آرایس ایس۔۔۔۔۔۔۔اکیسویں صدی کے بھارت کاالمیہ عبدالرافع رسول

Bhatkallys

Published in - Other

04:09PM Mon 7 Sep, 2015
جو قوم ایک طویل عرصے سے آگ اورخوںکادریاعبورکررہی ہے اورجسے گذشتہ اڑھائی برسوں سے مسلسل ریاستی دہشت گردی اور وردی پوشوں کے تشددکاسامناہے،اسے آرایس ایس دھمکیاں مرعوب نہیں کرسکتی ہیں۔اہل کشمیرپہلے ہی سے اس امرسے پوری طرح باخبرہیں کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگ یاآر ایس ایس’’ یرقانی عناصر‘‘ کاناپاک مشن کشمیر جن سنگھی سوچ کاآئینہ دارہے ۔ ریاست کی غالب اکثریت کے حوالے سے زعفرانی بریگیڈ آگ سے کھیلنے کی کوشش کررہاہے ۔لیکن کشمیری عوام گزشتہ 68سال سے اس جیسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں اور ریاستی عوام کے لئے آرایس ایس کی یہ دھمکی کوئی نئی بات نہیں ۔کشمیرکے آزادی پسندعوام کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کے راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرف سے اپنے ہم جنس اورہم پیالہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی حکومت کو دیاجانے والامشورہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگ یاآر ایس ایس کاناپاک مشن کشمیر دیوانگی اورکھلی جنونیت کے سواکچھ نہیںہے کیونکہ کشمیرکے آزادی پسند عوام ماضی میں ایسے دھمکیوں سے مرعوب ہوئے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اِن کا کوئی اثرہوگا ۔ ظلم اور جبر کی وہ کوئی شکل ہے، جوبالخصوص پچھلے اڑھائی عشروں کے دوران کشمیریوں پر نہ آزمائی گئی ہولیکن کشمیریوں کا جذبہ آزادی کبھی سرد نہیں پڑ گیا ۔واضح رہے کہ آرایس ایس اورحکمران جماعت کادہلی میں بدھ 2ستمبرسے 4ستمبر تین روز ہ مشاورتی اجلاس میںتحریک آزادی کشمیر کا توڑ کرنے کیلئے اپنے ناپاک مشن کشمیر کا اعلان کرتے ہوئے راشٹریہ سوئم سیوک سنگ یاآر ایس ایس نے بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت کو جموں کشمیر کے آزادی پسندعوام کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اورآزادی کے حصول کے لئے سیاسی تگ و دوکرنے والی کشمیرکی حقیقی مزاحمتی جماعتوں ، کشمیرکی عسکری تحریک کے جانبازوںکے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا مشوردیا ہے۔ آر ایس ایس اور بھاتیہ جنتا پارٹی کے اعلی سطحی اجلاس کے بعد جو کچھ سامنے آیا ہے، اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقیقت یہ ہے کشمیر سے متعلق آر ایس ایس کا حالیہ بیان اس جماعت کے کشمیر سے متعلق منصوبوں کو نمایا ںکرتے ہیں اور اہل کشمیرکویہ احساس دلاتے ہیں کہ مستقبل میں انہیںان منصوبوں کے خلاف مزاحمت کیلئے ذہنی طور تیار رہنا چاہئے۔ آر ایس ایس نے اسی منصوبے کو آگے بڑھانے کا بی جے پی کو مشورہ دیا ہے، جسے ہر حیثیت سے ماضی میں اہل کشمیرنے اپنے عزم سے ناکام بنادیاہے ۔آر ایس ایس کا یہ کہنا کہ کشمیریوں کی مزاحمت کو سختی کے ساتھ کچل دیا جائے، جہاںمضحکہ خیز اور بچگانہ ہے وہیں یہ اس کے فسطائی سوچ کی عکاس ہے ۔ یہ وہی فسطائی سوچ ہے جس کے تحت 1947کے بعد سے آج تک بے حدوحساب کشمیریوں کوموت کے گھاٹ اتاراگیااورانہیں تہہ تیغ کیاگیاہے ۔لیکن یہ ہم نہیں کہتے بلکہ اس مبرہن حقیقت پرتاریخ شاہد ہے کہ آج تک اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والی کسی قوم کو فوجی جبراور پولیسی تشدد سے شکست نہیں دی جاسکی ہے۔ اس لئے آرایس ایس کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کوبھی یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ دھمکیوں اورظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ہے اور قربانیاں دینے والی اس قوم میں یہ سکت باقی ہے کہ وہ آر ایس ایس جیسی فسطائی قوتوںکے ایسے سبھی عزائم کو پیوستہ خاک کرکے رکھ دے گی ۔ البتہ افسوس اورظلم کی بات یہ ہے کہ کشمیرکی بھارت نوازجماعتیںاورانکی قیادتیں جو کل تک وادی کشمیرمیں آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست جماعتوں کی سوچ اور سیاست سے برملا اختلافات کا اظہار کررہے تھے آج ان ہی لوگوں نے اپنے حقیر اقتداری مفادات کی خاطر ان فرقہ پرست جماعتوں سے ہاتھ ملایا ہے اور بلاشبہ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالیوں میں یہ جماعتیں اور یہ لوگ برابر شریک ہیں۔پی ڈی پی نے آر ایس ایس کو ریاستی معاملات میں مداخلت کیلئے جواز اور موقع پیش کرکے موقع پرستی کی ایک ایسی گھناونی مثال پیش کی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ آر ایس ایس کے عزائم نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ یہ ریاستی عوام کے خلاف ان کے جارحانہ عزائم کو عیاں کرتا ہے ۔ ریاست کشمیرمیں زعفرانی جماعت کو بڑھاوا دینے کیلئے وہ براہ راست ذمہ دار ہے۔اس سل؛سلے میںاسکی طرف سے صفائیاں پیش کرناکوئی معنی نہیں رکھتی۔ دہلی میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یاآرایس ایس اور مودی سرکارکے درمیان رابطے کی اس سہ روزہ بیٹھک کے بعدیہ امرمترشح ہوجاتی ہے مودی کی حکومت بھارت کے لئے ایک ایسانیا تماشہ ہے کہ جہاں اصل فیصلے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یاآرایس ایس کرتی ہے اگریوں کہاجائے کہ بھارت پراس وقت راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یاآرایس ایس کی حکومت قائم ہے توبے جانہ ہوگا۔کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام ہی اہم وزرا ء آر ایس ایس کے دربار میں حاضری کیلئے پہنچے تھے یعنی کہ یہ پیغام بھارت کے عوام کو بڑے ہی واضح لفظوں میں یرقانی عناصر نے پہنچادیاہے کہ اس حکومت کے کام وکاج میں بھارتی عوام یابھارتی عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کا عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ آر ایس ایس جس طرح چاہے گی حکومت کو اپنے اشاروں پر چلائے گی۔آرایس ایس سمجھتی ہے کہ بی جے پی سرکار اور آرایس ایس کی مرہون منت ہے کیونکہ بی جے پی کے وزرا ء بشمول وزیر اعظم مودی دراصل آرایس ایس کے ہی بنیادی رکن ہیں اور مودی سرکار اپنے آپ کوآر ایس ایس سے مشورے کرنے کی پابندسمجھتے ہیں ۔آر ایس ایس ایک کٹرہندونظریاتی پارٹی وہ بھی ایسی جو اپنے نظریے کو لوگوں پر تھوپنا چاہتی ہے ، اس لئے ایک حکومت کا اس کے قدموں میں گرنا اکیسویں صدی کے بھارت کاالمیہ ہے ۔ 16تنظیمیں جو آر ایس ایس سے جڑی ہوئی ہیں مودی حکومت کواس وقت مجبورکئے ہوئے ہیںکہ وہ آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کریں ورنہ اقتدار سے محروم ہونے کو تیار رہیں اسی لئے دہلی کی سہ روزہ اجلاس میں کیبنٹ وزرا اور سنگھی تنظیموں کے علاوہ دوسروں پر اس بیٹھک کا دروازہ بند نظر آیا۔ آرا یس ایس نے زمینی سطح پر جو تنظیمیں قائم کی تھیں ان کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔ گزشتہ برسوں میں یہ تنظیمیں اقتدار سے دور رہ کر ملک بھر میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی ہیں ۔ تعلیمی سطح ہویا سماجی یا اقتدار کے مراکز ، ہر سطح پر آر ایس ایس کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں ۔ بیوروکریسی میں اس کے ورکر اعلی عہدوں پر بیٹھے ہیں اعلی سرکاری نوکریوں میںہیں اور اب پالیسی ساز اداروں پر ان کا قبضہ ہوتا جارہاہے ۔ آنے والے وقتوں میں مزید قبضہ ہوگا۔ ہندوستان ہی نہیں بیرون ملکوں میں بھی آر ایس ایس مضبوط ہے اور بیرون بھارت اس نے اتنا فنڈ اکٹھا کرلیا ہے کہ کسی بھی حکومت کو گرانے کی صلاحیت اس میںہے ۔ آر ایس ایس کی کامیابی ملک میں ہرجگہ نظر آسکتی ہے ۔ کئی ریاستوں میں اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد مرکز پر قبضہ آر ایس ایس کے عروج کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔ مودی کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آگئی ہے کہ آر ایس ایس کو نظر انداز کرکے ان کی حکومت پھل پھول نہیں سکتی ۔ اوراگر بی جے پی کو اور انہیں اپنی مقبولیت بر قرار رکھنا ہے تو آرایس ایس کا دامن تھام کر ہی رکھنا ہوگا ۔ غور سے دیکھاجائے تو آر ایس ایس کے قیام سے لے کر آج تک اس کی تمام سرگرمیاں سیاست کے محور پر ہی گردش کرتی رہی ہیں۔ آر ایس ایس کا بنیادی مقصد بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے تاکہ زندگی کے سبھی میدانوں میں ہندوتو اکا بول بالا ہواور بھارت کی اقلیتیں یا تو ہندوتو اکے آگے ہتھیار ڈال دیں یا پھر دوئم درجے کے شہریوں جیسی ذلت آمیز زندگی قبول کرلیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مرکز میں برسراقتدار مودی سرکار دراصل آر ایس ایس کی ہی سرکار ہے جس کے تمام فیصلے ناگپور میں ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے اور اس میں ان ہی لوگوں کو عہدے اور وزارتیں دی جاتی ہیں جو آر ایس ایس کے کل وقتی سویم سیوک رہ چکے ہوں۔ اب تک آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کے درمیان لوگوں کو فریب دینے کے لئے ایک باریک پردہ پڑا ہوا تھا جو دہلی میں منعقدہ آر ایس ایس کی سہ روزہ میٹنگ میںطشت ازم ہوا جس طرح مودی سرکار کے وزیروں نے حاضری لگاکر اپنی وزارتوںکا رپورٹ کارڈ پیش کیا وہ دراصل پردے کے پیچھے سے حکومت کو چلانے کی آر ایس ایس کی کوششوں کا ایک بین ثبوت ہے۔ یوں تو جب سے دہلی میں وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی سرکار قائم ہوئی ہے تب ہی سے بھارت کے تمام حساس شعبوں اور وزارتوں کو آر ایس ایس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ وہاں پالیسی ساز عہدوں پر آر ایس ایس کے سویم سیوک تعینات کردیئے گئے ہیں تاکہ وہ کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر ہندو راشٹر کے ایجنڈے کی راہیں ہموار کرتے رہیں۔ آر ایس ایس بار بار یہ اعلان کرتی رہی ہے کہ وہ مودی سرکار کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرتی لیکن یہ سراسر فریب ہے کیونکہ قدم قدم پر مودی سرکار میں آر ایس ایس کی مداخلت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ دہلی میں منعقد ہونے والی آر ایس ایس کی میٹنگ میں جس طرح مودی سرکار کے سینئر وزیروں نے یکے بعد دیگرے اپنی حاضری درج کرائی اور اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی رپورٹ پیش کی، اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مودی سرکار کو آر ایس ایس پردے کے پیچھے سے نہیں بلکہ اسٹیج پر آکر کنٹرول کررہی ہے۔ ٍعملی طورپر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مودی سرکار آر ایس ایس کے فسطائی ایجنڈے کی پابند ہے اور اس کے وزیر اقلیتوں بالخصوص بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہے ہیں۔ بھارت میں گھٹن کا ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ بھارت کے کمزور طبقے اور بالخصوص بھارتی مسلمان اپنے دستوری حقوق کی بحالی کے لئے کوئی بات ہی نہ کرسکیں۔ حال ہی میں بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے گولڈن جوبلی اجلاس میں جب مسلمانوں کی پسماندگی کے حوالے سے مودی حکومت کی جواب دہی کا سوال اٹھایا تو سنگھ پریوار کے لوگوں کی تلملاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ یوں محسوس ہواگویاانصاری نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جس سے بھارت کی چولیں ہل گئیں۔ بھارت کے نائب صدر حامد انصاری کے بیان پر سنگھ پریوارکے لیڈروں نے جو واویلا مچایا اس سے یہی اندازہ ہوا کہ مودی سرکار بھارتی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی بحالی تو کجا ان پر بات کرنا بھی جرم سمجھتی ہے۔ یہی دراصل وہ ماحول ہے جسے آر ایس ایس بھارت میں فروغ دینا چاہتا ہے،جہاں بھارت کی سب سے بڑی اقلیتیں سراٹھاکر چلنے کے بجائے ایک ظالمانہ نظام کے سامنے خودسپرگی کردیںاور اپنے تمام بنیادی حقوق بھول جائیں۔ دہلی میں منعقدہ میٹنگ کی جو تفصیلات ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہیں اس کی رو سے آر ایس ایس نے مودی سرکار کے سینئر وزیروں کو اپنے ایجنڈے کا پابند رہنے کی نصیحت کی ہے۔اس میٹنگ میں جہاں سنگھ پریوار کی پندرہ تنظیموں کے نمائندے موجود تھے ، وشوہندوپریشد نے کہاکہ رام مندر کا موضوع پس پشت ڈالنے سے لوگوں کو یوں محسوس ہورہا ہے کہ ووٹ لینے کے بعد اسے بھلادیاگیا ہے۔ حکومت سے اس مسئلے پر جلد فیصلہ لینے کو کہاگیا ہے۔ آر ایس ایس چاہتی ہے کہ رام مندر پر روڈ میپ تیار ہو اور حکومت ہندوراشٹر کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ آر ایس ایس کی اس میٹنگ کے پہلے دن بی جے پی صدر امت شاہ کے علاوہ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع منوہر پاریکر سمیت گیارہ مرکزی وزرا موجود تھے۔اس میٹنگ کی صدارت آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کی۔ خیال رہے کہ 1948میں جب گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی تھی تو اس پابندی کا خاتمہ آر ایس ایس کی اس یقین دہانی کے بعد ہوا تھا کہ نہ تو وہ سیاسی سرگرمیوںمیں حصہ لے گی اور نہ ہی براہ راست یا بالواسطہ ان سرگرمیوں میں مداخلت کرے گی۔ لیکن یہ محض فریب مسلسل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار درحقیقت آر ایس ایس کی ہی سرکار ہے جس کے تمام فیصلوں کو آر ایس ایس ہی کنٹرول کرتاہے۔ آر ایس ایس مودی کے وزیروں کی کلاس لے رہی ہے اور انہیں احکامات دے رہی ہے اورآج کے بھارت میں اسکی پوزیشن کیاہے ایک کھلے رازکی طرح سب کے سامنے ہے۔