اگر سیکولرازم بچانا ہے تو جے پی کا راستہ اپناؤ۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

02:09PM Sun 13 Aug, 2017
بہار کے گیارہ کروڑ عوام کے ساتھ نتیش کمار نے جو فریب اور غداری کی ہے اس کے خلاف جے ڈی یو کے سابق صدر شرد یادو میدان میں آگئے ہیں۔ نتیش کمار کے ساتھ جو ایم ایل اے ہیں ان میں اکثر سیکولر ذہن کے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اگر کمیونل ہوتے تو بی جے پی کا ٹکٹ لیتے اور اگر نہ ملتا تب بھی اس کا الیکشن لڑاتے۔ ان تمام سیکولر ذہن والوں کو ہمت کرکے باہر آجانا چاہئے اور اگر دوبارہ الیکشن کی نوبت آتی ہے تو یقین ہے کہ وہ اور زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوں گے۔ شرد یادو جو دو بار مسلسل صدر رہے اور یہ کہہ کر تیسری بار صدر بننے سے انکار کردیا کہ ایک ہی فرد کو مستقل صدر نہیں رہنا چاہئے۔ انہوں نے صدارت چھوڑی تھی۔ میڈیا نے کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اپنی الگ پارٹی بنائیں گے۔ جو حضرات شرد یادو سے قریب ہیں یہ ان کی ذمہ اری ہے کہ وہ ان کو پارٹی نہ بنانے کا مشورہ دیں۔ کیونکہ پارٹی سے زیادہ طاقتور وہ نعرہ ہوتا ہے جو ایک بے داغ لیڈر دیتا ہے۔ اور بہار کے ہی جے پرکاش نرائن کی زندگی سامنے ہے کہ انہوں نے کوئی پارٹی نہیں بنائی اور پورا ملک ان کی ایک آواز پر ان کے پیچھے کھڑا تھا۔ یہ صرف جے پی کی شخصیت تھی جس سے پنڈت نہرو بھی ہمیشہ ڈرتے رہے اور جب وقت آیا تو انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ملک کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ شرد یادو کو صرف ایک نعرہ دینا چاہئے کہ 2015 ء میں جن بہادروں نے وزیراعظم کو ان کی ساری طاقت ساری دولت اور صلاحیت کے باوجود ہرایا تھا وہ نتیش کمار کو ان کی غداری کی سزا ضرور دیں گے۔ نتیش کمار ایک چھوٹے سے بھرشٹاچار کی ایف آئی آر کو بہانہ بناکر بھاگے اور جہاں گئے ہیں ان سے بڑا بھرشٹاچاری شاید دنیا میں نہ ہو۔ کانگریس حکومت پر بھی تو الزام تھا کہ اس کی حمایتی پارٹیوں کے وزیروں نے رشوت لی اور کام کردیا یعنی رشوت دینے والے نے خوشی سے دی اور لینے والے نے لے لی؟ اور اب نتیش کمار جن لوگوں کے پاس گئے ہیں ان کا تو صرف ایک ہی کام کہ ایم ایل اے خریدو، ایم ایل سی خریدو اور حکومتیں بھی خرید ڈالو اور ہر سودا اسی طریقے سے کہ خوشی خوشی لے لو اور خوشی خوشی دے دو۔ شور کوئی نہیں کیا۔ نتیش کمار کی آنکھیں اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ انہیں اُترپردیش میں ایم ایل سی قربانی کے بکروں کی طرح فروخت ہوتے ہوئے اور گجرات میں ایل ایل اے بلی کی بھینسوں کی طرح بکتے ہوئے نظر نہیں آئے؟ کیا گجرات میں جو راجیہ سبھا کی ایک سیٹ کا الیکشن ہوا اس میں ہونے والا ہزاروں کروڑ کا ہیرپھیر نظر نہیں آیا۔ صرف ایک سیٹ کے لئے کوئی نہیں جانتا کہ کتنا پھونک دیا اور پھر بھی منھ کی کھائی۔ نتیش کمار کی سیاسی زندگی دس پندرہ برس کی نہیں ہے انہوں نے سرد و گرم خوب دیکھے ہیں کیا وہ اپنے ان اصولوں کی جن کا وہ اٹھتے بیٹھتے ذکر کرتے ہیں قسم کھاکر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں گوا اور منی پور کی حکومتوں کی طرح کا بھرشٹاچار پہلے کبھی دیکھا ہے کہ دونوں جگہ کانگریس جیتی اور دونوں حکومتوں کو ان پیسوں سے خرید لیا جو نوٹ بندی کے فریب سے کمائے تھے اور سونیا انہیں اس لئے نہ بچاسکیں کہ ان کا پرس نوٹ بندی سے خالی کرالیا گیا تھا؟ اور سرحدوں کی لڑائی تو پوں سے لڑی جاتی ہے لیکن سیاست کی لڑائی پیسے سے اور پیسہ اب صرف اور صرف مودی جی کے پاس ہے۔ کیا نتیش کمار کو نہیں معلوم کہ نوٹ بندی کے دوران نکالنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر تھی۔ دسمبر میں ہی بار بار ذکر ہوا تھا کہ نہ جانے کتنے فرضی اکاؤنٹ کھل گئے ہیں جن میں کالا دھن جمع کرایا گیا۔ اور جن دھن کے ہزاروں غریبوں کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپئے سیٹھوں نے جمع کردیا۔ وہ سارا روپیہ اور فرضی طریقہ سے جن لوگوں نے اکاؤنٹ میں جمع کیا ہے ان کی مہارت چھپے گی اور ان پر مقدمہ چلے گا۔ کیا نتیش نے بہار میں کسی پر مقدمہ چلتے دیکھا، یا ملک سے کسی ایک مقدمہ کی خبر آئی۔ وہ سارے اکاؤنٹ اب فرضی نہیں ہیں ان کے سیٹھوں سے سودا ہوگیا ہوگا اور آدھا تمہارا آدھا ہمارا پر سب نے نوٹوں کی گڈیوں کے ڈھیر قدموں میں ڈال دیئے ہوں گے۔ اسی بی جے پی کے قدموں میں نتیش نے سجدہ کیا ہے؟ شرد یادو کے استقبال کی تیاری لالو کی پارٹی کے لوگ کررہے ہیں یا اُن کے چاہنے والے۔ بہار کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ نتیش کمار کے دھوکہ اور فریب کے خلاف جو آواز بھی اُٹھے اسے سہارا دیں۔ اور شرد یادو کو اتنی طاقت دے دیں کہ وہ فریب کا انتقال لے سکیں۔ یہ لڑائی وہی ہے جو ملک میں فرقہ پرستوں نے سیکولرازم اور جمہوریت کے خلاف چھیڑی ہے۔ اس لڑائی کو صرف جے پرکاش نرائن اور آچاریہ کرپلانی کی طرح لڑا جاسکتا ہے کہ کوئی پارٹی نہیں اور کوئی جھنڈا نہیں۔ ملک جب آزاد ہوا ہے تو کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی تھے۔ پنڈت نہرو کو وعدوں سے ہٹتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے کانگریس چھوڑی اور پھر نہ پارٹی بنائی اور نہ کسی پارٹی میں شریک ہوئے۔ پنڈت نہرو سے مایوس کچھ حضرات نے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے نام سے ایک پارٹی بنالی تھی۔ ہم نے آچاریہ جی کو اس میں کبھی سرگرم نہیں دیکھا اور جب انہوں نے 1963 ء میں امروہہ سیٹ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے نامزدگی کرائی۔ پنڈت نہرو کا مزاج تھا کہ وہ اپنے برابر والوں جے پرکاش نرائن، آچاریہ کرپلانی اور رام منوہر لوہیا جیسوں کو لوک سبھا میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن کرپلانی جی نے امروہہ سے اور لوہیا جی نے قنوج سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور دونوں جیت کر لوک سبھا میں گئے۔ پنڈت نہرو کے اندر جتنی رعونت سولہ برس میں آئی تھی اس سے زیادہ رعونت صرف تین برس میں مودی جی کے اندر آگئی ہے وہ اگر کسی ریاست کو الیکشن سے جیت کر نہیں حاصل کرپاتے تو اسے خرید لیتے ہیں اور جو خریدنے سے بھی نہ مل سکیں انہیں تلوار کے زور سے حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اسی لئے ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ پارٹی سیاست کو ایک طرف رکھو اور شرد یادو جیسوں کو ساتھ لے کر صرف ایک دیوار بناؤ کہ آر ایس ایس والے ایک طرف اور سیکولرازم کو اور جمہوریت کو زندہ رکھنے والے ایک طرف جن میں ہندو دلت، ہندو اور مسلمان ایک زنجیر بنالیں۔ دلتوں کو دکھانے کے لئے امت شاہ ایک دلت کے گھر کھانا کھاتے ہیں۔ یہ صرف نوٹنکی ہے۔ اگر دلتوں کو برابر سمجھتے ہوں تو اپنے چوکے میں دلت کو بٹھاکر کھانا کھلاؤ اور اس کی بیوی کے ساتھ اپنی بیوی کو 17 بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کو ورنہ جو ہے وہ صرف ڈرامہ ہے اور راہل کی نقل ہے۔