ہم ’چوتھے‘ کلاس میں تھے کہ ہمارے اسکول ’تعلیم گاہ نسواں انٹر کالج ‘کے ’بڑے کلاسز‘ کے لۓ ایک نئ انگلش ٹیچرآیئں ۔آئ تو وہ صرف بڑے کلاسز کے لۓ تھیں مگر انکی منفرد شخصیت نے تمام لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ،چہرے پر صبح کشمیر کی تازگی لۓ ۔جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی اورسخت پردہ نشین مگر فر فر انگریزی بولتی ہوئ استانی ۔ اور ہم تو یوں بھی متوجہ ہوۓ کہ وہ ہماری سگی پھوپھی کی ’انگریزی کی استانی‘ تھیں ،اگرچہ اس وقت ہم انگریزی نہیں پڑھتے تھے کیونکہ اس وقت انگریزی زبان کلاس چھہ سے شروع ہوتی تھی ،’انگلش بیسک ریڈر ‘ نامی کتاب کے پہلے صفحے پر ’تلے اوپر ‘ بڑی اور چھوٹی ’ اے بی سی ڈی‘ لکھی ہوتی تھی اور اگلے صفحے پر ’اے مین ، دس از اے مین‘ سے انگریزی سبق شروع ہوجاتا تھا ، اور ساتھ ہی ’دس‘ اور دیٹ‘ کا فرق بتانے والا کوئ جملہ بھی موجود نہیں ہوتا تھا ، پھو پھو سے اکثر گھر میں بھی ان نئ استانی کا ذکر سنا کرتے تھے ، حضرات خاندان ’خواجگان‘ کہ جنکا تعلق خطۂ کشمیر جنت نذیر‘ سے ہے، لکھنؤشہر کی ادبی سماجی اورسیاسی سرگرمیوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور آج بھی رکھتے ہیں ِ۔’پرانے لکھنؤ شہر میں ایک طرف اگر ’کشمیری پنڈتوں ‘ نے محلہ ’کشمیری محلہ ‘آباد کیا اور اپنی لڑکیوں کی پڑھائ کے لۓ ’کشمیری محلہ گرلز اسکول ‘ نامی اسکول ‘ قائم کیا تو وہیں ’ نخاس اور راجہ بازار کے درمیان ’کنگھی والی گلی‘بازار چوک سے متصل محلہ’ جوہری محلہ‘اور ’جھوائ ٹولہ‘محلہ کہ جہاں’طبیہ کالج ‘قائم ہے اور ممبران خاندان خواجگان ‘ آباد ہیں ،خواجہ قطب الدین روڈ ، اور خواجہ حکیم شمس الدین روڈ اسی خاندان کے دو معزز روشن چراغوں کے نام سے موسوم ہے۔ اسی خاندان کی دو بیٹیاں ہمارے اسکول میں پڑھاتی تھیں ۔
چوک کے بازار کی ’پرانی سبزی منڈی‘کے اطراف گلیوں میں بھی خواجگان آباد ہیں ، یہاں بھی مشہور ’یوسف صاحب ، عینک والے‘کی خوش دامن صاحبہ نے لڑکیوں کا ایک اسکول کھولا تھا جسکا نام ’سبزی منڈی اسکول ‘ ہی تھا ،ہماری بہت سی عزیزدار بچیوں نے تعلیمگاہ نسواں باقاعدہ جانے سے پہلے اسی ’ سبزی منڈی‘ میں پڑھا تھا ،آج بھی یہ اسکول موجود ہے ، اسکول کی بانی ’اماں جان‘ کے نام سے مشہور تھیں ،اماں جان کی بیٹی ’جمیلہ خالہ‘ سے ہماری امی کی دوستی تھی ۔حسین ترین جمیلہ خالہ۔ امان جان ، میلاد شریف میں ’تقریر ‘ کرتی تھیں ، جو ہمارے لۓ حیران کن بات تھی ، ہم نے میلاد شریف میں ’مردوں ‘ کو تقریر کرتے بہت دیکھا سنا تھا اور خواتین کو نعتیں پڑھتے اور ’روایات‘ پڑھتے دیکھا تھا مگر تقریر ‘ کرتے تب تک نہیں دیکھا تھا ۔