نوٹوں کی مار کا پرسنل لا بورڈ کے اجلاس پر بھی اثر

از: حفیظ نعمانی
ملک میں بڑے نوٹوں کے بند ہونے کا اعلان ایسے ہوا جیسے قیامت کا صور پھونک دیا۔ ملک میں اس سے پہلے کئی مسائل ایسے چھڑے ہوئے تھے جن سے پورے ملک کا تعلق تھا اور کچھ ایسے چھڑے تھے جن سے صرف اقلیتوں کا تعلق تھا۔ عوام کی زبان سے سرکار کے بیانات اور سپریم کورٹ تک خالص مسلم مسئلہ تین طلاق اور تمام اقلیتوں سے جڑا ہوا یکساں سول کوڈ کی آواز سے ملک گونج رہا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے رہنما خطوط واضح کرنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے کلکتہ میں مجلس عاملہ کا تین روزہ اجلاس اور آخری دن اجلاس عام کلکتہ کے سب سے بڑے میدان میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ مسئلہ تو الگ رہا کہ پولیس کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے بڑے میدان کی اجازت واپس لے لی تھی اور دوسرے بڑے میدان کی تلاش جاری تھی۔ اس کی طرف سے اس لیے فکر نہیں تھی کہ مجلس استقبالیہ کے صدر مولوی سلطان احمد تھے جو مرکزی حکومت میں ممتابنرجی کی طرف سے وزیر بھی رہ چکے تھے اور اب پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ وہ خود ممتاجی کو سنا لیتے۔
لیکن ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹوں کے بند ہوجانے اور ملک کے ہر شریف اور غریب کے بینک کی لائن میں لگ جانے اور کسی کی بھی جیب میں۹ تاریخ کو اٹھنے کے بعد اس کی جیب میں ، اس کی تجوری میں، اس کے کسی بکس یا پرس میں ایک نوٹ بھی ایسا نہیں تھا جس کے ذریعہ وہ کلکتہ کی سب سے سستی غریب نواز سواری ٹرام میں بیٹھ کر بھی اجلاس عام میں یہ سننے کے لیے جاسکے کہ ہمارے بڑے کیا مشورہ دے رہے ہیں؟کلکتہ میں اہم سواری ٹیکسی ہے۔ اور کلکتہ اتنا بڑا شہر ہے کہ جو دنیا کے پچاسوں ملکوں سے زیادہ بڑا ہے۔
مجلس استقبالیہ کے صدر نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اس ا جلاس سے پہلے 2005اور 2008میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے دو انتہائی کامیاب اجلاس ہوچکے ہیں۔ انھوں نے یقین دلایا تھا کہ اس اجلاس میں جو فیصلے لیے جائیں گے ان کی گونج پورے ملک میں سنی جائے گی ۔اور جو مشورہ دیا جائے گا اس پر حرف بہ حرف عمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے ماضی میں عرب تاجروں سے لے کر بورڈ کے اکابر علماء کی تشریف آوری کا بھی ذکر کیا اور اس وقت کا سب سے اہم مسئلہ یکساں سول کوڈ کو بتا کر اس کی مخالفت میں ملت اسلامیہ کے پوری طرح متحد ہونے پر شکر ادا کیا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ۲۵ویں اجلاس کی عاملہ کے تین روزہ جلسہ کے بعد جو اعلانیہ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے جاری کیا اس میں کہا گیا کہ شریعت الٰہی کی مکمل اطاعت اور اس کی حفاظت ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ ہمیں شریعت جان و مال ، عزت و آبرو اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ملت اسلامیہ اور خاص طور پر خواتین کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شریعت الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ ہمیں بہکانے والوں کے بہکاوے اور پروپیگنڈہ سے ہرگزمتاثر نہ ہونا چاہیے۔ مسلمان خود شریعت پر عمل کریں اور ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں۔
