مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا جادو کچھ ایسا ہے کہ انہیں چاہنے والوں نے ٹوٹ کر چاہا،تو ناپسند کرنے والوں نے بھی تمام حدیں پار کردیں، آپ میں انہیں خامیاں ہی خامیاں نظر آئیں۔ ان میں وہ دانشور بھی ہیں جن کی تحریریں دیکھ کر ابکائی آتی ہے، جیسے گٹر کھل گیا ہو، ایسی اخلاق سے گری ہوئی باتیں کسی کے خلاف شاید ہی کہی گئی ہوں۔ لیکن مولانا تھے بلند وبالا ہاتھی کے مانند تھے، جس پر بونے جتنا چاہیں چلائیں اور گالیاں بکیں تو ااس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ جھولتے آگے بڑھتا جاتا ہے۔
مولانا آزاد کے فضائل میں آپ کے چاہنے والوں نے جو باتیں نقل کی ہیں ان میں ایک آپ کا ازہر شریف میں تعلیم پانا بھی شامل ہے، جس کا ان کے مخالفین نے شد مد سے انکار کیا ہے۔علم وکتاب گروپ میں مولانا کی کتاب آزادی ہند سے جو عبارت نقل ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے ۱۹۰۸ میں جب آپ بیس سال کی عمر کے تھے تو مصر کا ایک دورہ تھا۔اس سے وہاں تعلیم پانے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔
ایک ایسی شخصیت جس پر ازہر شریف کے باوقار ادارے مجمع البحوث کے سربراہ نے ایک ایسے دور میں جب ازہر کی ڈاکٹریٹ کا بڑا وزن ہوا کرتا تھا، پی ہیچ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی کی ، اور ایک وزیر اوقاف واسلامی امور نے آپ کی تفسیر ی تحقیقات کا عربی میں ترجمہ کروا کر ان سے عرب محققین کے استفادہ کو عام کروایا۔ میری مراد ڈاکٹر عبد المنعم النمر مرحوم سے ہے ، جنہوں نے جون ۱۹۵۸ ء میں دار العلوم دیوبند میں موتمر عالم اسلامی کی طرف سے مبعوث ہوکر یہاں پر چند سال تدریس میں گزارے،اور واپسی پر ہندوستان اسلام کی تاریخ پر دو جلدوں میں کتاب ، اور مولانا آزاد کی سیرت پر پی ہیچ ڈی کا مقالہ لکھا، دوسرے شیخ احمد حسن الباقوری ، جو وزیر اوقاف اور اپنے وقت کے مقبول خطیب رہے۔ اآخر الذکر نے ذو القرنین پر مولانا آزاد کی تحقیق کو عرب دنیا میں متعارف کرایا، اس کے بعد ازہر میں آپ کی تعلیم ہوئی تھی یا نہیں، یہ سوال بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے، ۱۹۰۸اء میں مولانا آزاد کی زیارت کے بارے میں شیخ عبد المنعم النمر کے تحقیقی مقالے کے متعلقہ صفحات منسلک ہیں۔
شیخ النمر نے اپنے مقالے میں مولانا آزاد کے مصر گھومنے کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے، اس کے بعض نکات قابل غور ہیں۔
۔اس وقت سلطنت عثمانیہ کے ترکوں اور عربوں پر مظالم کی وجہ سے ترکی سے لوگ بھاگ بھاگ کر مصر آرہے تھے، نوجوان ابو الکلام آزاد اس ماحول کو بالمشافہ دیکھنا چاہتے تھے۔
۔ اس وقت مصر کے علاوہ تما م عالم اسلام خلافت ترکی کے ماتحت تھا، لیکن مصر انگریزی سامراج کے تابع تھا۔
۔ شیخ جمال الدین افغانی عالم اسلامی کی نشات ثانیہ کی تحریک لے کر اٹھے تھے، جن کے بعد شیخ محمد عبدہ نے اس تحریک کو آگے بڑھایا، جب مولانا آزاد مصر آئے تو اس تحریک کی باگ ڈور شیخ محمد رشید رضا اور آپ کے مجلۃ المنار کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے بعد رشید رضا کے آپ کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہوگئے تھے۔
۔ مصر اس وقت نوجوان قائد مصطفی کامل کی قیادت میں جاگ گیا تھا، ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات کے بعد اس قومی تحریک کی قیادت آپ کے رفیق محمد فرید مرحوم کے ہاتھ میں آگئی تھی۔
۔ اس وقت مصرکی قومی قیادت یورپ سے غلامی سے آزاد کرنے کی جد وجہد میں مصروف عمل تھی ، اورخود ترک اور دوسرے عرب ترکوں کے ظلم واستبداد سے آزادی کی جد وجہد میں لگے ہوئے تھے۔