بہت زمانے پہلے لکھنؤ کی معروف حویلی ’احمد منزل ‘ میں اماں جان تقریر کر رہی تھیں اور اکرم صاحب کی دلہن ’ٹیپ ریکارڈر‘ میں ٹیپ بھی کر رہی تھیں ،اس وقت ’کسی محترمہ کا تقریر کرنا اور ٹیپ ریکاڈر‘ ہمارے لۓ دونوں چیزیں ’ عجائبات ‘ میں شامل تھیں ۔۔۔ جمیلہ خالہ کے گھر کے سامنے والی گلی میں ایک بہت عظیم الشان حویلی تھی جس میں خواجہ عزیزالدین ’عزیز لکھنوی ‘ کا قیام تھا ، ہمارے اسکول کی نئ انگریزی ٹیچر عزیز بانو داراب ’وفا ‘ صاحبہ ان ہی خواجہ عزیز الدین ’ عزیز لکھنوی‘ کی پرپوتی تھیں ، جو حسن اور ذہانت کی جیتی جاگتی تصویر لگتی تھیں َ،بوٹا سا قد ، سفید رنگت میں گھلی ہوئ گلابیاں ، اداس مگر کچھ سوچتی ہوئ آنکھیں ، ہونٹوں پر مغموم مسکراہٹ ،کسی دوسری دنیا میں کھوئ ہوئ ،’ہمارےاسکول کی استانی ’ہماری بانوآپا‘۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ میاں ’شکل اور عقل‘ ایک ساتھ کسی ایک ہی شخص کو نہیں دیتے مگر ’بانو آپا‘ کے سلسلے مین یہ بات سچ نہیں لگتی تھی۔ بہت خوبصورت ، بہت ذہین اور بہت خلوص والی استانی ،
کہتے ہیں کہ اپنی دادی دادا کی بیحد دلاری اور چہیتی تھیں ،انکی ہر خواہش اور ہر مانگ پلک چھپکتے پوری کر دی جاتی تھی ، انکے اور بھائ بہن بھی تھے ،پانچ بھائ بہنوں میں وہ سب سے بڑی تھیں ،خوبصورت تھیں ، ذہین تھیں لیکن سخت پردہ کرتی تھیں ، بتاتی تھیں کہ جب وہ لکھنؤ یونی ورسٹی میں ایم اے کر رہی تھیں تو انکے انگریز استاد اس فراق میں مبتلا رہتے تھے کہ انکی ایک جھلک ہی دکھائ دے اور اس اسرار سے پردہ اٹھے کہ’ کون معشوق ہے اس پردہء زنگاری میں ‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ عموماً لڑکیوں کی پڑھائ پر زور نہیں دیا جاتا تھا ، اور بانو آپا لکھنؤ یونی ورسٹی میں ’ ایم اے ، انگریزی کر رہی تھیں ، وہ بھی سخت پردے میں ۔
لکھنؤ کے مشہور سنیما گھر ، ’مے فیر‘ حضرت گنج ‘ جہاں صرف انگریزی فلمیں لگتی تھیں ، بانو آپا برقعہ اوڑھے ’ٹکٹ کھڑکی‘ پر ٹکٹ لینے گیئں تو ٹکٹ بابو نے ایک نظر ان پر ڈالی اور کہا’ یہاں انگریزی فلمیں لگتی ہیں ، بوا ۔۔۔۔ آپ غلطی سے یہاں آگئ ہیں ،‘ بس، پھر کیا تھا ، بانو آپا نے اسے ثقیل ترین انگریزی میں جو ڈانٹ لگائ تو بیچارہ ہکا بکا رہ گیا اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا ، قصہ یہ تھا کہ اس فیشن ایبل بازار کے سب سے فیشن ایبل سنیما گھر میں ان کے ساتھ کوئ بھی عزیز جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا کہ وہ ’اپنے برقعے سمیت‘جایئں گی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے انہیں گھوریں گے ، ایک آدھ بار تو وہ اپنے گھر میں کھانا پکانے والی ’بوا‘ کو ساتھ لیکر انگریزی پکچر دیکھنے گیئں ، بیچاری گونڈے ضلع کے دور افتادہ گاؤں کی رہنے والی بوا ’ہونق‘ بنی انگریزی پکچر دیکھتی رہیں ۔بعد میں ’بوا ‘ کی حیرانی دور کرنے کو بانو آپا انکو فلم کی ’اسٹوری‘ سنایا کرتی تھیں ، تب جاکر بوا کی حیرانی رفع دفع ہوتی اور انکی معلومات میں ’ بیش بہا اضافہ‘ ہوا کرتا تھا ، ستم بالاۓ ستم یہ کہ بوا کا ٹکٹ بھی بانو آپا خود خریدتی تھیں ،