مسلمانوں میں طلاق کے واقعات دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ مولانا نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت میں تین طلاق دینا گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن مجید سے کھلواڑ قرار دیا ہے۔ اس امت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے۔ اعلانیہ میں اس پرشکر اور فخر ا دا کیا گیا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کیے جانے والے سرکاری حلف نامے ا ور لا کمیشن کی طرف سے کامن سول کوڈ کے بارے میں جاری کیے گئے سوال نامہ کے پس منظر میں مسلمانوں نے زبردست اتحاد، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا ثبوت دیا ہے اور مسلک و مشرب اور تنظیمی و جماعتی وابستگی سے بالا تر ہو کر پوری ملت اسلامیہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے۔اور مسلمانوں کی ملّی قیادت کی تحسین ہے کہ اس نے دشمنانِ اسلام کے اس خواب کو چکنا چور کردیا کہ وہ ہمارے حلقوں میں انتشار پیدا کردیں۔
مسلمانوں نے ملک کے لیے جو بیش بہا اور سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں وہ اس لیے نہیں دیں کہ رہنے کے لیے چند گز زمین حاصل ہوجائے اور خورد و نوش کا انتظام ہوجائے بلکہ انھو ں نے اپنے دینی تشخص اور مذہبی شناخت کے ساتھ اس ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا ہے
اگر نوٹوں کی منسوخی کا اعلان نہ ہوتا تو بورڈ کا اجلاس ایک تاریخی اجلاس ہوتا اور ہر زبان کے اخبار کی شہ سرخی بنتا۔ لیکن پورا اجلاس ایک مدرسہ کی مجلس شوریٰ کی طرح سمٹ کر رہ گیا۔ لیکن امید ہے کہ بورڈ کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگا اور اعلان کی حد تک وزیر اعظم کے مانگے ہوئے پچاس دن اور جہاندیدہ سیاست دانوں کے اندازوں کے مطابق دو چار برس میں جب بھی ملک کے حالات پٹری پر آئیں گے یکساں سول کوڈ منوں مٹی کے نیچے دفن ہوچکا ہوگا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی حیدرآباد میں باضابطہ تشکیل کو چالیس سال ہونے والے ہیں ۔بہت بڑی بات ہے کہ ملک کے نازک ترین حالات میں جو بورڈ ہر مسلک کے علماء کو لے کر بنا تھا اور جس میں مولانا مظفر حسین کچھوچھوی اور مولانا کلب عابد صاحب نائب صدر بنے تھے وہ تقریباً ان ہی خطوط پر چالیس سال سے رواں دواں ہے اور اس کے توڑنے کی ہر کوشش کے باوجود کسی کو کامیابی نہیں ملی۔
بورڈ کوئی جماعت صحابہؓ نہیں ہے کہ اس کے کسی فیصلہ پر تنقید گناہ ہو۔ اور ہم روز اول سے اپنی صلاحیت اور حیثیت کے اعتبار سے اچھا برا جیسا بھی لکھتے رہے ہیں اس کا بڑا حصہ اس اعتماد پر مبنی ہے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے معتبر آواز ہے۔ لیکن اس کے حلقہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے سے جو گندگی اس میں آگئی ہے۔ ہم نے نہ اسے برداشت کیا ہے اور نہ کریں گے۔ بورڈ سے ہمیں اس سے کم تعلق نہیں ہے جتنا مولانا ولی رحمانی کو ہے۔ اس لیے کہ یہ بورڈ تو بنایا ہی ہمارے ا ور مولانا ولی اللہ کے باپؒ نے ہے۔ اس کے جو تاج دار تھے وہ اعلان کی حد تک سوچنے اور فیصلہ کرنے سے الگ رہتے تھے لیکن اس کی دعوت کو پوری طاقت سے پیش کرتے تھے جس کا پروردگار نے انھیں خاص ملکہ دیا تھااور ان کے سرتاج کے لیے موزوں ترین تھے۔ ان دو کے علاوہ قاضی مجاہد الاسلام بھی ان میں تھے جو بنانے میں شریک تھے۔ ان تینوں بزرگوں کے بعد یہ گندگی آئی ہے جس کے بارے میں بورڈ کے سب بڑے جانتے ہیں۔ اور اگر بورڈ سے اللہ کی نصرت کی واپسی کا فیصلہ ہوا تو اس گندی کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی کالی بھیڑوں کو اس معتبر اور مستند ٹیم کا رکن بنا رہنے دینا صرف اس لیے کہ بورڈ کے بنانے والے دنیا میں نہیں رہے اور جو ہیں وہ خود محتسب بن کر میدان میں آنے کے اہل نہیں ہیں تو بورڈ کا یہ وزن کب تک باقی رہے گا؟ جو لوگ اتنے گندے ہیں کہ ان کی گندگی سے لاکھوں واقف ہیں۔ انھیں عہدہ کیا مشاہد بنا نا بھی بورڈ پر ظلم ہے۔
موبائل نمبر:9984247500