۔ ترکوں کو خلیفہ عثمانی سلطان عبد الحمید خان کے ظلم و استبداد سے آزادی کی جدوجہد میں کامیابی مل رہی تھی، جہاں ۱۹۰۸ء میں انجمن اتحاد وترقی نے کمال اتاترک کی قیادت میں سلطان کو بےدخل کرنے اور اپنا دستور نافذ کرنے اور ۱۹۰۹ء میں سلطان کو معزول کرکے قید کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
۔ مصر سے مولانا آزاد ترکی اور فرانس گئے، یہاں سے انگلینڈ جانے کا ارادہ تھا کہ والد ماجد کی رحلت کی خبر پہنچی اور انہیں لندن گئے بغیر اپنا سفر ختم کرنا پڑا ۔
۔ شیخ النمر نے اپنے مقالے میں مولانا آزاد کے ازہر میں تعلیم پانے کی صحت سے انکار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ وزیر اعظم نہرو نے ۲۵ فروری ۱۹۵۸ء کو پارلمنٹ میں مولانا آزاد کے ازہر میں تعلیم پانے کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی کتاب میں اس سلسلے میں جو کہا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔
کئی بار اس ناچیز نے گروپ میں اس بات کو دہرایا ہے کہ تاریخ تجزیہ کی طالب ہے، یہ صرف واقعات کو نقل کرنا یا مداحی نہیں ہے، تاریخ کا مقصد سبق حاصل کرنا اور جو اجتماعی غلطیاں ہوئی ہیں ان سے بچنے کی راہیں تلاش کرنا ہے۔
لہذا دیڑھ دو صدیوں میں جو تحریکیں برصغیر میں اٹھیں ہیں ، دیانتداری سے ان کے تجزیہ کی ضرورت ہے، تجزیہ کا مقصد گڑھے مردے اکھاڑنا نہیں ہے، بلکہ تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اس ناچیز کو کبھی تحریک خلافت سے جذباتی محبت رہی ہے، اور اس کا اہم ترین باعث زیادہ تر مولانا عبد الماجد دریابادی کی تحریریں بنیں، محمد علی ذاتی ڈائری کے چند اوراق جب پہلی مرتبہ پڑھی تھی تو کئی بار آنسو ڈھلک گئے تھے، ۱۹۷۲ء میں کویت کے مجلہ العربی نے سلطان عبد الحمید کا معزولی کے بعد اپنے شیخ طریقت ابوالشامات کےنام لکھا خط شائع کیا، اس خط کا برصغیر میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوا، لیکن ۱۹۷۵ ء کے آس پاس اسے ایک اور عربی مجلے نے دوبارہ شائع کیا تو اس ناچیز نے اس کا ترجمہ مائلل خیر آبادی مرحوم کو ماہنامہ حجاب رامپور میں اشاعت کے لئے بھیجدیا، اس کے بعد سلطان عبد الحمید پراردو مواد کی تلاش مسلسل رہی ، لیکن مولانا آزاد سمیت خلا فت تحریک کی کئی ایک بڑی شخصیات سے سلطان عبد الحمید کی مذمت اور اتاترک کی مدح سرائی ہی سامنے آئی۔
یہ بات ہمارے لئے ابتک ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے کہ تحریک خلافت تو سلطان عبد الحمید کی اتاترک کے ہاتھوں معزولی کے دس سال بعد ۱۹۱۹ء میں اتنی تاخیر سے کیوں شروع ہوئی ، جب کہ سلطان عبد الحمید کی معزولی ہی میل کا پتھر تھی، اور خلیفہ کو اس لئے معزول کیا تھا کہ اس نے فلسطین کو بہت بڑی مالی پیشکش کے عوض یہودیوں کو فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا، اور سلطان عبد الحمید کی معزولی ہی کو عملا خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تھی ۔ سلطان عبد الحمید کے لئے ہمیں برصغیر کی اس وقت کی ملی سیاست میں کوئی ہمدردی کا عنصر نظر نہیں آتا۔بلکہ ہمدردیاں اور غازی اور مجاہد جیسے القاب اتاترک کے لئے نظر آتے ہیں۔
تحریک خلافت کی کمان گاندھی جی کو سپر د کی گئی تھی، ابھی چند سال برطانوی اداروں کی اس وقت کی سرکاری خفیہ رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں، جو اس وقت کی مسلم قیادت کے فیصلوں پر کئی ایک استفہامیہ نشان رکھتی ہیں۔