۔ رام چبوترے کے گراؤنڈ فلور پر لال کرشن اڈوانی ایک بند کمرے میں موجود تھے۔ تمام صحافیوں کے کیمرے بند کرا کر اب کارسیوک پورے زور شور سے اپنے کام کو انجام دینے میں لگے تھے۔ نعروں کی آواز اور تیز ہوتی جا رہی تھی۔ تبھی میرے سینئر ساتھی منوج نظر آئے جو اسی وقت دہلی سے وہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایودھیا میں گھستے ہی ان کی گاڑی اور کیمرے سب کچھ بری طرح توڑ دیئے گئے۔ اگلے آدھے گھنٹے بعد ایک ایک کر کے بابری مسجد کے تینوں گنبد گرتے چلے گئے۔ تقریبا چار بجے بابری مسجد کا نام و نشان نہیں بچا تھا۔ شام کو ہم سب ملکی و غیر ملکی صحافیوں کو پولیس کی حفاظت میں فیض آباد لایا گیا۔ دوسرے دن صبح سی آر پی ایف اور ریپڈ ایکشن فورس نے اس جگہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ تب تک راتوں رات وہاں ایک عارضی مندر بن چکا تھا اور رام -سيتا کی مورتی لگا دی گئی تھی۔ کلیان سنگھ کا انتخابی وعدہ تھا مندر بنانے کا اور سپریم کورٹ سے وعدہ تھا مسجد بچانے کا۔ ایک وعدہ تو ٹوٹنا ہی تھا۔ ٹوٹا تو بھروسہ بھی کیونکہ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے ملک کی بنیاد ہل گئی۔ پورا ملک فسادات میں جھلسنے لگا تھا۔ میرا اگلا اسائنٹمنٹ تھا ممبئی پہنچ کر فسادات کی کوریج کرنا۔ مرتينجے کمار جھا آئی بی این - 7