فسطائیت کا گھناؤنا چہرہ۔۔۔ہجوم کے ہاتھوں"انصاف اور قتل "کا نیا سلسلہ! (دوسری قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
گزشتہ قسط میں ہم نے فسطائیت یا فاشزم کی تعریف ، اجزائے ترکیبی اور بنیادی خصوصیات کا تفصیلی جائزہ لیا جس کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ ہندوستان کا موجودہ نظام حکومت جمہوریت کے دائرے سے نکل کر فاشزم کے مدار میں پوری طرح داخل ہونے کے لئے تیار ہوچکا ہے۔جس کے ایک گھناؤنے روپ کے طور پر ہجوم کے ہاتھوں" انصاف اور قتل" یا mob lynchingکا سفاکانہ دور شروع ہو گیا ہے جو خود اپنے آپ میں فاشزم کا جزئے لاینفک ہوتا ہے ۔تاریخ اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے۔شکر ہے کہ ابھی اس کے خلاف پورے ملک میں ایک ہلچل بھی ہوئی اور "ناٹ ان مائی نیم"کے عنوان سے زبردست جوش و خروش کے ساتھ عوامی سطح پرمظاہرے بھی ہوئے۔
مخالفت جوتی کی نوک پر!: میں نے گزشتہ قسط میں اشارہ کرہی دیا تھا کہ عوام کا بیدار ہونا اور ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا یقیناًاچھی بات ہے ۔ اس سے مظلوموں اور بے بسوں کو اخلاقی سہارا ملتا ہے۔ لیکن اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی مخالفانہ صف آرائی کو جوتی کی نوک پر رکھنا فسطائیت یا فاشزم کے ڈی این اے میں شامل ہے۔اور یہ بات موجودہ حالات میں بھی واضح ہوتی جارہی ہے۔ایک طرف" ناٹ ان مائی نیم" تحریک کے دوران بھی پرتشدد حملے رُکے نہیں تھے۔اوردوسری طرف اس تحریک کی لَے بھی ایک ہفتے کے اندر ہی مدھم ہوگئی۔اب لے دے کے بجھتے ہوئے دئے کی طرح ایک موہوم سی آس رہ جاتی ہے کہ یہ جو مظلوموں کے ساتھ عوام کے باشعور طبقے کی جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی اوریکجہتیsolidarityکا رنگ ابھرا تھا، وہ شاید آئندہ انتخابات کا نقشہ بدلنے میں کام آ جائے۔
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا
آخر مودی جی کی زبان بھی کھلی !: ہوا کے دوش پر ہمیشہ گرم سفر رہنے والے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی بھی گائے کے نام پر تشدداور قتل کرنے والوں کے خلاف بولے۔ وہ اس سے پہلے2016 میں بھی بولے تھے۔اب جبکہ ناٹ ان مائی نیم کی ابھرتی آوازیں فضا میں بلندہونے لگیں توشاید رسم دنیا نبھانایا سیاسی پینترے بازی کرنا ان کے لئے بھی ضروری ہوگیاتھا۔سو انہوں نے بھی دکھ اور ملامت کا اظہار کیا۔56انچ کے سینے والے صاحب بہادر مودی جی نے تو بڑی ہمت کے ساتھ کہا تھا کہ گائے کے تحفظ کے نام پر دلتوں کی جان لینے کے بجائے(خیال رہے کہ یہاں مسلمانوں کا تذکرہ نہیں ہے!) گؤ رکھشک چاہیں تو ان پر گولی چلائیں۔یاد آتا ہے کہ انہوں نے 80فیصد سے زیادہ گؤ رکھشکوں کو" سماج دشمن عناصر" اور غنڈوں سے بھی تشبیہ دی تھی۔
اب کی بار بھی وہ گجرات کے ایک جلسے میں29جون کے دن خطاب کرتے ہوئے بولے: "آج جب بھی میں سنتاہوں کہ گائے کے نام پر کسی کا قتل ہوا ہے، وہ خطاکار ہے یا معصوم ہے اس کا فیصلہ قانون کو کرنا ہے۔ کسی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں پہنچتا۔گؤ بھکتی کے نام پر انسانی قتل کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔"
تم بولتے رہو، ہم مارتے رہیں گے!: لیکن دیش کے پردھان منتری کے اس بیان کو بھی انہی کے چیلوں نے ہوا میں اڑادیا اور اسی دن یعنی 29 جون کو جھارکھنڈ میں اصغر علی عرف علیم الدین نامی ایک گوشت کے بیوپاری کوہجوم نے پیٹ پیٹ کرہلاک کردیا۔اس سے ایک بات تو صاف ہوگئی کہ برسہا برس سے جن کے دلوں اور دماغوں میں ایک خاص فرقے کے خلاف زہر بھرنے کی منظم کوشش کی گئی تھی، اب وہ سانپ اجگر بن چکے ہیں اور خود اپنے مداریوں کے قبضے سے باہر ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پردھان منتری کے ملامتی بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے گؤ رکھشکوں سے معافی مانگنے تک کا مطالبہ کرڈالا۔