اگر کسان نوازی یہ ہے تو لعنت ہے اس پر

Bhatkallys

Published in - Other

12:04PM Mon 4 Apr, 2016
حفیظ نعمانی ملک کے اکثر صوبوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور بیل پر اس لئے ہے کہ اس کا تعلق گائے کی نسل سے ہے۔ مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کی خبریں آج نہیں برسوں سے آرہی ہیں۔ کانگریس کے زمانہ میں جب کسانوں کی خودکشی کی خبر آتی تھی تو بی جے پی کے لیڈر سارا الزام کانگریس پر رکھ دیتے تھے کہ اس نے کسانوں کو بینک سے قرض نہیں دیا اور وہ مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوئے جو وصولیابی میں ایسی بیداری دکھاتے ہیں کہ کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ ڈیڑھ سال میں ہی مہاراشٹر میں خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد کم ہونے یا ختم ہونے کے بجائے دوگنی ہوگئی؟ جبکہ مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور مہاراشٹر میں بھی وہ حکومت ہے جسے مودی صاحب نے خود بناکر دیا ہے۔ مشکل سے دو ہفتے ہوئے ہوں گے کہ ایک ایم ایل اے جو ہندو ہیں انہوں نے انتہائی سخت لہجے میں کہا تھا کہ بیف کے گوشت پر پابندی ختم ہونا چاہئے۔ اس سے کسان سخت پریشان ہیں اور زیادہ تر جواب خودکشی ہورہی ہے وہ صرف اس لئے کہ جب کسان خود نہیں کھا پاتا، اپنے بچوں کو نہیں کھلا پاتا تو بوڑھے جانوروں کو کہاں سے کھلائے؟ اس وقت محب محترم سہیل انجم صاحب نے اس پر لکھا تھا اور ضرورت کی ہر بات لکھ دی تھی۔ آج راجیو چودھری نام کے ایک کاشتکار کا دردبھرا بیان ہمارے سامنے ہے۔ اس نے سوال کیا ہے کہ حکومت ہمیں زندہ رکھنا چاہتی ہے یا مویشیوں کو؟ اس کا بیان ہے کہ اس وقت کھیت میں بیلوں کا کام ختم ہوگیا ہے۔ ہم ایسے موقع پر بیج اور کھاد کے لئے بیل فروخت کردیتے ہیں اور ضرورت کا سامان خرید لیتے ہیں۔ پھر جب فصل کی بکری کے بعد پیسے آجاتے ہیں تو دوسرے بیل خرید لیتے ہیں اور ان سے کھیتی کا کام کرلیتے ہیں۔ راجیو چودھری کا بیان ہے کہ وہ چار ہفتوں سے ہفتہ واری بازار میں بیل لے جاتا ہے اور خریدار نہ ملنے کی وجہ سے واپس لے آتا ہے۔ بوڑھے اور کمزور بیلوں کو مسلمان خرید لیتے تھے لیکن بڑے جانور کے گوشت پر پابندی کی وجہ سے مسلمان بیل کے پاس کھڑے ہونا بھی پسند نہیں کرتے تو حکومت بتائے کہ ہم بیلوں کو کہاں سے کھلائیں جبکہ ہر چیز مہنگی ہے؟ پورے ملک پر جو حکومت ہے وہ بی جے پی کی ہے اور بی جے پی کے نزدیک گائے کاٹنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا انسان کو کاٹنا۔ تو پھر اسی ملک کے کئی صوبوں میں گائے کیوں کاٹی جارہی ہے؟ کیا مہاراشٹر کی حکومت یہ برداشت کرسکتی ہے کہ ممبئی میں تو گائے یا بیل نہ کٹے اس کے دوسرے اضلاع میں کوئی کاٹے تو اس سے کچھ نہیں کہا جائے گا؟ آخر بنگال میں، کیرالہ میں، ناگالینڈ میں اور اروناچل جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں کیوں کھلے عام گائے کاٹی جارہی ہے جبکہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی حکومت بھی نہیں ہے؟ مہاراشٹر، اُترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی، ہریانہ، پنجاب جیسی ریاستوں میں صرف مسلمانوں کی ضد کی وجہ سے بیل پر پابندی ہے۔ اگر مسلمان بیل کو ایسے ہی ناپاک سمجھتے جیسے خنزیر یا کتے کو ناپاک سمجھتے ہیں تو کوئی پابندی نہ ہوتی۔ جانور بیل ہو یا گائے اگر اسے کھانا نہ دیا جائے تو وہ بھوک سے مرجائے گی۔ پھر جس ملک میں سیکڑوں مقدمے مسلمانوں کے خلاف اس جرم میں چل چکے ہیں کہ انہوں نے گائے کاٹی تھی تو ایک بھی مقدمہ آج تک اس الزام میں کسی ہندو پر کیوں نہیں چلا کہ اس نے گائے یا بیل کو بھوکا رکھا اور وہ بھوک سے مرگیا؟ کیا کسی بھی صوبہ کی حکومت بتاسکتی ہے کہ اس نے جیسے بوڑھے انسانوں کے لئے ٹھکانے بنائے ہیں ایسے ہی بوڑھے جانوروں کے لئے بھی بنائے ہیں؟ کل رانچی جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پھر گوشت کے ایک ٹکڑے پر حالات بگڑتے بگڑتے رہ گئے۔ خبروں میں کہا گیا ہے کہ ممنوعہ گوشت کا ایک ٹکڑا کسی نے راستہ میں پھینک دیا تھا۔ ظاہر ہے کھانے کا گوشت مسلمان کے لئے تو ممنوعہ ہونہیں سکتا اگر اس کے پاس ہوتا تو وہ خود بھی کھاتا اور بچوں کو بھی کھلاتا۔ یہ تو ہندو کی شرارت ہوسکتی ہے۔ یہ اس گوشت کی بات ہورہی ہے جس کا صرف ذکر ہوا اور اخلاق نام کے ایک مسلمان کی جان چلی گئی۔ جس گوشت کو رانچی میں ممنوعہ کہا گیا ہے وہی کلکتہ میں اگر کسی کو ضرورت ہو تو سو کوئنٹل ایک ہی وقت میں مل سکتا ہے۔ اور کلکتہ یا بنگال میں وہ جو ہندوستان کا ایک صوبہ ہے لیکن وہ وہاں ممنوعہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ حکومت بی جے پی کی نہ ہے اور نہ انشاء اللہ ہونے دی جائے گی۔ پاک پروردگار جس نے ہر جاندار کو پیدا کیا ہے اس نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے۔ یعنی اپنا شاہکار۔ اور یہی چیز ہے جو انسانوں اور جانوروں میں فرق کرتی ہے۔ جانور وہ گھوڑے ہوں، اونٹ ہوں یا ہاتھی وہ سواری کے لئے ہیں اور بیل کاشتکاری کے کاموں میں مدد کے لئے۔ کیا کوئی حکومت ہے جو یہ قانون بنائے کہ ان کی مرضی کے بغیر ان سے سواری کا کام نہ لیا جائے اور نہ ان سے ہل چلایا جائے نہ بیل گاڑی میں جوتا جائے؟ اگر یہ نہیں ہوسکتا تو جو سرکس میں جانوروں سے کام لیتے تھے یا بندر اور بھالو کا تماشہ بچوں کو دکھاکر پیٹ پالتے تھے ان پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ کیا مینکا گاندھی صاحبہ اپنے کتے کو جو شہرت کی حد تک چھوٹے گدھے کی برابر ہے آزاد کردیں گی۔ یہ حکومت نہیں مذاق ہے اور صرف من کی چاہت ہے یا اکثریت میں ہونے کا غرور ہے۔ ورنہ انسان کے لئے جانور بنائے گئے ہیں۔ کچھ سواری کے لئے کچھ باربرداری کے لئے اور کچھ کھانے کے لئے۔ گائے کو ماتا قرار دینا اور بیل یا نیل گائے کو اس کی نسل کا بتانا یا اس جانور کو مارنا جرم ہے جسے ہندو نہیں کھاتے۔ رہے بکرے یا مرغ وہ اس لئے جرم نہیں ہے کہ وہ ہندو کی خوراک ہے اور 90 فیصدی ہندو ہی کھاتے ہیں۔