معین خاں کو قتل کرانے والوں سے ہمدردی کا جنگ پر الزام

Bhatkallys

Published in - Other

11:21AM Wed 29 Jun, 2016
حفیظ نعمانی دہلی میونسپل کا رپوریشن کے قانونی مشیر محمد معین خان کی شہادت اس لئے بھی ایک بہت بڑا حادثہ ہے کہ وہ صرف اس لئے شہید کئے گئے کہ انھوں نے رشوت لیکر جھوٹی رپورٹ دینے سے انکار کردیا تھا ۔ہمیں ایک ہندوستانی کی حیثیت سے بھی اسکی تکلیف ہے اور اس لئے بھی اور زیادہ تکلیف ہے کہ وہ مسلمان تھے اور ہر مسلمان کے ایمانی بھائی تھے ۔انہیں اس زمانہ میں شہید کیا گیا ہے جب وزیر اعظم فخر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہماری سرکار کے دوسال میںکوئی بھرشٹا چار نہیں ہے ۔تو کیا اسے بھرشٹا چار نہیں مانا جائیگا کہ ایک دولت مندانا جائز طریقہ سے ایک ہوٹل بنا رہا ہے ۔وہ دہلی کارپوریشن کی ہر پابندی کو نظر انداز کررہا ہے ۔ہوٹل بنانے کے لئے جتنے بھی قاعدے اور قانون ہیں سب کو نظر انداز کررہاہے ۔اور جب کارپوریشن کے افسر اپنے قانونی مشیر سے کہتے ہیں کہ وہ رپورٹ دیں کہ اس ہوٹل کی تعمیر میں کس کس قاعدے اور ضابطے کو نظر اندازکیا گیا ہے ۔اور کس کس معاملے میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو دولت کے نشہ میں چور ہوٹل مالک معین خاں سے کہتا ہے کہ آپ میرے حق میں رپور ٹ دیدیجئے اور چار کروڑ یا زیادہ یا کم روپے لے لیجئے ۔اور وہ قانونی مشیر اس لئے بھی رشوت لینے سے انکار کرتے ہیں کہ یہ خو د ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔ اور اس لئے بھی کہ وہ ایک مسلمان ہیں ۔اور اسلام کی شریعت میں کہا گیا ہے کہ ۔’’الراشی والمرتشی کلاہما فی النار‘‘رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے ۔ اور دولت کے نشہ میں چور غیر قانونی طریقہ سے ہوٹل بنانے والا انہیں یہ سوچ کر راستے سے ہٹا دیتا ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔اور جب دہلی کےوزیر اعلی اروند کیجریوال یہ چاہتے ہیں کہ صرف ان لوگوں کو ہی سز انہ ملے جنہوں نے قتل کی واردات کی ۔بلکہ انکو بھی بھر پور سزا ملے جس نے معین خاں کو شہید کرایا تو دہلی کے ایم پی درمیان میں آجاتے ہیں ۔اور وہ ہوٹل کے مالک کو بچانے کے لئےلیفٹیننٹ گورنر کو ایک خط لکھ دیتے ہیں ۔ جسکے الفاظ جو بھی ہوں مقصد اس ہوٹل والے کو بچانا تھا ۔اور جب مسٹر کیجروال لوک سبھا کےخط پر اور اس خط کو لیفٹیننٹ کے ذریعہ سکریٹریٹ کو بھیجنے پر اعتراض کرتے ہیں تو مسٹر جنگ بھی مقابلہ پر آجاتے ہیں ۔ ایک انتہائی قابل فخر ایماندارافسر کے قتل کے معاملہ میں بی جے پی کے ہر ممبر پارلیمنٹ کا فرض تھا کہ وہ قاتلوں اور قتل کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائیں ۔لیکن جب وزیر اعلیٰ کیجروال نے ان سب کو اس سازش کا شریک قرار دیا تو ایم پی صاحب اتنے جذباتی ہوئے کہ وہ کیجریوال کے گھر کے باہر بھوک ہڑتال پر لیٹ گئے ۔اور انھوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ دہلی حکومت کو ہی برخاست کردیا جائے ۔بھو ک ہڑتال ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔بھا جپا کے نیتا جی دو دن میں ہی ٹو ٹ گئے اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں موسمی کا رس پی کر بر ت توڑ دیا ۔اس کا ر نامہ کے وقت نکتہ چینی کے مریض سبرامنیم سوامی بھی انکی حمایت میں آگئے تھے یعنی سب اس ہوٹل والے کی حمایت میں ننگے ہوکر آگئے تھے۔ اب اگر اسے بھی وزیر اعظم بھرشٹا چار نہ مانیں تو یہ انکی مرضی ہے ۔ لیفیٹننٹ گورنر نجیب جنگ صاحب کے خلاف اب عام آدمی پارٹی نے مورچہ کھول دیا ہے ۔اوریہ اس لئے غلط نہیں ہے کہ اگر انکے پاس کسی نے کسی کی حمایت میں کوئی خط بھیجا تھا تو انکا فرض تھا کہ وہ اس پر سخت نوٹ لکھ کر وزیر داخلہ کو بھیجتے اور سفارش کرتے کہ وہ اسکی تحقیقات سی بی آئی سے کرادیں ۔اس لئے کہ ایک طرف ایک ایماندار افسر کی بیٹی سامنے ہے ۔اور دوسری طرف سیکڑوں کروڑ کا ناجائز ہوٹل بنانے والا ہے ۔جو چار کروڑ میں معین خاں کو خرید نا چاہتا تھا ۔وہ اب ہر اس آدمی کو چاہے وہ سیاسی نیتا ہو یا سرکاری عہدیدار خریدنے کی کوشش کریگا جو اسکی مخالفت کے لئے سامنے آئے گا ۔جہاں تک پولیس کا تعلق ہے ۔دہلی کی پولیس وزیر اعلی کے ماتحت نہیں ہے ۔وہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے جسکے نمائندے نجیب جنگ صاحب ہیں۔ اب اگر معین خاں مرحوم کے مقدمہ کی تحقیقات میں کوئی جھول آتا ہے تو اسکے ذمہ دار جنگ صاحب اور وہ ممبر پارلیمنٹ ہونگے جنکی ہمدردیاں ہوٹل مالک کے ساتھ ہیں ۔ جس وقت بی جے پی کے ایک ایم پی نےبھوک ہڑتال کا ڈرامہ شروع کیا تھا اسی وقت معین خاں مرحوم کی بیٹی نےبڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ میرے والد کی شہادت کوسیاست کا موضوع نہ بنایا جائے ۔بلکہ قتل کرنے اور قتل کرانے والوں کے خلاف تحقیقات پر توجہ دی جائے ۔نجیب جنگ صاحب بے شک مرکزی حکومت کے نمائندے ہیں ۔وہ دہلی کے آدھے معاملات کے ذمہ دار ہیں ۔معین خاں کی شہادت کے معاملہ میں کیجریوال سے بہت زیادہ انہیں آگے آگے آنا چاہئے تھا ۔اسکی ایک وجہ ایک ایسے ایماندار افسر کا قتل ہے جس نے وہ کیا جسے ہمارے ملک میں دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں ۔ملک میں افسروں کی ایک فوج ہے اور ہر دولت مند ڈنکے کی چوٹ پر قانونی پابندی کو نظر انداز کرکے من مانی کرتا ہے ۔اسکی وجہ اسکا یہ یقین ہے کہ اگر کوئی اعتراض کرگیا تو اسکا نوٹوں سے منہ بند کردیا جائے گا ۔اسکے منہ میں پہلے چند لاکھ ٹھونس دئے جائیں گے ۔نہیں مانا تو دو چار کرو ڑ لیکر تو مانے گا ؟ جو افسر کسی بھی قیمت پر حکومت سے غداری نہ کرے وہ اس قابل ہے کہ اسکی پوجا کی جائے ۔اور جنگ صاحب تو نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ اوپر سے نیچے تک ممتاز مسلمان خاندانوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔رشوت کی حدیث انہوں نے ضرور پڑھی ہوگی ۔ان پر تو اس لئے دوہری ذمہ داری ہے کہ وہ دہلی کی آدھی حکومت ہیں ۔اور مسلمان ہیں۔ انکی حکومت کا ایک ایماندار افسر اور وہ بھی مسلمان ۔صرف اس جرم میں شہید کر دیا جائے کہ وہ چار کرروڑ رشوت لینے سے اسلئے انکار کرتا ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے اور ملک کو بے ایمانی کا داغ لگانے سے ڈرتا ہے ۔اگر نجیب جنگ صاحب صرف حکومت کی خوشنودی کے لئے حکمراں پارٹی کے نیتا کے دبائو میںوہ کام کریں جسکا جواب وہ نہ ملک و قوم کو دے سکیں اور نہ خدا کو تو انہیں حکومت پر لات ما ر کر گھر آجانا چاہئے ۔یہ ہم جیسوں کو کیسے اچھا لگےگا کہ ایک حکومت کا حصہ پارٹی آواز دے رہی ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کو گرفتار کیا جائے ۔ان سے ہر بات کا جواب مانگا جائے ۔اور وہ سن رہے ہیں اور برداشت بھی کررہے ہیں ۔