بانو آپا ،آئ ٹی کالج میں مشہور رایئٹر قرۃ ٔ العین حیدر اور مشہور مجاہد آزادی ،اخبار حقیقت، لکھنؤ کے اڈیٹر جناب انیس احمد عباسی کاکوروی کی صاحبزادی سعیدہ عباسی کی کلاس فیلو اور سہیلی تھیں ۔تینوں سہیلیوں کو اللہ میاں نے ذہانت اور خوبصورتی سے دل کھول کر نوازا تھا ۔ چونکہ ہماری امی شاعری بھی کرتی تھیں اورافسانے بھی لکھا کرتی تھیں اس لۓ یہ قدر مشترک ، ہماری امی اور بانو آپا کے درمیان وجہ ٔ بے تکلفی بنی اور اسی تعلق کی وجہ سے بانو آپا ہمارا بہت خیال کرتی تھیں ،ہم کو آج تک افسوس ہے کہ اتنی ذہین اور قابل خاتون ’ہم جیسے ‘ ’کلّڑوں‘ کو انگریزی ادب پڑھانے کی سعئ لاحاصل کر کے خود کو ضائع کرتی رہیں ، ہم نے ان سے کئ بار کہا کہ ’ آپ یہاں کیوں پڑی ہیں ۔خود بھی کوفت میں مبتلا رہتی ہیں اور حاصل وصول بھی کچھ نہیں ‘۔ کہنے لگیں ۔۔۔۔ ’ آئ ٹی کالج سے کئ بار آفر ‘ آئ مگر ہم نے منع کر دیا ، اے، بٹیا ۔۔ اب کون اتنی دور اللہ میاں کے پچھواڑے جاۓ،‘ طلبا ٔ کے’ کلڑ‘ ہونے میں طلبا ٔ کا کم ، نظام تعلیم کا زیادہ دخل تھا اور افسوس کی بات یہ کہ یہی دستور اب بھی برقرار ہے بلکہ اور بھی بگڑ گیا ہے۔ بانو آپا کے پاس انٹر میجییٹ کے کلاسز تھے۔ کبھی کبھی کوئ دوسرا کلاس بھی مل جاتا تھا ، اگرچہ انٹر کلاس میں ’انگریزی ‘ کمپلسری نہیں تھی مگر بھولی بھالی لڑکیاں ’پرے کا پرا ‘ انگریزی کی کلاس میں جمع رہتی تھیں ، شاید ان لڑکیوں اور ان کے والدین کا یہ خیال ہو کہ ’انکی دختر نیک اختر ‘ نے اگر انگریزی نہیں پڑھی تو پھر پڑھنے کا کیا فائدہ؟۔ والدین بیچارے یہ نہیں جانتے تھے کہ انکی ’ لاڈلی بٹیا ‘کے سر کے اوپر سے ’ کیٹس اور شیلی‘ پرواز کرتے گزر جاتے ہیں اور ’شیکسپئر ‘ کے ڈرامے اور ان کے مکالمے بھی ’دامن بچا کر نکل جاتے ہیں ، بقول ’والی آسی مرحوم ‘ مل بھی جاتے ہیں تو کترا کے نکل جاتے ہیں ۔۔ اکثر بانو آپا اپنا سر پکڑے بیٹھی نظر آتی تھیں اور لڑکیوں سے کہتی تھیں ،،،ـ’خدا کے لۓ ہم پر رحم کرو ، تم لوگوں سے کس نے کہہ دیا ہے کی انٹر میجییٹ میں انگریزی کمپلسری ہے ، جو کلاس میں پرے کا پرا جماۓ بیٹھی ہو،ہم کو پاگل بنا دیتی ہو، ہمارے کلاس کو ’ ٹہڑے جاناں کا مکتب ‘ سمجھ لیا ہے ۔۔۔‘بورڈ کے امتحان میں انگریزی کا نتیجہ خراب آتا تھا تو بانو آپا کا ۔ انکریمنٹ‘ بھی روک لیا جاتا تھا ، انکریمنٹ روکنا ، ہم کو سراسر زیادتی لگتی تھی ، ان بیچاری کے پاس تو دس سال تک انگریزی پڑھی لڑکیاں آتی تھیں ،ایسی لڑکیاں جو دسویں کلاس کے بورڈ کے امتحان میں اکثر ’انگریزی زبان میں ’گریس‘ دے کر ’ پاس ‘ کی جاتی تھیں ، ویسے یہ لڑکیاں دوسرے مضامین میں سیکینڈ کلاس نمبر لائ اور ’اچھی لڑکیاں ‘ مانی جاتی تھیں ، ایک مرتبہ تو وہ اسقدر ناراض ہوئیں کہ کلاس سے خود ہی نکل گیئں یہ کہتی ہوئ کہ’ان صمٌ بکمٌ ’کو ہم نہیں پڑھا سکتے ۔
