خبر لیجے زباں بگڑی ۔ پول کھل گئی۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

08:40PM Sat 21 Nov, 2020

 وزارتِ عظمیٰ بہت عام لفظ ہے۔ اعظم سے عظمیٰ۔ لیکن جانے کیوں ہم لوگ وزیراعلیٰ کی نسبت سے وزارتِ عُلیا نہیں لکھتے۔ عُلیا اعلیٰ کی مونث ہے۔ وزارتِ عظمیٰ ہے تو وزارتِ عُلیا بھی ہوسکتی ہے۔ شاید عُلیا لکھتے ہوئے تکلف ہوتا ہے۔ اب عظمیٰ تو نام بھی ہوتا ہے۔ ممکن ہے کوئی پوچھ لے کہ یہ عُلیا کیا ہے؟ اگر وزارتِ اعظم لکھنا صحیح نہیں تو وزارتِ اعلیٰ بھی درست نہیں ہے۔ ہمیں ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک صاحب جو نئے نئے وزیراعظم بنے تھے، نام ان کا ہم نہیں لیں گے، کسی دوست نے پوچھ لیا ’’اور سنائیے، وزارتِ عظمیٰ کیسی لگی؟‘‘ سادگی سے جواب دیا ’’ابھی عظمیٰ سے تو ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘ غنیمت ہے کہ کسی نے وزیراعلیٰ سے علیا کا احوال نہیں پوچھا۔ کام تو یہ کسی اور کا ہے لیکن سنڈے میگزین کا 7 فروری کا شمارہ دیکھ رہے تھے تو ایک دلچسپ جملے پر نظر پڑی۔ ’’روز صبح زادِ راہ ہم راہ لے کر‘‘۔ بھئی، اگر زادِ راہ ہے تو پھر ہمراہ کی کیا ضرورت ہے! اس کے بغیر ہی مفہوم واضح ہورہا ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی اخبارات میں ’’ہم راہ‘‘ کا بے جا استعمال ہورہا ہے۔ تصاویر کے عنوان (کیپشن) میں لکھا ہوتا ہے ’’گروپ فوٹو میں فلاں فلاں صاحب ہمراہ کھڑے ہیں‘‘۔ ہم راہ ہو یا ہم سفر، یہ راہ کے ساتھی ہیں۔ ایک بڑا بے کار سا شعر ہے:ز آنا نہ مری قبر پہ ہم راہ رقیباں مُردوں کو مسلمان جلایا نہیں کرتے تلاطم بہت عام سا لفظ ہے خواہ یہ سمندر میں اٹھے یا سیاست میں۔ محترم ملک نواز احمد اعوان ہمارے علم کی پونجی میں اضافے کے لیے بڑی قیمتی کتابیں ’’خلوص کے ساتھ‘‘ بھیجتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور کتاب سرگذشتِ الفاظ (سرگزشت) احمد دین مرحوم کی بھجوائی ہے۔ اسے دیکھ رہے تھے کہ تلاطم کے ماخذ پر نظر پڑی۔ قارئین کو بھی اس میں شریک کرلیتے ہیں۔ اس کا ماخذ ’’لطم‘‘ ہے جس کا مطلب ہے: طمانچہ۔ احمد دین لکھتے ہیں کہ ’’موجوں کے ایک دوسرے کو، اور اگر کوئی غیر بھی ان کے ہتے (ہتھے) چڑھ جائے تو اس کو بھی تھپڑ مارنے کا نقشہ تلاطم امواج کو ذہن نشین کردے گا۔‘‘ شاید اسی لیے موجوں کی شدت کے لیے اردو میں ’’تھپیڑے‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر:ز اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں چلیے، یہ تو ٹھیک ہے کہ تلاطم کا ماخذ لطم ہے اور اس کا مطلب ہے طمانچہ یا تھپڑ۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں نے فلاں کو لطم کھینچ مارا۔ کہنے سے پہلے لطم کی وضاحت کرنا ہوگی۔ بہرحال ہم نے تو قارئین تک ایک لفظ پہنچا دیا، اب وہ اس کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں۔ اسی حوالے سے رشید حسن خان کی کتاب ’’کلاسکی (کلاسیکی) ادب کی فرہنگ‘‘ کا ذکر بھی ہوجائے۔ انہوں نے لطم کے بجائے لَطْمہ دیا ہے۔ مطلب وہی: تمانچا، تھپڑ، اور دریا کی موج کا تھپڑ۔ انہوں نے ایک مثال دی ہے: ’’لطمہ پیرا ہوئی‘‘ مراد یہ کہ دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اور اس ضمن میں ایک جملہ پرانے ادب سے دیا ہے: ’’یہ سن کر خواہشِ سیرِ دریا شہ زادے کے سفینۂ دل میں موج زن، لطمہ پیرا ہوئی‘‘۔ بھلا دیکھیے، ایک آسان سے جملے کو کیسا مشکل بنا دیا۔ سیدھی طرح لکھ دیا جاتاکہ شہ زادہ دریا کی سیر کا خواہش مند ہوا۔ اردو بولنے والوں کے بہت بڑے قائد جناب الطاف حسین لندن سے رات کو 3 بجے خطاب کررہے تھے۔ ہم سیاست کی طرف نہیں جارہے۔ محترم نے اپنے خطاب میں بار بار ’’پول کھولی‘‘۔ اردو داں طبقے کا اتنا بڑا لیڈر ہونے کے ناتے انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ جو کھولا جاتا ہے وہ ’پول‘ مذکر ہے، مونث نہیں۔ شاید ’ڈھول کا پول‘ والا محاورہ ان تک نہیں پہنچا، یا ہمارے کالم بھی نظر سے نہیں گزرے۔ یوں تو اور کتنے ہی ’پول‘ کو مونث بولتے اور لکھتے ہیں مگر بھائی تو ’’اہلِ زبان‘‘ کے لیڈر ہیں۔ اس مجلس میں جتنے بھی سامعین تھے وہ بھی تائید میں ’پول کھل جائے گی‘ کی تکرار کررہے تھے۔ اب وہاں موجود تو زبان کے حوالے سے بھی الطاف بھائی کو سند قرار دیں گے جن کے نام پر اب تو ایک جامعہ بھی قائم ہورہی ہے۔ ٹی وی چینل پر خبریں پڑھنے والی ایک محترمہ ’’نب رد آزما‘‘ ہورہی تھیں۔ صحیح تلفظ نَبرْد ہے، لڑائی کو کہتے ہیں (نَ+ برد)۔ تلفظ کی بات چلی ہے تو کچھ لوگ کَندہ (کاف پر زبر) اور کُندہ (کاف پر پیش) میں فرق نہیں کرپاتے۔ کَندہ کا مطلب ہے: کھدا ہوا، نقش کیا ہوا۔ فلاں کے مزار پر یہ بات کَندہ ہے۔ اور کُندہ کہتے ہیں لکڑی کے بڑے سے لٹھے کو، موٹی لکڑی کا ٹکڑا، بندوق کا بٹ، لکڑی کا وہ ٹکڑا جس پر قسائی قیمہ کوٹتے ہیں۔ اصل اس کی فارسی ہے۔ ’کندہ ناتراش‘ تو سنا ہی ہوگا۔ نہیں سنا تو اب سن لیں۔ ویسے تو اس کا مطلب ان گھڑی لکڑی ہے لیکن مجازاً احمق، بے وقوف، نالائق، بے تمیز کو بھی کہتے ہیں، اور ہم ہرگز یہ نہیں بتائیں گے کہ کبھی لڑکپن میں ہمیں بھی یہ شرف بخشا جاتا تھا اور ہم مطلب پر غور کرتے رہ جاتے تھے۔ کَندہ (کاف پر زبر) بھی بطور صفت فارسی ہی سے آیا ہے۔ اسی سے کندہ کار، کندہ کاری یعنی کھودنا، قلم کاری کرنا، نقاشی کرنا وغیرہ ہے۔ کَتبہ (کاف پر زبر) اور کُتبہ بھی ایسے دو الفاظ ہیں جن کے تلفظ میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ کتبہ (کت بہ) عربی میں کِتابہ ہے یعنی وہ عبارت جو لوحِ قبر یا مسجد پر کندہ کرکے لگائی جاتی ہے۔ لیکن اردو میں عام طور پرکَتبہ استعمال ہوتا ہے۔ کُتبہ (کاف پر پیش) کَتبہ کی جگہ بولنا غلط ہے۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے مگر اب یہ تواتر سے پڑھنے میں آرہا ہے یعنی ’’گڑھے مُردے اکھاڑنا‘‘۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر مُردے کسی گڑھے میں ہیں تو گڑھے کو اکھاڑو، پچھاڑو۔ مُردوں کو کیوں؟ اصل محاورہ ہے ’’گڑے مُردے اکھاڑنا‘‘۔ مطلب واضح ہے، ہماری بقراطی کی ضرورت نہیں۔ آج کل تو یہ کام بڑے اہتمام سے ہورہا ہے۔ 12 مئی 2007ء کا مُردہ کب کا دفن ہوچکا تھا، اچانک اکھاڑ لیا گیا۔ دہلی کے انتخابات میں ’عام آدمی پارٹی‘ کی بھرپور کامیابی پر تقریباً تمام پاکستانی چینل بول بھی رہے تھے اور پٹی بھی چلا رہے تھے کہ پارٹی نے ’’جھاڑو پھیر دیا‘‘۔ جھاڑو کو اس کثرت سے مذکر بنایا کہ ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ یہ کب سے مذکر ہوگئی! اب تک تو جھاڑو مونث ہی تھی۔ سڑکوں پر ایک دُم دار قسم کی جھاڑو پھیری جاتی ہے، ممکن ہے وہ اپنے جثے سے مذکر لگتی ہو ورنہ لغت کے اعتبار سے تو جھاڑو مونث ہی ہے خواہ 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر عام آدمی پارٹی نے پھیری ہو۔ دُم دار ستارے کو بھی جھاڑو تارا کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے کسی جھاڑو پھرے شاعر نے کہا تھا ’’کاندھے پر فلک تھامے، بغل میں دم دار ستارہ ہے‘‘۔ ایک محاورہ ’’جھاڑو ہوکر لپٹنا‘‘ بھی ہے۔ یعنی کسی کے پیچھے پڑ جانا۔ ویسے ہم نے تو اب تک ’’جھاڑ‘‘ کو لپٹتے یا کسی کو جھاڑ کی طرح چمٹتے دیکھا ہے، جھاڑو کو نہیں۔

13-02-2015 فرائیڈے اسپیشل