اکتوبر 8:-:معروف شاعر جناب شاعر جمالی کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

10:33AM Mon 9 Oct, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی -------------------------------------------------------- شاعر جمالی کا پورا نام سید نظرالحسنین تھا ۔آپ کے والد کا نام سید شوکت علی اور و الدہ کا نام حامدہ بیگم ہے۔ شاعر جمالی کی پیدائش 15جون، 1943ء کو شہر بہرائچ کے مردم خیز محلہ، قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔آپ نے ایم ۔اے۔(اردو)تک کی تعلیم حاصل کی اور جون پور میں محکمہ صحت میں ہیلتھ سپر وائزر ہوئے اور جون پور سے ہی رٹائر ہوئے۔ شاعر جمالی کے والد، والدہ اور بھائی وٖغیرہ نے بعد میں شہربہرائچ سے نانپارہ جاکر وہیں سکونت اختیار کر لی جس کی وجہ سے شاعر جمالی اکثر نانپارہ آیا کرتے اور شاعر شارق ربانی کے مکان کے قریب واقع اپنے والد اور والدہ کی رہائش گاہ پر ٹہرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔ شاعر جمالی کی زندگی کا زیادہ حصہ جون پور میں ہی گزرا ۔شاعر جمالی نے آل انڈیا مشاعروں کے علاوہ بیرونی ممالک کے مشاعروں جیسے دوہا قظر،، دبئی ،ابو ظہبی،وغیرہ میں بھی شرکت کی اور کافی شہرت حاصل کی۔’’شاعراور ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ شاعر جمالی بہترین غزلیں کہتے تھے اور اردو ادب کی باکمال شخصیت تھے۔‘‘ شاعر جمالی کو ان کے شعری مجموعہ ’’لہجہ‘‘ پر اردو اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے اور ادبی خدمات کے لئے انہیں ’’پوروانچل رتن اعزاز ‘‘ نظیر بنارسی ایوارڈ اور آل انڈیا کامل ایووارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ۔۔۔۔۔ شاعر جمالی کے تین شعری مجموعے ہیں۔ پہلا ۔ کرب، دوسرا۔ صحیفہ اور تیسرا۔ لہجہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر جمالی کے راحت اندوری ،بشیر بدر ،انور جلال پوری ،اظہار وارثی ،اثر بہرائچی ،معراج فیض آبادی ،احمد نثار ،اسلم آلہ آبادی،عالم غازی پوری، شارق ربانی وغیرہ سے قریبی تعلقات تھے۔ ۔۔۔۔۔ شاعر جمالی کا انتقال 8اکتوبر، 2008ء کو ایک آل انڈیا مشاعرہ میں شرکت کے لئے جاتے وقت فیض آباد ریلوے اسٹیشن پر ہوا تھا اور تدفین نانپارہ میں ہوئی تھی، جس میں کشیر تعداد میں مقامی اور بیرونی ادبی شخصیات نے بھی شر کت کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے خوشبو کے بند کھول دیۓ اب ہوا تیری ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا خط خود مجھ کو پڑھنے لگتا ہے اس کے ایک ایک لفظ میں آنکھیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفید پوش بھکاری غریب لوگوں سے کچھ اور چیز نہیں تخت و تاج مانگتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ ایک بشر تھا مگر نور ہو گیا وہ شخص کہ جب حیات کا دستور ہو گیا وہ شخص ابھی تو میں نے ستائش کی ابتدا کی تھی ابھی سے کس لیے مغرور ہو گیا وہ شخص تھا جس کو ناز بہت اپنی دستگیری پر سنا ہے ہاتھوں سے معذور ہو گیا وہ شخص ستم نے بظاہر اس کو تباہ کر ڈالا ستم کے سینے کا ناسور ہو گیا وہ شخص وہ اتنی تیز اجالوں کی سمت بھاگا تھا کہ تھک کے بیٹھا تو بے نور ہو گیا وہ شخص یہ سایہ دار درختوں کا فیضِ صحبت تھا پڑی جو دھوپ تو کافور ہو گیا وہ شخص تمام عمر وہ میری مخالفت میں رہا بس اتنی بات پہ مشہور ہو گیا وہ شخص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر جو میرا اب تمہارے پتھروں کی زد پہ ہے سن رہا ہوں اس کا بھی الزام میرے قد پہ ہے کون ظالم کون ہے مظلوم اس کا فیصلہ حشر میں ہوگا مگراب حشر کی آمد پہ ہے آسماں سے پھر لہو کی بارشیں ہونے کو ہیں اک کبوتر آج پھر بیٹھا ہو ا بر گد پہ ہے لاش اس کی کھا گئے مل جل کے کالے بھیڑئے اور اسکی ماں سمجھتی ہے کہ وہ سر حد پر ہے اپنے اندر جھانکنے کی ان کو فرصت ہی کہاں جن کی چشم معتبر دنیا کے نیک و بد پہ ہے جنگ کس نے جیت لی اور ہوگئی کس کو شکست انحصار اس فیصلے کا جنگ کے مقصد پہ ہے اب مجھے سچائی کی عظمت کا اندازا ہوا !! اب مری گردن یزیدی خنجروں کی زد پہ ہے دیکھئے تو ساری دنیا ہی مہذب ہو چکی سوچئے تو یہ ابھی تہذیب کی ابجد پہ ہے تاجروں نے اس کا سون لے لیا مٹی کے مول بحث فنکاروں میں اب تک اسکے خال و خد پہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمیں پہ پھینک دے مجھ کو کہ آسمان میں رکھ ترا صحیفہ ہوں تو چاہے جس جہان میں رکھ فلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہیں زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ جوان تو بھی ہے میں بھی ہوں شب ہے ایسا کر خدا کے نام کی تلوار درمیان میں رکھ سکوں ملے گا تو اندر کا شخص جاگے گا سفر تمام نہ کر جسم کو تکان میں رکھ خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے قدم نہ بھول کے گرتے ہوئے مکان میں رکھ لہو بہے گا تو صدیوں پہ پھیل جائے گا لہو بہانے سے پہلے یہ بات دھیان میں رکھ ہمارے دور نے ہم کو یہی سکھایا ہے ہو دل میں زہر مگر چاشنی زبان میں رکھ