وشوا ہندو پریشد نے کہا تھا کہ گائے کا تحفظ ایک زمانے سے ہورہا ہے اوروہ لوگ اس سے باز آنے والے نہیں ہیں۔اور ہندو مہاسبھا نے تو مودی جی کے اس بیان کو "ہندو دشمن" بیان قرار دے دیا تھا۔ایک معتبر انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق راشٹریہ گؤ رکھشا دل کے چیف پون پنڈت نے تو مودی جی کو اس بیان کے لئے آئندہ الیکشن میں سبق سکھانے کی تک دھمکی دے ڈالی۔یعنی مطلب صاف ہے کہ مودی جی بولیں یا آر ایس ایس چیف بولیں۔ کسی پر اس کا اثر ہونے والا نہیں ہے۔جب درندوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر درندگی کے مناظر دیکھنے ہی ہونگے۔اسی لیے کچھ لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ:
شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیے
قاتلانہ وارداتوں پر ایک سرسری نظر: سال 2014سے 2017تک تین سال کے عرصے میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف ہجوم کے ہاتھوں انصاف کے نام پر ہونے والی بڑی بڑی قاتلانہ وارداتوں پر ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں تو آنے والے دنوں کی سنگینی کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔اس تعلق سے میڈیاکے مختلف ویب سائٹس پر موجود خبروں کو یکجا کرنے پر جو خوفناک تصویر سامنے آتی ہے وہ یوں ہے:
(نوٹ:خیال رہے کہ اس فہرست سے ہٹ کر ایسی درجنوں وارداتیں اور بھی ہونگی جن کو مقامی سطح پر دبا دیا گیا ہوگا یا نیشنل لیول پر میڈیا میں کوریج نہیں ملا ہوگااوروہ ریکارڈ پر آنے سے رہ گئی ہونگی)
۱۔شروعات ہم محسن شیخ سے کرتے ہیں، جسے زعفرانی غنڈوں نے ڈاڑھی جیسے اس کے اسلامی تشخص کی وجہ 2جون 2014کو اس وقت قتل کردیا تھا جب وہ مغرب کی نماز ادا کرکے گھر لوٹ رہاتھا۔
۲۔5مارچ 2015: ناگالینڈ کے دیما پورمیں تقریباً7ہزار افراد کی ایک بھیڑ نے سید فرید خان نامی نوجوان کوعصمت دری کا الزام لگاتے ہوئے ہلاک کردیا ۔
۳۔ 28ستمبر 2015: یو پی کے دادری علاقے میں اخلاق (۴۵سال)نامی مسلمان کو بھیڑ نے اس وجہ سے ہلاک کردیا کیونکہ مبینہ طور پر اس کے فریج سے بیف بر آمد ہواتھا۔جس کے بارے میں بعد میں رپورٹ آئی کہ یہ غلط الزام تھا۔
۴۔ 18اکتوبر2015: جموں کے اودھم پور میں زاہد رسول بھٹ(۱۶سال) نامی ایک ٹرک ڈرائیور پر گؤ رکھشکوں کی طرف سے بم پھینکا گیااور وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا ،جبکہ اس کے ٹرک کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
۵۔31جنوری 2016: کیرالہ کے آٹینگل میں شبیر نامی نوجوان کو کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ نے ہاکی اسٹکس سے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔شبیر کا قصوریہ تھا کہ وہ ایک جرم کے سلسلے میں عدالت میں گواہی دے رہاتھا۔
۶۔ 20فروری 2016: مہاراشٹرا کے لاتور میں ایک مسلم پولیس اہلکار کو گھیر کر سر عام پیٹائی کی گئی اور اسے "جئے بھوانی"کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ (ہندو مائتھالوجی کے حساب سے بھوانی کو امبا اور درگمبا بھی کہا جاتاہے ۔ یہ دُرگاہ کا ایک روپ ہے اور اسے پاروتی دیوی کا اوتار ماناجاتا ہے)
۷۔18مارچ 2016: جھارکنڈمیں محمد مظلوم (۳۵سال)اور عنایت اللہ خان(۱۲سال) کو گؤ رکھشا کے نام پر نہ صرف ہلاک کیا گیا بلکہ ان کی لاشیں رسی کا پھندا لگاکرسنسان علاقے میں درخت کی شاخوں پر لٹکادی گئیں۔
۸۔7اپریل 2016: منی پور کے امفال میں محمد صدام اور محمدفاروق کو فرقہ وارانہ کشید گی میں ہجوم کے ہاتھوں اپنی جان گنوانی پڑی۔
۹۔ 30مئی 2016: چتّوڑ گڑھ ضلع کے صدری میں اَجّوحسین نامی مویشی کے تاجرکو گؤرکھشکوں نے برہنہ کرکے شہر میں گھمانے کے بعد پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔
۱۰۔ 26جولائی 2016: مدھیہ پردیش میں ٹرین میں جارہی مسلم خواتین کی اس الزام کے تحت بری طرح پیٹائی کی گئی کہ وہ اپنے ساتھ بیف لے جارہی تھیں۔
