تجربات و مشاھدات (8)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی ۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

11:04AM Tue 4 May, 2021

نصیحت :۔

 دیوبند میں اپنے برزخی عھد میں ایک دن خیال ہواکہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب کی زیارت کی  جائے,حضرت تھانوی رح کے خلفاء میں ان کا ایک خاص اور امتیازی مقام تھا،  چنانچہ عمران ذاکر  کے ساتھ  ہم جلال آباد پہنچے ، نماز کے بعد مسجد سے  حضرت کے پیچھے چلنے لگے تھوڑی دور چلنے کے بعد اچانک رکے پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ:۔

دل میں خشیت ہو تو انسان کے قدم غلط نہیں ااٹھتے

پھر چلنے لگے

ہم تو یہی سننے کیلئے گئے ہی تھے

کچھ دور چلنے کے بعد پھر رکے اورمیری طرف  متوجہ ہوکر فرمایا :۔

بیان القر آن میں "وآتیناہ من لدنا علما"کی تفسیر دیکھ لیجئے گا

ظاھر ہے دونوں نصحیتیں  اسوقت ہماری عمر کے لحاظ سے اہم  تھیں ایک طرف جذبات کوعملی زندگی میں کنٹرول کرنےکے لئے۔

اور دوسری طرف  علمی میدان میں ہر چیز پڑھ لینے کے جذبہ کو  لگام دینے کیلئے بھی ضروری تھیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے" اللہم انی اعوذ بک من علم لاینفع " ،بھی سکھلایا ہے۔

 ساتھ ہی علم کا ایک باب وہ بھی جو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے کسی بندہ کو عطا کرتا ہے جو" لدنی "کہلاتا ہے

نصیحت کی یہ تشریح میری ہے انہوں نے صرف وہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے جن سے میں یہ سمجھا

اسکے بعد حضرت ایک چار پائی پر لیٹ گئے  تو میرے بچکانہ سوال واشکال کا سلسلہ شروع ہوا:۔

جب اعمال سارے اختیاری ہیں تو پھر کسی شیخ سے تعلق قائم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

 فرمایا :آدمی کو اپنے نفس کی پیچیدگیوں کا علم نہیں ہوتا اور عیوب معلوم بھی ہوں تو علاج  معلوم نہیں ہوتا یا دوا دور ہوتی ہے وہاں پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔

میں نے عرض کیا کہ دیکھنے میں تو یہ  بھی آتا کہ بعض لوگوں کو خلافت بھی مل جاتی ہے اس  کے باوجود وہ کبائر سے بھی اجتناب نہیں کرپاتے۔

میں اس طرح کے شبھات کا ذکر کرتا رہا اور حضرت بڑی محبت سے ایک ماہر ومشفق معالج کی طرح سمجھاتے رہے، رحمه الله رحمة واسعة ۔

 پھر ہم دعا کی درخواست کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے

بزرگوں سے مل کر بھی فائدہ بقدر ظرف وطلب صادق ہی ہوتا ہے -

 تہی دستان قسمت را چہ سود از رہبر کامل

 کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندر را

               ترجمانی

حکیم الا سلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے دماغ کی ساخت ہی اللہ نے حکیمانہ رکھی تھی، بات سے بات پیدا کرنا معاملہ کی حقیقت تک جلد پہنچ جا نا مسائل کی علت اورشرعی احکا م کے مقاصد پر نظر رکھنا علوم میں ترتیب بھی انکی الگ ہی تھی۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی  کے فلسفہ تشریع اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کے طرز استدلال سے دائمی شغف نے ان کو خود بھی سراپا حکمت بنادیا تھا۔

قاری محمد طیب صاحب نے ایک طویل سفر امریکا کا کیا لندن بھی جانا ہوا ایک تقریر کے دوران مغربی تہذیب کی بے راہ روی  شراب نوشی کی کثرت اوردوسری اخلاقی گراوٹوں کو بیان کرتے ہوئے فارسی میں ایک شعر کہا فرمایا :

 پنج۔ چیز است   تحفہ لندن

 خمرو خنزیر و سود وسٹہ وزن

 امریکہ میں وہاں کی  مادی خوش حالی  وسائنسی ترقیات کو موضوع  بحث بنا کر  آپ کے  کئی خطاب ہوئے اور بے حد موثر رہے۔

میں نے ان تقریروں کا امکانی  خلاصہ  اپنے ذھن سے کیا اور بڑ ی بڑی سرخیوں کے ساتھ  عربی میں ان کو شائع کیا

حضرت قاری ص  اپنے وہاں کے بیانات اور تقریروں کا خلاصہ دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہمیں اب کیا دشواری ہو سکتی ہے ؟

اسی طرح کی نوبت ایک بار قاضی مجاھد الاسلا قاسمی صا حب کے ساتھ  پیش آئی, میں انہیں کویت کے عربی  روزنامہ " الانباء "کے آفس لے گیا۔