ہم کسی چھوٹے کلاس میں تھے کہ بانو آپا ہماری آیا اماں کے ساتھ اسکول آنے جانے لگیں ،اب ہم پہلے انکے گھر جاتے اور واپسی میں بھی انکے گھر ہوتے ہوۓ اپنے گھر آتے ، اکیلی آنے جانے میں وہ بہت ڈرتی تھیں ، پرانے تعلیم گاہ سے ’راجہ بازار ‘ اور چوک کے محلے سے گزرنا پڑتا تھا ، اور انکا گھر تو عین مین چوک کے اندر واقع تھا ، بانو آپا اتنا سخت پردہ کرتی تھیں کہ برقعے کے اندر سے سختی سے نقاب پکڑے رہتی تھیں کہ کہیں بے پردگی نہ ہو ۔ منھ ہی منھ میں خدا معلوم کون کون سی دعایئں پڑھتی رہتی تھیں ، راستے میں کوئ بھی عربی لکھی عبارت نظر آجاتی تو بلا جھجھک اٹھا کر اسے چوم کر کنارے رکھ دیتیں ۔
ایک بار کسی کلاس میں ٹیچر کی کرسی پر لا تعلق سی بیٹھی حسب عادت کسی دوسری دنیا میں کھوئ ہوئ تھین ، سامنے میز پر لڑکیوں کے چندے سے جمع کر کے خریدا گیا شیشے کا خوبصورت قلم دان معہ لال اور نیلی روشنائ رکھا ہوا تھا ، لڑکیاں آپس میں دھیرے دھیرے بات کر رہی تھیں جبکہ لڑکیوں کا ٹسٹ بھی ہورہا تھا ، اچانک بانو آپا چونک پڑیں ، انہیں خیال آیا کہ لڑکیاں ’نقل‘ کر رہی ہیں اور اپنی مخصوص بے خیالی میں ’ڈسٹر‘ سے میز کھٹکھٹانے کے بجاۓ ’شیشے کے قلم دان کو اٹھا کر ’کھٹکھٹانے‘ لگیں ، اس کام کو انجام دینے میں لال اور نیلی روشنائ اچھل کر انکی بےداغ سفید چکن کی ساری کو’ہولی کھلا گئ‘۔ پاس بیٹھی دوچار لڑکیاں بھی ’رنگ برنگی ‘ ہو گیئں ۔
بارہویں کلاس کے بورڈ کے امتحان سے بہت پہلے ایک دن ہمارے کلاس کی تمام لڑکیوں کو انگریزی کے پرچے کےممکنہ نمبر دے رہی تھیں ، سب سے تیز لڑکی کو محض ’بیس فی صد ‘ نمبر دۓ ، ہمارا نمبر آیا تو ہمیں ’ فیل ‘ تو نہیں کیا ، کہنے لگیں ۔۔۔۔ ’ بھئ فرزانہ، بٹیا ،تم تو کہیں دعا کرواؤ‘،،، اتفاق کی بات کہ دوسرے دن ہی ہمارے ابو اور۔دادی کو ’حج‘کی اجازت مل گئ وہاں دعا کی برکت ہی تھی جو ہم ’ پاس‘ بھی ہو گۓ، ہمارے گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہماری بانو آپا کی خوشی بھی دیدنی تھی۔
گیارہویں ۔بارہویں کلاس کی لڑکیوں کی عمر ’بے فکری ‘ کی ہوتی ہے ، دنیا ما فیہا سے بےخبر اپنی ہی ایک خوبصورت خیالی دنیا میں مسکراتے ، گنگناتے گزرتے جانے کی عمر ،ٹھٹھرتی سردیوں کی ایک ٹھنڈی برفیلی دوپہر تھی ، ہمارے کلاس کی سب لڑکیاں شہتوت کے ہرے سایہ دار درخت کے نیچے بنی منڈیر پر سکڑی بیٹھی تھیں اور کچھ لڑکیان کہیں سے ’ادھے گمے‘ اٹھا لائ اور اس پر بیٹھی تھیں ، بانو آپا سامنے کرسی پر خاموش بیٹھی تھیں ، وہی دنیا سے بے خبری کی حالت تھی ،آسمان پر اڑتے بادلوں اور آزاد پرندوں کو دیکھے جا رہی تھیں ، لڑکیوں کو موقع ملا سب آپس میں کھسر پھسر کرنے اور آہستہ آہستہ ہنسنے لگیں ، دبی دبی سی ہنسی نے بانو آپا کو چونکا دیا ، ، ہم سب کو دیکھنے لگیں اور پھر بڑی حسرت ذدہ آواز میں بولیں ۔’