إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ۔َ(نور۔ع۔۱) جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی باتوں کا چرچا ہوتارہے ،ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ جانتاہے ،اور تم نہیں جانتے۔ آیت قرآن کی ہے تفسیر میں کسی کا اختلاف نہیں ،مفہوم واضح ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان والوں کی جماعت میں مسلمانوں کی سوسائٹی میں بے حیائی کے چرچے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب اس مادی وناسوتی دنیا میں بھی ہے اور اس کے بعد عالم آخرت میں بھی ، اور اس قانون کی کارفرمائی سے گو انسان واقف نہ ہو ،لیکن انسانوں کا پیدا کرنے والا تو بہرحال واقف ہے۔ اردو میں ’’فحش‘‘اور’’فاحشہ‘‘کاجو مفہوم ہے، ظاہر ہے ،عربی میں اس کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے اور اس کا اطلاق ہر بڑی برائی پر ہوسکتا ہے ، خواہ وہ عمل کی ہو ،خواہ قول کی،وَالْفَاحِشَۃُ مَاعَظَمَ قَبْحَتَہُ مِنَ الْاَفْعَالِ وَالْاَقْوَالِ۔پروردگارِعالم کا ارشادہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی سوسائٹی میں برائیوں ،بے حیائیوں،بد کاریوں کے چرچے کرتے رہتے ہیں،ان میں بدکا ریوں کی اشاعت کرتے رہتے ہیں،بے حیائیوں کے تذکرے ان کے کانوں تک پہنچاتے رہتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔حکم یہ ملا تھا اورحکم پر عمل یہ ہے کہ جن جن تذکروں میں ہمیں سب سے زیادہ لطف آتا ہے ،جن چرچوں میں ہمارا زیادہ جی لگتا ہے وہ یہی ہوتے ہیں کہ محلہ کی فلاں عورت بدکارہے ،خاندان کافلاں شخص بد چلن ہے،بستی کے فلاں فلاں گھرانوں میں فلا ں فلاں شرم ناک واقعات پیش آچکے ہیں۔جس قوم کے پاس قرآن کا ہدایت نامہ موجود ہے اس کا کون سا خاندان ،کون سا گھرانہ ایسا ہے ،جہاں انہیں تذکروںاور انہیں چرچوں کا ذکر شورنہیں ؟اشخاص وافرد کوبھی چھوڑئے کاغذ کے ان لمبے لمبے ورقوں کو دیکھئے،جو ہر روز قوم کی خدمت اور اصلاح ملت کے دعووں کے ساتھ نمودار ہوتے رہتے ہیں!کوئی بد اخلاقی ،کوئی بے حیائی ،کوئی بدکاری ایسی بچ رہتی ہے،جو بڑی بڑی سر خیوں کے ساتھ مزے لے لے کر نہ بیان کی جاتی اور نہ پھیلاتی جاتی ہو؟ہر روزنامہ کے اندر ہر روز لازمی طور پر ایک کالم ظرافت وخوش طبعی کا ہوتاہے اور خوش طبعی کے معنی ان بزرگوں نے یہ لے رکھے ہیں کہ کسی کی عزت وآبرو محفوظ نہ رہے اورہر قسم کی فحش نویسی کو شریف گھرانوں کے نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں تک بلاتکلف پہنچا دیا جائے اور آج سب سے زیادہ ’’کامیاب‘‘وہی روز نامہ ہے جس کا ظریفانہ کالم فحش نویسی میں سب سے زیادہ بیباک ہے!اورپھر اگر کوئی شرم ناک مقدمہ اتفاق سے کسی عدالت میں چلنے لگے تو وہاں کے روزناموں کی تو گویا قسمت جاگ اٹھتی ہے! کیسے کیسے چٹپٹے اورشوق انگیز عنوانات دیے جاتے ہیں ،کیسی کیسی مزیدار حاشیہ آرائیاں کی جاتی ہیں ،اور قرآن جو ’’آج‘‘خاموش ہے مگر’’کل‘‘اظہار کے وقت خاموش نہیں رہے گا،خاموشی کے ساتھ ان کے یہ سارے کر تو ت دیکھتا رہتا ہے۔