ویکسی نیشن یا ٹیکے لگانا کیوں ضروری ہے (تیسری قسط) 

Bhatkallys

Published in - Other

04:04PM Tue 21 Feb, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  از:۔۔۔ ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ میں نے سابقہ قسط میں بتایا کہ تقریباً ڈھائی سو سال قبل شروع کی گئی ٹیکے یا ویکسی نیشن کی تیکنیک کی وجہ سے آج دنیا میں بعض خطرناک اور ہلاکت خیز بیماریاں ایک حد تک ناپید ہوچکی ہیں۔جس میں سب سے بڑی مثال چیچک کی ہے۔سن 1977صومالیہ کے اسپتال میں باورچی کا کام کرنے والا علی معاؤ معالین Ali Maow Maalinدنیا کا وہ آخری شخص تھا جسے قدرتی طور پر چیچک کا مرض لاگو ہوا تھا۔ اور اس کے دو سال بعدمصنوعی طور پر چیچک کا وائرس لگنے سے ہلاک ہونے والوں میں برمنگھم کی ایک میڈیکل فوٹوگرافر جینیٹ پارکر Jannet Parkerکا نام آتا ہے جسے چیچک کے وائرس پر کام کرنے والی ایک لیباریٹری سے یہ مرض لگا جس میں لیباریٹری کا سائنسداں پروفیسر ہینری بیڈسنHenry Bedson بھی مرض سے تنگ آکر اپنا گلا خود کاٹ لیتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چیچک پر کنٹرول کی واحد وجہ بچوں کو بچپن میں چیچک کا ٹیکہ لگوانایا ویکسی نیشن کروانا ہے۔ آج بھی چالیس پچاس سال کی عمر والے لوگ اپنی دونوں بانہوں پر گول سکّے جیسے داغ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ چیچک کا ٹیکہ تھا جو بچپن میں گھروں اور اسکولوں میں لگایا جاتا تھا۔ یہ ٹیکہ بہت ہی تکلیف دہ ہوتا تھا۔ اس کا زخم بہت درد کرتا اور کافی دنوں بعد بھرتا تھا۔ لیکن زندگی بھر کے لئے بانہہ پر مستقل نشان چھوڑجاتا تھا۔ ادھر بیس تیس سال کی نسل کی بانہوں پر ایسے نشان نہیں ہوتے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چیچک دنیا سے ناپید ہونے کی وجہ سے اب اس کے ٹیکے نہیں لگائے جارہے ہیں۔ طاعون اورہیضہ کی وبائی شکل نہیں رہی : اس کے علاوہ طاعون یا Plagueجو بدترین تباہی پھیلانے اور پورے پورے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے جانا جاتاتھا، وہ بھی اب دنیا کے بہت سارے ممالک میں مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے لیکن بعض مقامات پر وقفے وقفے طاعون کی کچھ اور شکلیں سامنے آتی رہی ہیں ۔البتہ یقینی طور پر کہا جاسکتا تھا کہ ایک صدی قبل جس طرح کی تباہی طاعون سے ہوا کرتی تھی، وہ اب باقی نہیں رہی ہے۔ نتائج بتاتے ہیں کہ گجرات کے شہر سورت میں 1994میں طاعون کی ایک قسمpneumonic plagueکی وباء پھیلی تھی توصرف 52مریض ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ اس سے ایک صدی قبل دنیا میں طاعون سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد10ملین ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح ہیضہ cholera(قئے اور دست) سے بھی ہزاروں لوگ سالانہ ہلاک ہواکرتے تھے ۔ لیکن اب ہیضہ وبائی شکل اختیار نہیں کرتااور ہلاکتیں کم سے کم ہوگئی ہیں۔بالکل اسی طرح بچوں کو BCGکے ٹیکے لگوانے سے ٹی بی کا مرض اور خاص کر بچوں میں ہونے والی دماغ کی ٹی بیtuberculous meningitis پر بہت بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اب بچوں کی انتہائی پریشان کن بیماری کالی کھانسی pertussisتو دیکھنے کو نہیں ملتی ہے جبکہ آج سے پچیس تیس سال قبل یہ عام بیماری تھی جو مہینوں تک ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ mumpsکی وبائی صورت کے بجائے کے ایک آدھ معاملے ہی سامنے آرہے ہیں۔بچوں کا ایک اور جان لیوا مرض خُنّاق Diptheria جس میں بچے کے گلے میں انفیکشن کی وجہ سے سانس کی نالی بند ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ اب اس مرض کا کوئی معاملہ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔خسرہ، گوبری، چھوٹی چیچک chicken pox(عام زبان میں انزنیو) وغیرہ بھی اب وبائی شکل میں بہت زیادہ پھیل نہیں رہی ہیں۔ سال بھر میں پورے ضلع میں چند معاملات دیکھنے میں آتے ہیں۔

