آنچہ من گم کردہ ام آنچہ من گم کردہ ام۔۔۔ جواں سال وباکمال بیٹے کی موت کا غم

Bhatkallys

Published in - Other

07:15PM Mon 11 Feb, 2019

از: ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میرا لخت جگر ’’محمد‘‘ جس کے لئے اﷲ نے عمر کی صرف32 بہاریں ہی لکھی تھیں۔ کویت میں پیدا ہوا، خالص عربی ماحول میں نشو و نما پائی، عربی مدارس و جامعات میں تعلیم حاصل کی اور تقریبا 5/6 سالوں کی غریب الوطنی اور شب و روز کی محنت کے بعد اُردن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد اُردن ہی کی ایک دوسری یونیورسٹی میں ماجستیر(ایم، اے) کے مرحلہ تک پہنچا، تمہیدی کورس کے بعد مقالہ کیلئے ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا خاکہ پیش کرکے منظوری لی کہ اچانک اس کا وقت موعود آ پہنچا اور وہ غم سے نڈھال باپ اور بلکتی سسکتی ماں ہی نہیں بھائیوں بہنوں اور سیکڑوں ساتھیوں اور اساتذہ کو سوگوار چھوڑ کرﷲ کو پیارا ہوگیا، اور رب کائنات نے اسے اپنی آغوش رحمت میں بلا لیا۔ اور مسجد اقصیٰ سے قریب اُردن کی وہی سرزمین جہاں وہ حصول علم کے لئے گیا تھا اور وہی جگہ جو ارض محشر بھی ہے، اور جہاں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دسیوں جانباز صحابیؓ مدفون ہیں جنت سے پہلے کی اس کی آرامگاہ بن گئی اور وہ ہمیشہ کیلئے اس سرزمین کا حصہ بن گیا فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ عام طور پر ان بچوں کو یتیم کہا جاتا ہے جن کے سر سے ماں باپ کا سایہ بچپن میں اٹھ گیا ہو لیکن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ادھیڑ عمر باپ کو یتیم کردیا ہے جس کو اپنے ایک ایسے ہونہار بیٹے کا غم نڈھال کئے ہوئے ہے، جو اس کا صرف نسبی نہیں علمی سہارا اور فقہی شرعی و ادبی مرجع بھی بن چلا تھا، اور جس سے طرح طرح کی توقعات اس نے قائم کرلی تھیں، اور جو ایسی صلاحیتوں سے بہرہ ور تھا کہ نہ صرف باپ کے علمی خاکوں میں رنگ بھر سکتا تھا بلکہ خود جدید فقہی مسائل کے حل کی ایک نئی راہ بھی کھول سکتا تھا۔ جس رب کائنات نے اپنی آغوش رحمت میں اسے لیا ہے اب اسی کی ذات سے یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ اس کے ’’یتیم باپ‘‘ کی ناطاقتی پر رحم کرے، اس کے احساس زیاں کو دور کرے اور اسے مزید آزمائشوں میں نہ ڈالے، ایسے جواں مرگ بیٹے کی موت پر صبر و رضا کا دامن تھامے رکھنا بھی رب غفور و رحیم کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ محمد کی فطری صلاحیت‘ زبان و ادب پر اس کی قدرت‘ فقہ و اُصول سے مناسبت اور پھر مستقبل کے عزائم اور علمی بلند پروازیوں کا خیال آتا ہے تو دل ٹوٹنے لگتا ہے اور سوز اندرون سے ہڈیاں پگھلنے لگتی ہیں، اور اس کی اعلیٰ ڈگریوں، علمی سرگرمیوں اورحاصل کردہ تمغوں اور شہادتوں پر نظر پڑتی ہے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، نہ پاؤں تلے زمین محسوس ہوتی ہے اور نہ سر کے اوپر آسمان۔ اندرونی حال یہ ہے کہ ’’اگر گویم زباں سوزد نہ گویم مغز استخواں سوزد‘‘ مجھ جیسا جسمانی و ایمانی ہر لحاظ سے ضعیف و ناتواں شخص حضرت عروہ بن الزبیرؒ کا حوصلہ کہاں سے لائے جنہوں نے ایک ہی دن میں ایک ٹانگ کٹ جانے اور ایک بیٹے کے مرجانے پر رب کائنات کے سامنے دست عاجزی بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’اے اﷲ تیرا شکر ہے کہ تونے دوہاتھ اوردو پاؤں دیئے تھے جن میں سے ایک تونے لے لیا اور تین باقی چھوڑے ہیں اور ۶بچے دیئے تھے جن میں سے ایک کو تونے لے لیا ہے اور پانچ باقی چھوڑے ہیں‘‘ ۔ ہماری دعا تو یہی ہے کہ اے اﷲ ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جس کا تحمل ہم نہ کرسکتے ہوں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں عفو سے بہرہ ور فرما، اور جانے والے بیٹے کو فردوس بریں میں جگہ دے۔ وہ تیرے دین کی تعلیم ہی کیلئے وقف تھا، اسے اس کے ماں باپ کیلئے ذخیرہ آخرت کی حیثیت سے قبول فرما اور ہمیں ہر طرح کے ہمّ وحزن سے نجات عطا فرما۔ بہر حال آقائے کائنات، فخر موجودات محمد بن عبد اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حادثۂ وفات سے بڑھ کر تو کوئی دوسرا حادثہ نہیں ہوسکتا جس نے عرش و فرش کو ہلاکر رکھ دیا تھا اور جس نے کتنی ہی زبانیں گنگ کردیں، کسی کی بینائی لے لی تو کوئی تلوار سونت کر یہ کہتے ہوئے خود ربودگی کے عالم میں باہر نکل آیا کہ جس کسی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرجانے کا ذکر کیا اس کا سر تن سے جدا کردوں گا۔ لیکن موت تو برحق ہے اور جانا تو ہر کسی کا یقینی ہے اور (إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ) تو فرمان باری ہے۔ اور (کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃٌ الْمَوْتِ) (ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے) پھانسی کے اس عام اعلان کے بعد بھی کیا کوئی شخص بچ سکتا ہے؟ لیکن انسان بہر حال انسان ہے، صدیق اکبرؓ کا حوصلہ کہ ’’من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اﷲ فإن اﷲ حَیٌّ لایموت‘‘ (جو کوئی محمدؐ کی پرستش کر رہا تھا اسے یقین کرلینا چاہئے کہ محمدؐ تو اب دنیا میں نہیں رہے، اور جو کوئی رب کائنات کی پرستش کر رہا تھا اسے یقین ہونا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ زندہ جاوید ہے اس پر موت طاری نہیں ہوسکتی) کتنے لوگوں میں ہوتا ہے؟ محمد اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے تو نہ جانے کتنے محمد نام رکھنے والے اس دنیا سے گزر چکے ہیں، سمرقند کے قریب ’’تُربۃُ المحمّدیین‘‘ کے ایک ہی مقبرہ میں چند صدیوں کے اندر ہی چار سو سے زائد محمد نام رکھنے والے علماء روپوش ہوچکے تھے۔ محمد بن سیرین، محمد بن الحسن الشیبانی اور محمد بن اسماعیل البخاری بھی تو اس دنیا سے جاچکے ہیں۔ حجاج بن یوسف ثقفی نے ایک دن خواب دیکھا کہ اسکی دونوں آنکھیں نکال لی گئی ہیں، اس نے بدشگونی لیتے ہوئے اپنی دوبیویوں کو طلاق دیدی پھر تھوڑی ہی دیر بعد اسے خبر ملی کہ اس کا بیٹا محمد اور بھائی جس کا نام بھی محمد تھا دونوں انتقال کرگئے تو کہنے لگا کہ: واللّٰہ‘ ھذا تأویل رؤیای من قبل۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون (خدا کی قسم میں نے جو پہلے خواب دیکھا تھا اسکی تعبیر یہی ہے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون) ایک ہی دن میں ایک محمد کا پھر دوسرے محمد کا انتقال ! حسبی حیاۃ اللّٰہ من کل میت

