محسن کتابیں۔۔۔ تحریر: نواب صدر یارجنگ، مولانا حبیب الرحمن شروانی

Bhatkallys

Published in - Other

06:27PM Sun 24 Mar, 2019

  مئی، 26/  1946  ء    دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو 

نواب صدر یار جنگ  مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانیؒ

ولادت:بھیکن پور،ضلع علی گڑھ

شعبان، 28/1283ھ- مطابق ۵/جنوری 1867

            مشہور افغانی خاندان شروانی سے آپ کا تعلق تھا،خاندانی رئیس تھے،بھیکن پور ضلع علی گڑھ آپ کی موروثی ریاست تھی۔دوسرے اساتذہ کے علاوہ خاص طور پر استاذالعلماء مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے علم کی تحصیل کی۔عربی تعلیم ہی کے زمانہ میں انگریزی کی تحصیل کی تھی،اس سے اچھی طرح واقف تھے،حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادابادی سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔ندوۃ العلماء کے اساسی اراکین میں تھے،اور اس کے پرجوش وکیل وداعی تھے۔محمڈن کالج کو مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کرنے میں آپ کی کوششوں کو بڑا دخل ہے۔۱۹۱۸  ء سے ۱۹۳۰  ء تک ریاست حیدرآباد کے صدرالصدور امور مذہبی رہے۔جامعہ عثمانیہ کے قیام اور اس کے تخیل میں بھی آ پ نے نمایاں کردار ادا کیا،آپ ہی اس کے پہلے وائس چانسلر تھے۔دارالمصنفین کے دائمی صدر بھی تھے۔ان کا ذاتی کتب خانہ برصغیر کے چند اہم شخصی کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا،(اب وہ مولانا آزاد لائیبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک حصہ ہے)اس میں صرف مخطوطات کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ ہے۔

            وہ ایک بلندپایہ مؤرخ،اور اردو کے بڑے ادیب وانشاپرداز تھے۔ان کی کتابوں میں تذکرئہ بابر ،سیرت الصدیق،علمائے سلف،نابینا علماء،استاذ العلماء،رسائل سیرت اور مقالات شروانی وغیرہ ہیں۔

 وفات:علی گڑھ ۲۶  /شوال  ۱۳۶۹  ھ مطابق ۱۱ / اگست ۱۹۵۰  ء

 مدفن:بھموری،آبائی قبرستان ضلع علی گڑھ

*******************************

          روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ باغبان تخم بونے سے پہلے اس کے مناسب زمین کا انتخاب کرتا ہے،انتخاب کے بعد زمین کو سیراب کرتا ہے،خس و خاشاک سے پاک وصاف جب اس طرح زمین تیار ہولیتی ہے تو اس میں عمدہ تخم تلاش کر کے بوتا ہے،پود ے کی گرمی سردی سے حفاظت کرتا ہے،اس کے ماحول کو خار وخسک سے پاک و صاف رکھتا ہے،سیرابی سے اس کی نشو نما کو مدد پہنچاتا ہے۔اس اہتمام سے وہ پودا  تناور درخت ہوجاتاہے،جو اپنے سائے اور پھل سے ایک عالم کو فیض پہنچاتا ہے۔

بعینہ یہ حال ایک طالب علم اور اس کے ذوق و استعداد علمی کے نشو نما کا ہے۔سب سے مقدم اس کے باطن کا بر ی خصلتوں سے اور بداخلاقیوں سے پاک وصاف ہوناہے۔باطن کی صفائی علمی اثرات کے قبول وبارآور ہونے کی ضامن ہے۔طالب علم کی صفات پر سب سے اول اثر گھر کے ماحول کا ہوتا ہے،اس کے بعد استاد کی صحبت کا،جس میں تعلیم و تربیت اخلاق دونوں شامل ہیں۔بالآخر خود طالب علم کی اس جد وجہد کا جو وہ خود اپنی تربیت میںکرے۔

            یہ تمام اہتمام گویا زمین علم کی تیاری کا تھا۔پھر مناسبِ طبیعت علم کا انتخاب گویا تخم کا انتخاب ہے ۔درس و تعلیم اس تخم کی نشونما اور بارآور ہونے کی سعی ہے۔

