بربط دل کے تاروں کو چھیڑنے والا شاعر ۔ ڈاکٹر محمد حسین فطرت ۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

09:25PM Thu 20 Sep, 2018
Whatsapp:00971555636151

  ستمبر 19 کی صبح ابھی مسجد وں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند نہیں ہوئی تھیں ، خبر آئی کی محمد حسین فطرت صاحب اب ہم میں نہیں رہے ، رات دیڑھ بجے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سب کو چھوڑ کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے ۔ ان کی عمر اس وقت (۸۴) سال تھی ۔آپ نے مورخہ  جون ۱۹۳۲ء اس دنیائے رنگ و بو میں حاجی عبد القادر شینگیری مرحوم کے گھرمیں جنم لیا تھا۔ آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل میں اردو شعرو ادب کا ایک عہد اختتام کو پہنچا جس کا آغاز بھی آپ ہی سے ہوا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے پہل آپ سے کب تعارف ہوا تھا۔ کیونکہ جب آنکھ کھولی اور کچھ بولنا آیا تو اپنے ماموں محمد قاسم حافظ کی زبان سے نائطی زبان کی ایک نعت ۔۔ : ایک اشارہ چو اثر ۔ کھانڈکی زالو شق القمر، کانوں میں رس گھولتی رہی ۔ ایک ایسے زمانے میں جب ابھی ٹرانسسٹر عام نہیں ہوا تھا ، ریکارڈنگ کیسٹ ایجاد نہیں ہوا تھا ، بجلی ابھی ابھی قصبہ میں داخل ہوئی تھی ، اور قصبے کے دو ایک گھروں میں یا چند ایک چائے خانوں میں بجلی سے چلنے والے ریڈیو پائے جاتے تھے ، ہمارے ماموں تفریح کا سامان کرتے تھے ، لوگ ان سے نظمیں اور نغمے سنتے ، ماموں جان آنکھ سے معذور ہوگئے تھے ، لہذا ان کی خوبصورت آواز میں حمد و مناجات نعتیں اور مختلف چیزیں کانوں میں مسلسل رس گھولتے رہتیں ۔ فطرت صاحب ہمارے عزیز بھی تھے ، ان کی والدہ ہماری والدہ کی رشتہ میںپھوپھی لگتی تھیں ۔ اور تکیہ محلہ کے حافظ منزل میں جہاں ہم نے آنکھیں کھولیں تھیں اس میں ایک چوتھائی حصہ میں ان کی والدہ کا بھی حصہ تھا ، یہاں آپ کی پھوپھی میمونہ حافظ رہا کرتی تھیں ، اور صلہ رحمی کی غرض سے ان سے ملنے کے لئے رشتہ داروں کا آنا جانا رہتا تھا ۔ فطرت صاحب کو کبھی اس کا خیال نہیں رہا کہ نائطی میں بھی انہوں نے کبھی مشق سخن کی تھی ، لیکن ماموں جان نے ان کی اس نعت کو بچے بچے کی زبان تک پہنچا دیا تھا ۔ تکیہ محلہ کے بیچ سے تکیہ محلہ کراس کے نام سے ایک گلی جاتی ہے جس کے دوسرے کنارے پر شوکت علی اسٹریٹ شروع ہوتی ہے ، اسی نکڑ پر ملکی ہاوس فطرت صاحب کا آبائی مکان تھا ، یہیں آپ نے آنکھیں کھولیں تھیں ۔ فطرت صاحب خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ، ان کے والد کا ممبئی میں بڑا کاروبار تھا ۔ یہاںان کے ناخدا محلہ اور فورٹ میں دو ہوٹل اور بھنڈی بازار میں کپڑوں کی دکانیں تھیں ۔ لہذا سات آٹھ سال کی عمر میں بھٹکل میں ابتدائی قرآن دینیات وغیرہ کی تعلیم کے بعد ممبئی میں زکریا مسجد کے قریب واقع ہاشمیہ ہائی اسکول میں آپ کا داخلہ ہوا ، پھر آپ نے دو تین سال انجمن شعیب ہائی اسکول میں بھی تعلیم پائی ، جہاں آ پ کو الحاج محی الدین منیری صاحب کی شاگردی نصیب ہوئی ۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کے خسر بزرگوار مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم کا بھی سرپرستانہ تعلق قائم ہوا ۔ اس دوران آپ کا دو ایک سال کے لئے بھٹکل میں رہنا ہوا ، جہاں انجمن ہائی اسکول میں تعلیم کا موقعہ ملا ، اور یہاں کے استاد مولانا محمود خیال کی بھی مشفقانہ رہنمائی حاصل رہی ۔ مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم سے ممبئی اور بھٹکل دونوں جگہ استفادے کا موقعہ ملا، اس دوران آپ میں شاعری کے جراثیم پید ا ہوچکے تھے ، کئی بار مولانا خیال سے آپنے کلام پر اصلاح طلب کی ، لیکن مولانا کہتے رہے کہ فطرت کی فطرت میں شاعری ہے ، مجھے ایک مصرعہ کے لئے کئی کئی دن اور ہفتے لگ جاتے ہیں ان کے دماغ سے تو شعر ڈھلتے چلے جاتے ہیں ،آپ پہلے گلزار تخلص اختیار کیا تھا، جسے خیال صاحب نے فطرت سے بدلنے کی تجویز دی ، لہذا جب فطرت صاحب کی ممبئی واپسی ہونے لگی تو آپ نے ممبئی میں اپنے دوست اردو کے کہنہ مشق شاعرابوبکر مصور سے صلاح دینے کی رائے دی ، مصور مرحوم میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ ٓآپ کا شمار داغ اسکول کے مستند شاعروں میں ہوتا تھا ، وہ احسن مارہروی کے شاگرد رشید تھے ۔ تقسیم ہند سے پہلے آپ صاحب ثروت تھے ، کھڑک میں ان کی چار پانچ عمارتیں تھیں ، لیکن جب ان کے بچے پاکستان چلے گئے تو کسٹوڈین نے ان کی جائداد پر قبضہ کیا ، اور وہ قلاش ہوگئے ، جس کا ان کے مزاج پر بھی اثر ہوا ، اور ان کی شفتگی بھی جاتی رہی ، مصور مرحوم نے پہلے تو فطرت صاحب کی ہمت افزائی نہیں کی ، کہنے لگے کہ شاعری بے کار لوگوں کا کام ہے ، پھر راضی ہوگئے ، فطرت صاحب نے ان سے کل (۱۱) نظموں پر اصلاح لی ۔فطرت کی شاعری میں جو اسلامی فکر کا رجحان غالب ہے یہ مصور صاحب ہی کا فیض ہے ۔ فطرت صاحب نے ممبئی میں میٹرک پاس کیا ، اور جامعہ اردو علی گڑھ کا ادیب ماہر کا امتحان پاس کیا ، جس سے انہیں اپنی ادبی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملی ۔ ان کی خواہش تھی کہ ادیب کامل کا امتحان بھی پاس کریں ، جو اس زمانے میں بڑا معیاری ہوا کرتا تھا ، لیکن انہیں تلاش معاش کے لئے ممبئی چھوڑنا پڑا ۔ اور بھٹکل میں بہت بعد میں عثمان حسن ماسٹر مرحوم کے زمانے میں اس کا سنٹر قائم ہوا ۔ لیکن انہیں مطالعہ کا چسکہ لگ چکا تھا ، اور ممبئی کے قیام ہی میں پختہ شاعر بن چکے تھے ۔ اس کے بعد تلاش معاش کے لئے آپ کا کولکاتاجانا ہوا ، جہاں آپ نے ہومیوپیتھک علاج میں مہارت حاصل کرکے سند حاصل کی ۔ اس طرح ایلوپیتھی علاج معالجہ کی بھی سند لی ، یہ کولکاتا میں ادب کا سنہرا دور تھا ، بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ، اور جید اساتذہ ان میں شریک ہوتے۔ ان شریک ہونے والوں میں حضرت جگر مراد آبادی بھی تھے ، ۱۹۵۲ء میں جگر کے سامنے جب آپ نے اپنا یہ قطعہ پیش کیا  فقیہ مصلحت اندیش کی نگاہوں میں حجاب دام و درم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے۔ نگاہ ہوش سے دیکھو کہ لوح بستی پر نقوش رنج و الم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے حسین تر ہے مری داستان محرومی کہ اس میں پہلو ئے ذم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے۔ تو جگر صاحب نے فرمایا کہ آثار اچھے ہیں ۔ یہاں آپ کو اپنے دور کے مشہور شعراء جرم محمد آبادی اور واقف مرادآبادی سے بھی توصیفی کلمات سننے کو ملے ۔ ۱۹۹۱ء میں جب دبی آمد ہوئی تو دور حاضر کے عظیم اسلامی شاعر اعجاز رحمانی صاحب کے ساتھ ایک شعری نشست رکھی گئی تھی ، رحمانی صاحب آپ کے کلام سے بہت متاثر نظر آئے ۔ کولکاتا میں اس وقت کے رفیقوں میں بھٹکل کے ایک اور استاد شاعر محمد حسن معلم مرحوم بھی تھے ۔ انہوں نے کم لکھا ، اور جو لکھا زیادہ تر ضائع کردیا ، فطرت سامنے آپ کو مخاطب کرکے ایک نظم لکھی ہے ، جس کا مطلع ہے دل و نظر میں وہی آب و تاب پیدا کر بہر روش روش بو تراب پیدا کر ٘غبار راہ کے دہن میں پل رہے ہیں نجوم شرار سنگ سے اک آفتاب پیدا کر

کلکتہ سے واپسی کے بعد آپ نے مستقل بھٹکل میں قیام کیا ، انہیں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے ساتھ جدید ایلیوپیتھی طریقہ علاج کی بھی جانکاری تھی ، انہوں نے اپنا مطب شروع کیا ، اس زمانے میں جبکہ ابھی گورنمنٹ کوٹیج اسپتال نہیں بنا تھا ، پھول بازار میں قدیم ڈاک خانے کے سامنے نکڑ پر ایک ڈسپنسری ہوا کرتی تھی ، اسپتال بننے کے بعد یہاں ایک کمپاونڈر کو حکومت نے مقرر کردیا تھا جو موسمی بخار اور زخموں کا علاج کے لئے لال اور پیلا مکچر پانی ، اور ایویڈین اور سستی گولیاں دیتا ، سستائی کا زمانہ تھا ، اس علاج سے بھی بیمار اچھے ہوجاتے تھے ، ابھی چند روز قبل انتقال ہوا ہے ڈاکٹر گونسلویز کا ، ان کے والد یہاں کمپاونڈر ہوا کرتے تھے ،ان کے ریٹائرڈ ہونے پر آپ کی تقرری یہاں عمل میں آئی جس کے لئے اس وقت بھٹکل کے مشہور ڈاکٹر سید احمد برماور اور میونسپل کونسلروں نے خاص طور پر دلچسپی لی تھی ، یہاں تک کہ کوئی سنہ ستر کے اوائل میں خلیجی ممالک میں روزی روٹی کے دروازے کھل گئے ، ا ور بھٹکل والے بہتر تجارت اور معیشت اور ملازمت کی تلاش میں کشاں کشاں وہاں روانہ ہونے لگے ، ۱۹۷۰ء کے اوائل میں ان جانے والوں میں ڈاکٹر فطرت بھی تھی ، آپ مسقط روانہ ہوئے اور چند ایک سال وہاں مہدی اسٹور میں سیلس مین کی خدمات انجام دیں ، پہلی واپسی کے بعد ہی آپ کی والدہ نے دامن پکڑ لیا اور واپس جانے نہیں دیا ، اور ان کی معاشی ضروریات پورا کرنے میں ممد و معاون بنیں ، یہاں تک کہ آپ کے بچے بڑے ہوئے اور روزگار سے لگ گئے ۔ آپ کے مکان کے پڑوس ہی میں بخاری خلفو کا مکتب تھا ، جہاں عرصہ تک بچے قرآن مجید اور دین کی اساسیات سیکھنے آتے تھے ، شاید اس پڑوس کا اثر ہویا یا پھر تعلیم و تربیت کا اثر کہ فطرت صاحب کو قرآن سے بڑا لگاو ہوگیا ، فتح محمد جالندھری کے ترجمہ قرآن کا زیادہ تر حصہ آپ کے سینے میں محفوظ تھا ، ادھر ادھر سے سات آٹھ پارے بھی حفظ یاد تھے ، آپ کی آواز بھی پسندیدکی جاتی تھی ، ابھی بھٹکل میں تجوید کے اہتمام کا رواج نہیں ہوا تھا ،اس زمانے میں شاذلی مسجد کے بزرگ امام غالبا ان کا نام محمدصالح خلیفہ تھا ، اور کائکینی خلفو کے نام سے مشہور تھے ، وہ فطرت صاحب کو پسند کرتے تھے اور رمضان المبارک میں تراویح کی امامت کے لئے آپ ہی کو بڑھاتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ علوہ مسجد کی تعمیر نو سے قبل ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء کے آس پاس آپ نے اس مسجد میں امامت کے فرائض انجام دئے ، اور بعد نماز عشاء درس قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا ، اس زمانے میں ہمارے مولانا اویس مدنی صاحب عمرآباد سے نئے نئے فارغ ہوکر آئے تھے ، ابھی مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہوا تھا ، وہ بھی ان دروس میں فطرت صاحب کا تعاون کرتے تھے ۔اس دوران کچھ عرصہ جماعت المسلمین کے محرر بھی رہے ۔ فطرت صاحب نے مسقط سے واپسی پر ۱۹۸۲ء میں انجمن کے ذمہ داران کی درخواست پر کچھ عرصہ طلبہ کو اردو اور دینیات بھی پڑھا نا بھی شروع کیا تھا ۔شاعری آپ کی جبلت میں پڑی ہوئی تھی ، مزاج بھی شاعرانہ پایا تھا ، جلد بگڑنا اور جلد مننا ، اور دل صاف رکھنا ، ایسے کئی مواقع دیکھنے کو ملے ، جب آپ امامت اور درس قرآن کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے ، اس زمانے میں میں درجہ پنجم مکتب میں زیر تعلیم تھا ، ہمارے مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمہ کے یہاں ہوم ورک کا نظام بہت سخت ہوا کرتا تھا ، بطور سزا سو پچاس صفحے بغیر غلطی کئے لکھ کر لانا معمول کی بات تھی ، اس طرح دوران طالب علمی غیر تعلیمی سرگرمیوں میں طلبہ کی شرکت انہیں پسند نہیں تھی ، جب مولانا کو معلوم ہوا کہ درس قرآن میں شرکت کی وجہ سے طلبہ کے ہوم ورک میں فرق آرہا ہے تو آپ نے ان دروس میں شرکت سے طلبہ کو منع کردیا ، معلوم نہیں اس وجہ سے یا کسی اور پس منظر میں فطرت صاحب نے علمائے حق اور علمائے سوء پر بڑی جوشیلی تقریر مسجد میں کرڈالی ، شاگردوں نے جاکر مولانا کو اس کی خبر دے دی ، جس پر آپ کو جلال آگیا ، اور بات بڑی تلخ ہوگئی ، لیکن ان دونوں کا بلندی کردار دیکھئے کہ اس تلخی کو دونوں نے بھلادیا ، اور دونوں میں محبت اور احترام کے تعلقات دوبارہ استوار ہوگئے ، اور آپسی اعتماد اس حد تک بڑھاکہ مولانا آخری مرتبہ کچھ ناراض سے ہو کر جانے لگے تو جاکر ڈاکٹر فطرت سے ملاقات کی اور ان سے فرمائش کی کہ ان کے جذبات پر مشتمل ایک نظم لکھیں ، جسے فطرت صاحب نے پورا کیا ۔ فطرت صاحب نے جب آنکھیں کھولیں اس وقت اردو بھٹکل میں اپنے قدم جمارہی تھی ، ورنہ یہاں کے مقامی مسلمانوں کی زبان نائطی ، ریاستی زبان کنڑی ، اور ملکی زبان انگریزی یا ہندی بن گئی تھی ، لیکن انجمن اور تنظیم کے بانیان کی فکر مندی اور مولانا عبد الحمید ندوی ، مولانا محمود خیال ، اور عثمان حسن جوباپو ہیڈ ماسٹر جیسے اساتذہ دلچسپی اور جد وجہد سے اردو یہاں پر رابطہ کی زبان بن گئی ، آج سے کوئی ستر سال قبل فطرت صاحب نے شاعری کے صحرائے خارزار میں قدم رکھا تو یہاں ابھی ادبی ذوق گھٹنوں گھٹنوں چل رہا تھا ۔ لہذا آپ کی شاعری کو ابتدائی دس بیس سال تک خوش الحانی سے زیادہ حیثیت نہ مل سکی ، یہی وجہ تھی فطرت ہو ں یا سید عبد الرحیم ارشاد مرحوم اور اس دور کے دوسرے شعراء اپنے دور کے مقبول عام گانوں کے طرز پر کلام پیش کرتے تھے ، فطرت صاحب تو اپنے کلام کی تشریح بھی کیا کرتے تھے ، اس انداز کو آپ کے آخری ایام میں پذیرائی نہیں ملتی تھی ، لیکن جس کی لت نصف صدی تک پڑ چکی ہو، اس سے کیوں کر چھٹکار اپایا جاسکتا تھا ۔ فطرت صاحب کی زندگی میں حقیقی قدردانی کا موقعہ اس وقت آیا ، جب ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر سید انور علی مرحوم انجمن کالج کے پرنسپل بن کر آئے ، ان سے کچھ پہلے مولانا منصور علی ندوی کالج میں آچکے تھے ، پرنسپل صاحب کے ساتھ ڈاکٹر سید عبد الباری( شبنم سبحانی) پروفیسر رشید کوثر فاروقی ، ڈاکٹر سید افضل علی ، پروفیسر عمرحیات خان غور ی آگئے ، اسطرح جامعہ میں مولانا سید ارشاد علی ندوی اور مولانا محمد خالد فیصل ندوی وغیرہ اہل ذوق آگئے ، ان حضرات نے فطرت صاحب کی بڑی پذیرائی کی ، اور ان کی شاعری کے ساتھ بڑے احترام اور سخن فہمی کا معاملہ کیا ، ۱۹۷۵ء میں انجمن کالج کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرہ جس میں حفیظ میرٹھی ، عامر عثمانی ، مخمور سعید ی ، قوی ٹونکی ، شمسی مینائی ، شعری بھوپالی وغیرہ تشریف لائے تھے ، بھٹکل کے مشاعروں کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پرنسپل صاحب کے دور میں مشاعرہ نما کے عنوان سے شعری نشستوں کا آغاز ہوا ، جس سے نوجوان نسل میں بھی شعری ذوق پروان چڑھا ، اور فطرت صاحب کے شاگردوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ۔ جس سے اردو کی ایک دور دراز بستی میں شعر و ادب کی روشنی تیز ہوگئی ۔ فطرت صاحب کا خمیر قرآن اور دین کی محبت سے اٹھا تھا ، انہوں نے اسلامی ادب کے فروغ کے لئے اپنی صلاحیتیں نچھاور کیں ، اس علاقے میں وہ اسلامی اقدار کا روشن مینار تھے ، انہوں نے بھٹکل کے جملہ تعلیمی اداروں انجمن ، جامعہ اور جامعۃ الصالحات کے لئے ترانے لکھے ، ان کا پہلا مجموعہ ساغر عرفان تھا، جسے انجمن اولڈ بوئز اسوسی ایشن نے ۱۹۷۲ء میں شائع کیا تھا ،اس پر آپ کے استاد محمود خیال کا دیباچہ ہے جس نے اس مجموعہ کی قدر وقیمت میں چار چاند لگا دئے ہیں ۔ آپ کی زندگی میں آپ کے کلام کے سات مجموعے ساغر عرفان ، گل بانگ فطرت ، ساز ازل ، سخن دل نواز شائع ہوئے ، صدر انجمن ترقی اردو بھٹکل ، صدر ادب ادب اسلامی بھٹکل ، رکن اردو اکادمی کرناٹک کی حیثیت سے آپ نے خدمات انجام دیں، ۱۹۸۱ء میں کرناٹک اردو اکاڈمی نے آپ کے دوسرے مجموعہ کلام پر ایوارڈ سے بھی نواز ا ۔ آخری دنوں میں نفیر فطرت کے نام سے ایک مجلہ بھی جاری کیا تھا ، جس میں آپ کی نثری تخلیقات نقد و تبصرہ شائع ہوتے تھے ، جب تک جان میں جان رہی علم و ادب کی خدمت میں خود کو مصروف رکھا ۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی علیہ الرحمۃ جب بھی بھٹکل تشریف لاتے فطرت صاحب کو بلاکر ان سے خلوت میں کلام سنتے ، اور ندائے ملت ، تعمیر حیات وغیرہ میں اپنا کلام بھیجنے کی ہدایت کرتے ، آپ کا کلام ماہنامہ تجلی میں بھی چھپتا رہا ۔ آپ نے تمام اصناف سخن میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ، اللہ نے انہیں بھٹکل کی سرزمین میں پیدا کیا تھا ، وہی حکمت والا ہے ، ان کی خداداد صلاحیتوں اور اشعار و خیالات کی آمد کو دیکھ کر خیال آتا کہ اگر وہ شمالی ہند میں پیدا ہوتے تو شاید انہیں زیادہ پذیرائی اور قدردانی ہوتی ، لیکن وہ راضی برضا تھے ، زندگی میں جوادبی مقام ملنا چاہئے انہیں وہ نہ مل سکا ، وہ ایمان کی جوت دلوں میں جلا کر دنیا کو الوداع کہتے ہوئے خاموشی سے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کا کلام تا دیر زندہ رہے گا ، یہ قیامت تک دلوں میں ولولہ اور حوصلہ پیدا کرتا رہے گا،۔ ٖغالب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے دیوان کا دو تہائی ناقابل فہم اور غیر معیاری ہے ، دیوان میں موجود ایک تہائی کلام نے غالب کو غالب بنایا ہے ، شاعر کے چند اشعار ہی نوک زبان ہوجائیں تو شاعر زندہ جاوید بن جاتا ہے ، فطرت کی زنبیل میں بھی ایسے ہیرے جواہرات موجود ہیں ، آپ نے شعر وسخن کے تمام میدانوں میں داد سخن دیا ، لیکن محبت رسول فطرت کی علامت بن گیا ، آپ اس نعت نے بڑی مقبولیت پائی :

نغماتِ ازل بیدار ہوئے پھر بربطِ دل کے تاروں میں تکبیر کی آوازیں گونجیں یثرب کے حسیں کہساروں میں

ائے رشکِ مسیحا،فخرِ زماں،تو ہی ہے علاجِ دردِ نہاں مجھ کو بھی پِلا داروئے شفا، میں بھی ہوں ترے بیماروں میں

اُس شانِ کرم کا کیا کہئے، دنیا کو مسخر جس نے کیا یہ وصف کہاں شمشیروں میں، یہ بات کہاں تلواروں میں

مستانہ ہواوں کے جھونکے، نذرانہ عقیدت کا لائے شبنم کے گہر تقسیم ہوئے، کچھ پھولوں میں کچھ خاروں میں

پھولوں کی زباں پر ذکر ترا، غنچوں کے لبوں پر مدح تری ائے حسنِ ازل کے شیدائی،... چرچا ہے ترا مہ پاروں میں

مومن کی نگاہوں میں فطرتؔ، کہسارِ عرب ہے رشکِ جناں پھولوں کا تبسم رقصاں ہے،.... فردوس بداماں خاروں میں