وحسبی بقاء اللّٰہ من کل ھالک مشہور شاعر فرزدق نے اسی کے بارے میں کہا ہے کہ: إن الرزیۃ لا رزیۃ مثلھا

فقدان مثل محمد و محمد امام ذہبیؒ نے ایک شخص کا ذکر کیا ہے جس کی ۱۴ پشت تک سب کا نام محمد بن محمد ہی رہا ہے، انہیں محمد نام رکھنے والوں میں ’’محمد بدر القاسمی‘‘ بھی تھا جو طلب علم کی راہ اور غریب الوطنی کی حالت میں اور ماں باپ اور اہل خاندان سب سے دور رہتے ہوئے اﷲ کو پیارا ہوگیا۔ ایسے بیٹے کا چلا جانا یقینا ایک سانحہ ہے، اور ایسا سانحہ جس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن ﷲ کا ہی وہ عطیہ تھا اور اسی نے اپنی حکمت و مصلحت سے اسے ہم سے جدا کردیا ہے۔ ہمارا حال اس حادثہ پر وہی ہونا چاہئے جو حبیب کبریا احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے معصوم بیٹے حضرت ابراہیمؓ کی وفات پر تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چشم مبارک سے آنسووں کا سیلاب جاری تھا اور زبان مبارک پر غم و الم کے اظہار کے ساتھ تسلیم و رضا کے یہ کلمات جاری تھے: ’’ إن القلب لیحزن وإن العین لتدمع ولا نقول إلا مایرضی اﷲ سبحانہ وإنا لفراقک یا إبراہیم لمحزونون ‘‘ (دل غموں سے نڈھال ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں لیکن زبان سے ہم صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں جو اﷲ کو پسند ہے، اے ابراہیم! تمہاری جدائی پر ہم سبھی مغموم ہیں) تقدیر پر ایمان اور اﷲ کے فیصلوں پر راضی رہنا اگر جز و ایمان نہ ہو اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارک نظروں کے سامنے نہ ہو تو اتنے بڑے حادثہ پر نہ جانے انسان کا کیا حال ہو اور اس سے کس کس طرح کی قولی و عملی بے احتیاطیاں سرزد ہونے لگیں؟ محض اﷲ کے کرم اور اسکی رحمت سے امید اور اس کی حکمت پر یقین کا سرمایہ ہی ہے جو انسان کے لئے بڑی سے بڑی مصیبت میں سہارے کا کام دے سکتا ہے۔ ۔ اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ۔ جو مصیبت آتی ہے وہ پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔ ۔ موت وقت سے پہلے نہیں آتی اور نہ اس کو اس کے وقت سے ٹالا جاسکتا ہے۔ ۔ اﷲ تعالیٰ جب کسی بات کا فیصلہ کرلے تو اﷲ کے علاوہ کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ ۔ ساری کائنات مل کر بھی اﷲ کا اگر فیصلہ نہ ہو تو ایک ذرہ کا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ کسی کا ایک بال بیکا کرسکتی ہے۔ ۔ اﷲ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ۔ آخرت کی زندگی دنیا سے بہتر ہے۔ ۔ جنت کی نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔ ایمان کے یہ وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو تسلیم و رضا کی راہ کھولتے ہیں۔ مصیبت پر صبر بڑا مشکل اور جانگداز مسئلہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اپنے امتیوں کو یہی تلقین فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ سے عفو و عافیت اور دنیا و آخرت میں آرام و راحت مانگا کرو۔ امام ابن عیینہ نے بڑا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے قرب ووصال کی ایک راہ تو وہ ہے جس پر حضرت ایوب علیہ السلام گامزن تھے، سخت اذیت و تکلیف اور مسلسل جانگسل بیماریوں کے باوجود سرتاپا صبر و استقامت بنے رہے اور رب کائنات سے اپنے دکھ کا اظہار بھی کیا تو بڑے لطیف انداز پر رَبِّ أنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (اے پروردگار ہمیں تکلیف اور مصیبت لاحق ہے اور آپ ارحم الراحمین ہیں) یقینا تسلیم و رضا کا یہ بڑا عظیم مقام ہے لیکن اس طرح کا حوصلہ ہم جیسے کم ہمتوں کو کب ہوسکتا ہے۔ امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ کے قرب و وصال اور اسکی رضا کے حصول کا ایک راستہ وہ بھی ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار فرمایا تھا کہ: رَبِّ ہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِیْ (اے اﷲ ہمیں ایسی سلطنت عطافرما جو پھر کسی اور کو میرے بعد نہ ملے) لیکن انسانوں کے علاوہ جنوں اور پرندوں اور ہواؤں تک پر حکمرانی کے باوجود کبھی ان کے سر پر غرور کا نشہ سوار نہیں ہوا اور وہ رب کائنات کی عظیم نعمتوں پر ہمیشہ سربسجود ہی رہے۔ اُسوۂ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم میں نہ تو غم کے احساس سے منع کیا گیا ہے اور نہ غم کے اظہار سے کیونکہ غم پر ہنسنا فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ دل کا غم آنکھوں سے چھلک آئے یہ بھی دین کے منافی نہیں، بلکہ خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت ابراہیمؓ کی موت پر آبدیدہ ہوجانا اور آنکھوں سے آنسو کا ٹپکنا ثابت ہے بلکہ زبانی طور پر یہ کہنا بھی ثابت ہے کہ: إن القلب لیحزن، وإن العین لتدمع۔ (دل غمزدہ ہوتا ہے اور آنکھیں بھی اشکبار ہوتی ہیں) البتہ زبان پر کوئی ایسی بات نہیں آنی چاہئے جو جذبۂ تسلیم و رضا کے منافی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ فضیل بن عیاض کے صاحبزادہ کا انتقال ہوا تو دفن کے بعد انہوں نے اپنے صبر و ضبط اور تسلیم و رضا کا اظہار قبرستان میں قہقہہ لگا کر کیا۔ امام ابن تیمیہؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسے موقع پر قہقہہ لگانا نہ کمال کی دلیل ہے نہ شریعت کی تعلیمات سے ہم آہنگ، فطرت انسانی سے ہم آہنگ بات یہی ہے کہ حضور کے اس اُسوہ کو اپنایا جائے کہ آنکھیں اشکبار بھی ہوں، دل میں غم و الم کی ٹیس بھی محسوس ہو، مرنے والے کی جدائی کے شاق ہونے کا اظہار بھی۔ البتہ زبان پر تسلیم و رضا کے کلمات کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے حادثہ جانکاہ کے بعد ہر حادثہ اس سے کمتر ہے۔ کسی نے صحیح کہا ہے: تذکرت لما فرق الدہر بیننا