            اس ضروری تمہید کے بعد عرض ہے،جو خود ستائی نہیں اظہار واقعہ ہے،کہ میں نے جس فضامیںآنکھ کھولی وہ الحمدللہ علمی،دینی وادبی تھی۔میرے عم محترم مولوی عبدالشکور خاں صاحب مرحوم نے (جو میرے مربی تھے،اللہ کی رحمتیں ہوں ان پر)علوم عربیہ کی تحصیل ملا حسن تک کی تھی۔مولانا سید عالم علی صاحب محدث مرادابادی ہفتوں،بعض اوقات مہینوں بھیکن پور میں قیام فرمارہتے تھے۔وجہِ قیام زیادہ ترمعالجہ امراض ہوتا۔عم محترم حدیث میں ان کے شاگرد بھی تھے اور سنا ہے کہ مرید بھی۔مولانا لطف اللہ صاحب ؒ  بھی اکثرتشریف فرماہوتے۔مولانافیض الحسن صاحب سہارنپوری بھی کرم فرماتے۔علی ہذا القیاس۔

            دوسرا سلسلہ:مولوی عبدالغفور خاں صاحب نقشبندی مجددی کا گھر بھی مرید تھا۔ذکر کے حلقہ اندر باہر برابر ہوتے۔مولوی سید حضور احمد صاحب سہسوانی مرحوم کے مواعظ میںمثنوی مولانا رومؒ کی گرمیِ تاثیر اس قدر تھی کہ قرن گزر جانے پر بھی طبیعت اب تک ا سکا احساس رکھتی ہے۔ایک بڑی سعادت یہ تھی کہ میرے جد امجد محمد خان زماں خاںصاحب نے (جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ سے بیعت تھی)میاں سید امین الدین جلیسری کے ذریعہ سے،شاہ اسحاق صاحبؒ مرحوم محدث دہلوی سے شادی غمی کی رسموں سے متعلق فتویٰ حاصل کیا تھا،جو مسائل اربعین کے نام سے مشہور ہے۔اس کے مطابق اپنے برادر معظم حاجی محمد داؤد خاں صاحب مرحوم کی سرپرستی میں رسوم خاندان کی اصلاح فرمائی تھی ،جو بفضلہ تعالیٰ بہت کچھ اب تک جاری ہے۔اس طرح ہمارا گھر فضول رسوم سے پاک صاف تھا،اور کسی رسم کا اہتمام میں نے اپنے گھر میں نہیں دیکھا۔

            میرے والد مرحوم کو ادب اردو اور تاریخ فارسی کا ذوق تھا۔ایک انتخاب ’’سراپا معشوق ‘‘کے نام سے شائع کیا تھاجس میں سراپا سے متعلق اردو شعراء کے کلام کا انتخاب تھا۔تاریخ میں تاریخ فرشتہ،سیر المتأخرین،تزک جہانگیری،روضۃ الصفا  زیر مطالعہ رہیں۔شب کے کھانے سے پہلے،اور دوپہر کو سوتے وقت لیٹ کر کتاب دیکھتے۔فرماتے تھے:روضۃ الصفا کے وزن سے سینہ دکھنے لگتا ہے۔اپنی صحبتوں میں تاریخی واقعات بیان فرماتے۔

            یہ تھی وہ فضا، جس میں میں نے آنکھ کھولی ،اور جو آج تک الحمدللہ آنکھوں کے سامنے ہے،اور جس کے سامنے کوئی دوسری فضا فروغ نہیں پاسکی۔

            آمدم بر سر مطلب،سب سے اول جس کتاب کو خود پڑھا وہ مرزا غالب کی اردوئے معلی تھی۔والد مرحوم نے دیکھنے کو عنایت فرمائی تھی،یہ سمجھئے کہ کتاب دیکھنے کے شوق کی یہی بنیاد تھی ،محض ابتدائی عمر تھی،پوری طرح سمجھتا بھی نہ تھا،تاہم دیکھے جاتا تھا،اس سے ایک ادبی ذوق کا پیدا ہونا بین احساس تھا۔