انٹرویو کے بعد   صحافی نے رات کو  ہونے والے محاضرے کی کاپی مانگی۔

تو میں نے اپنی جیب سے ٹائپ شدہ ایک صفحہ نکال کرصحافی کو دیدیا۔

قاضی صاحب مجھے گھور تے رہے اور بعد میں دریافت کیا کہ یہ کیا حرکت تم نے کی ؟

میں نے کہا آنے والی رات میں آپ جو خطاب فرمائنگے یہ اسی کا خلا صہ ہے جو میں نے اسکو دیا ہے

قاضی صاحب حیرت ہی کرتے رہے۔

میں نے کہا کہ :۔

" اسلام اور عصر حاضر " آپ کا موضوع ہے جو کچھ کہیں گے وہ یہی تو ہو گا۔

پڑھ کر خوش ہوئے دعائیں دیں ۔

             شرار بولہبی :۔

        مدت ہوئی دیوبند سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد میں تھا مولانا محمد رضوان القاسمی کے کہنے پر میں  حیدر گوڑے کی مسجد میں تراویح کے بعد  مختصر تفسیر ی خلاصہ بیان کرنے لگا،ایک  معمر شخص کالے لباس اور  پگڑی میں ملبوس مسجد میں آکر مقیم یوگیا لوگ ضرورت مند سمجھ کر  خاموش رہے، ایک دن اس نے اپنے پیر  کاذکر کیا کہ وہ عجیب وغریب خصوصیت کا حامل ہے لوگ اسکو سجدہ کرتے ہیں، پیر کا نام خواجہ وینکرداس ہے ,

اور" وٹ پلی" نامی جگہ میں اسکی خانقاہ ہے اسمیں حوریں ہیں، سجدہ کرانے کا ذکر  سن کر میں نے جانے کا فیصلہ کرلیا چار افراد کے ساتھ چل پڑا اس کالے پیر کو بھی ساتھ رکھا جو خود کو اس کا مرید کہتا تھا:۔

شہر سے 70 کیلو میٹر دور میدان میں چند جھو پڑے سے بنے ہوئے  تھے ,دو تین آدمی گاتے ہوئے کہ اس سلسلہ میں جو قدم رکھے گا اس کا پہلا  قدم عرش پر ہوگا ۔

 نماز روزے کا کہیں ذکر نہ چرچا  پانی منگواکر ہم لوگوں نے ظہر کی نماز ادا کی۔

اسکے بعد خواجہ وینکر داس اپنی کٹیا سے نکل کر سامنے کرسی پر بیٹھ گئے معمر آدمی جسم پر کپڑا گاندھی جی کی طرح برائے نام ,اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے میں نے ہی سوال کیا کہ يہان نہ کوئی نماز پڑھتا ہے اور نہ روزہ  رکھتا ہے  پھر یہ خانقاہ کیا ہے؟

بوڑھے نے   (ھو الاول والآخر والظاہر والباطن ،) پڑھ کر یہ ثابت  کرنے کی کوشش کی کہ العیاذ با للہ ، اللہ تعالی  اس میں حلول کئے ہوئے ہے۔

اب اسے عبادات کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

میں نے اسکی گمراہی کو ظاہر کرنے کے ساتھ آیت کا صحیح مفہوم بتانا شروع کیا۔

دیر تک بحث ہوتی رہی یہاں تک کہ تیلگو بولنے والے  چند نوجوان آئے ہدیہ پیش کیا اور اسکے سامنے  سجدہ میں گر پڑے، یہ دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا اور میں  چیخ پڑا:۔

  یہ زمین تم نے بنائی ہے؟

یہ آسمان  تم نے بنایا ہے ؟

یہ پیشانی تم نے بنائی ہے؟

نہیں!۔

 تو پھر تم کو  اس کا حق کس نے دیا  کہ تم ان سے سجدے کراؤ ؟

اس پر میری چیخ کا ایسا اثر پڑا کہ اس نے دبی زبان سے یہ اقرار کرلیا کہ" کھانے پینےکے طریقے مختلف ہوتے ہیں"

چنانچہ میں نے گفتگو ختم کردی۔

 " ان للکسب طرقا" کے اعتراف کے بعد اب بحث وگفتگو  کا حاصل ہی کیا رہ گیا تھا ؟!

اس نے میرے ہاتھ چومے  گاڑی کے دروازے کھولے ۔

اسکا مرید یہ دیکھ کر دم بخود  کہ لوگ  یہاں آکر خواجہ کو سجدہ کرتے ہیں لیکن اس نوجوان نے کیا کیا ہے کہ خود پیرصاحب خواجہ وینکر داس اسکے ہاتھ چوم رہے ہیں،  گاڑی تک اسے چھوڑنے جارہے ہیں اور گاڑی کا دروازہ  کھول رہے ہیں ان ھذا  لشیئ عجاب ۔

اللہ کا فضل ہے کہ سفلی عمل سے ہم ڈر رہے تھے لیکن اس کا اثر الٹا ہی ہوا۔

وانقلب السحر علی الساحر

 فالحمد للہ علی ذلک

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/