سچی باتیں ۔۔۔ موسیقی اور اسلام ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم


موسیقی یونان میں نصاب تعلیم کا ایک اہم جزو تھی(گروٹ کی ہسٹری آف گریس جلد 8 صفحہ 311)کوئی تعلیم مکمل نہ سمجھی جاتی،جب تک موسیقی نہ آ جاتی۔
”فلاسفہ موسیقی کو اس کے قدیم ووسیع معنی نیز جدید و محدود معنوں میں دونوں طرح تربیت سیرت کا ایک خاص تعلیمی عنصر قرار دیتے تھے“ (انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا جلد 16 صفحہ 3) اور موسیقی کے اس شرف و منزلت کو تنہا یونان ہی میں کیوں محدود رکھیئے مصر میں، بابل میں، ہندوستان میں، کس قدیم تہذیب اور کس جاہلی تمدن میں گانے بجانے کا مرتبہ ہٹیا، اور راگ مالا کا مقام نیچا رہا ہے؟ کہاں گانے کوجزوعبادت نہیں سمجھا گیا ہے؟ کہاں یہ لَے بڑھاکر موسیقی کا سرا دیوی دیوتاؤں کے بول سے نہیں ملا دیا گیا ہے؟ کہاں گانے والوں میں روحانیت کے اور گانے والیوں میں تقدس کے جلوے نہیں دیکھے گئے ہیں؟ ”مطربہ“اور”مغنیہ“ اعزاز اور مرتبہ سے چینی، یونانی، ہندی، رومی تمدن میں سے کونسا تمدن ناآشنا ہے؟
دنیا اسی روش پرچلی جا رہی تھی، کہ تقویم مسیحی کی ساتویں کی ابتدا تھی۔ عرب کی سرزمین پرایک معلم نمودار ہوا دنیا جہاں کے اگلے معلموں سے بڑھ کر تعلیم لگانے والا۔ اسکی نگاہ دقیقہ پر بدی اور بدحالی، تباہی اور بربادی کی وہ ساری باریک سے باریک اور خفی سے خفی راہیں روشن ہوگئی جو چین اور یونان، مصراور ہندوستان کے بڑے سے بڑے حکیموں اور داناؤں کی نظر سے مخفی رہ گئی تھیں اس نے ان سب ناقص ہادیوں کو چیلنج دے کر بے دھڑک اور بے جھجھک اعلان کردیا کہ الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل، کہ راگ گانا جزوِ تربیت ذریعہ خداشناسی ہونا الگ رہا، الٹا روحانی نشوونما کے حق میں مضر ہے قلب کے اندر نفاق کو (عدم خلوص) کو اس طرح اگا دیتا ہے، جس طرح پانی ترکاری سبزی کو اگاتا ہے اور اس قول کے ساتھ عمل یہ تھا، کہ جب راستہ گلی میں باجے کی آواز کان میں پڑ جاتی تووہ ہر قوم وملت کا ہا دی یہ کرتا کہ ”فو ضع اصبعه على اذنه اصبعه و نادى عن الطريق "اپنے کانوں پر انگلی رکھ لیتا ا وراس راستے ہی سے ہٹ جاتا۔
دنیا کے بت کدوں میں جس طرح توحید کی آواز نئی اورنرالی سمجھی گئی اور آج تک مہذب اور متمدن دنیا کی سمجھ میں اس قدرخشک اور کھرّی توحید نہیں آرہی ہے، اسی طرح بے عقل عقلمندوں کو اس دائمی اور ابدی قانون کے ایک ایک جزئیہ سے بغاوت کرنے ہی میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کی ترقی دکھائی دے رہی ہے اورجوں جوں تہذیب جاہلی کا روگ دلوں پر مسلط ہوتا جاتا ہے گانے بجانے کی بھی قدرومنزلت بڑھتی جا رہی ہے، اور کانفرنسوں، صدارتی ایڈریسوں، لکچروں کے ذریعے سے تبلیغ پر تبلیغ ہو رہی ہے کہ گانا بہترین دماغی تعلیم ہے، بہترین روحانی تربیت ہے- آج اس صوبے میں میوزک کالج کھلا کل اس شہر میں میوزک اکیڈمی قائم ہوئی آج فلاں یونیورسٹی نے اپنی سرپرستی میں میوزک کانفرنس کا اجلاس کیا اور کل فلاں فلاں صوبے کے بورڈ نے موسیقی کو مثل عربی، فارسی، سنسکرت، سائنس کے ہائی سکول اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانوں میں بطوراختیاری مضمون کے جگہ دے دی آج مس فلاں کو گانے پر انعام اس جلسے میں ملا اور کل کماری فلاں کی تصویر، بحیثیت بہترین باجا بجانے والی کہ اس مشہورومعزز انگریزی روزنامے میں نکلی ، تہذیب جاہلی لوٹ رہی ہے اور جب وہ لوٹے گی، اپنے ہارمونیم اوروائلن کے ساتھ، طبله اور سارنگی کے ساتھ، ستار اورپکھاوج کے ساتھ، سازندوں کے عروج و اقبال کے ساتھ، گوئیوں کے دوردورہ کے ساتھ ہی واپس آئے گی ۔ رنج اس پر جتنا چاہے کرلیجئے لیکن حیرت کا قطعاً کوئی محل نہیں۔