فعزیت نفسی بالنبی محمد وقلت لہا إن المنایا سبیلنا

 فمن لم یمت فی یومہ مات فی غد (جب زمانہ نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا تو حضورؐ کے حادثہ کو یادکرکے اپنے نفس کو ہم نے تسلی دی، اور اس سے کہا کہ موت تو ہم لوگوں کیلئے ناگزیر ہی ہے، لہٰذا جس کی موت آج واقع نہیں ہوئی تو کل کے دن ہوجائے گی) در اصل زندگی خود ہی سب سے بڑی بیماری ہے، حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کے بقول ’’جس کو یہ لگ گئی اس کو بہر حال مرنا ہی ہے، دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جسے زندگی کا روگ لگا ہو اور پھر وہ نہ مرا ہو‘‘۔ کل نفس ذائقۃ الموت (ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہی ہے) انسان کی برتھ سرٹیفیکیٹ ہی اس کی وفات کا گوشوارہ بھی ہے جس پر اس کی مقرر شدہ زندگی کا ہر لمحہ درج ہوتا رہتا ہے اور ہر دن زندگی کا ایک ایک صفحہ الٹتا رہتا ہے۔ طے شدہ زندگی کے سانس بھی جب گنے ہوئے ہیں تو ان کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہے اسی لئے کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ: ’’إذا کانت الأنفاس بالعدد ولیس لہا مدد فما أسرع ماینفد‘‘۔ (جب زندگی بھر کے سانس گنے چنے ہیں، اور ان میں اضافہ کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تو پھر ان کو گزرتے ہوئے دیر ہی کتنی لگے گی) مرحوم کے چلے جانے کے غم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’’نئے فقہی مسائل‘‘ کو سمجھنے اور محنت کرکے ان کا حل تلاش کرنے کی اس میں اچھی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی جس کا اندازہ اس کے ماجستیر کے رسالہ کے عنوان سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ ’’المال المختلط فی الفقہ الإسلامی وتطبیقاتہ المعاصرۃ‘‘ کا موضوع کوئی پختہ ذہن اور بلند حوصلہ شخص ہی اختیار کرسکتا ہے کیونکہ اس موضوع پر ماہرانہ انداز سے لکھنے کے لئے بڑی محنت اور غیر معمولی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔ تدفین کے بعد مرحوم کے رہائشی کمرے میں جب دل پر پتھر باندھ کر میں داخل ہوا تو بکھرے ہوئے اوراق میں درج ذیل موضوعات پر مضامین کے مجموعے بھی ملے جن میں سے بعض گریجویشن کے زمانہ کے لکھے ہوئے ہیں اور بعض بعد کے، عنوانات یہ ہیں: ۔ الترجیح بین المتعارضات ۔ التفریق للعیب بین الزوجین ۔ الرجوع عن الشہادۃ بعد الحکم ۔ مقدار قیمۃ دیۃ المرأۃ المسلمۃ اور متعدد نسخے ’’المال المختلط فی الفقہ الإسلامی‘‘ کے کچھ فقہی مذکرّات اور یونیورسٹی کے نصاب کی اور دوسری فقہی واَدبی موضوعات پر کتابیں ع بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا ان عنوانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرحوم میں علمی پختگی اور ذہنی صلاحیت کتنی زیادہ تھی؟ ’’محمد بدر القاسمی‘‘ کی جدائی پر زیادہ غم کی اور بھی کئی وجوہ ہیں: محمد نے کویت کے سرکاری اسکولوں میں ابتدائی، میڈل اور پھر ہائر سکنڈری کی تعلیم حاصل کی، وہ بچپن سے اپنے کلاس میں ممتاز رہا، کئی بار امتیازی نمبرات لانے پر اسے میڈل ملے، پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے اُردن گیا تو وہاں بھی ’’جامعۃ الزرقائ‘ الجامعۃ الأردنیۃ‘ پھر ’’جامعۃ العلوم الإسلامیۃ اُردن‘‘ میں علمی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے نمایاں رہا اور طلبہ و اساتذہ میں اسے بڑی محبوبیت حاصل رہی۔ محمد کی پیدائش ۷! جولائی ۶۸۹۱؁ء کو کویت میں ہوئی تھی اور اُردن میں اس کی وفات کی تاریخ ۹۲! جنوری ۰۱۰۲ء؁ ہے۔ اصل زبان شروع سے اس کی عربی ہی رہی، اردو کے جملے عام طور پر شکستہ ہوجایا کرتے تھے بلکہ زائد زبان کی حیثیت سے اردو سیکھنے کیلئے اُردن میں رہتے ہوئے ایک استاذ سے کلاسیں بھی اس نے لیں۔ اس کو اصل دلچسپی کتابیں پڑھنے سے تھی۔ عرب اُدباء کی کتابیں اس نے کویت میں رہتے ہوئے ہی ہضم کرلی تھیں، عباس محمود العقاد اور طہٰ حسین وغیرہ کی جو کتابیں ملیں پڑھ ڈالیں۔ زندہ لکھنے والوں میں غازی القصبی، ترکی الحمد وغیرہ جیسے لکھنے والوں کی کتابیں بھی پڑھنے کی عادت تھی جس سے میں روکنے کی کوشش کرتا تھا۔ بہت ہی کم عمری کی حالت میں عبد الرحمن رأفت الباشا کی مشہور کتاب ’’صور من حیاۃ الصحابۃ‘‘ اس نے اس طرح پڑھی تھی کہ لفظ بلفظ زبانی سنایا کرتا تھا۔ درسی کتابوں کے علاوہ دیگر کتابوں سے اس کی واقفیت اتنی زیادہ تھی کہ اسکول کے بعض اساتذہ کہتے تھے کہ ’’پورے اسکول میں تعلیم یافتہ بچہ ایک یہی ہے‘‘۔ اُردن کی تعلیم، جامعہ اُردنیہ کے علمی ماحول اور یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان سے اس کی براہِ راست واقفیت کے علاوہ رات کے ۲۱ بجے تک یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس میں ایک حد تک پختگی آگئی تھی۔ فقہی مسائل کو سمجھنے، ان پر بحث و مناقشہ کرنے کا بھی اچھا سلیقہ پیدا ہوگیا تھا۔ تحقیقی مضامین لکھنے کا انداز بھی اس نے خوب سیکھ لیا تھا جس کا اندازہ اس کے چھوڑے ہوئے فقہی مضامین سے لگایا جاسکتا ہے۔ محمد مرحوم نے فقہ واُصول کے اپنے سبجیکٹ کے علاوہ ’’ٹیلیویژن میڈیا کے مبادیات، اور دوسروں کی شخصیت کو سمجھنے کے اُصول‘‘ وغیرہ کی ٹریننگ بھی لی تھی۔ بتدریج میں اس کے ساتھ معاملہ اپنے ایک علمی ساتھی اور زمیل کی طرح کرنے لگا تھا، اور ذہن میں بے شمار علمی کاموں کا نقشہ صرف محمد کی ذات اور اس کی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر میں نے بنا لیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ میری تعلیم تو دارالعلوم دیوبند میں قدیم انداز پر ہوئی ہے جس میں بہت سی خوبیوں کے باوجود ذہن و دماغ متأخرین کی لکھی ہوئی کتابوں اور ان کے شروح و حواشی کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے۔ محمد کی تعلیم نئے انداز پر ہوئی ہے اور نئے منہج کے مطابق اور تحقیق و ریسرچ کا نیا انداز بھی یونیورسٹی میں اس نے سیکھا ہے، اس لئے میرے علمی نقص کی تکمیل اس کے ذریعہ ہوگی اور جدید فقہی مسائل پر اس کی تحریریں مجھ سے زیادہ وقیع اور وزنی ہوا کریں گی اور مستقبل میں اﷲ نے توفیق اور سہولت دی تو فقہ و اُصول کی تعلیم کا مستقل نصاب تیار کرنے میں اس کے ساتھ ملکر شاید ہم کامیاب ہوجائیںگے، بلکہ دیگر ادبی وشرعی علوم کے لئے بھی قدیم و جدید مناہج کو سامنے رکھ کر ایک متوازن سلسلہ تیار کیا جا سکے گا لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ گھر میں عام طور پر محمد کو ’’حجی‘‘ کے عرفی نام سے ہی پکارا جاتا تھا اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ ۷۸۹۱؁ء کے حج میں جبکہ اس کی عمر بمشکل ڈیڑھ سال کی تھی اپنے ماں باپ اور دادی کے ساتھ وہ بھی حج کے قافلہ میں شامل تھا۔ ظاہر ہے کہ ڈیڑھ سال کی عمر میں حج کیا؟ لیکن کعبہ پر نظر تو بچہ کی بھی پڑتی ہی ہے، پھر منیٰ و عرفات سے اس عمر میں گزر جانا بھی تو سعادت مندی ہی کہی جائے گی، جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اس سفر حج میں ہم سب پر حج کا اثر نزلہ وزکام اور بخار کی شکل میں ظاہر ہوا لیکن محمد مکمل طور پر محفوظ رہا۔ خدا کی شان یہ کہ گزشتہ سے پیوستہ سال میں سعودی عرب کے وزیر حج جناب فواد عبد السلام الفارسی کی طرف سے مجھے دعوت نامہ موصول ہوا کہ ’’دور الشعار الإسلامیۃ فی بناء الحضارۃ الإنسانیۃ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھ کر بھیجوں جو ایام حج میں منعقد ہونے والے ندوۃ الحج الکبریٰ میں پیش ہوگا اور وزارت کے زیر انتظام حج کی سعادت بھی میسر ہوگی، اور اپنے ساتھ افراد خاندان میںسے کسی ایک کو ساتھ لانے کی بھی سہولت ہوگی چنانچہ قرعہ فال محمد کے نام ہی کا نکلا اور اس طرح سن رشد کو پہنچنے کے بعد بھی سرکاری ضیافت میں باقاعدہ حج کی سعادت اس نے حاصل کی اور ساتھ ہی سمینار اور دیگر ثقافتی پروگراموں سے بھی بہرہ ور ہوتا رہا۔ اب بھی وکیل الوزارۃ ڈاکٹر ہشام العباس کا جب کبھی ٹیلیفون آتا ہے تو وہ محمد کی خیریت ضرور دریافت کرتے ہیں۔ اب محمد تو اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں،  دل میں حسرت اس غنچہ کی ضرور رہے گی جو بن کھلے مرجھا گیا۔ اﷲ تعالیٰ کسی اور کو اس طرح کے کام کی توفیق دے گا۔ محمد کے سفر آخرت کی کہانی بھی عجیب و غریب ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ اس نے مجھے اردن آنے کی دعوت دی کہ جارڈن یونیورسٹی میں میرا ’’حفل تخرج‘‘ یا ’’جلسہ تقسیم اسناد‘‘ ہے چنانچہ میں گیا، بڑا پرشکوہ اور دلفریب منظر تھا۔ جھنڈوں اور ترانوں کے ساتھ تقریب منائی گئی، فراغت کی سندیں تقسیم کی گئیں، اساتذہ اور طلبہ سبھی مخصوص لباس اور خصوصی شعار کے ساتھ قطار بند ہوکر جلوہ افروز رہے۔ چند دنوں کے اس سفر میں اس نے وہاں کی اہم دینی شخصیتوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر عمائدین سے ملاقاتیں کرائیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس نے کویت میں ہی گزارا اور شوال میں پھر اُردن جاکر قافلہ علم میں شامل ہوگیا۔ ہر دوسرے تیسرے دن ٹیلیفون پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، ایم اے کے لیے تمہیدی کورس کی تکمیل کے ساتھ رسالہ لکھنے کا معاملہ بھی طے ہوگیا، خاکہ بھی منظور کرلیا گیا، چند دنوں بعد کویت میں ہی کچھ عرصہ گزارنے کا پروگرام بن گیا تھا کہ اچانک یکشنبہ کی رات میں رئیس جامعہ کا ٹیلیفون آیا کہ محمد نازک حالت میں ہے۔ یہ خبر صاعقہ اثر دل پر برق بن کر گری اور اگلے دن ہی اُردن کیلئے روانہ ہوگیا۔ اُردن پہنچنے کے بعد اس کے ایک محبوب استاذ نے عمان ایر پورٹ پر ہمارا استقبال کیا اور بعجلت گاڑی میں بٹھاکر ’’فندق  تولیدو‘‘ لے گئے۔ ہمیں بے چینی ہاسپٹل جانے کیلئے ہورہی تھی لیکن انہوں نے وحشت اثر خبر سنانے سے گریز کرتے ہوئے حکمت سے کام لینے کی کوشش کی لیکن ہوٹل پہنچتے ہی اُردن کے وزیر اوقاف اور نامور فقیہ اور جدہ فقہ اکیڈمی کے سابق جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبد السلام العبادی اور جامعۃ العلوم الإسلامیہ کے رئیس ڈاکٹر عبد الناصر  ابو البصل نے تعزیتی کلمات کے ساتھ صبر کی تلقین کرنی شروع کی، اب نہ تو بدن میں جان رہی نہ پاؤں تلے زمین، تھوڑی ہی دیر کے بعد اُردن یونیورسٹی کے ہاسپٹل کے برف خانہ میں چلتے پھرتے محمد کے بجائے اس کی لاش سامنے تھی۔ کیا لکھوں کہ اس وقت میرا حال کیا تھا اور مرحوم کی بہن عائشہ پر کیا گزری؟ پچھلے سفر میں محمد ہی میرا دلیل راہ تھا اور اس سفر میں کہا یہ جارہا تھا کہ محمد کو زیر زمین دفن کرنے کیلئے تمہیں کونسی جگہ پسند ہے اُردن یا کویت؟ اﷲ تعالیٰ نے یہ دن دیکھنا بھی میرے لئے مقدر کر رکھا تھا کہ جواں سال محمد جب علمی کاموں میں باپ کا ہاتھ بٹانے بلکہ باپ پر سبقت لیجانے کے قابل ہوا تو اسکی زندگی کا صفحہ ہی لپیٹ دیا گیا۔ قسمت کی شومی دیکھ۔ئے ٹوٹی کہاں کمند دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا حادثہ اتنا سنگین اور ہولناک کہ ذہن و دماغ کیلئے یہ فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے کہ آدمی ایک جواں سال اور باکمال بیٹے کو سپرد خاک کرے یا خود زندہ در گور ہوجائے۔ یہ محض آخرت کی زندگی پر ایمان و یقین کا کرشمہ ہے کہ آدمی تلخ سے تلخ تر گھونٹ پی جاتا ہے اور تسلیم و رضا اور صبر و احتساب کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوڑتا۔ ایک طرف یہ احساس کہ ماں کیلئے نہ اپنے لخت جگر کا چہرہ دیکھنے کا موقع اور نہ کبھی قبر پر آکر یاد تازہ کرلینے کی ہی گنجائش۔ دوسری طرف اُردن کے محبین کا یہ کہنا کہ یہ جگہ بیت المقدس کے اردگرد میں آتی ہے جسے بابرکت کہا گیا ہے، متعدد صحابہؓ کی قبریں یہاں سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہیں اور یہی ارض محشر بھی ہے۔ بہر کیف جذبات پر عقل و شریعت کے تقاضے کو غالب کرتے ہوئے میں نے عمان میں ہی تدفین کا فیصلہ کیا، پھر پوری تکریم کے ساتھ اپنے ایک نونہال کی طرح جامعہ کے ذمہ داروں نے خود اپنے ہاتھوں سے تدفین کی اور ہمیشہ کیلئے محمد اُردن کی زمین کا حصہ بن کر رہ گیا۔ واقعات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اُردن گیا تو تھا آخری علمی شہادت (ڈگری) لینے کے لئے لیکن قدرت نے اس کے لئے دوسری شہادت مقدر کر رکھی تھی۔ غریب الوطنی، دین کے علم کی راہ، اور پھر ایک جان لیوا عارضہ میں موت، تینوں چیزیں شہیدوں کی صف میں اس کو شامل کرنے کی بشارت دیتی ہیں البتہ اس بات پر دل خون ہوتا ہے کہ صرف چند ماہ قبل یونیورسٹی سے فراغت کی سرٹیفکٹ ہمارے ہاتھوں میں آئی تھی اور ماحول خوشی و مسرت کا تھا اور آج ہاتھوں میں موت کی سرٹیفکٹ ہے اور سارا ماحول اداس اور ساری دنیا ماتم کدہ۔ دنیا کی بے ثباتی کا یہ سب سے بڑا ثبوت ہے، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ :حقیقت یہی ہے کہ آنچہ من گم کردہ ام گر از سلیماں گم شدے ہم سلیماں، ہم پری ہم اہر من بگریستے دنیا بھر سے مخلصین و محبین نے جس طرح محمد کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے، مجھے تسلی دینے کی کوشش کی ہے اور مرحوم کیلئے دعائیں اور عمرے کئے ہیں ان سے ڈھارس بندھتی ہے کہ انشاء اللہ اﷲ کے نزدیک اس کا مقام بلند ہوگا۔