            عم محترم کی صحبت میں فقہ اور دینی مسائل کی تحقیق و بحث رہتی تھی،رسمی مناظروں سے اور ان کے انداز سے ہمیشہ احتراز رہا،اور اس کا اثر بھی میری طبیعت قبول کرتی تھی۔’’اردوئے معلی کے ذوق کے سلسلے میں ہوشیار ہونے کے بعد مرزا غالب کی ’’انشاء عود ہندی‘‘پڑھی اور بہت پڑھی۔جب انگریزی شروع کی تو اپنے استاد حاجی عبدالرشید خاں صاحب مرحوم کے شوق دلانے پر اردو مضامین لکھے،اخباروں میں چھپوائے،اسی زمانہ میں تذکرئہ آب حیات مولوی محمدحسین آزاد دہلوی کا ،استاد موصوف کے پاس آیا،اور انھوں نے شوق سے اس کو پڑھا۔ان کے شوق سے مجھ کو بھی شوق ہوا۔پڑھا،خوب پڑھا،پہلا ایڈیشن بھی دیکھا اور دوسرا بھی۔آگے چل کر ’’دربا ر  اکبری‘‘ پڑھی،شوق اور غور سے۔

            اب علی گڑھ کی آمد ورفت شروع ہوگئی تھی،وہاں سر سید احمد خا ں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔سید صاحب کے مذہبی خیالات دل نے نہیں لئے،لیکن ادبی اور تعلیمی کوششوں کی عظمت محسوس ہوئی،جو اب تک تازہ ہے۔بڑی نعمت مولانا شبلی صاحب مرحوم کی صحبت تھی۔یہ موصوف کے ورود  علی گڑھ کا ابتدائی زمانہ تھا۔سب سے پہلے میں نے موصوف کو کشتی کے اکھاڑے میں دیکھا تھا۔ہر صحبت میں ادبی و تاریخی تذکرے رہتے تھے۔’’۔۔مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘،’’المامون‘‘،’’الفاروق‘‘،’’سیرۃ النعمان‘‘،’’شعر العجم‘‘ کا مطالعہ کیا،تبصرے لکھے۔ان کتابوں کے مطالعے میں کلام کی برجستگی،مؤرخانہ بیان اور وقائع نگاری کی قوت نے خصوصاً دل پر عمیق اثر ڈالا۔

            تحصیل درس نطامی کے سلسلے میں بہت سی انتہائی کتابیں دیکھیں،پڑھیں،یہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ تکمیل در س نظامی نہیں ہوئی۔دوران درس میں دل و دماغ نے منطق وفلسفہ کے مباحث کا اثر بہت کم قبول کیا۔طبیعت حقائق و واقعات کی جویا رہی۔

            اس طویل تمہید سے یہ واضح کردینامقصود تھا کہ جن کتابوں کا اثر ہوا،کیوں ہوا؟ اور جن کا نہ ہوا،کیوں نہ ہوا؟ ایک ہی کتاب کو بہت سے لوگ پڑھتے ہیں،اثر مختلف لیتے ہیں،ایک ہی کتاب ایک دل میں خشیت الہی،پاکیزگیِ اخلاق،اخلاص پیدا کرتی ہے،دوسرے دل میں الحاد،تمرد اور اخلاقِ رذیلہ اسی کتاب کے مطالعے سے پیدا ہوتے ہیں ۔یہ فرق کیوں ہے؟کتاب ایک،مطالب وہی،فرق ہے تربیت،استعداد،قابلیت، اور دل و دماغ پر صحبت کے اثر کا!

            قصہ مختصر!جو کتابیں میرے ذوق علمی پر کار فرماہوئیں،محسن بنیں،اور جن کو کہنا چاہئے،خاموش مگر سبق آموز استاد تھیں،حسب ذیل ہیں:

قرآن کریم

"حدیث:کنز العمال "اس کی جامعیت نے اثر ڈالا

عقائد:مقالات الاسلامیین امام ابوالحسن اشعریؒ

رجال میں ابتدائً بستان المحدثین شاہ عبدالعزیز ؒصاحب دہلوی دیکھی۔ازالۃ الخفاء شاہ ولی اللہ صاحبؒ  ابن خلکان ،تذکرۃ الحفاظ امام ذہبی،طبقات ابن سعد ،معارف ابن قتیبہ،مقدمہ شرح البخاری امام ابن حجر عسقلانیؒ۔

