وہ رات۔۔۔ جب رکن اسمبلی ڈاکٹر چترنجن کا قتل ہوا! (تیسری قسط………..از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(....گزشتہ سے پیوستہ)
جب ہمیں دوسرے کمرے میں منتقل کیا گیاتو جنرل سکریٹری تنظیم جناب یحییٰ دامودی نے بتایا کہ رات جس وقت پولیس نے مجھے اپنے گھر سے اٹھایاتھا تو اسی وقت انہوں نے بنگلورو میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل آف پولیس (لاء اینڈ آر ڈر)ایس سی برمن سے فون پر رابطہ قائم کیا تھااور یہاں کی صورتحال بتائی تھی۔ اس پر ڈی آئی جی نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ہم لوگ پریشان نہ ہوں ۔وہ صبح تک بھٹکل پہنچ جائیں گے اور مجھے پولیس حراست سے چھوڑنے کے بارے میں کارروائی کریں گے ۔ بس مقامی حالات کو پر امن بنائے رکھنے میں ہم لوگ یعنی تنظیم کی لیڈرشپ پوری طرح سرگرم ہوجائے۔ باقی معاملات وہ بھٹکل آتے ہی نپٹائیں گے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک اعلیٰ پولیس افیسر کی یقین دہانی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی تنظیم کے کلیدی عہدیداران کو ہی مقامی پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا۔چونکہ اس وقت موبائل فون کی سہولت مہیا نہیں تھی، ہم اعلیٰ افسران سے کیاخود اپنے ہی شہر اور گھر والوں سے پوری طرح کٹ کر رہ گئے تھے۔
یہ سرگزشت بیان کرنے کا مقصد: بات آگے بڑھانے سے پہلے تھوڑی سی وضاحت کرنا اس لئے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ سابقہ 2قسطیں پڑھنے کے بعد کچھ گروپس میں اور کچھ براہ راست مسیج موصول ہوئے جس میں مضمون کی پزیرائی کرتے ہوئے اگلی تفصیلات جاننے کی خواہش اور دلچسپی کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان پیغامات میں سے ایک اہم پیغام عزیزی ایس ایم سید رقیم کا تھا جنہوں نے لکھاتھا:’’ان مضامین کو پڑھ کر 1990کی دہائی میں تنظیم لیڈرشپ کی جدوجہد اور ایثار کا پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے....بھٹکل کے ایسے تاریخی منظر نامے کو پیش کرنے کا شکریہ....‘‘
گئے دنوں کی ا ن باتوں کو ضبط تحریر میں لانے کا میرا اصل مقصد بالکل یہی ہے کہ قوموں کی زندگی میں جو مختلف موڑ آتے ہیں اور قیادت کرنے والوں کوجس قسم کے اندرونی اور بیرونی رخنوں سے مقابلہ کرنااور اس کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے اس بات کا احساس ہماری نوجوان نسل کو ہوجائے اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے خود بھی تیار ہوجائے۔ یہ کچھ نقوش اگر ایک آدھ ابھرتے لیڈر کے لئے ہی سہی، سنگ میل کاکام کرجائیں،تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا۔ مزیدایک بات اور بھی واضح کردوں کہ جو کچھ بھی تفصیل ضبط میں تحریر میں لائی جا رہی ہے اس سے ہٹ کر بھی بہت ساری حساس اور نازک باتیں ایسی ہیں ، جو کبھی قلمبند نہیں کی جاسکتیں۔ بس حالات کی سنگینی کو سمجھانے کے لئے جن باتوں کوظاہر کرنے کی گنجائش تھی، اسی کوقلمبند کیاجارہا ہے۔ورنہ جنوں کی حکایت خونچکاں ایسی ہے کہ .......