محمد کی اس ناگہانی وفات کا حادثہ اس قدر جانکاہ، کرب انگیز اور اندوہناک ہے کہ جس نے میرے سارے وجود کو ہلاکر رکھ دیا ہے، زندگی میں اتنا بڑا صدمہ مجھے کبھی سہنا نہیں پڑا اور نہ اس طرح کا واقعہ پیش آنے کا دور دور تک کوئی تصور تھا لیکن حقیقت یہی ہے، دنیا کی زندگی قطعی ناپائیدار، زوال پذیر اور فانی ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ کا مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد اور بخار کی حالت میں یہ فرمانا کہ: ’’کل امرئ مصبح فی أہلہ  والموت أدنی من شراک نعلہ‘‘(ہر شخص خوش و خرم اپنے اہل و عیال کے درمیان دن کا آغاز کرتا ہے حالانکہ موت جس چیز کا نام ہے وہ اس کے جوتے کے تسمہ بھی سے زیادہ قریب ہوا کرتی ہے) کس کی موت کہاں آئے گی؟ اس کے بارے میں بھی قرآن کا واضح اعلان یہی ہے کہ: ’’وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأیِّ أرْضٍ تَمُوْتُ‘‘ (کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کی موت کس سرزمین پر واقع ہوگی)۔ اب محمد ہی کو دیکھئے کب اس نے سوچا تھا کہ جس اُردن کو اس نے اپنی تعلیم کیلئے پسند کیا تھا، جہاں سالہا سال تک پوری عزیمت کے ساتھ جاتا رہا، اب جبکہ وہاں سے آکر کویت میں اپنے مقالہ کی تکمیل کرنا چاہ رہا تھا وہی اُردن اس کی ناگہانی موت کی جگہ بن جائے گا اور جس یونیورسٹی کے در و دیوار سے وہ مانوس ہوگیا تھا اور جسکی لائبریری میں اس کے اپنے شب و روز کے بیشتر لمحات گزرتے تھے اسی یونیورسٹی میں اسکی لاش لائی جائے گی، اور اسی کے احاطہ میں آخرت کے سفر کیلئے اُسے غسل دیا جائے گا، اور اسی اُردن کی سرزمین میں وہ ہمیشہ کیلئے پیوند خاک ہوجائے گا۔ اور ’’اجل‘‘ جس کا کام ہی ’’ازل‘‘ سے      ع چمن سے توڑنا پھولوں کو ویرانہ میں رکھ آنا ہے وہ اپنا کام کر ڈالے گی۔ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے: إذا ما حمام المرأ کانت ببلدۃ

