تجربات و مشاھدات (9)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

10:35PM Wed 5 May, 2021

 عزیمت کے کرشمے :۔ 

      مولانا ظفر احمد عثمانی ایک عالم  اور علامہ ہی نہیں، بلکہ مکمل" دائرہ علم" تھے انکی تعلیم  کی تکمیل حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی نگرانی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، مولانا اسحاق بردوانیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ جیسے اساتذہ سے  ہوئی۔ نحو میر پڑھانے والے استاد ایسے تھے کہ پڑھنے والے میں  شعر گوئی کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی تھی ۔انکے علمی کارناموں میں اعلاء السنن ،احکام القرآن ، اور امداد الا حکام ہی انکی عبقریت، فقہ و حدیث کی جامعیت اور غیر معمولی محنت کی دلیل ہے۔

یہاں انکے علمی کما لات پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے انکی عملی زندگی کا صرف ایک واقعہ بیان کرنا ہے،۔

بڑھاپے اور کمزوری کی وہ حالت جس میں انسان کے لئے رخصت پر عمل کرنا جائز ہوتا ہے، مولانا سے کہا گیا کہ اب آپ کے لئے گنجائش ہے کہ روزہ رکھنے کے بجائے آپ فدیہ دیدیں اور روزہ نہ رکھیں،  مسئلہ کے ہر پہلو پر  مفتی صاحبان سے زیادہ خود انکی نظر تھی اور یہ بھی جانتے تھے کہ جس طرح عزیمت پر عمل مطلوب ہے اسی طرح رخصت پرعمل کرنا بھی مطلوب  ہے،لیکن اصحاب عزیمت کی شان ہی الگ ہوتی ہے 1394 ھ  میں ڈاکٹروں نے روزہ رکھنے سے بالکل منع کردیا تھا لیکن وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے اور فرمانے لگے :۔

ابن عباس رضی اللہ عنه لم يترك  الصيام وهو  في التسعين من عمره  وكان يلقي من الصوم شدة وعناء حتي كان يجلس في مركن من الماء  ولا يرضي بالافتداء  فكيف ارضي بالفدية ؟

حضرت عباس رضی اللہ نے 90 سال کی عمر میں بھی روزہ رکھنا ترک نہیں کیا،حالانکہ ان کو روزہ رکھنے میں سخت مشقت ہو تی تھی اور پانی کے ٹپ میں بیٹھنا پڑتا تھا اس کے باوجود وہ روزہ چھوڑ کرفدیہ دینے کیلئے آمادہ نہیں ہوئے تو میں کس طرح چھوڑدوں اور فدیہ دینے پر اکتفا کرلوں "؟!۔

بین الاقوامی فقہ اکیڈمی جدہ کی طرف سے مجھے اپنے انیسویں سیمینار کیلئے،:۔

"مرض السکری والصوم،"   کا موضوع مقالہ  لکھنے کیلئے دیا تھا ،تو میں نے اطباء کی رائے پرعمل کرنے  کے جواز کا ذکر کرنے کے ساتھ مولانا ظفر احمد عثمانی کے اس عمل کا بھی ذکر کیا تھا کہ مریض کی قوت برداشت مریض کی عزیمت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے، اس لئے کوئی اسکیل طے کرنا ہر مریض پر منطبق نہیں ہوسکتا ، عام مریضوں کیلئے شریعت کی دی ہوئی رخصت  سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش بلا شبہ برقرار رہے گی_

 مولانا فضل اللہ الجیلانی

 *******

جن بزرگوں کو طالب علمی کے زمانے میں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، انمیں ایک مبارک نام مولانا فضل اللہ الجیلانی کا ہے یہ نہایت ہی معصومیت کی پیکر شخصیت  مولانا محمد علی مونگیری ؒ کے حفید سعید جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے صدر شعبہ دینیات اور دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن تھے امیر شریعت  مولانا منت اللہ رحمانیؒ  سے عمر میں زیادہ اور رشتہ میں چھوٹے  یعنی بھتیجے تھے ۔

بخاری کی کتاب" الادب المفرد "کی شرح "فضل اللہ الصمد  فی شرح الادب المفرد "کے نام سے نہایت تحقیق  سے لکھی ، اس شرح پر انہوں نے بڑی محنت کی تھی،  بعد والوں نے بغیر نام لئے انہیں کی محنت سے فائدہ اٹھایا ہے اور انکی محنت کا کہیں ذکر بھی  نہیں کیا، انکے پاس طباعت کے وسائل نہیں تھے ورنہ انھوں نے دسیوں طرح کی فہرستیں  تیار کی تھیں، میں نے انہیں ایک دو بار ہی دیکھا تھا، البتہ انکی وفات پر شذرہ لکھا تھا اور الداعی میں انکے بارے میں مولانا رضوان القاسمی کا جو ان سے قریب تھے ،انکے ساتھ سفر بھی کر چکےتھے ان کا تفصیلی مضمون بھی شائع کیا تھا جس میں انکی دیگر تصنیفات کاذکر ہے ،وہ مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے خاص شاگرد اور شرح ترمذی میں انکے معاون رہےہیں، چھوٹوں  سے بڑی شفقت و محبت سے ملتے تھے اور دانت نہ ہونے کی وجہ سے انکی باتوں کو سن کر ہنسی  بھی آتی تھی ، مولانا کا انتقال مئی 1979م میں ہوا ، رحمہ اللہ رحمة واسعة وجمعنا معه في الفردوس الاعلي