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں
بھوک اور پیاس سے براحال: دیکھتے دیکھتے صبح کا اجالا پھیل گیا۔ ایک طرف سورج چڑھتا جارہا تھا۔ دوسری طرف پولیس افسران کی گاڑیاں کبھی کبھار پولیس اسٹیشن میں دندناتی ہوئی آتیں اور چلی جاتی تھیں۔ پولیس اسٹیشن (موجودہ تحصیلدار دفتر کا احاطہ) کے جس کمرے میں ہمیں بند رکھا گیا تھا اس کی پچھلی دیوار میں جو کھڑکی تھی ، بس اسی سے پرانے بس اسٹانڈ تک کا نظارہ ہم دیکھ سکتے تھے۔ پورے شہر پر سناٹا اور خوف کا عالم چھایا ہواتھا۔سڑک ویران پڑی ہوئی تھی۔ دکانیں اور موٹر گاڑیاں پوری طرح بند تھیں۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے پولیس کی گاڑیاں دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ادھرپولیس اسٹیشن کے ورانڈے میں پولیس والوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ ڈاکٹر چترنجن کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے بی جے پی کے نامورنیشنل لیڈر ایل کے ایڈوانی بھٹکل تشریف لارہے ہیں۔اسی پس منظر میں لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے اور آخری رسومات تک حالات کوپوری طرح قابو میں رکھنے کی کوشش میں پولیس افسران ایسے مصروف ہوگئے تھے کہ کوئی ہماری طرف بھول کر بھی دیکھنے کو تیار نہیں تھا ۔ دوسری طرف بھوک او رپیاس سے ہمارا حال برا ہواجارہاتھا۔ ایک مسلم ڈرائیور کی مہربانی: غالباًصبح 9یا دس بجے قریب پولیس اسٹیشن میں ہمارے کمرے کے سامنے سے تحصیلدار کی جیپ کا ڈرائیور گزرا ۔ جس کا نام عبداللہ تھا۔ ہم نے اسے آواز دی اور اس سے گزارش کی کسی طرح ہمارے لئے تھوڑاساپینے کا پانی مہیا کردے۔ اس نے سرکاری یونیفارم میں ہونے کے باوجود سیدھے اپنے دفتر جاکر گھڑا اٹھایااور سامنے سڑک کے اس پار واقع کارپوریشن بینک سے متصل میونسپالٹی کے نل سے پانی بھر کر اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے لے آیا اور ہمارے حوالے کیا۔ اس وقت جیسے وہ ایک بہت بڑی نعمت تھی، جو ہمیں مل گئی تھی۔پتہ نہیں عبداللہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے۔ لیکن آج بھی جب میری آنکھوں کے سامنے کاندھے پر پانی کا گھڑااٹھائے ہوئے عبداللہ کی تصویر گھومتی ہے تودل سے دعانکلتی ہے کہ وہ جہاں بھی ہواور جس حال میں بھی ہو، اللہ اس پر اپنارحم وکرم کرے۔ ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں!: حالانکہ تنظیم کی نئی قیادت اور کلیدی عہدیدار پولیس کی بے جا حراست میں تھے اورپولیس اور سرکاری اعلیٰ افسران کے ساتھ پرانے رشتے ، اثر و رسوخ اورمقامی پولیس والوں سے بے تکلفانہ تعلقات رکھنے والے ہمارے سینئر قائدین اور خادمین پوری طرح آزاد تھے، مگر اب بھی سوچنے پر دماغ کھولنے لگتا ہے کہ اُس وقت کسی نے بھی ہماری خیر خبر پوچھنے یا مقامی افسران کے توسط سے ملاقات کرنے اورہماری پشت پناہی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ تنظیم کے نائب صدور، سکریٹریز جیسے دیگر عہدیداران نے بھی وفد کی شکل میں پولیس اسٹیشن پہنچنے اور ہمیں راحت دلانے یا ڈھارس بندھانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ ہمیں بالکل لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔اب جو کچھ بھی کرنا تھا وہ ہمیں کو کرنا تھا اوراس کے لئے اس وقت ہمارے پاس کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہونا تھا،بس وہ مقدر سے ہی ہونا تھا۔اس سچویشن کے تعلق سے ساقی امروہوی کی زبان میں (یک لفظی ترمیم کے ساتھ) یوں کہنا صحیح ہوگا کہ کون پرسانِ حال تھا میرا زندہ رہنا کمال تھا میرا سب کی نظریں مری نگاہ میں ہیں کس کو کتنا خیال تھا میرا