دعتہ إلیہ حاجۃ فیطیر (جب انسان کی موت کسی شہر میں لکھی ہوتی ہے تو وہاں جانے کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اُڑکر وہاں پہنچ جاتا ہے) گویا اَب یہ حقیقت کھلی ہے کہ اُردن میں ہی اعلیٰ تعلیم کے حصول پر محمدکے اصرار کے پیچھے قدرت کا یہ فیصلہ بھی تھا کہ اسکی موت اُردن میں ہی آئے گی۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ اس نے اپنے باپ کو تقسیم اسناد کے جشن میں شرکت کی دعوت دی تھی، خوشی منائی تھی یادگار تصویر کھنچوائی تھی اور وہی باپ اپنی تمام امیدوں پر پانی پھیر کر، اپنے تمام خوابوں کو چکنا چور کرکے، خود اسی بیٹے کی لاش کو سامنے رکھ کر جنازہ کی نماز پڑھتا ہے، رب کی کبریائی کا نعرہ بلند کرتا ہے اور خود اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے پاک و معصوم جسم کو قبر میں رکھ کر’’ مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ، وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أخْریٰ‘‘ کہتے ہوئے اس کو زیرزمین روپوش کرتا ہے، اس کو اپنی نظروں سے اوجھل کرتا ہے، اور شکستہ دل اور آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ صبر و احتساب کی کوشش کرتا ہے اور اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ محمد کی جدائی المناک سہی ، کربناک سہی دائمی نہیں عارضی ہے قیامت آئے گی، جنت میں انشاء اللہ اس سے ملاقات ہوگی اور ذریت کو ماں باپ سے ملادینے کا خدائی وعدہ پورا ہوگا۔ جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت میں ملیںگے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور صحیح ہے: ع زمانہ جام بکف و جنازہ بردوش است المناک حادثہ کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ آنکھیں بہنے لگتی ہیں اور نیند اُڑ جاتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بارے میں جب بعض بد باطنوں نے بے بنیاد افواہ پھیلانے کی کوشش کی او روہ اس سے قطعی غافل تھیں ام مسطح نے انکو رات کے وقت اس کی خبر دی تو ان پر رنج و غم اور تشویش و اضطراب کی جو کیفیت طاری ہوئی اس کی تعبیر خود ہی انہوں نے بڑی بلاغت سے کی ہے، اس بیان کا ایک جملہ یہ بھی ہے کہ کئی روز و شب گزر گئے اور حال یہ تھا کہ: ’’لا یرقأ لی دمع ولا اکتحل بنوم‘‘ (نہ تو میرے آنسو تھمے تھے اور اس عرصہ میں نہ کبھی میری آنکھوں نے نیند کا مزہ ہی چکھا) کیا کہوں کہ جس وقت یہ خبر یقینی ہوگئی کہ محمد جو ایک یا دو دنوں میں میرے پاس کویت آنے کی تیاریوں میں تھا اب اس دنیا میں نہیں رہا اب وہ مجھ سے گفتگو نہیں کرسکتا اور نہ اپنے مخصوص لہجے میں اور ظرافت و ذہانت پر مبنی جملوں کے ذریعہ مجھے اپنی کامیابیوں پر مبارکباد دے سکتا ہے نہ اپنے آنے کی تاریخ اور مقالہ لکھنے کا پروگرام ہی بتا سکتا ہے۔ اس خبر کے یقینی ہوجانے کے بعد میری حالت وہی ہوگئی کہ: ’’لا یرقأ لی دمع ولا اکتحل بنوم" نہ آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی اور اب جبکہ کئی دن ہوگئے ہیں ہوائی جہاز پر بیٹھتے ہی اس کا خیال آیا اور آنسو جاری ہوگئے، پٹنہ اور دہلی کے درمیان کی آدھی مسافت اسی طرح طے ہوئی کہ: بیٹھے ہی بیٹھے آگیا نہ جانے کیا خیال پہروں لپٹ کے روئے دلِ ناتواں سے ہم محمد میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھا، رب کریم کا عطیہ تھا، شکوے کے الفاظ زبان پر لانے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں  ’’إن للّٰہ ما أعطی ولہ ما أخذ وکل شئ عندہ بمقدار‘‘ لیکن انسان بھی تو ہوں، غم کا طاری ہونا طبعی ہے، کلیم عاجز کی زبان میں اگر حال پوچھنے والوں سے کہوں کہ: کیا حال بیاں کیجیے، سب حال ہے آئینہ اشکوں سے بھرا دامن، زخموں سے بھرا سینہ وہ انجمن آرائی، یہ غربت و تنہائی بخشا تو بہت بخشا، چھینا تو بہت چھینا تو اسکی بھی ہمت نہیں ہوتی مومن کا کام تو صرف برداشت و خود سپردگی ہی ہے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ زیادہ سے زیادہ جدائی و فراق کے غم کا اظہار کرسکتا ہے پھر سوچو تو سہی یہ جدائی اور کیسی جدائی؟ یہ فراق اور کیسا فراق؟ لیتنی مِتُّ قبلَ ہذا وکنتُ نَسْیاً مَنْسیاً۔ لیکن مرضی تو مولائے کریم کی ہی چلے گی، خود اپنا مرجانا یا بے نام و نشان ہوجانا بھی تو اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ تمنا تو یہ تھی کہ میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا تو محمد میرا ذکر خیر کرے گا، میری موت پرغم کا اظہار کرے گا اور ولد صالح ہونے کی حیثیت سے میرے لئے دعا کرے گا اور میرے نامہ اعمال میں اضافہ کا ذریعہ بنتا رہے گا اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد : أو ولد صالح یدعو لہ کا سچا مصداق ہوگا۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ میں اس کے غم سے نڈھال ہوں، میں اس کا ذکر خیر کر رہا ہوں، میں ہی اس کی جدائی پر غم کا اظہار کر رہا ہوں اور میں ہی برزخ اور آخرت میں اس کی راحت کے لئے دعا کر رہا ہوں اور اپنے لئے اسے ذخیرہ آخرت بننے کا لو لگائے بیٹھا ہوں۔ رب کائنات حاکم ہے اور حکیم بھی، غفور بھی ہے اور رحیم بھی بندہ کا کام اس حقیقت پر ایمان رکھنا، اس کے ہر فعل کو حکمت پر مبنی جاننا، وہ کام کرنا جس سے وہ راضی ہو اور وہ جو کام بھی کرے اس پر خود راضی رہنا اسی میں امتحان بھی ہے، آزمائش بھی ہے اور عطاء و بخشش بھی ہے۔ عموماً ذہین لوگوں میں مزاح کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے لطیف مزاح کی متعدد مثالیں حدیث کی کتابوں میں آپؐ کے شمائل کے ضمن میں ذکر گئی ہیں۔ انسان کا خوش مزاج ہونا اور جملوں کے اُلٹ پھیر سے ایسی بات پیدا کرنا جس سے لوگوں کو ہنسی آجائے زہد وتقویٰ کے منافی نہیں ہے۔ محمد (مرحوم) کو بھی لطیفہ گوئی اور خاص طور پر مصری صعیدیوں کے بارے میں دل خوش کن نکتے اور قصے بیان کرنے کا بڑا سلیقہ تھا۔ ایک مصری صعیدی کو دیکھ کر کہنے لگا کہ: ’’صعیدی سقط من الطائرۃ فانکسر خاطرہ‘‘ ایک صعیدی ہوا ئی جہاز سے گرا تو اس کی دل شکنی ہوئی یعنی صعیدی اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ ہوائی جہاز سے گرنے کے بعد بھی انکو کوئی چوٹ نہیں آتی صرف خاطر شکنی ہوتی ہے ایک اور صعیدی سیڑھیوں پر چڑھتا ہوا اوپر جا رہا تھا تو کسی نے سوال کیا کہ کہاں جا رہے ہو؟ تو وہ کہنے لگا کہ ’’عندی دراسات عُلیا‘‘  (یعنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے اوپر جا رہا ہوں)  یعنی صعیدی کی سمجھ اتنی ہی ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا مطلب اوپر جاکر تعلیم حاصل کرنا سمجھتا ہے۔ ایک اور صعیدی زمین میں گڑھا کھودنے میں مصروف تھا کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ تو کہنے لگا کہ: ’’أنا أفکر بعمق‘‘  (میں گہرائی سے سوچتا ہوں)  یعنی گہرائی سے کسی مسئلہ پر سوچنے کا مفہوم اس کے یہاں یہ ہے کہ گڈھا کھود کر آدمی غور وفکر کرے۔ اسی طرح اُردن میں عام طور پر ناموں کے اٹک کے طور پر بطائنہ، حمارنہ، خصاونہ وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان سبھوں کو جوڑ کر بھی لطیفہ بیان کرنے میں اسے بڑی مہارت تھی جس کا اظہار بے تکلف دوستوں کی مجلس میں ہوا کرتا تھا۔ محمد کی اس طرح کی باتیں جب یاد آتی ہیں تو عربی کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ حضرت خنسائؓ کے اشعار یاد آتے ہیں جو انہوں نے اپنے بھائی صخر کے مرثیہ میں کہے ہیں اور خود بھی روئی ہیں اور ساری دنیا کو صدیوں سے رُلاتی آئی ہیں۔ ألا یا صخر إن أبکیت عینی