اللہ میاں آپ سب کو ہمیشہ ایسے ہی ہنستا مسکراتا رکھے ۔‘ہم سب ہکا بکا انکا چہرہ دیکھنے لگے ، ویسے لڑکیاں انکی بے خبری سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی تھیں ، وہ کہا کرتی تھیں کہ کلاس میں جسے پیاس لگے ، مجھسے پوچھے بغیر پانی پینے چلا جایا کرے ، میں ’پیاسوں ‘ کو نہیں پڑھا سکتی ، ایک مرتبہ جب وہ پورے جوش و جذبے ‘ سے ’ نل دمینتی ‘ کی اسٹوری پڑھا رہی تھیں ، انکی آنکھیں کلاس کی چھت پر تھیں اور خیال کہیں اور ، لڑکیاں ایک ایک کر کے سب ’پانی پینے ‘ چلی گیئں ،صرف ’ہم ‘ بیٹھے رہ گۓ ،وہ بھی ’ڈر کے مارے ‘ کیونکہ ہم روز شام کو بانو آپا کے گھر ان سے پڑھنے بھی جاتے تھے ،سوچا کہ اگر ہم بھی ’روانہ ‘ ہوگۓ تو شام کو ہماری ’ایک اور کلاس ‘ ہوگی ۔ یا پھر ہماری امی سے شکایت ۔جو کہ اپنے بچوں کے بارے میں ’ہر ہر شکایت ‘ کو سو فیصد ’سچ‘ مان لیتی تھیں ۔
ایک بار ایسے ہی شام کو اپنے گھر پر ہم کو پڑھا چکنے کے بعد ’عذاب ۔ثواب ‘ اور دعا کی مقبولیت پر بڑی فلسفیانہ گفتگو کر رہی تھیں اچانک ہم سے پوچھنے لگیں ۔۔۔۔’بتاؤ تم اللہ میاں سے کیا کیا دعا مانگتی ہو؟ ہم نے فر فر فر فر اپنی دعا بتا دی ،یہی کہ ’اللہ میاں ہمارے امی ابو اچھے رہیں ، ہم بھا ئ بہن امتحان میں پاس ہوجایئں ، ‘وہ ٹکٹکی باندھے ہماری شکل دیکھتی رہیں ، پھر کہنے لگیں ۔۔۔ بس۔۔ یہی ، اتنی معصوم سی دعا ؟۔۔۔ ہم احمقوں کی طرح انکی شکل دیکھنے لگے اور سوچنے لگے ۔۔۔ ـاب اللہ میاں سے اور کیا مانگیں ؟ـسب کچھ تو خدا سے مانگ لیا ۔ـ
انکی حویلی میں ایک باغ میں خوبصورت فوارہ اور حوض تھا جس میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرا کرتی تھیں ،بانو آپا کے چھوٹے بھائ خالد بھائ جو عرف عام میں ’ بندھو جی ‘ کہلاتے ہیں ، کہا کرتے تھے کہ ’ہمارے گھر کے حوض کی مچھلیاں ، بانو آپا کی ادھوری ’غزلیں ‘ کھا کھا کر ’شاعرہ‘ ہو گئ ہیں ، بانو آپا بہت بلند پاۓ کی شاعرہ تھیں ، انکی بہت سی غزلیں ہمارے پاس محفوظ ہیں ، عمدہ شاعری انکو وراثت میں ملی تھی ، ایک مرتبہ جب لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے انکا بلاوا آیا تو انکار کر دیا ، ساری لڑکیاں انکے پیچھے پڑ گییں تو بڑی مشکل سے جانے کو تیار ہویئں ، پھر جو سلسلہ چلا تو تمام دنیا میں ’ خوشبو کی طرح ‘ پھیل گیا ،
ہمارے کلاس کے ڈرامے کے لۓ انہوں نے ایک قوالی فی البدیہ لکھی تھی
’وفا کی شمع جلتی ہے۔جنوں کا ساز بجتا ہے
تری محفل کا اے ساقی ، ہر اک انداز سجتا ہے
یقیناً چور پھر کوئ تمنا کا صنم ہو گا ۔تمنا کا صنم ہوگا