اعلیٰ یا اعلا

Bhatkallys

Published in - Other

10:22AM Fri 5 Feb, 2016
اطہر علی ہاشمی سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلیے، اس طرح ان سے فون پر گفتگو کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ رؤف پاریکھ ایک علمی و ادبی شخصیت ہیں جن سے ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ رشید حسن خان نے اردو کے لیے بہت کام کیا ہے، املا پر ان کی ایک وقیع کتاب ہے۔ لیکن ان کی ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر املا کی تبدیلی سے۔ انہوں نے برسوں پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ وارث سرہندی نے 1982ء یعنی تقریباً 33 سال پہلے ہی اس کی گرفت کرتے ہوئے اس مشورے کو غلط بلکہ نقصان دہ قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ مشورہ بھارت کے سیاسی پس منظر کے زیراثر ہوسکتا ہے جو کوئی مصلحت یا جواز رکھتا ہو، کیونکہ وہاں ایک سازش کے تحت اردو سے عربی الفاظ خارج کرکے ہندی اور سنسکرت الفاظ زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گویا اردو میں ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ وہاں تو اردو کے عربی رسم الخط کو بھی ختم کرکے دیوناگری رسم الخط کو رواج دینے کی کوشش زور شور سے ہورہی ہے، ہم ان ناپاک عزائم میں ساتھی کیوں بنیں۔ اردو کے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ اردو میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کے بے جا استعمال کے خلاف آواز اٹھائی جاتی، مگر سیاسی مرعوبیت کے زیراثر ہمیں الٹا یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہم اردو میں عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کریں۔ رشید حسن خان کا تعلق تو بھارت سے تھا، لیکن ہم یہ کررہے ہیں کہ منظم طریقے سے رومن اردو کو بڑھاوا دے رہے ہیں، یعنی اردو انگریزی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ کیا یہ بھی اردوکے خلاف سازش نہیں ہے؟ موبائیل فون (ہاتف جوال) پر جو پیغامات اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں وہ عموماً انگریزی رسم الخط میں ہوتے ہیں۔ شاید مجبوری ہو کہ ہر ایک اپنے فون پر اردو ٹائپ نہیں کرسکتا، لیکن ملک بھر میں لگائے گئے اشتہارات، بینرز کو کیا کہیں گے جو رومن اردو میں ہوتے ہیں۔ یہ نہ انگریزی جاننے والوں کے مطلب کے ہیں اور نہ انگریزی سے نابلد اردو دانوں کے لیے قابلِ فہم۔ جو انگریزی پڑھ لیتے ہیں اُن کے لیے اشتہار انگریزی میں ہونا چاہیے، اور جو انگریزی سے واقف نہیں اُن کے لیے اردو میں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ اشتہارات جانے کون سی مخلوق کے لیے ہیں مثلاً "EK CUP CHAI"۔ اب جسے انگریزی نہیں آتی وہ کیا خاک سمجھے گا! تو کیا یہ شعوری طور پر اردو سے دور لے جانے کی کوشش نہیں؟ جہاں تک ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا تعلق ہے تو یہ ہندی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بہت تیزی سے ہماری بول چال میں داخل ہورہے ہیں۔ لیکن ایسے بے شمار ہندی الفاظ جو اردو کا حصہ بن گئے ہیں ان کو نہیں نکالا جا سکتا۔ جن الفاظ میں دو چشمی ہ (ھ)، ڈ، ڑ،ٹ جیسے حروف ہیں وہ ہندی ہی سے آئے ہیں جیسے گھوڑا، گدھا، دھوبی، بھنگی وغیرہ…… یا ڈول، ڈبا، ٹوپی، پہاڑ وغیرہ۔ لیکن لغت میں ایسے سب الفاظ اردو کے قرار دیے گئے ہیں۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی کو عربی فارسی الفاظ سے ’’پوتر‘‘ کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا، البتہ تلفظ بگاڑ کر رکھ دیا مثلاً گجب (غضب)، گُسہ (غصہ) وغیرہ۔ ایک ستم یہ ہوا کہ ہندی میں ’پھ‘ کو ’ف‘ سے بدل دیا گیا اور پھول ’’فول‘‘، پھل ’’فَل‘‘، پھرتی ’’فُرتی‘‘ ہوگیا۔ اس پر بھارت کے کچھ ادیبوں، شاعروں نے بھی اعتراض کیا ہے، لیکن بھارت کی نئی ہندو نسل کا اپنا تلفظ بگڑ گیا ہے۔ پرانے لوگوں کا تلفظ بالکل صحیح تھا۔ عربی الفاظ کے سلسلے میں بہتر اور محفوظ طریقہ یہی ہے کہ عربی الفاظ اردو میں کسی تغیر و تبدل کے بغیر استعمال کیے جائیں۔ جو الفاظ پہلے ہی اردو میں اپنی اصلی صورت میں استعمال ہورہے ہیں، ان کو نہ چھیڑا جائے اور ان کی اصلی صورت برقرار رکھی جائے مثلاً ادنیٰ، اعلیٰ، اقصیٰ، بشریٰ، تعالیٰ، تقویٰ، دعویٰ جیسے الفاظ کے املا میں کوئی تصرف نہ کیا جائے۔ اگر حتیٰ، علیٰ، الیٰ کا اصل املا برقرار رکھا جاسکتا ہے تو باقی الفاظ کا کیا قصور ہے کہ خواہ مخواہ ان کی صورت مسخ کی جائے! وارث سرہندی کے مطابق جن الفاظ کے املا میں تصرف ہوہی چکا ہے ان کا بھی اصل املا بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اصلی جھگڑ اعلیٰ اور ادنیٰ کا ہے۔ بچوں کا رسالہ نونہال ایک عرصے سے اعلا اور ادنا لکھ رہا ہے۔ اس رشید حسن خانی اختراع سے اور بھی لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ کیا پتا کب موسیٰ اور عیسیٰ، موسا اور عیسا ہوجائیں۔ عربی الفاظ کی اصلی صورت برقرار رکھنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں عربی سیکھنے میں اس سے مدد ملے گی، دوم ان الفاظ کا ماخذ اور اشتقاق معلوم کرنے میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوگی۔ اگر عربی الفاظ کا املا رشید حسن خان کی تجویز کے مطابق تبدیل کردیا جائے تو اس سے دورنگی پیدا ہوگی کیونکہ ایک ہی لفظ کو ہم اردو میں ایک شکل میں دیکھیں گے اور عربی میں دوسری شکل میں۔ اس طرح ایک طرح کا ذہنی خلجان پیدا ہوگا کہ فلاں صاحب مدیر اعلیٰ ہیں یا مدیر اعلا۔ ہمارے لیے عربی اور فارسی زبانیں سیکھنا اس لیے آسان ہیں کہ ان کے بہت سے الفاظ اردو میں اصلی صورتوں اور حقیقی معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے غالب اکثریت عربی زبان سے مانوس ہے۔ جو مسلمان عربی نہیں سمجھتا وہ بھی کم از کم قرآن کریم ناظرہ ضرور پڑھتا ہے، اس لیے وہ عربی الفاظ کی شکل و صورت سے آشنا ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں عربی الفاظ کو ان کی اصل صورت میں لکھنا ہمارے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ اب نجانے رشید حسن خان اللہ تعالیٰ کیسے لکھتے ہوں گے؟ کیا اللہ تعالا؟ چلتے چلتے ایک لطیفہ…… گزشتہ دنوں پی ٹی وی کی ایک محترمہ خبر سنا رہی تھیں کہ ’’موٹرو۔ ہیکل ٹیکس……‘‘ محترمہ نے موٹر وہیکل کے دو ٹکڑے کردیے۔ حیرت ہے کہ اگر اردو کمزور ہے تو کم از کم انگریزی الفاظ سے تو واقفیت ہوتی۔ ان کا یہ ’’موٹرو۔ ہیکل‘‘ ہر نشریے میں دہرایا گیا، غالباً دوسرے اونگھ رہے تھے۔ اور یہ وہی پاکستان ٹیلی ویژن ہے جس پر کبھی تلفظ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، لیکن شاید اب کسی اور چیز پر توجہ ہے۔