لقد أضحکتنی زمنا طویلا إذا قبح البکاء علی قتیل

وجدت بکاء ک الحسن الجمیلا (اے صخر اگر تو نے ابھی میری آنکھیں اشکبار کی ہیں تو ایک طویل عرصہ تک تم نے مجھے ہنسایا بھی تو ہے، اگر کسی مقتول پر رونا نامناسب بھی ہو تو تم پر رونے کو تو میں نے بہتر ہی پایا ہے) اسلام سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی پر آنسو بہاتے ہوئے جو مرثیے کہے ہیں وہ آج بھی عربی اَدب میں مرثیہ گوئی کا اعلیٰ نمونہ سمجھے جاتے ہیں، اور جن کو پڑھ کر بے ساختہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ آخر انکے اس طرح کے اشعار کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ یذکرنی طلوع الشمس صخرا واذکرہ لکل غروب شمس

ہر دن آفتاب کا طلوع ہونا ہمیں صخر کی یاد دلاتا ہے اور پھر آفتاب کے غروب پر بھی اسی کی یاد ستاتی رہتی ہے ولولا کثرۃ الباکین حولی علی إخوانہم لقتلت نفسی

اگر میرے گرد میری ہی طرح اپنے اپنے بھائیوں پر رونے والوں کی کثرت نہ ہوتی تومیں اپنے آپ کو ہی ہلاک کرلیتی وما یبکون مثل أخی ولکن أعزی النفس عنہ بالتأسی

ان رونے والوں کے بھائی میرے بھائی کے پایہ کے تو نہیں تھے لیکن انکی اتباع کرکے اپنے نفس کو تسکین دلانے کی کوشش کرتی ہوں فو الہفا علیہ ولہف نفسی أیصبح فی الضریح وفیہ یمسی

پس افسوس جانے والے پر ہائے افسوس اپنی بے بسی پرکیا اَب میرے بھائی کی صبح وشام قبر میں ہی گزرے گی؟ لیکن یہی خنسائؓ جب ایمان کی دولت سے مشرف ہوئیں اور ایمان انکی رگ وپے میں سرایت کرگیا تو جنگ قادسیہ میں انہوں نے اپنے چار بیٹوں کی شہادت پر اللہ کا شکر ادا کیا اور انکے بارے میں پھر کوئی ایسا مرثیہ بھی نہیں کہا جس کا ذکر تاریخ واَدب کی کتابوں میں ملتا ہو۔ کسی قریبی عزیز کی موت پر رونا یا آنکھوں کا اشکبار ہوجانا تو فطرت انسانی کا تقاضا ہے لیکن مؤمن کا ایمان اسے دائمی ماتم اور ہمہ وقتی سوگ منانے کے بجائے اللہ کی رحمت پر یقین ، اسکی حکمت پر بھروسہ اور آخرت میں اسکی عطا وبخشش کی امید دلاکر اس کے غم کو ہلکا کرتا اور اسے صبر وشکیب سے کام لینے پر ابھارتا ہے۔ بکی جزعا لفقدان الحبیب