تصوف:حالات مرزا مظہرؒ از شاہ غلام علی صاحبؒ وحالات شاہ غلام علی صاحبؒ از شاہ عبدالغنی صاحب مجددیؒ،فوائدالفواد  از خواجہ حسن دہلوی،سلسلۃ العارفین (ملفوظات خواجہ عبیداللہ احرار)،فتوح الغیب  حضرت غوث اعظمؒ،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ از شاہ ولی اللہ صاحبؒ،ملفوظاتِ حضرت پیرومرشد مولانا فضل رحمٰن قدس سرہٗ(ازمولانا سید محمد علی صاحب  ومولوی سید نورالحسن خاں )،زبدۃ المقامات از خواجہ محمد ہاشم ؒ،مدارج السالکین شرح منازل السائرین  از حافظ ابن القیمؒ،کتاب الروح ایضاً،اعلام الموقعین ایضاً۔

اردو:اردوئے معلی،عود ہندی  از مرزا غالب،تذکرئہ آب حیات ،دربار اکبری از میر محمد حسین آزاد دہلوی،مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم،المامون،شعرالعجم از مولانا شبلی۔

تاریخ فارسی:واقعات بابری،تاریخ فرشتہ،تزک جہانگیری۔

ٍ         یہ امر قابل اظہار ہے،کہ مذکورہ بالا کتابوںمیں بعض ایسی بھی ہیں جن کا کوئی حصہ بوقت ضرورت دیکھا اور پڑھا ،تاہم اس کا اثر دل و دماغ پر گہرا ہوا۔

            دو کتابوں کا ذکر باقی رہ گیا ہے،ان کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہے،وہ دونوں کتابیں یہ ہیں:بستان المحدثین شاہ عبدالعزیز صاحب دہلویؒ(محدثین کی تصانیف کے بیان میں)تصنیف کے ذکر کے ضمن میں ،مصنف کا ذکر تفصیل وتحقیق سے فرمایا ہے۔یہ کتاب عرصے تک مطالعہ میں رہی۔بزرگوں کے کتب خانے سے اتفاقاًپرانا مطبوعہ نسخہ مل گیا تھا،شوق سے برابر پڑھا۔صاف وسنجیدہ عبارت میں،حالات و واقعات تحقیق کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔میرا یقین ہے کہ علمائے سلف وغیرہ رسائل کی تالیف میں جو تھوڑی بہت کامیابی مجھ کو ہوئی،اس کی اصل وہ ذوق ہے جو اس کتاب کے مطالعے سے پیدا ہوا۔رحم اللہ تعالیٰ مصنفہٗ۔

            دو رسالے تصوف کے:ایک مرتبہ حضرت مرزا مظہر جانجاناں کے حالات میں،مؤلفہ حضرت شاہ غلا م علی صاحب ،دوسرا حضرت شاہ غلام علی کے حالات میں،نوشتہ شاہ عبدالغنی صاحب مجددی، یہ رسالے بھی اتفاقاًبزرگوں کی کتابوں میں سے ہاتھ آگئے تھے۔سعادت تھی ،کہ دیکھ کر شوق پیدا ہوا،بستان المحدثین کی طرح عرصے تک مطالعہ کیا۔یہ رسالے بھی مطبوعہ قدیم ہیں۔حالا ت صاف اور سنجیدہ عبارت میں ،مبالغہ اور اغراق سے پاک،محققانہ و چشم دیدہ بیان فرمائے ہیں۔ان رسالوں کے مطالعے سے یہ ذوق پیدا ہوا،کہ تصوف کو بجائے مباحث

 کے حالات و واقعات کے آئینے میں دیکھا جائے۔الحمدللہ یہی ذوق اب تک کار فرماہے۔بزرگانِ وقت سے ملنے،اور ان کے متعلق خیال و عقیدت کے پیدا ہونے میں بھی یہی ذوق کار فرما رہا۔رضی اللہ تعالیٰ عن مصنفیھا۔