ایک اعلیٰ افسر اورانٹروگیشن: رات میں جب مجھے پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا تو آدھی رات کو ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ آر پی شرمانے آکر میری طرف دیکھا تھا اوردیگر پولیس والوں کوکچھ عجیب سے معنی خیز اشارے gestureکرتے ہوئے دوسری طرف اپنی کیبن کا رخ کیا تھا۔لیکن دوسرے دن دوپہر سے ذرا پہلے اُس وقت میسور کے اے سی پی کیمپیا نے مجھے الگ کمرے میں لے جاکرانٹروگیٹ کرنے کی کوشش کی۔یہ وہی کیمپیا ہیں جو کہ ویرپن دہشت اور راجیو گاندھی قتل معاملات میں اپنے مؤثر کردار کی وجہ سے top copکے طور پر معروف ہوئے اور آج کل ایڈوائزر ٹو ہوم منسٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔اے سی پی کیمپیاکا وہ اسٹائل مجھے آج بھی نہیں بھولتا جو انہوں نے مجھ پر دھاک بٹھانے کے لئے اختیار کیاتھا۔ مجھے جس بینچ پر بٹھایاگیا تھا سیدھے اس کے قریب آکر اپنا دایاں پاؤں اٹھاکربینچ پر بالکل میرے قریب رکھا اوراپنے ہاتھ میں ایک رائٹنگ پیڈاورقلم تھام کر اسی مڑے ہوئے پیر پر ہاتھ کے سہارے میری طرف جھک کررعب دار لہجے میں انگریزی میں کہا : ’’چلو، شروع ہوجاؤ!‘‘ میں نے ذرا بھی گھبراہٹ یا تردد کے بغیر پلٹ کرپوچھا :’’کیا شروع کروں؟‘‘انہوں نے کہا ’’تمہارا نام کیا ہے اور تمہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے ؟‘‘ میں نے اطمینان سے نام بتاتے ہوئے کہا کہ:’’ مجھے کیا پتہ کہ مجھے کیوں لایا گیا ہے!جس نے مجھے یہاں لایا ہے اسی سے پوچھ لیجیے!‘‘ نہ جانے کیوں وہ سٹپٹاگئے اور وہاں ذرادوری پر باادب کھڑے ہوئے پولیس اہلکاروں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی تیز آواز میں پوچھاکہ:’’ارے کوئی مجھے بتائے گا کہ اسے یہاں کون لایا ہے؟!‘‘ پولیس اہلکاروں نے لاعلمی میں سرہلایاتو میں نے کہا کہ’’ سرکل انسپکٹر ویرنیکر مجھے اپنے گھر سے اٹھا لانے کے بعدرات سے اب تک نظر نہیں آرہے ہیں۔‘‘ اس پر پتہ نہیں کیا ہواکہ اے سی پی کیمپیا نے رائٹنگ پیڈ وہیں ٹیبل پر دے مارا اور پیر پٹختے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ اور میری طبیعت بگڑ گئی!: دن چڑھتاجارہاتھا اور ہم بھوک سے نڈھال ہوئے جارہے تھے۔اس پر ستم یہ تھا کہ میرے لئے اپنے گھر والوں سے رابطہ قائم کرنا انتہائی ناگزیر ہوگیاتھا۔ کوئی ایسی ناقابل بیان پریشانی لاحق تھی کہ اس کے بارے میں سوچ کر رات ہی سے میری جان ہلکان ہوئی جارہی تھی۔اب ایک بارتو انٹروگیشن کے مرحلے سے بفضل خداآرام سے بچ نکلاتھا۔مگر دوپہر ہوتے ہوتے معاملے کی سنگینی بڑھ گئی تھی۔مزید انٹروگیشن کے مرحلے پیش آسکتے تھے۔ اسی وجہ سے میری طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئی ۔ کسی بھی پہلو چین نہیں تھا۔اوردور دور تک کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ سرکل انسپکٹر کی آمد: انتہائی تکلیف کی وجہ سے میں نڈھال ہواجارہا تھا کہ غالباً عصر چاربجے کے قریب خوش قسمتی سے سرکل انسپکٹر ویرنیکر کی صورت پولیس اسٹیشن کے احاطے میں پہلی بار نظر آئی۔ میں نے اسے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ دیکھوہم بھوکے پیاسے یہاں پڑے ہوئے ہیں۔ میری طبیعت بہت زیادہ بگڑ رہی ہے ، مجھے گھر سے دوائی اور ناشتہ منگوانا ہے ، تم مجھے فون کرنے کا موقع دو۔ اس نے خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درخواست قبول کی۔مجھے اپنے دفتر میں ساتھ لے گیا اور گھر پر فون کرنے کا موقع تو دیا،مگر ایک لمحے کے لئے بھی میرے سامنے سے نہیں ہٹا اور مجھے اپنی اہلیہ سے صرف دوائی اور ناشتے سے ہٹ کر کوئی اور بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔پھر واپس مجھے حراست والے کمرے میں چھوڑ کر سرکل انسپکٹرغائب ہوگیا۔ سنسان سڑک۔تنہاخاتون اور معصوم بچی !: میں حراست والے کمرے کی پچھلی کھڑکی سے پرانے بس اسٹانڈ کی طرف نظریں ٹکائے بیٹھا تھاکہ ساڑھے چاریا پانچ بجے کے قریب پوری طرح سنسان سڑک پرمجھے میری اہلیہ ہماری چھ سالہ معصوم سی بچی کا ہاتھ تھامے کچھ سامان لے کر آتی دکھائی دی۔ اس وقت ایک تنہا خاتون کا چھوٹی سی بچی کو ساتھ لے کر ایسے خوفناک ماحول میں گھر سے نکلنا، واقعی بڑی ہمت اور جگر کی بات اس لئے بھی تھی کہ ہمارے بقیہ مردانِ میدان اوربے جگر لیڈران ہماری طرف سے غافل گھروں میں بند بیٹھے تھے۔ وہ منظر تو اب بھی ایک علامت بن کرذہن و دل پر ایسانقش ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔بہرحال میری اہلیہ اور بچی جب ہمیں حراست میں رکھے گئے کمرے کے پاس پہنچیں تو ہتھیار بند سنتریوں نے انہیں باہر دروازے پر ہی روک لیا۔ انہیں اندر آنے یا ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ دہلیز کے اس پار سے میری اہلیہ نے دوائی اور ناشے کا سامان میرے حوالے کیا۔ میں چاہتاتھا کہ اسے کچھ پیغام دوں، مگر وہ توبس وظیفے پڑھنے اورغم زدہ آنکھوں سے حیرت کے ساتھ ہمیں تکنے میں محو تھیں ۔ سنتریوں کی موجودگی میں میرے لئے زبان کھولنا بھی مشکل تھا۔ کسی طرح ایک ضروری بات بتاکر اور صبر واستقامت کا اشارہ کرکے انہیں وہاں سے بھیج دیا اور پھرہم سب نے تھوڑے سے ناشتے سے بھوک مٹاکر کچھ دیر کے لئے سکون ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس وقت ہماری کیفیت کچھ ایسی تھی کہ فصیلِ شکر میں ہیں ، جبر کے حصار میں ہیں جہاں گزر نہیں غم کا ہم اس دیار میں ہیں
اور پھر شام کا اندھیرا پھیلا: طے شدہ پروگرام کے مطابق شام کے وقت ڈاکٹر چترنجن کی لاش کو نذر آتش کردیا گیا۔ تب تک کافی اندھیراپھیل چکا تھا ۔ تقریباً آٹھ بجے جیسے ہی آخری رسومات ختم ہوئیں۔پولیس اسٹیشن میں اعلیٰ افسران کی آمد کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ادھر مقامی پولیس افسروں نے ہمارے کمرے کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی، شاید ایس پی اور سرکل انسپکٹر کی ہدایت تھی۔ مگر ہم دہلیز پر ہی ڈٹے رہے اورانہیں دروازے کی باہری کنڈی لگانے نہیں دی۔ادھ کھلے دروازے سے سید محی الدین اور یحییٰ دامودی پولیس اسٹیشن کے صحن میں نظریں جمائے ہوئے تھے ۔ جیسے ہی ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ایس سی برمن کی گاڑی داخل ہوئی اور و ہ اپنی کار سے باہر نکلے ، ان دونوں نے سنتریوں کی پرواہ کیے بغیرآگے بڑھ کر دروازے کے پاٹ کھولے اور دہلیز سے ذرا باہر آکر اے ڈی جی پی کو آواز دیتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور مسٹر برمن نے جیسے ہی ان دونوں کو دیکھالپک کر ہمارے کمرے کی طرف آئے۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو لتاڑ: اے ڈی جی پی مسٹر برمن نے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ اور جب انہیں بتایاگیا کہ پولیس والوں نے ہم سب کو رات سے یہاں قید کررکھا ہے تو وہ حیران ہوگئے۔ یحییٰ سے رات فون پر ہونے والی گفتگو ذہن سے نکل جانے کا افسوس کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر رجویر پرتاپ شرما(جو اِس وقت ریاست کے انسپکٹر جنرل آف پولیس Grievances & Human Rightsاور آئی پی ایس افسران کی ایسوسی ایشن کے صدر ہیں)پروہ بری طرح برس پڑے کہ آخر تم نے یہ کیا کردیا۔ ان لوگوں کو اپنے عوام کے ساتھ رہ کرشہر میں امن وامان بحال رکھنے کا کردار اداکرناتھا اورتم نے انہیں حراست میں لے رکھا ہے۔ پھر ہم لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے ایس پی کو حکم دیا کہ ہمیں فوری طور پر رہا کردیا جائے۔ ایس پی نے فوراًہامی بھری۔ اور مسٹربرمن، ایس پی کے ساتھ کچھ منٹ کیبن میں گزارنے کے بعد چلے گئے۔ ایس پی نے چلی پھرایک چال: مسٹر برمن کے باہر چلے جانے کے بعدایس پی نے پھر ایک چال چلی۔میرے ساتھی سید محی الدین برماور اور یحییٰ دامودی کو تو تھوڑی دیر بعد چھوڑ دیامگر مجھے اور اسلم گنگولی(مرحوم) کو روک لیا کہ ۹۳ء کے فسادات میں ہم پر کیس لگائے تھے۔ لہٰذا ابھی مزید کچھ تحقیقات کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس طرح تھوڑی دیر کے لئے میری رہائی کے دروازے بند ہوگئے۔ پریشان ہونا تو فطری بات تھی، لیکن اطمینان تھا کہ دو اہم ساتھی باہر نکل چکے ہیں تو ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔ پھر رات کے گیارہ یا بارہ بجے کے قریب ایس پی شرما نے دوسرے افسران کو حکم دیا کہ مجھے گھر جانے کے لئے چھوڑ دیا جائے ۔ (پھر کچھ دیر بعد اسلم کو بھی چھوڑاگیاتھا) حالانکہ ویران اور خوفناک رات کے اس حصے میں پولیس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مجھے جس طرح اپنی گاڑی میں لے آئے تھے، اسی طرح واپس گھرلے جاکر چھوڑتے۔ مگر انہوں نے مجھے آدھی رات کو تنہا گھر لوٹنے کے لئے یوں ہی چھوڑ دیا۔ تمام تر خوف کے باوجود پوری احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے گھر پہنچنے اوراپنے اہل خانہ سے ملنے پر جو اطمینان ہوا، اسے صرف محسوس کیاجاسکتا ہے ،بیان کرنا ممکن نہیں ۔مجھے ایسے لگاجیسے کہ میرے اہل خانہ اور گھر کے درودیوار مجھ سے کہہ رہے ہوں: دیر لگی آنے میں تم کو ، شکر ہے پھر بھی آئے تو آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ، ویسے ہم گھبرائے تو
(.....جاری ہے ....پولیس افسران کے خلاف انکوائری.....چترنجن کے بدلے ہماری سپاری....ایس پی کی نئی چال...اگلی قسط ملاحظہ کریں) (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج تمام باتیں مضمون نگار کی ذاتی رائے اور ان کے اپنے خیالات و احساسات پر مبنی ہیں، اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)