واسبل دمع ملہوف کثیب وکان الصبر أجمل لو تعزّی

و أشفی للصدور من النحیب (محبوب ذات کے کھونے پر شدت اور گھبراہٹ کے ساتھ رویا، اور غمزدہ اور مصیبت کے مارے شخص کی طرح آنسو بہانے لگا، جبکہ صبر کرنا غم ہلکا کرنے کیلئے زیادہ موزوں اور دل کو تسکین کیلئے آہ وبکا کے مقابلہ میں زیادہ بہتر تھا) مؤمن کا ایمان اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ: ﴿قُل لَّنْ یُّصِیْبَنَآ إلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤمِنُوْنَ﴾  (سورہ توبہ  :  ۱۵) (آپ کہدیجئے کہ ہمیں اتنی ہی مصیبت لاحق ہوسکتی ہے جو اللہ نے پہلے سے لکھ رکھی ہے، وہی ہمارا آقا ہے، اور ایمان والوں کو اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے) اس لئے آہ وبکا، گریہ وزاری اور جزع فزع کرنے کے بجائے صبرو احتساب کی راہ اختیار کرنی چاہئے اور یہ امید رکھنی چاہئے کہ جانے والے سے جدائی کتنی ہی جاں گسل سہی دائمی نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت اگر شامل حال رہی تو جنت میں ملاقات ہوگی، عائلی ماحول ہوگا، رب کائنات کی رحمتیں ہوںگی اور نہ ختم ہونے والی زندگی اور زندگی کی نعمتیں ، راحتیں اور لذتیں ہوںگی لہذا انکے حصول کیلئے انسان کو کوشاں رہنا چاہئے۔

خوشی وشادمانی کی طرح غم واَلم بھی انسان کی زندگی کا خاصہ ہے، مومن کی زندگی بھی ابتلاء وآزمائش اور غم واَلم سے اسی طرح دوچار ہوتی ہے جس طرح کہ غیر مومن کی ، فرق یہ ہے کہ مومن اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر کرتا ہے تو دونوں ہی اس کے حق میں خیر ہوتے ہیں اور اس کے لئے آخرت کی راحت وسعادت کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ صحیح مسلم کے اندر حضرت اُمّ سلمہؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ما من عبد تصیبہ مصیبۃ فیقول إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، اللّٰہم أجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منہا إلا آجرہ اللّٰہ فی مصیبۃ واخلف لہ خیرا منہا۔ جب کسی بندہ کو مصیبت لاحق ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ اس مصیبت سے ہمیں اپنی پناہ میں لے لیجئے اور ہمارا جو نقصان ہوا ہے اس کا اس سے بہتر بدل عطا فرمایئے تو اللہ تعالیٰ مصیبت میں اسکی مدد کرتا ہے اور اس سے بہتر بدل عطا فرماتا ہے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں ابو موسیٰ الأشعریؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ إذا قبض ولد العبد یقول اللّٰہ عزوجل لملائکتہ: أقبضتم ولد عبدی؟ فیقولون: نعم ۔ فیقول: أقبضتم ثمرۃ فؤادہ؟ فیقولون: نعم ۔ فیقول: ماذا قال عبدی؟ فیقولون: حمدک واسترجعک ۔ فیقول: ابنوا لعبدی بیتا فی الجنۃ وسمّوہ بیت الحمد۔ (جب کسی بندہ کے بیٹے کی روح قبض کرلی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: کیا تم لوگوں نے میرے بندہ کے بیٹے کی روح قبض کرلی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ: ہاں۔  تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا تم لوگوں نے اس کے جگر کے ٹکڑے کی روح قبض کرلی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ: ہاں۔  تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ تو وہ کہتے ہیں: اس نے آپ کی حمد بیان کی اور إنا للہ وإنا إلیہ راجعون کہا۔  تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم میرے بندہ کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو موت کی تباہ کاری تو ہر زمانہ ہی میں رہی ہے۔  ۶۹ھ میں جبکہ حضرت عبد اللہ بن الزبیرؓ  کا عہد اقتدار تھا طاعون پھیل جانے کی وجہ سے ایک ایک دن میں ۷۰ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوتے رہے۔ عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کے چالیس بیٹے اور حضرت اَنس بن مالکؓ کے اسّی سے زائد بیٹے اس طاعون کے دوران ہلاک ہوگئے اس کے باوجود انکے صبر واستقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابیؓ کے مجلس میں نہ آنے کی وجہ جب آپ کو یہ بتلائی گئی کہ انکے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو بلاکر کہا کہ: یا فلان، أیما کان أحب إلیک أن تمتع عمرک، أو تأتی غدا بابا من أبواب الجنۃ إلا وجدتہ قد سبقک إلیہ یفتحہ لک؟ قال: یا نبی اللہ بل یسبقنی إلی الجنۃ فیفتحہا لی ہو أحب إلیّ۔ قال: فذلک لک ۔ رواہ النسائی اچھا تم یہ تو بتاؤ کہ تمہارے لئے کونسی بات زیادہ پسندیدہ تھی یہ کہ وہ زندہ رہے اور تم اسکی زندگی سے فائدہ اٹھاتے رہو یا یہ بہتر ہے کہ تم جب کل کے دن جنت کے کسی دروازے پر آؤ تو وہ پہلے ہی وہاں پہنچا ہوا ملے اور تمہارے لئے جنت کا دروازہ کھولے؟ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہی زیادہ پسند ہے کہ وہ مجھ سے پہلے ہی جنت میں پہنچا ہوا ہو اور میرے لئے دروازہ کھولے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہ تو تمہارے لئے طے شدہ ہے جواں سال بیٹے اور رحمدل ماں کی موت پر غمزدہ انسان اللہ رب العزت سے یہ دعا کرتا ہے کہ جانے والوں کو اپنی رحمت ومغفرت سے نوازے، اور باقی رہ جانے والوں کو اس اجر سے بہرہ ور کرے جسکی بشارت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔  وما ذلک علی اللہّٰ بعزیز یا ربّ إنی أشہدک علی أننی قد صبرت منذ الصدمۃ الأولی بوفاۃ محمد، واحتسبت محمدا عندک، فأکرم نُزُلہ، ووسِّع مدخلہ، واغفرلہ واجعلہ ذُخراً لی ولأہلی۔ اللّٰہم لا تفتنّا بعدہ، ولا تحرمنا أجرہ، إنک أنت الغفورُ الوہّاب۔