چلچلاتی دھوپ میں بھی دل جلے چلتے رہے راہ تھی دشوار لیکن قافلے چلتے رہے

چیچک اور طاعون کے بعد پولیو پر قابو پانے کا کارنامہ: خطرناک چیچک اور جانوروں کے طاعون rinderpestکے علاوہ بہت ساری دیگر چھوٹی وبائی بیماریوں سے دنیا بھر کے انسانوں اور خاص کربچوں کو چھٹکارہ دلانے میں ویکسی نیشن نے بنیادی کرادار ادا کیا ہے وہیں اس کا موجودہ دور کا کارنامہ دنیا کے ہزارہا بچوں کو پولیوجیسے زندگی کو بال جان بنانے والے مرض سے نجات دلانا ہے۔آج کے تعلیم یافتہ سماج میں اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک واضح اور روشن مثال ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنWHO نے پولیو سے پاک قرار دیا ہے ۔اور یہ سب عالمی سطح پر پولیو کے خلاف ویکسی نیشن کی مہمات کے نتیجے میں ممکن ہو سکا ہے۔ مگر بشمول امریکہ بہت سے ممالک میں پولیو کی وباء پھیلنے کے معاملات اب بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان میں وہ علاقے بہت زیادہ اہم ہیں جہاں پولیو ویکسی نیشن کے خلاف عوام میں غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور ویکسی نیشن کی مہم چلانے والوں پر حملے کیے گئے۔ان میں پاکستان، افغانستان اور الجیریا سر فہرست ہیں جہاں قدرتی طور پر پھیلنے والے وائلڈ پولیو وائرسWPVکے کیس آج بھی سب سے زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں پولیو کے کم تعداد میں جو کیس ریکارڈ کیے جارہے ہیں اس کا سبب ماہرین نے یہ بتا یا ہے کہ ویکسی نیشن نہ کرنے والے علاقے سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے ان علاقوں میں بھی وقتاً فوقتاً یہ بیماری رونما ہوجاتی ہے جن علاقوں کو پولیو سے پاکpolio freeقرار دیا جاچکا ہے۔

وہی ہر صبح امیدیں، وہی ہر شام مایوسی کھلے بھی جا رہے ہیں پھول مرجھائے بھی جاتے ہیں

کیا ہندوستان پولیو فری ہے!: جی ہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے سال 2014میں ہندوستان کو وائلڈ پولیو وائرس WPVسے پاک علاقہ قرار دیا ہے۔کیونکہ ہندوستان میں سال 2012سے WPVکا کوئی بھی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ قدرتی طور پر پھیلنے والے وائلڈ پولیو مرض سے چھٹکارہ پانے کے باوجوددو نئے قسم کے پولیو جیسے امراض کے سامنے آئے ہیں۔ پولیو ایسا مرض ہے جس میں انسان کو بخار آنے کے بعد اچانک جسمانی عضلات میں خاص کر کمر کے نیچے لقوہ مارنے کی وجہ سے بچہ معذور ہوجاتا ہے۔ اسے acute flaccid paralysis (AFP)کہاجاتا ہے۔عضلاتی لقوے flaccid paralysisکے لئے پولیو کے علاوہ دوسرے بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن میں سے ایک سبب خود ویکسی نیشن بھی ہوسکتا ہے۔کیونکہ اسی طرح کے چندمعاملات پولیو ویکسی نیشن کے بعد بھی دیکھے گئے ہیں جسےVaccine Derived Polio Virus (VDPV) کہاجاتا ہے۔یعنی پولیو ویکسی نیشن کے بعد ویکسین اور جسمانی نظام کے درمیان صحیح تال میل نہ ہونے کی وجہ پولیو کا حملہ ہونا۔سال 2014اور2015کے عرصے میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے ویکسی نیشن کی وجہ سے پولیو ہونے کے چار (VDPV) معاملات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ پولیو کی دوسری خطرناک شکل: بدقسمتی سےWHOسے ہندوستان کو پولیو فری قرار دئے جانے کے بعد یہاں پر پولیو کی ایک دوسری شکل ابھر آئی ہے جو بہت ہی تشویشناک ہے ۔ اسے بغیر پولیو والے عضلاتی لقوہ non-polio AFP کا نام دیا گیا ہے۔حکومت اور صحت عامہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہندوستان کو پولیو فری قرار دینے کے بعد تین سال کے اعداد وشمار بناتے ہیں کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے جملہ 50ہزارمعاملات بغیر پولیو والے عضلاتی لقوہ non-polio AFP کے سامنے آئے ہیں۔امیریکن جرنل آف پیڈریاٹکس میں شائع شدہ ایک آرٹیکل میں ایک چونکانے والی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جن بچوں کو منھ کے ذریعے پولیو ویکسین Oral Polio Vaccince(OPV)دی جاتی ہے وہ بچوں کے عمل انہضام میں جاکر کچھ تبدیلی کے بعد ان کے فضلے میں خارج ہوجاتی ہے جس میں پولیو کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ اور یہی جراثیم ماحول میں پھیل کر دیگر بچوں اور خاص کر ان بچوں کے لئے اس مرض کا سبب بن جاتے ہیں جنہیںیا تو ویکسی نیشن نہیں دیا گیا ہوتا ہے یا پھر جن کے اندر مدافعتی قوتimmunity کمزور ہوا کرتی ہے۔ حکومت نے اس مشکل پر قابو پانے کے لئے ابOPVکے بجائے انجکشن کے ذریعے پولیو ویکسین IPV دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ (ویکسی نیشن کے برے اثرات۔۔۔کتنی حقیقت کتنا فسانہ ۔۔۔ جاری ہے۔۔۔چوتھی اور آخری قسط ملاحظہ کریں)