صدارتی نظام کے پہلے مرحلے میں کامیابی۔۔۔۔از: فرقان حمید

ایردوان ترکی کا ایک ایسا سپوت ہے جس نے ناکامیوں کو ٹھوکر مارکر اپنے لئے کامیابی کی راہ ہموار کی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد پسے ہوئے اور مظلوم ترکوں کے ساتھ ماضی میں کئے جانے والے ظلم و ستم اور زیادتیوں کا ازالہ کروانا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغا زکیا۔ ایردوان ترکی کے ایک ایسے رہنما ہیں جن کو مختلف چالوں، حربوں اور بغاوتوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن یہ چالباز کبھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ ان حربوں اور ناکام بغاوتوں کے بعد ایردوان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ترکی کی حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے ایردوان کو نیچا دکھانے کی کسی بھی کوشش میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان کے کئی ایک اخبارات میں ایردوان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں ایردوان کے دور میں آزادیوں کو سلب کیے جانے اور اس سے قبل ترکی کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے دور میں اور حتیٰ کے عصمت انونو کے زمانہ اقتدار میں عوام کو زیادہ آزادی حاصل ہونے کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ کیا ہے۔حالانکہ اتاترک کے بعد ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے ترک عوام پر جو ظلم و ستم ڈھائے، جس طرح مساجد کو اصطبلوں میں تبدیل کیا اور اذانِ کو جس طریقے سے عربی زبان سے ترکی زبان میں دینے کی ریت ڈالی اس کو کون مسلمان ترک بھول سکتا ہے؟ اُن انتخابات میں عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود فوج نے عصمت انونو سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اقتدار سے دور رکھا۔ اس پانچ سالہ دور میں عصمت انونو نے جس طریقے سے ترک عوام سے جینے ہی کا حق چھینے رکھا ترک عوام آج بھی عصمت انونو کےان مظالم کو فراموش نہیں کرسکے ہیں جس کی وجہ سےعوام آج بھی ری پبلکن پیپلز پارٹی سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
صدرطیب ایردوان جو طویل عرصے سے ملک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے اب اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت تک پارلیمنٹ میں صدارتی نظام کو متعارف کروانے کے لئے آئین کی اٹھارہ شقوں کے بارے میں جو رائے شماری کروائی گئی ہے اس میں ایک بار پھر کامیابی صدر ایردوان کے قدم چومتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ پہلے مرحلے میں آئین کی اٹھارہ شقوں کے بارے میں کروائی جانے والی شقوں کو 337 سے لے کر 347 ووٹوں کے ذریعے کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کامیابی دراصل ایردوان کی بہت بڑی کامیابی ہونے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی جس کی قسمت میںحزبِ اختلاف کی جماعت کا رول ادا کرنےکے علاوہ کوئی کردار نہیں ہے نے حزب اختلاف کی ایک دیگر جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے کاندھے پر سوار ہوکر صدارتی نظام کو ملک میں متعارف کروانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کو اس موقع پر بھی منہ کی کھانی پڑی۔ اگرچہ پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما برملا کہہ چکے تھے کہ ’’ ہم ایردوان کو کسی بھی صورت ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ کے بعد اسی قسم کا بیان ری پبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ کمال کلیچدار اولو بھی دے چکے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ" اگر صدارتی نظام متعاف کروایا گیا تو ملک بھر میں خون خرابہ ہوگا، ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا اور ہم صدارتی نظام متعارف کروانے کی صورت میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس سلسلے میں اراکین پارلیمنٹ جسمانی طور پر اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے"۔ ری پبلکن پارٹی نے عوام کے پاس جاکر صدارتی نظام کے خلاف مہم چلانے کا جو اعلان کیا تھا وہ مہم پہلے ہی جلسے میں ان کے اپنے گلے پڑ گئی۔ ترکی کے جنوب مشرقی صوبے ادانہ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی صدارتی نظام کے خلاف شروع کردہ پہلی مہم میں دہشت گرد تنظیم فیتو کی حمایت کی وجہ سے اس کو اپنی جماعت کے اندر ہی سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ری پبلکن نے حزبِ اختلاف کی ایک دیگر جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اس کی حمایت حاصل کرنےمیں ناکام رہی۔حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ری پبلکن پیپلز پارٹی نے آخری حربے کے طور پر نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے اندر چیئرمین کے خلاف بغاوت کھڑی ہو جانے اور 35 اراکین کے پارٹی کے چیئرمین دولت باہچلے لی کے فیصلے کے بر عکس آئین کی شقوں میں تبدیلی کے خلاف ووٹ دینے کا پروپیگنڈہ شروع کرتے ہوئے برسر اقتدار آق پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کےاندر کھلبلی سی پیدا کردی لیکن پارلیمنٹ کے اندر آئین کی شقوں سے متعلق ہونے والی پہلی رائے شماری ہی سے فضا واضح طور پر ایردوان کے حق میں ہموار ہوتی چلی گئی اور یوں اراکین ِ پارلیمنٹ نے پہلی کامیابی پلیٹ میں رکھ کرایردوان کو پیش کردی ہے اور آئین میں ترامیم کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اور اٹھارہ شقوں کی منظوری حاصل کی جاچکی ہے۔ اٹھارویں شق میں کی جانے والی ترمیم کے ذریعے صدر کو پارٹی کے چیئر مین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔پارلیمنٹ میں بروز بدھ دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا جس کے دو ایک دنوں میں مکمل کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد ان ترامیم کو صدر کی جانب سے پندرہ دنوں کے اندر اندر منظوری دینے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ملک میں دو اپریل یا پھر نو اپریل کو ریفرنڈم کروائے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