کلیدِ کامیابی

Bhatkallys

Published in - Other

11:15AM Sat 26 Mar, 2016
حفیظ نعمانی 2014 میں وزیر اعظم کے امیدوار شری نریندر مودی کی بے مثال کامیابی کو اُن کی بے انتہا محنت اور آر ایس ایس کے کارسیوکوں کی قربانی کا نتیجہ قرار دیا جارہا تھا۔ اور ہم نے ہر بار لکھا تھا کہ اس کامیابی میں اس کالے دھن نے سب سے زیادہ مودی کی مدد کی جو نہ ہونے کے باوجود تھا۔ اور جس کے ہونے اور اتنا ہونے کی تصدیق بنے ہوئے بابا اور کہے جانے والے سنیاسی رام دیو نے ایک سال سے زیادہ درجنوں بار کی اور ہر ہندو مسلمان کو یقین ہوگیا کہ مودی جی سیاسی آدمی ہیں۔ وہ بھلے ہی جھوٹ بولیں لیکن بابا رام دیو کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں؟ جن کے ماننے والے لاکھوں ہیں۔ اور وہ ہر دن کہتے ہیں کہ میں نہ پارٹی بناؤں گا نہ الیکشن لڑوں گا اور نہ وزیر بنوں گا میں تو بابا ہوں اور بابا ہی رہوں گا۔ اور میں تو اپنی معلومات کی بناء پر کہہ رہا ہوں کہ دنیا بھر کے بینکوں میں ہندوستان کا چار لاکھ کروڑ روپیہ کالے دھن کی شکل میں پڑا ہے۔ اور یہ بھی بابا نے ہی کہا کہ مودی کی نہ جورو ہے نہ اولاد وہ اس روپئے کا کیا کرے گا؟ اور کس کے لئے رکھے گا؟ یہ تو بہار کے الیکشن کے وقت معلوم ہوا کہ مودی صاحب کی اس فتح عظیم میں پس پردہ کوئی پرشانت کشور اور ان کی ٹیم تھی۔ اور وہ مودی کو بتا رہی تھی کہ آپ کو کہاں کیا کہنا ہے اور کس سے کیا وعدہ کرنا ہے؟ اور یہ بھی اسی زمانہ میں معلوم ہوا کہ اس بار بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ان کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اور اب وہ نتیش اور لالو کو داؤ پیچ بتارہے ہیں کہ مودی صاحب کی کس تقریر کا کیا جواب دینا ہے اور کسے کہاں سے لڑانا ہے؟ اور بہار کے الیکشن میں ہی ان کی صورت دکھائی دی۔ پھر جب بہار کے الیکشن میں لالو یادو کو 90 سیٹیں ملیں اور کانگریس چار سے 27 پر کامیاب ہوگئی تو پھر ان کا قصیدہ پڑھا جانے لگا کہ بہار میں انہوں نے کرشمہ دکھادیا۔ اور اب اس کلید کامیابی کو نہ جانے کتنی قیمت ادا کرکے مسٹر راہل گاندھی اُترپردیش میں کانگریس کی حکومت بنوانے کے لئے لائے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ لوک سبھا اور بہار کی اسمبلی کے الیکشن میں جو کہا جارہا ہے وہی ہوا ہو۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب مودی کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جو 1998 ء میں اٹل جی کو بھی نہیں ہوئی تھی۔ اور ہر کسی کی زبان پر یہ بات تھی کہ ملک میں ایک پارٹی کی حکومت کا زمانہ چلا گیا۔ اب تو جو حکومت بھی بنے گی وہ یا کھچڑی ہوگی یا کھچڑا۔ ایسی حالت میں جس پرشانت کشور نے وہ کردکھایا کہ جس نے سب کی زبان بند کردی اور گجرات کے وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم بنوا دیا۔ اسے مودی یا بی جے پی نے بہار میں خود کو ذلیل کرنے کے لئے کیوں چھوڑ دیا؟ جبکہ بہار کا الیکشن مودی کے لئے اس سے زیادہ اہم تھا جتنا لالو اور نتیش کے لئے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ لوک سبھا کے الیکشن میں مودی نے بہار، اُترپردیش اور مدھیہ پردیش میں اتنی ریلیاں نہ کی ہوں گی جتنی صرف اس صوبائی الیکشن میں کردیں؟ اور اب راہل صاحب جو ڈھول باجے کے ساتھ ان کی بارات لے کر آئے ہیں تو وہ باتیں کیوں سامنے آرہی ہیں جو نہ لوک سبھا کے الیکشن میں آئی تھیں نہ بہار کے الیکشن میں کہ مسلمان ووٹ نہیں دیں گے۔ یا وزیر اعلیٰ کے لئے شیلا دکشت کا چہرہ سامنے رکھا جائے؟ اور راہل گاندھی کے جو بہت قریب مانے جاتے تھے وہ کیوں پریشان ہیں۔ اور کیوں ان سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ پرشانت کشور کے علم میں لائے بغیر نہ کیا جائے؟ مسٹر پرشانت کشور نے کہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی نزدیکیاں انتخابی مسئلہ بنائی جائیں۔ ہمارے جیسوں کو حیرت ہوگی کہ دن میں سورج اور رات میں چاند کی روشنی سے زیادہ واضح حقیقت کو موضوع بنانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ہر وہ انسان جسے سیاست کی اے بی سی ڈی بھی آتی ہوگی اسے معلوم ہے کہ بی جے پی کی حیثیت غلاموں کی ہے اور سنگھ اس کی مالک ہے۔ بی جے پی کا صدر کون ہو، سکریٹری کون ہو اور وزیر کس کس کو بنایا جائے؟ ان میں سے ایک فیصلہ بھی بی جے پی نہیں کرتی ہر فیصلہ سنگھ کے مکھیا کرتے ہیں۔ اسے الیکشن میں موضوع بنانا ہوسکتا ہے پرشانت صاحب کے نزدیک اہم ہو اُترپردیش کے لئے نہیں ہے۔ پرشانت کشور بہار کے رہنے والے ہیں اور برہمن ہیں۔ وہ یہ تو دیکھ رہے ہیں کہ دہلی میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیئے تھے لیکن یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ جو ابھی ابھی بہار کا الیکشن لڑاکر آرہے ہیں۔ وہاں صوبائی حکومت اور بی جے پی دونوں سے مسلمان انتہائی ناراض تھے۔ اور اس وجہ سے اسدالدین اویسی نے وہاں 6 مسلمان امیدوار اتارے تھے اور ان حلقوں سے اتارے تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ لیکن وہاں اویسی کے ہر امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ صرف مسلمانوں نے یہ دیکھا کہ شری مودی جان لڑائے دے رہے ہیں اور اگر وہ نتیش کو ہٹا دیں گے تو جو کوئی بھی آئے گا وہ ان سے برا نہیں بہت برا ہوگا۔ اور پرشانت کشور نے دیکھا کہ بہار میں مسلمانوں نے لالو کو بھی ووٹ دیئے اور کانگریس کو بھی اتنے دیئے کہ وہ چار سے 27 ہوگئی۔ اب پرشانت کا دہلی کو یاد رکھنا اور بہار کو بھول جانا ان کی سیاسی بصیرت کی حقیقت دکھا رہا ہے۔ مسٹر پرشانت کشور ہم سے بہت چھوٹے ہیں۔ چھوٹا ہونا کوئی کمزوری نہیں ہوتی۔ چھوٹے تو ہم سے شری مودی، امت شاہ اور سونیا گاندھی بھی ہیں۔ بات الیکشن کی ہے عمر کی نہیں۔ پرشانت نے جب لوک سبھا کا الیکشن لڑایا تو مقابلہ کئی رُخ کا ہونے کے باوجود مودی اور سونیا کا تھا۔ دہلی صوبہ میں مقابلہ بی جے پی اور کجریوال کا تھا۔ بہار میں سیکولر اور غیرسیکولر کا تھا۔ اُترپردیش میں اصل مقابلہ ملائم سنگھ اور مایاوتی کے درمیان ہے۔ بی جے پی اور کانگریس اب تک تیسرے اور چوتھے مقام کے لئے لڑتی رہی ہیں۔ اور ہمارے نزدیک آنے والے الیکشن میں بھی یہ دونوں پہلے اور دوسرے نمبر کے لئے نہیں لڑپائیں گی۔ رہے پرشانت کشور صاحب تو وہ بھی یہ سمجھ لیں کہ انہوں نے راہل گاندھی سے بیعانہ لے کر اپنے کو خطرہ میں ڈالا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ مسلمان کب کس کو ووٹ دیتا ہے اور کب نہیں دیتا؟ بہار میں اگر لالو، نتیش اور کانگریس الگ الگ لڑرہے ہوتے تو مسلمان لالو کو دیتے۔ وہاں کانگریس کو جو ووٹ ملا وہ سونیا راہل کی وجہ سے نہیں ملا لالو کی وجہ سے ملا ہے۔ اور اُترپردیش میں کوئی نہیں ہے جو مسلمانوں کے ووٹ دلا سکے۔ البتہ اگر مقابلہ صرف کانگریس اور بی جے پی کا رہ جائے تو ایک ایک ووٹ کانگریس کو جائے گا۔ حیرت ہے کہ مسٹر راہل گاندھی نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اگر پرشانت کشور ایسی ہی شاہ کلید ہے کہ اس سے ہر تالا کھل جاتا ہے تو مودی صاحب نے ہمیشہ کے لئے انہیں اپنے سے وابستہ کیوں نہیں کرلیا؟ ان کے سامنے بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ اور آسام کے علاوہ پنجاب کے الیکشن بھی ہیں جنہیں جیتنے کے لئے مودی صاحب پچاس ہزار کروڑ کا ٹھیکہ بھی دے دیتے تو سستا تھا کیونکہ پھر ان کی راجیہ سبھا کی فکر ختم ہوجاتی۔ پرشانت کشور صاحب نے ان دو گھوڑوں پر داؤ لگایا تھا جن کو جیتنا ہی تھا۔ وہ اب اُترپردیش میں کانگریس کی حکومت بنوادیں تو ہم انہیں اپنا استاذ مان لیں گے۔ یہ وہ خانہ ہے جو ابھی تک اس لئے خالی ہے کہ ہم نے اب تک ہار کا منھ نہیں دیکھا۔