۱۱۔12ستمبر2016: آنند نگر گجرات میں مویشی کے تاجرمحمد ایوب پر دو بچھڑے لے جاتے وقت گؤرکھشکوں کا قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 17ستمبر کو جاں بحق ہوگیا۔
۱۲۔ 15اکتوبر2016: ہماچل پردیش کے سراہاں نامی علاقے میں مبینہ طور پر مویشی اسمگل کرنے کے الزام میں نعمان نامی ایک شخص کو مارڈالا گیا۔
۱۳۔یکم اپریل 2017: ہریانہ کے آلوار علاقے میں دودھ کے کاروباری پہلو خان(۵۵سال) کو گؤ رکھشا کے نام پرہجوم نے ہلاک کردیا۔
۱۴۔ 5اپریل 2017: جھارکنڈ میں ہندو لڑکی سے عشق لڑانے کے الزام میں محمد سالک نامی ۱۹سالہ نوجوان کو درخت سے باندھ کربے رحمی سے پیٹائی کی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
۱۵۔30اپریل 2017: آسام کے ناگاؤں میں مویشی چرانے کے شک میں ابو حنیفہ (۲۳سال)اور ریاض الدین علی (۲۴سال)ہجوم کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
۱۶۔ 2مئی 2017: یو پی کے بلند شہر میں اپنے رشتے دار کو غیر مسلم لڑکی کے ساتھ فرار ہونے میں مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ نے غلام محمد نامی۶۲سالہ بزرگ کوجان سے مارڈالا۔
۱۴۔7مئی 2017: مدھیہ پردیش کے بھوپال میں سلمان نامی نوجوان کوایک گروہ نے اپنی کار سے باندھ کرگھیسٹا،پھر اس کا سرایک واٹر ٹینکرسے ٹکرایا اور جب وہ گر گیا تو دن دہاڑے بھری پری سڑک پرلوگوں کے سامنے اس کے اوپر سے کار(suv) دوڑاکر اسے ہلاک کردیا گیا۔
۱۵۔ 18مئی 2017: جھارکنڈ کے شوبھاپورمیں بچے چرانے کا جھوٹا الزام لگاکر شیخ نعیم، شیخ سراج اور شیخ حلیم نامی نوجوانوں کو ہجوم نے ہلاک کردیا۔
۱۶۔ 10جون 2017: مہاراشٹرا کے نندوبارمیں فسادیوں نے شبیر شیخ معصوم نامی مسلمان کو زندہ جلاڈالا۔
۱۷۔16جون 2017: راجستھان کے پرتاپ گڑھ میں ایک کھلی جگہ پررفع حاجت کرنے والی خاتون کی تصویر اتارنے سے روکناظفرحسین خان نامی ایک سوشیل ورکر کواتنا مہنگا پڑا کہ ایسی گندی حرکت میں ملوث میونسپالٹی کے اہلکاروں نے اسے جان سے مارڈالا۔
۱۸۔ 22جون 2017: ہریانہ کے پلوالہ میں چلتی ٹرین میں رمضان کے آخری عشرے میں روزہ دار جنید (۱۶سال) کوہجوم نے چاقو گھونپ کرہلاک کر ڈالا۔جبکہ جنید کے دوبھائیوں کو بھی شدید زخمی کردیا گیاتھا۔
(جس کے بعدمسلمانوں اور دلتوں کے خلاف اس طرح کی ہجوم کی غنڈہ گردی کی مخالفت میں" ناٹ ان مائی نیم "کی تحریک نے سر اٹھایا جس سے مظلوموں کے حوصلے بلند ہوئے تھے، لیکن بدقسمتی سے عوام کا وہ جوش اور جذبہ اب محض سمندری جھاگ ہی ثابت ہوتا نظر آرہاہے۔)
۱۹۔ 22جون 2017: کشمیر کے سری نگر میں محمد ایوب پنڈت نامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے ہجوم کے تشدد میں اپنی جان گنوائی۔
قتل کی کوشش کے معاملے الگ ہیں: یہ ان واردتوں کی ایک نامکمل فہرست ہے جن میں ہجوم نے صرف مسلمانوں کو مار ڈالا ہے۔دو ایک معاملات میں دلت بھی اس انجام کو پہنچے ہیں۔ مگر ایک فہرست اور بھی ہے جس میں گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں او دلتوں کوہجوم کے ذریعے جان سے مارنے کی پوری کوشش کی گئی ، لیکن کبھی کبھار پولیس کی مداخلت یا کسی اور وجہ سے ادھ مری حالت میں وہ زندہ بچنے میں کامیاب ہوگئے۔اتنے خونریز اور وحشتناک واقعات کے بعدبھی سنگھی قائدین اسی طرح چین کی بانسری بجار ہے ہیں جس طرح اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر روم کو نذر آتش کرکے نیرو بانسری بجارہاتھا۔
یوں تو ہر شام امیدوں پہ گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا(وزیراعظم اور رام مادھوکے بیانات۔۔ یا ۔۔شاطرانہ چالیں۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں)
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مضمون نگار کی ذاتی آراء پر مشتمل ہے ۔ اس میں درج کسی بھی بات سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