آدم علیہ السلام کی نسل کہاں گئی ؟ :۔

****

مولانا مناظر احسن گیلانی کے لطائف نجی مجلسوں میں ہی نہیں  عالمی کانفرنسوں میں بھی دلچسپی کاموضوع اور تحقیق کے نئے دروازے کھولنے کا باعث ہوتے ہیں،  ان کا ایک لطیفہ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے پرانے چراغ میں ذکرکیا ہے کہ سیلان سے ایک طالب علم ندوہ  العلماء  آیا،  داخلہ امتحان کے وقت مولانا گیلانی وہاں موجود تھےکہا گیا کہ آپ ہی امتحان لے لیں مولانا نے اس سے  دریافت کیا :۔

تم کہاں سے آئے ہو؟  اسنے کہا سیلان سے۔

مولانا نے کہا  وہی سیلان جہا ں آدم  علیہ السلام آئے تھے یا اتارے  گئے تھے؟

اس نے کہا:۔ جی حضرت۔

مولانا نے دریافت کیا انکے خاندان کا اب کوئی شخص  باقی رہ گیاہے؟

اس نے کہا نہیں،  اب آدم کے خاندان کا اب کوئی فرد باقی نہیں رہا

کہا کہ جائیے آپ کا امتحان ہوگیا ۔

اس لطیفہ کو سری لنکا میں اور اسٹیج پر بیان کرنے کا لطف ہی  کچھ اور ہی ہے ۔

 ذوالکفل اور آم کی اصل

*******

مولانا گیلانی  کادماغ بڑا زر خیز تھا انکی انفرادی رائیں بھی الہامی معلوم ہو تی تھیں، ان کا کہنا یہ تھا کہ قرآن کریم میں  ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے  ما (ﵟوَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا ‌خَلَا ‌فِيهَا ‌نَذِيرٞﵞ  كہ هر قوم میں كوئي نہ كوئی پیغمبر ضرور بھیجا گیا ہے، لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ چین ہندوستان کوریا جاپان اس پوری بیلٹ میں جہاں کروڑوں انسان آباد ہیں انکی طرف کسی پیغمبر کو نہ بھیجا گیا ہو ؟ اگر پیغمبر آیا ہے تو وہ کون ہے؟ اسکی شناخت کیوں نہیں ہوسکی؟۔ اگر کوئی معروف نام سامنے نہیں ہے تو یہ کیوں نہ مان لیا جائے کہ" ذو الکفل" وہی پیغمبر تھے جنکو اس علاقہ میں بھیجا گیا ہو ۔

دوسرامقدمہ یہ ہے کہ "ذوالکفل" کی شخصیت کے بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں  کہ مراد حضرت الیاس ہیں یا کوئی اور،لہذا صرف احتمال کے درجہ میں کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ گوتم بدھ  مراد ہوں جن کی پیدائش" کپل وستو "کے مقام پر ہوئی شروع میں تعلیمات صحیح رہی ہوں اور بعد میں ماننے والوں نے اسی طرح تبدیلی کر لی ہو جس طرح حضرت ابراھیم کی تعلیمات میں مشرکین عرب نے کر لی تھی، یہ تفسیر نہیں محض ایک احتمال کا بیان ہے  یا ذہن میں آئے ایک خیال کاذکر ہے۔ سری لنکا کی اسی فیصد آبادی بدھ مذھب کو ماننے والی ہے اس نکتہ کو وہاں ذکر کرنے کا مقصد ان کو توحید سے قریب کرنا اور دین حق کی طرف بلانا ہوسکتاہے۔

کانفرنس جس میں د عبد اللہ الترکی، عبد اللہ المصلح اور عبد اللہ بصفر سبھی تھے اور میزبانی رابطہ عالم اسلامی کی تھی میرے مقالہ کا عنوان" التنوع الحضاری فی عصر العولمہ "تھا۔

دوسرااحتمال ہندوستانی  مرغوب و محبوب پھل آم سے متعلق  ہے کہ اللہ تعالی نے کیلے انگور انجیر زیتون  سب کا ذکر کیا ہے لیکن آم کا ذکر کہیں نظر نہیں آتا ، مولانا گیلانی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ" فاکھة وابا" ميں"  ابا  ،"سےکیا"   انبہ"  مراد نہیں ہو سکتا جو آج بھی فارسی میں انبہ ہی کہلاتا ہے ۔ بہر کیف یہ تفسیر نہیں مولانا کے زر خیز دماغ کی گل افشانیاں ہیں، اتفاق ہو یا نہ ہو پڑھنے میں دلچسپ اوردل ودماغ کیلئے فرحت بخش اور روح افزا ضرور ہیں۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/